ایسا ہو اپنا پاکستان

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 14 اگست 2016
پسے ہوئے طبقے کے پاکستانی اپنے وطن کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں، جشن آزادی پر عام آدمی کے خوابوں کی ترجمانی کرتا سروے ۔   تصاویر: اشرف میمن

پسے ہوئے طبقے کے پاکستانی اپنے وطن کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں، جشن آزادی پر عام آدمی کے خوابوں کی ترجمانی کرتا سروے ۔ تصاویر: اشرف میمن

 کراچی: پاکستان جلد ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا، اس ملک سے جلد ہی غربت کا خاتمہ ہوجائے گا ، امن و امان کا دو ر دورہ ہوگا، لوگ بلاخوف و خطر سونا اچھالتے جائیں گے، دہشت گردی کا جلد ہی خاتمہ ہوجائے گا، پاکستان میں بلا تعطل بجلی، گیس اور پانی کی فراہم کی جائے گی، پاکستان ایسا ہوگا، پاکستان ویسا ہوگا وغیرہ وغیرہ، یہ سب وہ بیانات ہیں جو عوام کے غم میں گھلنے والے ہمارے ’ مخلص ‘ اور ’ ایمان دار‘ سیاست داں ہر جشن آزادی پر لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ عوام کے سامنے دہراتے آرہے ہیں۔

ہر سیاست داں کے مطابق اگر وہ برسراقتدار آجائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا، لیکن اس پاک سرزمین کے عوام ’پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے ایک سروے کیا، جس میں ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفت گو کی گئی، جو کہ نذر قارئین ہے۔

٭حسین الحق، اخبار فروش
بچپن سے سائیکل پر اخبار فروخت کرنے والے حسین الحق پاکستان کے موجودہ حالات اور سیاست دانوں سے بہت کبیدہ خاطر نظر آئے۔ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟ اس بابت ان کا کچھ یوں کہنا ہے: میں بچپن سے والد کے ساتھ اخبار بیچتا آرہا ہوں۔ 1965اور1971کی جنگ میں بھی اسی ریگل چوک پر اخبار فروخت کیے، اس زمانے میں ریگل چوک سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ میری ان آنکھوں اور کانوں نے مفاد پرست سیاست دانوں کے بہت سے وعدے دیکھے اور سنے، لیکن کسی ایک نے بھی کبھی پاکستان کی ترقی و خوش حالی کے لیے دل سے کام نہیں کیا۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میں پاکستان کو ایک فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔

پاکستان کو ایسا ملک ہونا چاہیے، جہاں امن و سکون کا دور دورہ ہو، لوگوں کو روزگار میسر ہو، ہر باپ کی طرح میری بھی خواہش ہے اپنے بچوں کو بڑا افسر بنانے کی، انہیں پھلتا پھولتا دیکھنے کی، لیکن وسائل نہ ہونے کی سبب میں اپنی یہ خواہشات پوری نہ کرسکا۔ ہمارا ملک بہت اچھا ہے، یہاں دنیا کی ہر نعمت ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے حکم راں کبھی بھی اچھے نہیں ملے۔ پینسٹھ کی جنگ میں میں ایک نوجوان ہی تھا، لیکن اس وقت جو جوش و جذبہ ہماری قوم میں تھا وہ آج کے نوجوانوں میں نظر نہیں آتا اور نہ ہی ہمارے حکم راں ملک سے مخلص نظر آتے ہیں۔ پاکستان کو کرپشن سے پاک ایک مکمل اسلامی ملک ہونا چاہیے۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ سیاست داں انسان بنیں، پاکستان کا پیچھا چھوڑ دیں یا صرف سیاست کریں، لیکن مذہب، قومیت کے نام پر عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔ یہ ملک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، ڈاکو لٹیرے ملک چلارہے ہیں، مجھے مشرف صرف اس لیے پسند ہے کہ اس نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا۔

٭بخش محمد، چائے والا
پاکستان کی خوب صورت وادی سوات کے علاقے بونیر سے تعلق رکھنے والے 40سالہ محمد حسین گذشتہ سولہ سال سے اپنا چائے کا چھوٹا سا ہوٹل چلا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان ایسا ہونا چاہیے جس میں غریب عوام کو ریلیف ملے، حالات بہتر ہوں، کاروبار عروج پر ہو، منہگائی کم سے کم ہو۔ لوگوں کو ایک وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، منہگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، عوام کس سے شکایت کریں۔ پاکستان بہت اچھا ملک ہے۔ ہم تو بس ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں غریب عوام کی مشکلات کم کی جائیں، کیوں کہ غریب آدمی دونوں طرف سے پس رہا ہے۔ کرپشن کم کی جائے کیوں کہ یہاں جب تک آپ کی جان پہچان نہ ہو تو آپ کا کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا کیوں کہ ہر جگہ رشوت چلتی ہے۔

٭ محمد حسین ، آفس بوائے
اٹھارہ سال سے کراچی میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام کرنے والے محمد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر فرد کو اس کا حق ملنا چاہیے، تعلیم بہت منہگی ہے، جس کی وجہ سے ہم جیسے غریب علاقوں میں رہنے والے تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اور ساری زندگی میری طرح آفس بوائے بن کر ہی زندگی گزار دیتے ہیں، پاکستان میں تعلیم سستی ہونی چاہی، منہگائی کم ہونی چاہیے، بڑے آدمیوں کو تو کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن عام آدمی کا حال دن بہ دن بُرا ہوتا جا رہا ہے۔

٭ محمد عتیق، لوہار
گذشتہ دس سال سے لوہے سے نبرد آزما محمد عتیق کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسا ہونا چاہیے کہ جہاں ہر آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکان ملے۔ امن و امان ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک زبان بولنے والے دوسری زبان بولنے والے علاقے میں نہ جاسکیں، بجلی، گیس اور پانی جیسی نعمتیں باقاعدگی سے فراہم کی جائیں۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اس ملک میں امام خمینی جیسا کوئی لیڈر آنا چاہیے، جو ان تمام رشوت خور حکم رانوں سے عوام کو نجات دلائے، کیوں کہ یہ لوگ پاکستان اور پاکستانی عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

منہگائی نے ہمارا جینا محال کردیا ہے۔ جو تھوڑا بہت کام ہے تو لوڈشیڈنگ نے اس کا بیڑا غرق کردیا ہے، ہمارا تو کام ہی بجلی پر چلتا ہے۔ اب دکان کا کرایہ دیں، گھر کا کرایہ دیں یا بچوں کو تعلیم دلوائیں، اس ملک میں تو اتنے وسائل ہیں کہ ہر آدمی پیٹ بھر کے کھانا کھائے۔ پاکستان کو تو پُرسکون ملک ہونا چاہیے، ہمارے ملک میں ہنرمندوں کی کمی نہیں ہے، اگر حکومت چاہے تو سب کرسکتی ہے۔ منہگائی کم ہو گی تو چوری ڈکیتی بھی کم ہوگی، کیوںکہ اگر کسی کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہو ، روزگار نہ ہو تو وہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔

٭ عبدالستار، گدھا گاڑی بان
45سالہ عبدل ستار کی زندگی کی کہانی دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی والد کو گدھا گاڑی پر سامان ڈھوتے دیکھا اور بعد میں خود بھی اسی پیشے سے منسلک ہوگیا۔ تعلیم، کھیل، اچھا کھانا پینا یہ سب باتیں ان کے لیے ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمارتوں سے نکلنے والے ملبے سے لے کر کچرا تک اٹھانے والے عبدالستار کے نزدیک پاکستان ایسا ہونا چاہیے۔

جہاں اسے دن بھر کی محنت کے بعد کم از کم دو وقت پیٹ بھر کا کھانا نصیب ہوسکے۔ عبدالستار سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہیے تو اس نے مٹی میں لتھڑے ہاتھوں کو اپنے میلے کرتے سے صاف کرتے ہوئے جواب دیا، ’امارے کو کچھ نہیں چاہیے ام (ہم) تو بس اتنا چاتا (چاہتا) ہوں کہ پاکستان ایسا ہوئے( ہو) جس میں ام (ہم) اپنے گدھے کو پیٹ بھر کے گھاس کھلا سکے، ام تو روکھی سوکھی کھا کر بھی سوجاتا ہے، لیکن اب تم خود بتاؤ جانور کو کیا پتا کہ ام کو آج کام ملا یا نہیں ملا۔ وہ تو سارا دن امارا (ہماری) بات سنتا ہے، امارا (ہمارا) مار بھی کھاتا ہے اب اگر ام اسے کھانے کو بھی نہ دیوے (دے) تو اس سے بری بات کیا ہوگا؟‘‘

٭ واسو، موچی
لوگوں کے پھٹے پرانے جوتے مرمت کرنے والے انٹر پاس واسو کی مالی حالت بھی پرانے جوتوں کی طرح خستہ حال ہے۔پرانے جوتوں کو تو وہ مرمت کرکے ان کی قسمت سنوار دیتا ہے، لیکن شاید اپنی قسمت سنوارنا اس کے بس میں نہیں۔ واسو کے خیال میں پاکستان ایسا ہونا چاہیے جہاں ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے، جہاں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں، امن و امان ہو، پورا ملک صاف ستھرا ہو۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے سیاست داں چاہیں تو وہ اس پیارے ملک کو ترقی کی راہ پر گام زن کر سکتے ہیں، لیکن انہیں اپنی جیبیں بھرنے سے ہی فرصت نہیں ہے تو وہ ہمارے بارے میں کیوں سوچیں گے؟ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ایک عام آدمی کس طرح اپنی زندگی گھسیٹ رہا ہے، منہگائی کتنی ہوگئی ہے، لوڈشیڈنگ کتنے گھنٹے کی ہورہی ہے۔ انہیں تو شاید پتا بھی نہیں کہ لوڈشیڈنگ یا منہگائی کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ سب مسائل تو ہم جیسے لوگ جھیل رہے ہیں۔ ہم دن بھر گدھے گھوڑے کی طرح محنت کر کے بہ مشکل ایک وقت پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ پاکستان کو ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں ہر کسی کو تعلیم ، روزگار اور پیٹ بھر کھانا کھانے اور سر چھپانے کی جگہ میسر ہو۔

٭ محمد عارف، حجام
فٹ پاتھ پر دکان سجائے لوگوں کی حجامت کرنے والے محمد نسیم کے مطابق پاکستان ایسا ہونا چاہیے جہاں ہر کسی کو بنیادی سہولتیں میسر ہوں۔ اللہ ہمارے سیاست دانوں کو عقل دے۔عام آدمی کی خواہش یہی ہے کہ ہر کسی کو روزگار میسر ہو۔ امن و سکون ہو۔ ہم جیسے روز کمانے روز کھانے والوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

ایک تو منہگائی نے کمر توڑ دی ہے دوسری طرف امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے بعض اوقات ہمیں فاقے بھی کرنے پڑجاتے ہیں۔ تو بس ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں لوگ آپس میں پیار محبت سے رہیں، منہگائی نہ ہو، امن و امان ہو، ہماری نئی نسل کو بھی آزادی کا احساس ہونا چاہیے۔ میں آپ کے اخبار کے توسط سے نوجوانوں سے یہ گزارش بھی کروں گا کہ موٹر سائیکلوں کے سائلینسر نکال کر، شوروغل کرکے جشن آزادی نہ منائیں۔ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ اس پاک وطن کو ہمارے آباواجداد نے کتنی قربانیوں سے حاصل کیا ہے۔

٭ فضا، خواجہ سرا
دو وقت کے کھانے کے لیے لوگوں کی منت سماجت کرنے، شادی بیاہ میں رقص کرنے والے خواجہ سرا فضا کے حالات زندگی معاشرے کے دیگر افراد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ فضا کے خیال میں پاکستان ایسا ہونا چاہیے جہاں لوگوں کو روزگار حاصل ہو۔ پورے ملک میں امن و امان ہو۔ فضا کا کہنا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ پاکستان میں یہ سب چیزیں تو ہوں، لیکن ہم جیسے (تیسری جنس) لوگوں کو بھی حقوق دیے جائیں۔ بہت سے پڑھے لکھے خواجہ سرا باعزت روزگار نہ ملنے کے سبب بھیک مانگنے، رقص کرنے اور غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک بار موقع دیا جائے، باعزت طریقے سے روزگار دیا جائے تو ہم بھی ملک کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔

٭ نعیم احمد، شیشہ گر
گذشتہ تیس سال سے شیشہ گری کا کام کرنے والے محمد نعیم کے خیال میں پاکستان کو عملی طور پر ایک فلاحی مملکت ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ دن بہ دن لوگوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، یہ ملک تو ہم نے بہت قربانیاں دے کر بنایا ہے، ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے نہ کہ ناشکراپن۔ پاکستان کو تو بہت اچھا ہونا چاہیے، یہاں امن و امان ہونا چاہیے۔ ہمارے سیاست داں تو کرسیاں بچانے اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کی لڑائی سے نہ صرف پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے بل کہ اس کے اثرات عام آدمی پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ ہمارا ملک بہت خوب صورت ہے، ہمیں چاہیے کہ اسے مزید خوب صورت بنائیں۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی پاکستان کا مستقبل روشن بنانے کے لیے اچھے سے اچھا کام کرنا چاہیے۔

٭ محمد ندیم، سیمنٹ کی چھتیں، گارڈر بنانے والے
محمد ندیم کا کہنا ہے کہ حکم رانوں نے اتنے اچھے ملک کا یہ حال کردیا ہے کہ اب یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، گیس ایک دو گھنٹے کے لیے آتی ہے پھر غائب ہوجاتی ہے، گٹر ابل رہے ہیں، روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اﷲ ہمارے سیاست دانوں کو ہدایت دے یا انہیں نیست و نابود کرے۔ ہما را ملک بہت خوب صورت ہے، لیکن دہشت گردی، کرپشن، لوٹ مار نے اسے خراب کردیا ہے۔ پاکستان بہت اچھا ہے۔ اگر ہمارے سیاست داں عقل مندی سے کام لیں تو ہمارے نوجوان دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو پانی، بجلی، گیس اور روزگار جیسی بنیادی سہولتیں حاصل ہونی چاہییں۔ ہم تو ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس کی ہر وادی سونا اگلے، پہلے کی طرح ہر شہر کی راتیں اس طرح ہوں جس طرح دن۔ گلی گلی میں امن ہو۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس کے لیے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ ہم اپنے گھر، دکان مکان کو صاف رکھتے ہیں، اس کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اپنی گلی محلے کو صاف کرنے کے بجائے اور گندا کرتے ہیں۔ اگر ہمیں پاکستان کو ایک صاف ستھرا پُرامن ملک بنانا ہے تو پھر حکم رانوں کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنا کردار بھی فعال طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔

٭اسلم، ماشکی
کراچی کے اولڈ ایریا میں اسلم کی آمد کسی بہار سے کم نہیں، انہیں دیکھ کر لوگوں کے چہروں پر زندگی کی چمک نمودار ہوجاتی ہے۔ زندگی کی 48بہاریں دیکھنے والے اسلم کا کام ہی کچھ ایسا ہے، وہ لوگوں کو ایسی خدمت فراہم کر رہے ہیں جس کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے، لیکن ریاست کی اس ذمے داری سے چشم پوشی نے اسلم جیسے کئی لوگوں کے گھروں کو چولہے روشن رکھے ہوئے ہیں۔اسلم گذشتہ 24 پچیس سالوں سے ماشکی کا کام کر رہے ہیں۔ پانی سے بھرے مشکیزوں کو کمر پر لاد کر فلیٹوں کی دوسری تیسری یا چوتھی منزل تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں لیکن انہیں اب اس کام کی عادت ہوگئی ہے۔ اسلم کے مطابق پاکستان کو ایسا ہونا چاہیے جہاں ہر کسی کو پانی، بجلی، گیس جیسی بنیادی سہولتیں حاصل ہوں۔ سیاست داں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے آپس میں پیار محبت سے رہیں۔ ملک میں امن وامان ہو، زبان و مذہب کے نام پر قتل و غارت گری نہ ہو۔

٭ محمد اسلم، بڑھئی
33 سالہ محمد اسلم گذشتہ 15سال سے بڑھئی کا کام کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے ہنر سے سیکڑوں، ہزاروں لوگوں کو پُرسکون نیند سونے کے لیے بیڈ تیار کرکے دیے، لیکن خود آج تک پُرسکون نیند نہیں سو سکے۔ ’پاکستان کیسا ہونا چاہیے‘ کے حوالے سے ان کی سوچ بھی دوسروں سے کچھ مختلف نہیں۔ ہر سچے پاکستانی کی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ ملک امن و محبت کا گہوارہ بنے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں، منہگائی کم ہو، تعلیم مفت ہو تا کہ غریب آدمی کے بچے بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے سیاست داں صرف امن و امان کی صورت حال ہی بہتر بنادیں تو پھر لوگوں کے آدھے مسائل تو خود ہی حل ہوجائیں گے۔ وہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی مثال دنیا بھر میں دی جاسکے۔ ایک ایسا ملک جہاں ایک عام آدمی کا کام بھی بنا رشوت دیے بہ آسانی ہوسکے۔

٭ محمدارشد ، ٹرک ڈرائیور
پندرہ سال سے ٹرک چلانے والے 43سالہ محمد ارشد کے خیال میں پاکستان کو ایسا ہونا چاہیے جہاں کاروبار عروج پر ہو، امن و سکون ہو، غریب آدمی کو پیٹ بھر کا کھانا نصیب ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تو ہم سارا سارا دن سامان کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں، کبھی سامان ملتا ہے کبھی نہیں، جس دن نہیں ملتا تو اس دن بھوکے پیٹ ہی سو جاتے ہیں۔ ہم تو ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں کاروبار ہو کیوں کہ کاروبار ہوگا تو سب کو کام ملے گا۔

٭جاوید، کولہو سے تیل نکالنے والا
مشہور محاورہ ہے کہ ’کولہو کے بیل کی طرح ہر وقت جُتے رہنا‘ یہ بھی ایک انسانی المیہ ہے کہ بیل کی جگہ جیتے جاگتے انسان نے لے لی ہے۔ چالیس سالہ جاوید گذشتہ بائیس سال سے اس محاورے کے مصداق کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں۔ ان کا کام ہی کولہو سے ناریل، سرسوں، دھنیے اور دیگر اشیاء کا تیل نکالنا ہے۔ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟ اس بابت جاوید نے کولہو کے گرد گھومتے گھومتے جواب دیا،’’پاکستان ایسا ہونا چاہیے جہاں جانوروں کا کام انسان کو نہ کرنا پڑے۔ میں نے اپنی آدھی زندگی اسی مشقت میں نکال دی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے یہ کام کبھی نہ کریں۔ ہمارے حکم رانوں کو چاہیے کہ غریبوں کا خیال کریں، منہگائی کم کریں تا کہ ہم جیسے غریب لوگ پیٹ بھر کر دو وقت کی روٹی کھاسکیں۔
فرحان احمد خان (لاہور)

٭ امتیاز علی، رکشا ڈرائیور
لاہور میں برسوں سے رکشا چلاکر اپنی روزی روٹی کا انتظام کرنے والے امتیاز علی کا کہنا ہے،’’موجودہ سیاسی قیادت کے ہوتے ہوئے کم ازکم مجھے ملک کے حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ اسی طرح آپس میں جھگڑتے رہیں گے اور ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ یہ اپنی مفادات کی دوڑ میں لگے رہیں گے۔ اِدھر ہمارے بچے بھی اغواء ہوتے رہیں گے، بجلی کے ناجائز بل بھی آتے رہیں گے اور کرپشن بھی ہر روز بڑھتی چلی جائے گی۔ جب تک کوئی ایسا بندہ حکومت میں نہیں آئے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس وقت تک ہمارے حالات نہیں بدل سکتے۔ امتیاز علی نے بتایا،’’میرے پانچ بچے ہیں۔ تین بیٹیاں گورنمنٹ اسکول میں پڑھتی ہیں، لیکن وہاں کی پڑھائی کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ دو بیٹے پرائیویٹ اسکول میں جاتے ہیں۔ وہ نسبتاً بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ صحت کی بات کریں تو صورت حال یہ ہے کہ یہاں پینے کو صاف پانی نہیں مل رہا۔ جو ملتا ہے وہ بھی موٹر کے بغیر نہیں آتا۔ آج میری بیٹی کی طبیعت اسی خراب پانی کی وجہ سے خراب ہے۔ میں پندرہ سو روپے روزانہ کماتا ہوں، لیکن ماہانہ آٹھ ہزار روپے مکان کا کرایہ اور بچوں کی فیسیں ادا کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ کم از کم پانچ سو روپے روز کا گھریلو خرچہ ہے۔ اب خود سوچ لیں کہ دن کیسے گزر رہے ہیں۔‘‘

٭ محمد جاوید، حجام
پاکستان جیسا ہونا چاہیے تھا ویسا تو نہیں ہے کیوںکہ ہمارے بزرگوں نے جس مقصد کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ابھی تک ویسا تو نہیں ہو سکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی قربانی بالکل رائیگاں جا رہی ہے۔ قتل وغارت، دہشت گردی اور منہگائی نے ہمیں پوری دنیا میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک کو صرف اس صورت میں بہتر کیا جاسکتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور خود کو ٹھیک کرنے پر توجہ دے۔ ہر شخص اپنے گھر اور محلے سے کام شروع کرے ۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو تبدیلی اور بہتری کے لیے تیار کرے۔ سب شہریوں کو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن اس ملک میں ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں سفارش اور رشوت کی وجہ سے باصلاحیت لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ میں یہی پیغام دینا چاہوں گا کہ پاکستان زندہ باد ، ہزار اندرونی خرابیوں کے باوجود دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو پاکستان جیسا ہو یا پاکستان سے بہتر ہو۔ یہ جیسا بھی ہے ہمیں اس کی قدر کرنی ہے۔

٭ رانا محمد شہباز، ڈرائی کلینر
پاکستان کو ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ قائداعظم کا خواب تھا۔ ہمارے ہاں اس وقت امن امان اور لوڈ شیڈنگ بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور ہمارے علاقے میں زیرزمین سیوریج اور پینے کے پانی کی لائینیں مل جانے کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ شہر کے کئی علاقے ایسے ہیں جن کی اندرونی سڑکیں اور گلیاں ابھی تک تعمیر نہیں ہوسکیں۔ ہمیں پینے کے لیے فلٹر کا پانی لانا ہوتا ہے۔ آج کل لاہور میں بچوں کو اغواء کیا جارہا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے ہماری گلی سے بھی ایک بچہ اٹھایا گیا ہے۔ قائداعظم ایسا ملک چاہتے تھے جس میں تمام شہری امن وامان اور سکون سے رہ سکیں لیکن ابھی تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ ہمارے سیاست داں پانچ سالوں میں ایک بار صرف ووٹ مانگنے آتے ہیں، اس کے بعد ان کی شکل نظر نہیں آتی۔ میں نے دبئی میں دو سال گزارے ہیں، میں سمجھتا ہوں اگر وہاں کی سہولیات اور سیکیوریٹی یہاں بھی دست یاب ہو جائے تو حالات میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔‘‘

٭ مشتاق احمد، گُل فروش
جو رب نے کرنا ہے وہی ہونا ہے۔ بس ہم اپنی محنت مزدوری میں لگے ہوئے ہیں۔ میں صبح سویرے اٹھ کر منڈی جاتا ہوں، پھول خریدتا ہوں۔ اس کے بعد ہار بنواتا ہوں اور پھر اس دکان میں آ کر اﷲ کے سہارے پر بیٹھ جاتا ہوں۔ میری چار بچیاں ہیں اور دوبچے ہیں۔ چاروں بچیوں کی شادی کردی ہے اور ان میں سے ایک طلاق ہوجانے کے بعد اپنے چار بچوں سمیت اب میرے پاس ہی رہتی ہے۔ دو بچے پڑھتے ہیں، جب کہ ایک بچہ حجام کا کام سیکھ رہا ہے۔ بچوں کو ہنر سکھانا چاہتا ہوں تاکہ اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرسکیں۔ مجھے یہاں بیٹھے ہوئے کئی دن تو ایسے گزر جاتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں کماپاتا۔ ہاں جمعرات، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ میرا گزارہ ہو جاتا ہے۔ جمعرات کو اس درگاہ پر بہت زائرین آتے ہیں جن کے سبب ہمارا کام بھی چلتا ہے۔

٭ محمد راشد، رکشا ڈرائیور
پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ عوام کے مسائل حل کرے، بجلی کی غیرمعمولی بندش کا خاتمہ کیا جائے۔ لوگوں کے کاروبار کے مسائل حل کیے جائیں، بچوں کی تعلیم مفت کریں، پرائیویٹ اسکولوں کی نگرانی کی جائے ۔ ہمارے پرائیویٹ اسکولوں میں اب اسلام کی تعلیم کا رجحان کم ہو رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس جانب توجہ دے۔ رکشا چلاتے ہوئے مجھے دس سال ہوگئے ہیں۔ اس وقت مزدوری اور کاروبار کی جو حالت ہے اس میں ہمارے جیسا آدمی گھر بنانا تو دور کی بات ہے وہ تو نیا دروازہ لگانے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔ آج کل تو ہماری دن کی روٹی پوری ہو جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اب اگر ایک علاقے کی آبادی کے تناسب سے وہاں ایک ہزار رکشے ہونے چاہییں تو وہاں اب دس ہزار رکشے ہیں، تو کیا کمائی ہو سکے گی۔ یہاں ایک سواری کے پیچھے دس رکشے لپکتے ہیں۔ میرے حساب سے پاکستان میں ہر آدمی برابری کی بنیاد پر آگے نہیں جا سکتا۔ اچھا گھر بنانے اور بچوں کو اچھی زندگی دینے کا تو ہم سوچ ہی سکتے ہیں۔ اب دیکھیے ابھی میری عمر کیا ہے لیکن حالت بڑھاپے والی ہو چکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔

٭ عبدالجبار، الیکٹریشن
ہمارا کام تو کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے، لیکن ہم حالات کی بہتری کی خواہش رکھتے ہیں۔ خاص طور پر لاہور میں جو بچے اغواء ہو رہے ہیں، یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ملک میں امیر آدمی کے لیے کوئی قانون نہیں، قانون ہمیشہ غریب کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔ اگر ملک کے حالات کچھ بہتر ہوں تب ہی جاکر ہمارے لیے ممکن ہوسکے گا کہ ہم اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دے سکیں اور اپنے خواب پورے کر سکیں۔
غلام محی الدین(اسلام آباد)

٭ سلیم خان، موچی
پشاور کے 27 سالہ سلیم خان اسلام آباد میں فٹ پاتھ پر جوتے گانٹھنے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہ ہم پاکستان کو بہت اچھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر لحاظ سے کیوں کہ اگر پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ اس سے ہم غریب لوگوں کا بھی بھلا ہوجائے گا اور ہم کو اپنے بچے پالنا آسان ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا جو مجھے سمجھ میں آیا ہے وہ یہ کہ افغان مہاجرین کو جلد از جلد واپس افغانستان بھیجنا چاہیے کیوں کہ یہ لوگ شرارت کرتے ہیں اور پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ یہ لوگ کھاتے بھی یہاں سے ہیں اور پاکستان کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔

٭ محمد رفیق، سرکاری فارم پُر کرکے روزی کمانے والے
آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 71 سالہ بابا محمد رفیق ایک بینک کے سامنے مختلف سرکاری فارم پُر کرکے روزی رزق کماتے ہیں۔ انہوں نے اِس ضمن میں کہا اِس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی نظام نہیں۔ اِس ملک میں جب تک اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا یہ ملک ترقی نہیں کرے گا۔ میری عمر ستر سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے جیتے جی پاکستان میں اسلامی نظام دیکھوں۔ ہمارے دکھوں کا ایک ہی حل ہے کہ ہم پورے کے پورے دین میں داخل ہوجائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا پاکستان کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ میں پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں پاکستان کو کھانے والے زیادہ ہیں اور پاکستان کی خدمت کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں۔ میں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان اِس وقت کرپشن میں سرفہرست ملک بن چکا ہے۔ پاکستان کو پاکستان کے امیروں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جب کہ غریب آدمی نے ہمیشہ اِس ملک کا بھلا کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس ملک کو ایک ایسا نیک حکم راں دے جو یہاں کی عوام کے دکھ کو سمجھے اور وہ ایک پکا مسلمان ہونا چاہیے۔

٭ محمد فیصل،ادویہ فروش
34 سالہ محمد فیصل کا تعلق راول پنڈی سے ہے اور وہ اسلام آباد کی ایک معروف مارکیٹ میں اپنا ایک چھوٹا سا میڈیکل اسٹور چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں پاکستان میں ہر شہری کو خوش حال دیکھنے کا خواہش مند ہوں۔ یہاں سے دہشت گردی ختم ہونی چاہیے اور بدامنی کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو مل جل کر ایک لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ جو لوگ حکم رانوں کو قصور وار سمجھتے ہیں میں اُن سے متفق نہیں، ہم من حیث القوم قصور وار ہیں۔ اگر ہم فرداً فرداً خود کو ٹھیک کرلیں تو پورا معاشرہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ جو اپنے آپ سے ایمان داری کرنا سیکھ لے، سمجھ لے کہ دنیا سے ایک بے ایمان کم ہو گیا، اگر اس اصول کو ہم سب اپنا لیں تو ہم دنیا کی ایک سپر پاور بن سکتے ہیں۔

٭ محسن جاوید، کاریگر
30 سالہ محسن جاوید کا تعلق بھی راول پنڈی سے ہے اور وہ اسلام آباد میں تصاویر کو فریم کرنے والی ایک دکان پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم نہ تو پاکستان کو جمہوری ملک بنا سکے ہیں اور نہ ہی اسلامی یا فلاحی ملک بنانے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ پاکستان کے بننے سے اب تک قائداعظم کا خواب پورا نہیں ہوا اور آج ہم اسی لیے مسائل کا شکار ہیں۔ منہگائی، بدامنی، دہشت گردی اور بدعنوانی نے ہمیں دنیا کی نظروں میں گرا دیا ہے۔ دوسرے ممالک سے واپس آنے والے پاکستانی جب وہاں کی باتیں کرتے ہیں تو ہمیں اُن کی باتیں خواب کی طرح محسوس ہوتی ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اِس پر ہمیں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان نے اب تک جو ترقی کی ہے وہ بھی دوسری اقوام کی مرہون منت ہے۔

پاکستان میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ دوسرے ممالک کی نظریں ہم پر جمی ہوئی ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اپنے وسائل کواپنے ہی ہاتھوں سے ضائع کر رہے ہیں۔ آج کل ہر طرف جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا ہے، لیکن سچ پوچھیں تو پاکستان میں ابھی تک جمہوریت آئی ہی نہیں، ہم یورپ کو تو فالو کر رہے ہیں لیکن اُن کی طرح محنت اور اپنے کام سے محبت کرنے کا سلیقہ ہمیں نہیں آیا۔ آپ سردرد کی ایک گولی بازار سے لینے جائیں تو وہ بھی آپ کو اصل نہیں ملتی۔ جب ایسے حالات ہوں گے تو پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ہر دوسرا نوجوان بے روزگار ہے، وہ کام کرنا چاہتا ہے لیکن اُسے کام نہیں ملتا اگر ملتا ہے تو اُسے اتنے کم پیسے دیے جاتے ہیں کہ وہ فرسٹریشن میں مبتلا ہوکر منفی رویوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ میں نے اب تک کسی بھی گورنمنٹ کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچائے۔ ایک بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام شروع ہوا تھا اس میں بھی ہر طرف فراڈ ہی فراڈ نظر آتا ہے۔ مجھے تو اِن دو سیاسی حکومتوں کی بجائے مشرف کا دور زیادہ اچھا لگا، اُس دور میں پاکستان کے اندر تعلیم کے شعبے پر جتنا خرچ کیا گیا وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک مثال ہے، جب کہ جمہوری دور میں تعلیم کے میدان میں بھی کرپشن کا عنصر داخل ہو چکا ہے۔

٭ شاہد اسلم مفتی،سیلز مین
ساٹھ سالہ شاہد اسلم مفتی اسلام آباد میں الیکٹرانکس کے چھوٹے موٹے آلات بیچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کو ایک خوش حال ملک دیکھنے کا خواہاں ہوں جو ابھی تک خوش حالی کی اُس سطح پر نہیں پہنچ سکا جہاں پر ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک پہنچ چکے ہیں، اِس ضمن میں ہم چین کی مثال دے سکتے ہیں۔ میں ایوب خان کے دور سے لے کر اب تک سب کو دیکھ چکا ہوں، یقین کریں مجھے ایک بھی حکم راں اچھا نہیں لگا۔ اگر برا نہ مانیں تو میں سب کو چور لٹیرا کہنے میں حق بجانب ہوں۔ حال ہی میں زرداری دور میں جو ہوا ابھی ہم اُس کو رو رہے تھے کہ موجودہ حکم رانوں نے اُس سے بڑھ کر بدعنوانی کا بازار گرم کردیا۔ خدا جانے اب اس کے بعد کیا ہوگا۔

یقین کریں آج ایک بندہ اگر بیمار ہو جائے تو اُسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرے، سرکاری اسپتالوں کا اتنا برا حال ہے کہ وہاں پر سفارش کے بغیر ڈاکٹر آپ کو منہ نہیں لگاتے۔ رہا بجلی، پانی، گیس تو ان شعبوں میں اتنی زیادہ کرپشن ہوچکی ہے کہ اگر کسی کا اِن محکموں سے واسطہ پڑجائے تو وہ چند دنوں میں ہی پاگل ہوجاتا ہے۔ مجھے تو اِس حکومت کی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ سڑکیں اور پُل بناکر کس کا بھلا کرنا چاہتے ہیں، جب کہ ملک میں لاکھوں بچے اسکول جانے کے لیے ترس رہے ہیں اور کروڑوں بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ میڈیکل اور تعلیم کے شعبے میں جو رقم مختص کی جا رہی ہے اسے دیکھ کر ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم ایٹمی طاقت تو بن چکے ہیں لیکن خوش حالی سے کوسوں دور ہیں، جس دن ہم خوش حالی کے لیے سوچنا شروع کردیں گے پاکستان کے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔

٭ محمداکرم، حجام
اسلام آباد میں گوجرانوالہ کے 46 سالہ محمد اکرم کی باربر شاپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اب تک جو ترقی کی ہے وہ کچھوے کی چال سے کی ہے، جب کہ ہم ایٹمی ملک ہیں ہمیں دنیا میں اب تک ترقی یافتہ ملک بن جانا چاہیے تھا۔ میں پاکستان کو ایک ایسا ملک دیکھنا چاہتا ہوں کہ جہاں روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ ہوں، آج ہر پاکستانی یہاں سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں روزی رزق تلاش کرنے جا رہا ہے، اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر ایک مزدور کو اُس کی محنت کا معاوضہ اتنا نہیں ملتا جتنا دوسرے ممالک میں ملتا ہے۔

اگر ایک پاکستانی پاکستان میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد ایک ہزار روپیہ کماتا ہے تو وہ کسی دوسرے ملک میں جاکر آٹھ گھنٹے محنت کرنے کے بعد ڈھائی سے تین ہزار کمالیتا ہے۔ ہماری کرنسی کی ویلیو اسی وقت بہتر ہوگی جب ملک میں امن و امان قائم ہو گا اور یہاں سے دہشت گردی ختم ہوگی۔ محمد اکرم نے مزید کہا کہ پاکستان میں منہگائی کی شرح بہت بلند ہے، جب کہ لوگوں کی آمدن اِس سے بہت کم ہے۔ اس وجہ سے ہر بندہ پریشان نظر آتا ہے اور بہت سے لوگ اسی پریشانی کی وجہ سے بدعنوانی اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہوکر اسی ملک کی جڑیں کھودنے بیٹھ جاتے ہیں، اس جانب ہمارے حکم رانوں کو توجہ دینی چاہیے کہ وہ پاکستان کے شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی آسان بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔