ہمارے آنسوؤں کے ذمے دار

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 10 اگست 2016

68 سال بعد بھی پاکستانی ریاست اپنے شہریوں کو نہ تو خوشحالی، ترقی، کامیابی، روزگار، تحفظ، امن، سکھ، سکون اور خوشیاں دے سکی ہے اور نہ ہی زندگی قائم رکھنے کی بنیادی ضروریات، جیسے پانی، بجلی، گیس، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور خوراک فراہم کر سکی ہے۔ پاکستانی ریاست کے 20 کروڑ انسانوں میں سے آپ جس سے چاہیں بات کر کے دیکھ لیں، جب وہ اپنی زندگی کی کہانی سنانا شروع کرے گا تو آپ کے لیے اپنے آنسو روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا اور تھوڑی ہی دیر بعد آپ اس کے ساتھ مل کر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہوں گے اور پھر آپ کے ساتھ رونے والوں کی تعداد میں اس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا رہے گا کہ تھوڑی دیر بعد پورا ملک آپ کے ساتھ ساتھ رو رہا ہو گا۔ آئیں اپنے آنسوؤں کے ذمے داروں کا تعین کرتے ہیں۔

قدیم یونانی ریاستیں روایتی قانون جو قدیم رسم و رواج پر مبنی ہوتا تھا، کے مطابق چلتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ اس حوالے سے سوچتے بھی نہیں تھے کہ سماجی اور سیاسی قوانین کا ماخذ کیا ہے، حکمران اپنی ضروریات اور فہم کے مطابق آمرانہ انداز میں حکومت کرتے تھے اور عوام ان کے احکامات کے مطابق سماجی زندگی گزارنے پر مجبور تھے، حتیٰ کہ لوگوں کو اپنے رسم و رواج کی بنیاد کا بھی پتہ نہیں تھا، بس لوگوں کا یہ ہی نظریہ تھا کہ زندگی، موت، غمی، خوشی، دکھ، امیری، غریبی سب خدا کی طرف سے ہے۔

نظریات اور سوچ کو مادی دنیا کے مادی قوانین سے ہٹا کر انسانی نفسیات اور انسان کی سماجی زندگی کے اصولوں کی طرف کرنے والا پہلا شخص آرکی لاس تھا، جس نے سماجی قوانین کی بنیاد اور ماخذ انسان کی سماجی زندگی اور سماجی ضروریات کو قرار دیا، جب کہ پروٹے گورس کا ریاست کے بارے میں نظریہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ میں وہ اسے ایک تعلیمی ادارہ قرار دیتا ہے اور دوسرے حصے میں بتاتا ہے کہ اس کے وجود میں آنے کی بنیاد سماجی ضروریات ہے۔

وہ انسانی ارتقا کے سفر کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ پہلا درجہ فطرت کا تھا۔ اس دور میں انسان نے کھیتی باڑی اور دستکاری کے فنون سیکھے اور اپنائے، لیکن اس دور میں انھیں ایک مہذب سیاسی شہری زندگی کا شعور نہیں تھا اور چونکہ انسان اس دور میں ایک مہذب سیاسی اور شہری زندگی سے محروم رہتا تھا اور جنگلی درندوں کا شکار تھا اور اسی مصبیت سے بچنے کے لیے انسانوں میں ایک مہذب سیاسی زندگی کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا، اس طرح انسانی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ لوگ متحد ہوئے، انھوں نے بستیاں اور شہر آباد کیے اور اس طرح اپنے جان و مال کے تحفظ کا انتظام کیا۔ لیکن انسانی زندگی کا یہ دوسرا دور بھی اس لحاظ سے ادھورا تھا کہ ابھی تک وہ علم سیاست سے نابلد تھا۔

یاد رہے انسان کی اصل سماجی زندگی کی بنیاد اس کی سیاسی زندگی ہے، جس کی بنیاد آئین اور قانون ہے، جس کی پیروی ریاست کے ہر شہری کی ذمے داری ہے۔ اور چونکہ انسان نے اپنی زندگی کے اس دوسرے دور میں بھی سیاست کو نہیں اپنایا تھا لہٰذا لوگ ایک دوسرے سے مختلف معاملات پر لڑتے تھے اور تنازعات کا فیصلہ صحیح طور پر نہیں ہو پاتا تھا اور یہ ہی تفرقہ ان آباد شدہ شہروں کی تباہی کا باعث بن جاتا تھا۔ پھر انسانی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا اور دیوتا زیوس نے ہرمیز کو نیچے زمین پر انسانوں میں بھیجا، تاکہ وہ انھیں تحمل، رواداری اور انصاف کے اصول سکھائے اور انھیں احترام انسانیت اور آداب معاشرت سکھائے اور آخرکار اس طرح ایک مہذب سیاسی ریاست وجود میں آئی اور اسے قائم رکھنے کے بنیادی اصول رواداری اور انصاف ہیں۔

پروٹے گورس کے نظریے کے مطابق ریاست وہ ماں ہے جو اپنی اولاد کو احترام انسانیت، تحمل، رواداری، انصاف، آداب معاشرت کے اصول نہ صرف یہ کہ سکھاتی ہے بلکہ انھیں ان اصولوں پر چلنے کی لازمی تاکید بھی کرتی ہے۔ دنیا بھر کی تمام کامیاب، خوشحال، ترقی یافتہ، مہذب ریاستیں ان ہی اصولوں پر چل کر اپنی اپنی منزلوں پر پہنچی ہیں۔ جب ریاست اپنے شہریوں کی تربیت ان اصولوں پر کرنے میں ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے تو پھر وہ اپنے ہونے کا مفہوم کھو بیٹھتی ہے۔ اس صورتحال میں ریاست اور اس کے شہری دنیا کے لیے ایک بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی کب تک بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرتا رہے گا۔ کسی بھی ریاست کے حکمرانوں کی حیثیت ڈرائیور کی طرح ہوتی ہے، ریاست کے حکمرانوں کا کردار بھی ریاست کی سمت کا تعین کرتا ہے کہ ریاست بلندی کی طرف جا رہی ہے یا کوئی کھائی ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔

یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ اگر ریاست تیزی کے ساتھ کھائی کی طرف دوڑ رہی ہے تو پھر ریاست کا ہی بگڑنا ہے، ڈرائیور تو گرنے سے ذرا ہی پہلے گاڑی سے کود کر فرار ہو جائیں گے۔ پھر آپ انھیں جتنا چاہیں کوستے رہیں، پھر منظر تبدیل ہونے والا نہیں ہے، یعنی آپ اس وقت تک کچھ کرنے کے قابل ہوتے ہیں جب تک کھائی میں گرے نہیں ہوتے ہیں۔

اس بات کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے آپ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، لبنان، یمن، ایتھوپیا کی ملکی تاریخوں کو اچھی طرح سے ٹٹول کر دیکھ لیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی اس بات پر اڑا رہے اور اپنی ضد پر ڈٹا رہے کہ ہمارا سفر بلندی کی جانب ہے تو پھر اجتماعی ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم میں اور کھائیوں میں پڑے ممالک میں فاصلہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، جنھیں یہ منظر دیکھنے کا شعور حاصل ہے، ان کے لیے وقت کی گھڑیاں عذاب بن کر رہ گئیں ہیں۔ اب اس صورتحال میں 20 کروڑ مسافر اپنے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں، یہ وقت ہی بتائے گا یا تاریخ کا کوڑا دان بتائے گا۔ یاد رکھیں یہ سب منجانب خدا نہیں ہے بلکہ منجانب زمینی خدا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔