خون چھپتا نہیں

حسین مسرت  پير 8 اگست 2016

کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ خون اور خوشبو کبھی نہیں چھپتے، کبھی نہ کبھی ظاہر ہوجاتے ہیں۔ خوشبو کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، اسی طرح قتل بھی کبھی نہ کبھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ قاتل کہیں نہ کہیں ایسی غلطی ضرور کرتا ہے جوکہ اس کے جرم کو ظاہر کردیتی ہے۔ لیکن اس کا قتل ہوا تو ہر چیز چھپتی چلی گئی۔ آج دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اس کے خون کی پہیلی، پہیلی ہی بنی ہوئی ہے۔

ذکر ہو رہا ہے بے نظیر قادری کی موت کا، جوکہ  اسٹوڈنٹ تھی اور عوامی ورکرز پارٹی کی سرگرم رکن بھی تھی۔ 22 سالہ معصوم لڑکی حیدرآباد جیسے بڑے شہر میں اس طرح ماری گئی کہ نہ قاتل پکڑا گیا نہ قتل کا کوئی سراغ ملا، نہ ہی موت کی وجہ معلوم ہوسکی۔ بے نظیر قادری کی موت کی خبر حیدرآباد میں بہت تیزی سے پھیلی، کیونکہ وہ سرگرم سیاسی کارکن تھی۔ اس کے ساتھ اس کا منگیتر مصطفیٰ شیخ بھی تھا۔ دونوں کی لاشیں اسپتال میں لائی گئیں، 17 جون 2016 کو یہ اندوہناک حادثہ پیش آیا۔

جیسے ہی دونوں کی لاشوں کی برآمدگی کی خبریں منظر عام پر آئیں مختلف قسم کی کہانیاں بھی گردش کرنے لگیں۔ بھلا ہمارے سماج میں کون مردہ بے لباس جسموں کو دیکھنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ لفظوں کے تیر چلنے شروع ہوئے تو سب سے زیادہ زخمی وہ روحیں ہوئیں جنھوں نے ان دونوں کو جنم دیا تھا۔ پھٹتی ہوئی، جھلستی ہوئی کھال، دریدہ بدن، جسم لوہے کی طرح اکڑے ہوئے۔ ہاتھوں پیروں پر جلائے جانے کے نشان، کلائیوں پر کسی چیز سے باندھے جانے کے نشان، لہولہان جسموں سے کھال جلے ہوئے کاغذ کی طرح جھڑتی جا رہی تھی، پورے جسم پر لال لال دھبے، منہ سے نکلنے والی جھاگ، ناک سے بہتا خون، بکھرے بال، جسم اس طرح گرم کہ غسل دینے والی کے ہاتھ بھی جلنے لگے تھے۔

یہ تھی صورتحال بے نظیر قادری کے جسم کی، جس کو  اسپتال سے ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر واپس کردیا تھا کہ یہ اتفاقی موت ہے۔ کم و بیش یہی حالت مصطفیٰ شیخ کے جسم کی بھی تھی، مصطفیٰ کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا لیکن موت کی وجہ صرف دم گھٹنے کو بتایا گیا تھا۔ سماجی رویے اتنے ظالم بنے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو دیکھ بھی نہ سکے۔ منصوبہ ساز بلا کا ذہین تھا، جو اس نے سوچا وہی ہوا۔

سامنے کی تصویر ایسی بنائی کہ لوگ پس منظر بھول گئے۔ خون میں لتھڑی لاشیں جب  لائی گئیں تو ذہن میں صرف ان کو ڈھکنے کا خیال آیا۔ اسپتال سے لے کر پولیس تک سب کا اندازہ یہی تھا کہ ان جسموں کو جلدازجلد زمین کے اندر دفنا دیا جائے۔ سو انھوں نے وہی کیا۔ سگے ماں باپ کے ہونٹ بھی سل گئے۔ لیکن وہ اپنی روح اور دل کی کرلاہٹ کو دباکر آنکھ بند کرکے اپنے جگرگوشوں کو لے گئے اور منوں مٹی کے اندر ڈال آئے۔

پولیس نے وہی دیکھا جو اسے دکھایا گیا۔ اسپتال والوں نے وہی کیا، جو ان سے کروایا گیا۔ زمانے نے وہی کیا جو وہ کرتا آیا ہے۔ دو جوان بچے دن دہاڑے قتل ہوئے۔

17 جون 2016 کا منحوس سورج ابھرا تو دونوں اپنے روز کے کاموں کے مطابق گھر سے نکلے۔ بے نظیر اپنے گھر پر بتا کر نکلی کہ آفس سے ماموں کے گھر جائے گی۔ آفس سے بائیو میٹرک سسٹم کے مطابق وہ ایک بجے دوپہر نکلی ہے۔ مصطفیٰ شیخ بھی اپنے گھر سے ایک بجے نکلا۔  تقریباً 4 یا ساڑھے 4 بجے تک سوشل میڈیا پر یہ خبر آنے لگی کہ حیدرآباد بائی پاس سے دو لاشیں گاڑی میں پائی گئی ہیں، پھر خبر آئی کہ سول اسپتال کوئی گاڑی میں دو لاشیں چھوڑ گیا ہے، تیسری خبر کسی گاڑی کے گیراج سے دو لاشیں ملی ہیں۔

بچے جب اپنے اپنے گھر وقت پر نہیں پہنچے تو والدین نے دوستوں کو کال کرنی شروع کی اور شہر میں ڈھونڈنا شروع کیا۔ پانچ بجے بے نظیر قادری کے والدین و رشتے دار اور مصطفیٰ کے لواحقین اسپتال پہنچے تو کسی گاڑی میں دو لاشیں لائی گئی تھیں۔ یہ قتل کا واقعہ تقریباً دو گھنٹوں کے اندر ہوا۔

پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ آٹومیٹک گاڑی جب دونوں نے اندر سے لاک کی تو پھر اس کو کھولا کس طرح گیا؟ دوسرا سوال، جو شخص گھر کے قریب کے گیراج سے دونوں کی لاشیں لے کر آیا تھا، اس نے پہلے ان کے گھر کیوں اطلاع نہیں دی؟ اگر دونوں کے موبائل چارجنگ کے ختم ہونے سے آف ہوئے تھے تو پھر آن کیسے ہوئے؟ جو شخص گاڑی میں لاشیں اٹھا کر لے آیا، اس نے سب سے پہلے مصطفیٰ کا موبائل کیوں آن کیا؟ جس گاڑی میں گیس کے اخراج کی وجہ سے انسانی جسم گل سڑ گئے، اس گاڑی کے AC کو تو کچھ نہیں ہوا۔ گاڑی بڑے آرام سے لاشیں اسپتال چھوڑ کر روانہ ہوگئی۔ قتل میں آلہ کار بننے والی گاڑی کو پولیس نے نظرانداز کیوں کیا؟ قتل کے ایک ہفتے بعد پولیس نے گاڑی اپنی تحویل میں لی تھی۔

سماج میں عورت کے قتل کو چھپانے کے لیے سو طرح کے طریقے رائج ہیں، پوری مشینری جرم کو چھپانے میں سرگرم ہوجاتی ہے۔ پدرشاہی سماجی ضابطہ عورت کی آزادی سے کتنے خائف ہیں۔ اس کا اندازہ اس قتل سے ہوسکتا ہے۔ بے نظیر قادری کے قتل کو بھی ایک خوف کی طرح مسلط کیا جا رہا ہے کہ عورت کی آزادی سماج کے لیے کھلا چیلنج ہے۔ اپنی پسند سے زندگی کا ساتھی چن لینا یہ ایک اور چیلنج ہے۔ سماج کے ہوا کے رخ کے خلاف چلنے والوں کو اس طرح کی سزائیں ملا کرتی ہیں، تاکہ دوسرے عبرت حاصل کرسکیں۔ سماج، قانون، مذہب، سب کی پابندیاں ایک ہی دائرے میں گھومتی ہیں اور سب سے بڑا جرم ان دائروں کو چیلنج کرنا ہے۔

کچھ لوگ عزت کے خوف سے جرم پر بات نہیں کرتے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس سماج میں عزت کے نام پر ہونے والے قتل اسی طرح دفن ہوجاتے ہیں۔ خاندان کا نام، عزت کا خوف لوگوں کو بولنے ہی نہیں دیتا، لیکن کچھ دیوانے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ بے نظیر قادری کے والدین اور لواحقین دوست سب ہر قسم کا الزام سر پر لینے کے لیے تیار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ چلو مان لیا کہ وہ دونوں چھپ کے ملنے گئے تھے، چلو مان لیا کہ وہ مجرم تھے، لیکن خدارا یہ تو بتاؤ کہ وہ مرے کیسے؟ کیا آٹومیٹک گاڑی میں AC آن کرکے ایک گھنٹہ بیٹھنے سے موت واقع ہوجاتی ہے؟ اگر موت واقع ہوجاتی ہے تو کیا انسانی جسم دو گھنٹوں میں اس طرح گل سڑ جاتا ہے۔ خون خون ہوکر بکھر جاتا ہے؟ وہ کون سی گیس ہے جو انسانی جسم کو چیر کر انسان کی کھال کو ادھیڑ کر رکھ دے؟ ہماری فارنسک لیبارٹریز ابھی شاید اتنی ایڈوانس نہیں ہوئی ہیں۔ نہ ہی پولیس کے پاس تفتیش کے جدید طریقے ہیں۔ جدید طریقے بھی نہ ہوں لیکن اگر انسانی عقل کا استعمال بھی کیا جائے تو بہت سی سچائیاں سامنے آسکتی ہیں۔

سماج بدلے نہ بدلے لیکن اب اگر لوگوں کی سوچ میں مثبت فرق آرہا ہے تو ہمارے اداروں کو بھی لوگوں کی سوچ کی دھارا کی سمت چلنے کی کوشش کی ضرورت ہے۔  مرنے والی لڑکیاں بہت ہیں، لاتعداد لاشیں ہم وصول کرچکے، لاتعداد قتل چھپ چکے ہیں۔ خون تو بولتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں عورت کا خون بولتا ہی نہیں۔ کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی یہ خون بھی بولے گا۔ کیونکہ جدوجہد کرنے والوں کا خون رائیگاں نہیں جاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔