گناہ گار اور تیس ہزار موسم

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 12 اگست 2016

اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ شہنشاہ جہانگیر کے دور اور آج کے دور میں کیا فرق ہے تو آپ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں طریقوں سے یہ فرق ثابت کردیں گے کہ آج کے دور اور شہنشاہ جہانگیر  کے دور میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔

آج کے انسان نے ترقی کی ان گنت منزلیں طے کرلی ہیں، آج کا انسان چاند پر پہنچ چکا ہے ، دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ انسان کا حلیہ ، لباس، رویے، طورطریقے، کلچر تہذیب،  سماج، معاشرے سب تبدیل ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود میں پھر بھی یہ ثابت کردوں کہ دنیا بھر کے انسان تو تبدیل ہوچکے ہیں لیکن ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں  کے اندر بیٹھا ہوا انسان آج بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ان کے رویے ان کی خواہشیں ان کی بھوک اور ان کا انداز حکمرانی آج بھی شہنشاہ جہانگیر کے دور ہی جیسا ہے تو پھرآپ کیا کہیں گے ہاں یہاں تک تو آپ کی بات بالکل سچ ہے کہ دنیا بھر کا انسان تبدیل ہوچکا ہے اور ان کے اندر بیٹھے ہوئے انسان بھی تبدیل ہوچکے ہیں ۔

آج دنیا بھر میں انسانیت نے ایک نیا مذہب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ آج دنیا بھر میں انسانوں کی پوجا کی جاتی ہے آج دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے کے دکھ ، تکلیفیں مل کر بانٹ رہے ہیں۔ زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جارہی ہے دنیا بھر میں اخلاقیات کی حکمرانی قائم ہوچکی ہے دنیا بھر کے انسان اپنی زندگی ہنسی ،خوشی اور اطمینان اور بے فکری کے ساتھ گذار رہے ہیں یہ تو ہوئی دنیا بھرکی بات اب ہم اپنے ملک کی طرف آتے ہیں اور جب ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم سب 20 کروڑ انسان سخت تکلیف میں ہیں سب دکھی ہیں سب اپنے اندر جل رہے ہیں ہم سب وہ کوڑھی بن چکے ہیں جن کے پاس آنا جن سے بات کرنا، جن کے مسائل حل کرنا ، کوئی بھی طاقتور، بااختیار اور اہل ثروت پسند نہیں کرتا ہے ۔

آنے یا بات کرنے یا مسائل حل کرنے کی بات تو چھوڑو ہماری طرف دیکھنا بھی انھیں گوارہ نہیں ہے اگر ان کی زندگی کے تمام رویوں اور انداز زندگی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس سے صاف پتہ چل جائے گا کہ ہمارے یہ تمام کے تمام حضرات زندگی اور اس کے اصل فلسفے سے بالکل ہی ناواقف اورسمجھ بوجھ کے لحاظ سے بالکل بنجر ہوچکے ہیں۔ ان تمام لوگوں کی سوچ خود سے شروع ہوتی ہے اور خو د پر ہی آکر ختم ہوجاتی ہے۔ لغت میں خود پسندی ، خود لذتی ،خودنمائی کے جتنے بھی معنیٰ لکھے ہوئے ہیں یہ سب ان پر پورے اترتے ہیں ۔

یہ سب خود پسندی ، خود لذتی اور خود نمائی میں اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ یہ تمام انسانی جذبات، احساسات کے لحاظ سے بانجھ ہوگئے ہیں، اگر آج سقراط ، ارسطو ، افلاطون ، برونو، گوئٹے ، فیثاغورث، گوتم بدھ ، کنفیوشس ، ہیر اکلیس ، اناکسا غورث، سولن ، پارمینا ئیڈز، ڈیماکریٹس، اپیی فورس، پلوٹینس زندہ ہوتے تو یہ سب حضرات ہمارے کرتا دھرتاؤں کی سو چ، فکر، انداز زندگی، رویوں کو دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھتے اوراپنے سارے فلسفوں کو نذرآتش کرکے اپنے کپڑے پھاڑ کر اور سر پر خاک ڈال کر یہ کہتے ہوئے جنگل میں نکل جاتے کہ ان سے تولاکھ درجے بہتر جانور ہیں کیوں نہ باقی زندگی ان کے ساتھ ہی گذار لی جائے ۔

جب آپ دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں تو آپ اپنا فا ئدہ کررہے ہوتے ہیں۔ کنفیوشس کہتا ہے ’’جو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے وہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کرو چونکہ تم اپنے لیے کامیابی کے متمنی ہو اس لیے دوسروں کو بھی کامیابی حاصل کرنے میں مدد دو۔‘‘ بل گیٹس سافٹ ویئر بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کا بانی ہے اور اس کا شمار دنیا کے موثر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ اس نے ہاورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’جس دن میں ہاورڈ میں داخل ہوا اس دن میری والدہ بہت خوش تھیں اور مجھے کہہ رہی تھیں کہ دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنے کا سوچو، میری شادی سے کچھ دن پہلے انھوں نے ایک تقریب کااہتمام کیا ۔اس میں انھوں نے میری بیوی ملینڈا کے نام لکھا ہوا خط پڑھا، میری والدہ اس وقت کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں لیکن اپنی سوچ دوسروں تک پہنچانے کے لیے انھوں نے اس تقریب سے فائدہ اٹھایا۔ اپنے خط کے اختتام پر وہ کہہ رہی تھیں کہ جن لوگوں کو زیادہ نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔ ان سے توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں اگر آپ نے ان لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا جن کی زندگیوں کو آپ تھوڑی سے کوشش سے بدل سکتے تھے تو آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کرتا رہے گا ‘‘۔ایک دن مجھے اس دنیا سے چلے جانا ہے ۔‘‘

اسیٹوجابز پرسنل کمپیوٹر کا موجد اور ایپل کمپنی کا بانی تھا۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا تھا ’’ جب میری عمر 17سال تھی تو میری نظر سے یہ مقولہ گذرا کہ اگر آپ ہر دن ایسے گذاریں کہ جیسے یہ آپ کی عمرکاآخری دن ہوتو آپ یقیناً ایک دن اس معاملے میں سچے ثابت ہوجائیں گے، میں اس سے بہت متاثر ہوا اس دن سے آج تک 33سال کے عرصے میں میری یہ عادت رہی ہے کہ میں روزانہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے آپ سے یہ سو ال کرتا ہوں کہ آج میری زندگی کاآخری دن ہو تو کیا میں وہ کام کرنا چاہوں گا جو مجھے آج کرنے ہیں جب بھی کئی دن اس سوال کا جواب مسلسل ’’نہیں‘‘ میں آتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ اب کچھ بدلنے کی ضرورت ہے ‘‘۔

جرمن صوفی مفکر ایکہارٹ کہتا ہے ’’خدا انسان سے بس اتنا چاہتا ہے کہ اس کا دل پر سکون ہو‘‘ انسان کا دل اسی وقت پرسکون ہوسکتا ہے جب وہ اپنے اندرکی ساری منفی چیزوں کو باہر نکال کر پھینک دے۔ یاد رہے ہم سب کے پاس اب وقت کم بچا ہے۔ ایک نہ ایک دن ہم سب کو اس دنیا سے چلے جانا ہے اب چونکہ وقت کم ہے تو ہمارے کرتا دھرتاؤں کو اپنے لیے کچھ وقت نکالنا ہی ہوگا اور جب وہ اپنے لیے وقت نکال لیں گے تو پھر انھیں یہ سوچنا ہی ہوگا کہ کیا وہ یہ جو زندگی گذار رہے ہیں اس قابل بھی ہے جو ان کے جانے کے بعد بھی یاد رکھی جائے کیا وہ صرف اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے ہی فائدہ مند رہیں گے اور کیا دوسروں کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ہی رہیں گے اور لوگوں کو اسی طرح سے ستاتے رہیں گے انھیں اسی طرح رلاتے رہیں گے ۔

یاد رکھو ہر ایک کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی ۔ ارواح پر کڑا ایمان رکھنے والے عظیم یونانی مفکر ایمپی ڈو کلیز نے اعلان کیا تھا کہ ’’گناہ گاروں کو 30,000 ہزار موسموں تک مختلف جسموں میں جنم لینا ہوگا، اس سزا سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘‘ اب ہمارے کرتا دھرتاؤں پر منحصر ہے کہ انھوں نے اپنے لیے کیا سو چ رکھا ہے۔ ذہن میں رہے خواہشیں مرنے کے بعد مرجاتی ہیں اس کے بعد نہ تو آپ کے عہد ے کسی کام کے رہتے ہیں نہ شان و شوکت اور نہ ہی خزانے کام آتے ہیں پھر صرف اور صرف آپ کے اعمال کے مطابق آپ کا حساب کتاب ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔