جب کالے کوٹ لُہو رنگ ہوئے

سید بابر علی  منگل 9 اگست 2016
گذشتہ دہائی کے دوران وکلاء کے خلاف دہشت گردی کے واقعات ۔  فوٹو : فائل

گذشتہ دہائی کے دوران وکلاء کے خلاف دہشت گردی کے واقعات ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں وکلاء کے خلاف دہشت گردی کی وارداتیں کچھ نئی نہیں، غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں وکلاء کے اہدافی قتل اور اور ان کے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آئی اور اس عرصے میں 31جولائی 2016تک مجموعی طور پر 53 وکلا جاں بحق اور160سے زاید زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم گذشتہ روز کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات وکلاء کے خلاف دہشت کے ہرکاروں کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔

٭2016
گزشتہ روز کوئٹہ میں نامعلوم حملہ آوروں نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ بلال انور کاسی کو فائرنگ کر کے قتل کردیا، جس کے بعد وکلا کی بڑی تعداد سول اسپتال کوئٹہ میں موجود تھی، جہاں پاکستان کی تاریخ میں وکلا کے خلاف دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ پیش آیا۔ جب کہ گذشتہ ماہ کی 8تاریخ کو کوئٹہ ہی میں نامعلوم دہشت گردوں نے لا کالج کوئٹہ کے پرنسپل بیرسٹر امان اللہ اچکزئی کو گھر سے کالج جاتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ امان اللہ اچکزئی ایک ممتاز وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ گورنر بلوچستان محمود خان اچکزئی کے بھتیجے بھی تھے۔

٭2015
7جولائی کو سندھ کے شہر خیرپور میں نامعلوم حملہ آور سندھ ہائی کورٹ کے وکیل، وکیل صاحب خان کو قتل کرکے فرار ہونے میں کام یاب ہوگیا۔ ایک ماہ بعد ہی 3اگست کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں اشفاق قائم خانی نامی وکیل کو قتل کردیا گیا۔ اس واقعے کے 25دن بعد 28اگست کو گلشن اقبال کی مصروف ترین شاہراہ پر سندھ ہائی کورٹ کے وکیل سید امیر حیدر شاہ کو قتل کیا گیا۔ اسی سال مئی میں پنجاب کے علاقے ڈسکہ میں میونسپل آفس کے باہر مظاہر ہ کرنے والے وکلا پر ایس ایچ او ڈسکہ انسپیکٹر شہزاد وڑائچ نے مبینہ طور پر براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں مقامی بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا عباس اور عرفان چوہا ن جا ں بحق ہوگئے۔

٭2014
تین مارچ کو دارالحکومت اسلام آباد کے کورٹ ہاؤس کمپلیکس پر دہشت گردوں کے حملے میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رفاقت اعوان اور ایک خاتون وکیل سمیت گیارہ افراد جاں بحق اور25 سے زاید زخمی ہوئے۔ گیارہ اپریل کو کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹر میں وکیل سید غلام حیدر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ تین مئی کو اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں ایک وکیل محمد ادریس کو ان کے ڈرائیور نعمان شاہ سمیت فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ مجموعی طور پر اس سال وکلا کے خلاف دہشت گردی کے تین واقعات میں تیرہ افراد ہلاک اور 25سے زاید زخمی ہوئے۔

٭2013
2013میں وکلا کے خلاف دہشت گردی کی چھے کارروائیاں ہوئی، جن میں پشاور میں تین، راول پنڈی میں دو اورکراچی میں دو وکلا کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ یہ تمام وارداتیں تینوں شہروں کی مصروف ترین شاہراہوں پر ہوئی، لیکن ملزمان اپنی کارروائی مکمل کر کر فرار ہونے میں کام یاب رہے۔

٭2012
نئے سال کے پہلے ماہ کی 25تاریخ کو کراچی کے مولانا دین محمد وفائی روڈ پر نامعلوم ملزمان نے شیعہ وکلا فورم کے تین ارکان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ 19 اکتوبر لاہور میں سنیئر وکیل شاکر علی رضوی کو اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ اپنے دفتری ساتھیوں کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ جا رہے تھے۔ 20 نومبرکو فیصل آباد کے علاقے سمندری سے سنیئر وکیل چوہدری منظور اختر کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔ چوہدری منظور کو 14نومبر2012کو اغوا کیا گیا تھا۔

٭2011
سال 2011وکلا کے لیے نسبتاً پُرامن رہا۔ اس سال کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ضیا عالم ایڈووکیٹ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ ضیا عالم متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اجمل پہاڑی کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔

٭2010
اس سال کسی وکیل کو دہشت گردی کا نشانہ تو نہیں بنایا گیا تاہم 6ستمبر کو بلوچستان کے علاقے مستونگ سے کافی عرصے سے لاپتا وکیل زمان مری کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی، جب کہ اسی ماہ کی 24 تاریخ کو بلوچستان ہی کے علاقے خضدار سے وکیل علی شیر کُرد کی لاش ملی۔ علی شیر بھی طویل عرصے سے لاپتا تھے اور انہیں بھی زمان مری کی طرح فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔

٭2008
دس جنوری 2008کو لاہور ہائی کورٹ کے باہر خود کش حملے کے نتیجے میں 24افراد جاں بحق اور 80سے زاید زخمی ہوئے، ہلاک شدگان اور زخمیوں میں میں پولیس اہل کار اور وکلا شامل تھے۔ یہ حملہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی وکلا ریلی کی آمد سے چند منٹ قبل ہو ا جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوسکا۔ اسی سال نو اپریل کو کراچی میں ایک دل خراش واقعہ پیش آیا جس میں سٹی کورٹ کے نزدیک واقع عمارت طاہر پلازہ میں دانستہ طور پر آگ لگادی گئی، طاہر پلازہ زیادہ تر دفاتر وکلا کے تھے۔ آتش زدگی کے نتیجے میں عمارت کے ایک دفتر میں موجود وکیل الطاف عباسی اپنے 5 کلائنٹس کے ساتھ جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔

٭2007
سال2007 وکلا کے لیے کچھ زیادہ پُرامن نہیں رہا۔ اس سال وکلاء نے نہ صرف عدلیہ کی بحالی کے لیے بھرپور تحریک چلائی بل کہ اس کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔ 17جولائی 2007 کو اس وقت کے معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی حمایت میں نکلنے والی وکلا کی ریلی پر خود کش حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں دس پولیس اہل کار اور 6وکلا ہلاک اور 53سے زاید وکلا زخمی ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔