جادو

ایک عجیب بات یہ ہے کہ آج کل جہاں سائنس و طبیعات نے اتنی ترقی کر لی ہے،


Saad Ulllah Jaan Baraq August 10, 2016
[email protected]

RAWALPINDI: ہمارا کالم نہ تو کتابوں پر تبصرے کرنے کے لیے ہے اور نہ ہی ہم ایسا کرتے ہیں لیکن بعض اوقات ایسی کتابیں آجاتی ہیں جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ اب کے جو کتاب ہمارے سامنے ہے وہ تو کسی تبصرے کی محتاج بھی نہیں کیوں کہ سات یا آٹھ ایڈیشن تو اس کے چھپ کر ختم ہو چکے ہیں اور مانگ ابھی تک کم نہیں ہوئی ہے ۔ یہ کتاب جناب قاضی عبدالدائم دائم کی بے مثل اور بے عدیل تالیف ''سید الوریٰ ؐ'' ہے اور ہمارے پاس اس کا پشتو ترجمہ نظر ثانی کے لیے آیا ہے جو جناب محمد سعید محمد اقبال نے کیا ہے۔

یہ بھی کئی بار چھپ چکا ہے۔ ہمارے جس نیک بندے انجینئر صابر صاحب نے یہ کتاب پہنچائی ہم ان کے نہایت ہی ممنون ہیں کہ ایک تو انھوں نے ہمیں اتنی بڑی سعادت بخشی اور دوسری بات جو اس کالم کی تحریر کا باعث بن رہی ہے، یہ ہے کہ اس نے ہماری ایک بہت بڑی الجھن دور کر دی ہے جو صرف ہماری نہیں بلکہ اکثر لوگوں کو ہمیشہ درپیش رہتی ہے، حالانکہ سیرت نبوی ؐ کی اور بھی بہت ساری کتابیں پڑھ رکھی ہیں جن میں علامہ شبلی کی سیرت النبی ؐ بھی شامل ہے لیکن جس الجھن نے دبدھا میں ڈالا ہوا تھا وہ اس کتاب سید الوریٰ ؐکے پڑھنے سے دور ہوئی اور یہ دور جدید کے بہت بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے، یہ مسئلہ ''جادو'' سے متعلق ہے کیوں کہ جادو اور جنات وغیرہ کے دکانداروں نے اس مسئلے کو دین کا ٹھپہ لگا کر عوام کے ذہن میں اس طرح ٹھوکا ہوا ہے کہ اب یہ عقائد کا حصہ بن کر رہ گیا ہے، اس قسم کے دکاندار لوگ اپنی دکانداری کے لیے عام طور پر دین کا نام استعمال کرتے ہیں۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ آج کل جہاں سائنس و طبیعات نے اتنی ترقی کر لی ہے، ہمارا معاشرہ بھی ان جعل سازوں کے قبضے میں ہے بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی یہ گرفت مضبوط ہوتی چلی جارہی ہے کیوں کہ ان دھندے بازوں نے ذرایع ابلاغ کے ذریعے خود کو اور بھی زیادہ پھیلا دیا ہے، دیواروں اور اشتہاروں کی بھرمار نے کچھ ایسی فضاء پیدا کی کہ کائنات کے سارے کام ان باباؤں اور عالموں کاملوں نے اپنے ہاتھ میںلیے ہوئے ہیں۔

اسلام اور مسلمانوں میں اس قسم کی خرافات کو پھیلانا انتہائی مذموم کام ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں یہ دھندہ زوروں پر ہے جسے مختلف کرائے کے چینلوں نے خوب خوب پھیلایا ہوا ہے چنانچہ مختلف دیوتاؤں کی نشانیاں ہزاروں روپے میں بکتی ہیں جن کے خریدنے والے جو اکثر بیروزگار اداکار ہوا کرتے تھے اسکرین پر آکر وہ سب کچھ ان نشانیوں سے کراتے ہوئے نظر آتے ہیں، ایسا کوئی انسانی مسئلہ ہے ہی نہیں جو ان دیوتائی نشانیوں سے حل نہیں کیا جارہا ہو، لیکن تعجب اور افسوس بلکہ ماتم کی بات یہ ہے کہ اب ان کے دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی ایسا ہی شروع کر دیا ہے۔

جادو اور جنات وغیرہ کے بارے میں ہمارا ذہن قطعی صاف ہے کہ اس کائنات اور سلسلہ تخلیق میں کسی بھی ماورائی مخلوق کی گنجائش نہیں ہے، کائنات کا یہ سلسلہ جو رب عظیم نے کن اور فیکون کی بنیاد پر چلایا ہوا ہے اس میں باقاعدہ ایک خود کار نظام کے تحت سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے جیسا کہ رب عظیم نے طے کیا ہوا ہے، ہر ہر چیز کے لیے اپنا اپنا کام اور دائرہ متعین ہے جس میں سے وہ باہر نہیں نکل سکتا مثلاً رب عظیم نے زہر میں ہلاک کرنے کی تاثیر رکھی ہے صرف زہر ہی کیا دوسری تمام چیزوں کے اندر رکھی ہوئی تاثیرات اپنا وہی کام کریں گی جو ان کے لیے متعین کیا گیا ہے مثلاً اگر کوئی زہر کھا لے یا کوئی کھلا دے تو وہ مرے گا چاہے وہ خدا کا کتنا ہی نیک بندہ کیوں نہ ہو، اس طرح کوئی بم یا کسی اور ہلاکت خیز چیز کا شکار کبھی بچ نہیں پائے گا ہاں اگر گولی یا کوئی اور ہتھیار نے کسی نازک مقام کو نشانہ نہ بنایا ہو، دوسری طرف اس نظام میں بچانے کا اپنا سسٹم ہے۔

زہر خورانی یا سانپ کاٹے یا زخمی کو اگر بروقت مدد پہنچ سکے وہی مدد جو اس کے لیے طے شدہ ہے، تعویز یا گنڈے یا چقاچقی اس میں بالکل شامل نہیں ہے مطلب یہ کہ جو اس ''زہر'' کا مقرر کردہ تریاق ہو۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہے ایک زمانے میں ہم محض شوقیہ ہومیو پیتھک پریکٹس کرتے تھے رات دو بجے ایک شخص کو ہمارے پاس لایا گیا جسے سانپ نے کاٹا تھا یہ لوگ کئی گاؤں پرے ایک گاؤں سے آئے تھے جہاں ایک مشہور پیر بھی تھا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ سانپ کے کاٹے کو تو پیر صاحب نے دم کر دیا ہے اس کی کوئی چنتا نہیں لیکن اب اس انگلی کا خون نہیں رک رہا ہے اس کا کچھ کیجیے۔ اب صرف ہم یہ جانتے تھے کہ قصہ کیا ہے سانپ کے زہر ہی کی وجہ سے اس کے خون کا نظام بگڑ گیا تھا یوں کہیے کہ جس طرح دودھ پھٹ جاتا ہے اسی طرح اس کا خون زہریلا ہو کر پھٹ گیا تھا اور خون میں خودبخود رکنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے وہ ختم ہو گئی۔

ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ اسے فوری طور پر اسپتال پہنچا دیں۔ ان لوگوں کے دو گروہ ہو گئے ایک کا کہنا تھا کہ پیر صاحب نے دم کیا ہے کوئی خطرہ نہیں خون رک جائے گا وہ تو اچھا ہوا کہ اس نوجوان نے خود اسپتال کے حق میں فیصلہ دیا اور وہ چلے گئے دوسرے تیسرے دن ان کا ایک رشتہ دار شاید چچا تھا ہمارے پاس شکریہ ادا کرنے آگیا کہ آپ نے ہمیں مشورہ دیا وہاں اسپتال میں ڈاکٹروں نے بھی ہمیں بہت برا بھلا کہا اور بڑی مشکل سے لڑکے کو بچا لیا گیا وہ بھی یوں کہ ہم سے چھ بوتل خون مانگا گیا کہ اس کا سارا خون خراب ہو چکا ہے۔ اب اس واقعہ میں سانپ کے زہر نے تو وہی کام کرنا تھا جو اس کے اندر موجود تھا لیکن ساتھ علاج کی تدبیر بھی اپنا کام کر گئی مطلب کہ زہر نے اپنا کام کیا اور تریاق نے اپنا کام کیا اور دونوں میں یہ تاثیر خدا ہی نے رکھی ہوئی ہے اور ان تاثیروں کو کوئی دم یا تعویذ یا جادو نہیں بدل سکتا سوائے اس کے کہ خدا کے مقرر کردہ نظام کے مطابق علت و معلول کے اصولوں پر چلا جائے۔ پرانے زمانے میں تو اگر اس قسم کی توہمات تھیں تو وہ تاریک دور تھا لیکن اب تو انسان بہت کچھ جان چکا ہے۔ آپ نے اکثر طب نبوی کے بارے میں پڑھا ہو گا کہ حضور ؐ مختلف امراض کے لیے کوئی دوا تجویز کرتے تھے کیوں؟ اس لیے کہ ان کو امراض کا بھی پتہ تھا اور دواؤں کی قدرتی تاثیر معلوم تھی۔

ہم آج اسی وقت اس کالم کے ذریعے ان تمام کالے سفید چتکبرے اور نیلے پیلے جادوگروں، عاملوں، کاملوں، جوگیوں، سنیاسیوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ ہم پر جادو کر ڈالیں اگر کسی کو ہمارے بال یا کپڑا درکار ہو تو وہ بھی ہم بخوشی دے دیں گے اور یہ بڑا اچھا موقع ہے ان کو نہ پھر کسی اشتہار کی ضرورت پڑے گی نہ پبلسٹی کی، خودبخود چار دانگ عالم میں اس کے چرچے ہو جائیں گے اور جادو کے چور کو بھی باقاعدہ سند مل جائے گی۔ ہمارے گاؤں میں ایک پاگل لڑکا ہے جو دنیا کے تمام دھندے کر کر کے ناکام ہو گیا تو اس نے جنات کا کاروبار شروع کر دیا اور مشہور کیا کہ چودہ ہزار جن اس کے قبضے میں ہیں۔

ہم نے اس سے کہا کہ کم از کم ایک جن کو تو ہماری گوشمالی پر مامور کر دو لیکن اس نے بتایا کہ فی الحال ان میں سے کوئی بھی فارغ نہیں ہے، پھر کہا کہ میرے جنات نیک لوگ ہیں وہ کسی کو نقصان بالکل نہیں پہنچاتے البتہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہم نے کہا یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ذرا ایک کو بھیج کر چائے تو منگواؤ لیکن غالباً اس وقت سارے جنات ڈیوٹی پر تھے اس لیے چائے لانے کے لیے اسے خود تکلیف اٹھانا پڑی۔ دنیا میں اس قسم کی کوئی خارق عادت چیز موجود نہیں ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔

اس دنیا میں صرف دو چیزیں ہیں مادہ اور انرجی اور یہ دونوں ہی ماورائی نہیں ہیں بلکہ دونوں ہی قدرت کے بنیادی اصول ثنویت یا زوج یا منفی مثبت کے مطابق چل رہی ہیں یہ دونوں مادہ اور انرجی ایک دوسرے میں بدل تو جاتے ہیں لیکن غائب یا فنا بالکل نہیں ہوتے۔ بعض علوم واقعی صحیح بھی ہیں جیسے ہیپناٹزم، مسمریزم اور برین واشنگ وغیرہ... لیکن اس کی بھی بنیادی شرط یہ ہے کہ معمول خود راضی ہو، اگر کوئی شخص خود ہیپناٹائز ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہے تو کوئی بھی اسے ہیپاٹائز نہیں کر پائے گا اور اگر ہو بھی گیا تو اس سے صرف وہی کام لیے جا سکتے ہیں جو اس کی مرضی کے مطابق ہوں، اس کے علاوہ اس پوری کائنات میں کوئی ماورائی چیز یا مخلوق نہیں ہے جو انسان پر اثر انداز ہو سکے سوائے فطری اور قدرتی عوامل و اسباب کے ۔

مقبول خبریں