دہشت گردی کیخلاف موثر جنگ کیسے لڑی جائے؟

عمران خوشحال راجہ  جمعـء 12 اگست 2016
ہر حملے کے بعد دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا عزم کیا جاتا ہے، کمیٹیاں بنتی ہیں، اعلانات ہوتے ہیں۔ لیکن جونہی مرنے والوں کو دفنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی سارے عزائم بھی دفن ہوجاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہر حملے کے بعد دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا عزم کیا جاتا ہے، کمیٹیاں بنتی ہیں، اعلانات ہوتے ہیں۔ لیکن جونہی مرنے والوں کو دفنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی سارے عزائم بھی دفن ہوجاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پچھلی ایک دہائی سے پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے اور لاکھوں گھر برباد ہوئے جبکہ کروڑوں روپے مالیت کا انفراسٹراکچر تباہ ہوا ہے۔ کراچی سے کوئٹہ اور لاہور سے پشاور تک صوبائی دارلحکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی دارلحکومت بھی دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔ اس بار بلوچستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز اور صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں بے گناہ انسان دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں تو یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے کہ کیا ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے یا یہ کہ ایک کے بعد دوسرا حملہ ہوتا رہے گا، بے بس انسان مرتے رہیں گے، حکومت دہشت گردوں کو مار ڈالنے کا عزم کرتی رہے گی، میڈیا روتی آنکھیں اور تڑپتے جسم ٹی وی اسکرینوں پر دکھاتا رہے گا اور عوام فیس بک اور ٹویٹر پر دل کی بھڑاس نکال کر بھول جائیں گے کہ ہوا کیا تھا، اور پھر ایک اور حملہ ہوگا اور پھر یہی سب دوہرایا جائے گا؟

ہر حملے کے بعد اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا عزم کیا جاتا ہے، اخبارات میں بیانات آتے ہیں، ٹی وی پر مذمت ہوتی ہے، کمیٹیاں بنتی ہیں، اعلانات ہوتے ہیں۔ کچھ دن تک خوب جوش و خروش دکھایا جاتا ہے، لیکن جونہی مرنے والوں کو دفنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی سارے عزائم بھی دفن ہوجاتے ہیں۔ کیا اجلاس تھا؟ کیا کمیٹی تھی؟ کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ یوں یہ حملہ پرانا ہوجاتا ہے، اور پھر ایک نیا حملہ ہوتا ہے۔ اور یہی مشق پھر سے کی جاتی ہے۔

پاکستان ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، لیکن یہ جنگ کس حکمت عملی کے تحت لڑی جا رہی اور اس میں کیا کیا وسائل استعمال کئے جا رہے ہیں اس سے کم ہی افراد آگاہ ہوتے ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سرے سے کوئی حکمت عملی ہے ہی نہیں اور ریاستی ادارے ایک الجھن کا شکار ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی مخالف جنگ کے موثر نہ ہونے کی وجہ ریاستی اداروں کی صلاحیت کا فقدان نہیں بلکہ عزم اور ارادے کی کمی ہے۔ در پردہ حقائق جو بھی ہوں، جو نظارہ پردے پر ہے وہ بہت ہولناک ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک موثر جنگ کیسے لڑی جا سکتی ہے؟

ایک عام سا اصول ہے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس کے وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے بلکہ گزرتا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تسلیم کیا جائے اور ان تاریخی غلطیوں کو مانا جائے جن کی وجہ سے آج یہ وقت دیکھنا پڑ رہا ہے۔ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے ایک مخالف بیانیہ (کاؤنٹر نریٹیو) جاری کیا جائے۔ اس بیانیے کو معاشرے کے تمام مکاتب فکر سے تائید کے بعد میڈیا کے ذریعے اس قدر مقبول عام کیا جائے کہ ایسے لوگ جو پہلے در پردہ دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں اور بعد میں کھلے عام ان کے سہولت کار بن جاتے ہیں، ان پر معاشرتی دباؤ بڑھے اور وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔

یقیناً یہ ایک دن رات میں نہیں ہوگا جیسے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو اس نہج تک آنے میں وقت لگا، ایسے ہی اس پر قابو پانے میں بھی وقت لگے گا۔ بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے کی ضروت ہے۔ لاء اینڈ آرڈر میں موجود خامیوں کو دور کرکے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بنائے جانے والے اداروں کو متحرک کرنا ناگزیر ہے۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا) جو کہ ملک میں اپنی طرز کا واحد ادارہ ہے اور جب سے بنا ہے تقریباً غیر فعال ہے اسے فعال اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

پولیس کا کردار انتہائی کلیدی حثیت کا ہے، مگر بدقسمتی سے اس ملک کی پولیس کی ترجیحات قابل افسوس ہیں اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ ان کی تنخواہیں کم ہیں یا انہیں مراعات کم دی جاتی جیسا کچھ ناقدین اکثر لکھتے ہیں، بلکہ ایسا اس وجہ سے بھی ہے کہ پولیس باحیثیت ادارہ کسی بڑے چیلنچ کے لئے تیار ہی نہیں کی جاتی، اور نتیجتاً پولیس کے سپاہیوں کی اکثریت وی آئی شخصیات کی چوکیداری یا پبلک پارکوں میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے پیچھے بھاگتی، یا پھر سرِعام رشوت خوری کرتے نظر آتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس جو کہ عوام کے لئے محافظ سے زیادہ نقصان پہنچانے والا ادارہ بن گیا ہے، اُس کے مورال کو بلند کیا جائے اور اس پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ کسی مشکوک حرکت کو دیکھ کر ایک عام شہری بھی مکمل اعتماد کے ساتھ پولیس کو مطلع کرسکے۔

دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے لئے پیغام رسانی اور نقل و حمل کے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ ٹیلی کمیونیکشن اور نادرا کا سم رجسٹریشن پروگرام یقیناً قابل ستائش ہے، مگر اس میں کئی خامیاں ہیں جن کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ انکشاف کہ ماضی میں کئی غیر ملکیوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کئے گئے، اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں بے شمار جعلی سم کارڈز استعمال ہو رہے ہیں جن سے دہشت گرد نیٹ ورک یا ان کے سہولت کار رابطے کا کام لے رہے ہیں۔

نقل وحمل کی نگرانی پر مامور عملے کی غفلت ہے یا نااہلی کہ دہشت گرد ایک شہر سے دوسرے شہر باآسانی حرکت کرتے ہیں اور کسی کو کچھ خبر نہیں ہوتی۔ اگر میٹل ڈیٹیکٹر اور سیکیورٹی کیمروں کا بھرپور استعمال کیا جائے تو بڑی حد تک دہشت گردی کی کارروائیوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، سادہ سی بات ہے جس طرح ماحولیاتی مسائل کا حل کسی ایک ملک کے پاس نہیں ہوتا، اسی طرح دہشت گردی کا حل بھی کوئی ایک ملک اپنے طور پر نہیں نکال سکتا۔ اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی مخالف بین الاقوامی تنظیموں کا حصہ بن کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ جب تک افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے پاکستان کی دہشت گردی مخالف جنگ موثر ثابت نہیں ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

عمران خوشحال راجہ

عمران خوشحال راجہ

بلاگر ایم فل سکالر، کشمیریکا کے بانی، محقق اور بلاگر ہیں۔ وہ ’’آن کشمیر اینڈ ٹیررزم‘‘ اور ’’دریدہ دہن‘‘ کے مصنف ہیں۔ عالمی تعلقات، دہشت گردی اور سماجی و سیاسی تبدیلیاں ان کی دلچسبی کے مضامین ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔