پاکستان کے خلاف کیا نیا اتحاد عمل میں آچکا ہے؟

سالار سلیمان  منگل 9 اگست 2016
جب وزیراعلی اور وزیرداخلہ بلوچستان کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں دہشتگردی کے پیچھے بھارت ہے تو پھر کیونکر پاکستان عالمی برادری کے سامنے بھارت کیخلاف آواز بلند نہیں کررہا؟ فوٹو: اے ایف پی

جب وزیراعلی اور وزیرداخلہ بلوچستان کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں دہشتگردی کے پیچھے بھارت ہے تو پھر کیونکر پاکستان عالمی برادری کے سامنے بھارت کیخلاف آواز بلند نہیں کررہا؟ فوٹو: اے ایف پی

ماہ اگست میں ایک مرتبہ پھر سے پاکستان کو خون میں نہلا دیا گیا۔ 8 اگست 2016ء کو ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی میں 73 افراد شہید جبکہ سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ میڈیا کے نمائندگان کے مطابق پیر کی صبح کو صدر ہائی کورٹ بار بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ بلال کاسی حساس اور ہائی پروفائل کیس بھی لڑا کرتے تھے، اِس لیے گمان یہی ہے کہ اُن کو نشانہ بنانا اتفاقیہ نہیں بلکہ ایسا کرنے کے پیچھے خاص مقاصد چھپے ہونگے۔ لیکن یہ بڑے کھیل کا پہلا حصہ تھا، جس کے دوسرے حصے نے کوئٹہ کو خون میں نہلا دیا۔

اگر آپ حالات و واقعات پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ دشمنوں نے کس قدر منظم طریقے سے نے وکلاء کی اہم اور عوامی شخصیت کو ٹارگٹ کیا۔ اصل میں یہ بلال کاسی میں ہی صلاحیت تھی کہ وہ اپنے گرد لوگ اکھٹا کرسکتے تھے، اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بلال کاسی کی جڑیں وکلاء اور عام آدمی میں موجود تھی، بس پھر جیسے ہی بلال کاسی کے قتل کی خبر وکلاء تک پہنچی تو وہ جنگل میں آگ ہی کی طرح سے پھیلی۔ وکلاء اکھٹے ہو کر سول ہسپتال کوئٹہ پہنچے جہاں پر بلال کاسی کی میت پہنچائی گئی تھی۔ وکلاء میں جذبات بھی تھے، غم و غصہ بھی تھا اور اُن کا ارادہ تھا کہ وہ یہ میت لے کر احتجاج کریں گے اور حکومت کو مجبور کریں گے وہ ان کے بار کے صدر کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔ لیکن اِس سے پہلے وہ یہ کام کرتے، دہشت گردوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دھماکا کردیا، بس جب دھواں چھٹا تو وہاں پر قیامت صغراں کا منظر تھا۔ اس حادثے میں نہ صرف وکلاء بلکہ ذرائع ابلاغ کے دو نمائندگان بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ اُمیدوں اور توقعات کے عین مطابق اس حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرار اور بی ایل ایف نے قبول کرلی۔

اِس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جشن آزادی سے صرف 6 دن پہلے یہ اندوہناک واقعہ کیوں پیش آیا؟ میرے نزدیک تو اس کا سادہ کا جواب ہے کہ بھارت، امریکہ اور ایران سمیت کئی ایک ممالک کو ’سی پیک‘ قبول نہیں ہے۔ یہی بات آرمی چیف نے بھی کہی کہ یہ دھماکہ سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔

اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہمیں کچھ باتیں اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اب پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ اور اتحاد وجود میں آچکا ہے اور یہ اس اتحاد کی پہلی کارروائی  ہے۔ یہ اتحاد اس وجہ سے وجود میں آیا کیونکہ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے اور سی پیک حقیقت میں ایک ایسا منصوبہ ہے جو کہ پاکستان کی معیشت کو محض دس سالوں میں تبدیل کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح سے بلوچستان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اس خوبصورت صوبے میں اگر سیاحتی مقامات پر انفراسٹرکچر کی تعمیر کردی جائے تو یہ خطے کے خوبصورت ترین مقامات میں شمار ہوگا، یوں سیاحتی صنعت کو بھی فائدہ حاصل ہوگا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خطہ اربوں روپوں کا فائدہ بھی پہنچائے گا۔ اِن تمام باتوں کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ بلوچستان میں قدرتی معدنیات کی وافر مقدار موجود ہے۔ ان کا ابتدائی تخمینہ کھربوں ڈالرز کا ہے۔ اب اگر اس قدر اہمیت کے حامل صوبے میں امن قائم ہوجائے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وطن دشمنوں کے پیٹ میں مڑور نہ اٹھے۔

اِن تمام تر حالات میں خاکسار آرمی چیف کے اِس حکم کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے کہ جس میں انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیاں کو کومبنگ آپریشن شروع کرنے کا کہا ہے۔ حمایت کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ بات بہت واضح ہے کہ اس کارروائی میں ’انسائڈ جاب‘ کے واضح اشارے ہیں۔ پہلے ٹارگٹ کو منتخب کیا گیا، اس کیلئے یقیناً ریکی کی گئی ہوگی اور یہ ریکی کسی مقامی بندے یا گروہ کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سے پلاننگ بھی مقامی گروہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ 46 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے کی کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے کہ بلوچستان میں امن قائم کیا جائے، ساتھ ساتھ یہاں پر کاروباری فضاء پیدا ہو۔ اگر دبئی کے صحرا اپنی پلاننگ اور سسٹم سے دنیا بھر کیلئے ہر لحاظ سے پر کشش بن سکتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے صحرا دنیا بھر کے افراد کیلئے کشش پیدا نہیں کرسکتے؟ پھر حکومت کو بھی سوچنا چاہئے کہ یہ کیسے دہشت گرد ہیں کہ جن کی کمر ہر آپریشن کے وسط میں توڑی جاتی ہے اور یہ اپنی کمر کی مالش کرکے قوم کی کمر پر ضرب کاری لگا جاتے ہیں۔ سکیورٹی کے حوالے سے بھی سوالات جنم لیتے ہیں کہ شہر بھر میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے کیوں چالوحالت میں نہیں؟ 20 کلو گرام کا دھماکہ خیز مواد کیسے اور کس طرح سے یہاں تک پہنچا؟ انسائڈ جاب کس نے اور کیوں فراہم کی؟

یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اس کارروائی میں بھارت ملوث ہے۔ یہ بات میرے اور آپ کے منہ میں شاید بعد میں آئی ہوگی لیکن بلوچستان کے وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ نے یہ بات پہلے ہی بتادی کہ ہے کہ صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور اُن کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔ اگر واقع ثبوت موجود ہیں تو پھر نواز شریف اور اُن کی حکومت اب تک کیوں خاموش ہے؟ کیوں اب تک اپنے کیس کو عالمی برادری کے سامنے پیش کیا جارہا؟ کب تک ہم یونہی ڈر ڈر کر اور خوف کے سائے میں معاملات چلاتے رہیں گے؟ پاکستان کو کم ازکم اب تو مکمل اسٹینڈ لینا چاہئے۔

میری ذاتی رائے میں بھارت کو اِس وقت پاکستان سے کم از کم دو تکلیفیں تو ایسی ہیں جو واضح طور پر محسوس ہورہی ہیں۔ پہلی سی پیک، جس کے بعد خطے میں بھارتی بالادستی کا شدید نقصان پہنچے گا اور دوسرا پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کیلئے اپنایا جانے والا اصولی موقف، کیونکہ یہ پاکستان ہی تو ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف وقتاً فوقتاً اسٹینڈ لیا ہے۔

مسئلہ کشمیر اور سی پیک پر اگلی نشست میں بات کریں گے۔ سرے دست ہم دوبارہ کوئٹہ کے اندوہناک واقعے پر آتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ پاکستان کے خلاف ایک نیا اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ اس اتحاد کے خلاف پاکستان کو بھی سیاسی اور عسکری محاذ پر چوکنا ہونا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ سانپ سر اٹھائے، اس کو بروقت کچلنا ہی عقل مندی ہے۔ کل جب آرمی چیف کوئٹہ کے دورے پر تھے تو ایک زخمی وکیل نے کہا تھا کہ چیف صاحب! آپ ڈٹے رہیں، دہشت گردوں سے مقابلہ جاری رکھیں۔ خدارا ہمت نہ ہاریں، ہم آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ میری ناقص رائے میں اس نازک وقت میں پوری قوم کی جانب سے پاک فوج کیلئے یہی پیغام ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت کرے اور اس کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔