قربانیاں دینے والی فوج پر تنقید کرنے والے کس کی ڈیوٹی پر ہیں؟

رحمت علی رازی  اتوار 14 اگست 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

دہشت گردی کا عفریت ہے کہ مظلوم پاکستانی عوام کا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں، اس پر مستزاد کہ مجبور و مقہور عوام پہلے ہی بے مقصد کاموں میں الجھے مہا کلاکار حکمرانوں کی روایتی سیاست کے ہتھکنڈوں کا شکار ہیں، پے در پے سانحات، حادثات اور ناخوشگوار واقعات کسی نہ کسی شکل میں آئے روز انھیں ایامِ سیاہ منانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں، کوئٹہ کا حالیہ دلخراش سانحہ پاکستان پر قیامت بن کر ٹوٹا مگر کچھ راندئہ درگاہ احباب کی اپنی ہی ایجنسیوں اور پاک فوج پر زہرافشانی محبانِ وطن کو اور بھی افسردہ کر گئی۔

کوئٹہ سول اسپتال کے اندوہناک واقعہ سے دو روز قبل اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے پاک فوج پر جس طرح کیچڑ اچھالا وہ سب کے سامنے ہے، ابھی اس ہرزہ سرائی پر تبصرے اچھل رہے تھے کہ وزیراعظم پاکستان کے خاص اتحادی محمود اچکزئی لنگوٹ کس کر پاکبازوں کے اکھاڑے میں اُتر پڑے اور سانحہ کوئٹہ کی آڑ میں اپنے من کی ساری بھڑاس انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پاک فوج کے کردار و کارکردگی پر نکال دی، جنابِ لیڈر صاحب نے اسمبلی فلور پر سینہ تان کر ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کی حمایت و تحفیظ کی اور پاک اداروں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے ان کی حب الوطنی کے تمام چاک کھل کر سامنے آگئے۔

ان دو افغانستان پرستوں کے بعد ایک تیسرے مردِ آہن مولانا فضل الرحمن سے بھی صبر نہ ہوا تو انھوں نے بھی ’’را‘‘ کو کلین چٹ دیتے ہوئے اپنے بھائیوں کے بیانات کی بھرے میڈیا میں تائید کی اور پارلیمان سے یہ تقاضا بھی کر ڈالا کہ پیمرا کو کہہ کر میڈیا کی سرزنش کی جائے کہ وہ معزز ارکانِ پارلیمنٹ کو غدار کہنے والوں کے بیانات نشر نہ کرے۔ متذکرہ اصحاب کی وطن دوستی پہلے بھی کئی مواقع پر عیاں ہوتی رہی ہے، یقینا اس کا نزلہ نوازشریف پر ہی گرا ہے کیونکہ محمود اچکزئی اور فضل الرحمن ان کے سیاسی حلیف ہیں اور یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ان کی رضا کے خلاف ایسے نازک موقع پر پاک فوج اور ایجنسیوں کا مورال پست کریں۔

یہ تو اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی تین برس پہلے اور آج کی صورتحال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے معیشت میں مجموعی طور پر مثالی بہتری آئی، اس کی ایک مثال رواں ہالیڈے سیزن ہے جس میں50 لاکھ سے زائد سیاحوں نے تاریخی سیاحتی سیزن منایا، پاکستان میں سیاحت کا ایسا ماحول اس سے پہلے کئی سالوں سے نظر نہیں آیا۔

کوئٹہ خودکش حملے کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی نظر آ رہی ہے، پہلے بلوچستان بار کونسل کے صدر کو ٹارگٹ کیا گیا اور جب وکلاء انور کاسی کی میت لینے اسپتال پہنچے تو وہاں خودکش حملہ کر دیا گیا، کوئٹہ میں اس طرح کی دہشتگردی انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ پچھلے دنوں بلوچستان سے بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بڑے نیٹ ورک پکڑے گئے۔ بلوچستان میں معاملہ صرف مزاحمت کاروں کا نہیں، وہاں70 فیصد مشتبہ دہشتگرد سیکیورٹی اداروں کی پہنچ سے دور ہیں اور ان کے ٹھکانوں کا کسی کو پتہ نہیں ہے، یہ دہشتگرد صرف امن کے لیے نہیں پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے والی پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

بلوچستان میں داعش اور تحریک ِطالبان پاکستان بھی پاؤں جمانے لگے ہیں جو اصل خطرے کی گھنٹی ہے، پچھلے حملوں میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغانستان سے بلوچستان آئے اور یہاں لشکرِ جھنگوی نے ان کی مدد کی۔ کوئٹہ سول اسپتال میں خودکش دھماکا بلاشبہ بڑا سانحہ ہے، دنیا کی تاریخ میں شاید ہی ایسا ہوا ہو جب دہشتگردی کے کسی واقعہ میں اتنی بڑی تعداد میں وکلاء نشانہ بنے ہوں۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے حال ہی میں افغانستان کی این ڈی ایس کو بلوچستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے لیے کل بھوشن جیسے کندھے اور ملین ڈالرز فراہم کیے ہیں۔

لشکرِ جھنگوی، کالعدم تحریک ِطالبان یا جماعت الاحرار، ان کے سیکڑوں، ہزاروں لوگ ضربِ عضب کے نتیجے میں یا تو مارے گئے یا افغانستان میں پناہ گزین ہیں، قندھار اور ہلمند تک یہ لوگ پھیلے ہوئے ہیں، ان کی وہاں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور یہ وہیں سے پاکستان میں دہشتگردی کرتے ہیں، دہشتگرد پاکستانی عوام سے انتقام لے رہے ہیں کیونکہ پاکستانی عوام ان کی حمایت نہیں کرتے، حکومتی اور سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں انکو ناکامی ہوئی ہے۔ جماعت الاحرار ٹی ٹی پی کا ایک دھڑا ہے، اس کے سربراہ کا نام عبدالولی یا عمر خالد خراسانی بھی تھا، منگل باغ کے مرنے کی بھی خبر آئی، جماعت الاحرار کے کئی اہم لوگ بھی مارے گئے، بدیں وجہ یہ انتقام لینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ امریکیوں پر حملے کرنے کے بجائے پاکستانی عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

کوئٹہ میں دہشتگردی ظاہر کر رہی ہے کہ یہ صرف دہشتگردی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی منظم ایجنسی ہے، ایسی منظم کارروائی کوئی سیکرٹ ایجنسی ہی کر سکتی ہے۔ پاک فوج نے تو آپریشن ضربِ عضب میں دہشتگردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کی اور ان کے تمام ٹھکانے تباہ کر دیے، آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے اپنا کردار ادا کر دیا لیکن نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بغیر دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ تحفظِ پاکستان ایکٹ کی تجدید نہ کرنے کا ذمے دار کون ہے؟ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور تحفظِ پاکستان ایکٹ کی تجدید کے بغیر آپریشن ضربِ عضب کبھی مکمل نہیں ہو سکتا اور یہ سب کام سول حکومت کے کرنے کے ہیں۔

بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات تواتر سے جاری ہیں، دو ہفتوں میں 9 واقعات ہو چکے ہیں، پہلے ایک قومی پرچم فروخت کرنیوالے کو قتل کیا گیا، ایف سی گاڑیوں پر حملے ہوئے، اہلکار شہید کیے گئے، پھر کوئٹہ کا افسوسناک سانحہ اور اب ایک جج کی گاڑی پر حملہ ہوا ہے۔ سانحہ کوئٹہ میں را، این ڈی ایس، سی آئی اے اور موساد چاروں کا مشترکہ ہاتھ ہو سکتا ہے، دہشتگردی کے واقعات کو انفرادی طور سے نہ دیکھا جائے، اس وقت بلوچستان کی علیحدگی کے حوالے سے امریکا، برطانیہ، دہلی اور یروشلم میں بڑی میٹنگز ہو رہی ہیں اور سی پیک کی تکمیل سے قبل امریکا اور بھارت بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر دینا چاہتے ہیں۔

بلوچستان میں وزیرستان کی طرز پر  کوئی آپریشن نہیں کیا گیا۔ صوبے میں چار عناصر کی جانب سے مداخلت ہو رہی ہے، مختلف علاقوں میں شرپسندوں کے بہت سے گروہ موجود ہیں لیکن وہاں کارروائی نہیں کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کے وزیرستان میں معیار کچھ اور، جب کہ بلوچستان میں کچھ اور ہیں۔ بلوچستان میں بغاوت کرنیوالے عناصر کو طاقت سے دبانے کا کوئی چارہ نہیں کیا گیا۔ دہشتگرد اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے کر رہے ہیں، حکمرانوں کے پاس ویژن ہے نہ ہی اہلیت، انھیں صرف میٹرو، اورنج ٹرین اور دیگر بے مقصد منصوبے بنانے کی پڑی ہے۔

پاکستان کو اس وقت اہل، نڈر اور متحرک قیادت کی ضرورت ہے۔ حکمران اپنی نااہلیوں کے سبب بھارت اور افغانستان کو منہ توڑ جواب بھی نہیں دے سکے، بدقسمتی سے اس وقت سیاستدانوں کا کام بھی فوج کر رہی ہے۔ کیا آج تک حکمرانوں نے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں کوئی بریفنگ دی ہے؟ کیا ضربِ عضب سے متعلق کبھی پارلیمنٹ کو آگاہ کیا گیا؟ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے کتنے نکات پر عمل ہوا؟ آرمی چیف کو کومبنگ آپریشن کی بات پھر کرنا پڑ گئی، پہلے بھی انھوں نے بالخصوص جنوبی پنجاب میں کومبنگ آپریشن کی بات کی تھی لیکن وہاں آپریشن نہیں کرنے دیا گیا۔

کلبھوشن یادیو کے پکڑے جانے کے بعد تو بڑی گرفتاریاں ہونی چاہیے تھیں لیکن اس کا معاملہ ہی گول کر دیا گیا۔ بھارت اپنے اندرونی معاملات اور کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو دنیا سے چھپانے کے لیے بلوچستان میں گڑبڑ کرتا ہے۔ بلوچستان میں تین طرح کی دہشتگردی ہو رہی ہے، فرقہ وارانہ، مذہبی اور بیرونی عناصر کے ساتھ نیشنلسٹ کہلوانے والے لوگ اس میں شامل ہیں۔ بلوچستان میں امن میں خاطرخواہ بہتری نظر آ رہی تھی، اس لیے اگست میں بڑی خبر بنانے کے لیے دہشتگردی کی گئی۔ دہشتگردوں کو ہمیشہ بیرونی سپورٹ کی وجہ سے تقویت ملتی ہے، اگر افغانستان سے یہ کٹھ پتلیاں مانیٹر ہو رہی ہیں تو اس کا اثر بالآخر افغانستان پر بھی پڑیگا کیونکہ یہ دہشتگرد پاکستان اور افغانستان کے بارڈرز پر ہی گھومتے ہیں۔

اسی مسئلہ کے حل کے لیے آرمی چیف نے چین میں ہونیوالے دہشتگردی کے خلاف چار ممالک کے حالیہ اتحاد کوخوش آیند قرار دیا ہے، اس اتحاد میں اگر ایران کو بھی شامل کر لیا جائے تو پاکستان کے لیے اور بھی بہتری کے آثار ہیں، بھارت اس خطہ میں بہت زیادہ مداخلت کر رہا ہے، پاکستان، چین، افغانستان اور تاجکستان کے اس اتحاد میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایک تو پاکستان کا افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ تعلق ختم ہو گیا ہے۔

ہم نے افغان طالبان کے خاندانوں کو یہاں سے نکالا، ایران نے انکو گلے لگا لیا، یہ خالصتاً ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا ہی شاخسانہ ہے۔ دوسرے یہ کہ سی پیک چونکہ بلاواسطہ ان ممالک سے گزرتی ہے لہٰذا یہ اتحاد پاکستان اور خطہ کے لیے فائدہ مند اور دہشتگردی کے خلاف اہم کردار ادا کر سکتا ہے، بھارتی کوشش کے باوجود اسکو اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا جو اس کے لیے سیٹ بیک ہے کیونکہ بھارت پاکستان میں دہشتگردوں کو فنڈنگ کر رہا ہے اور اس کا اثر افغانستان پر بھی بہت زیادہ ہے، ان سب چیزوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے یہ زبردست اقدام ہے۔ اب ہمیں اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک موجودہ دور کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق بڑھانا پڑیگا۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگرد سوچ کے خاتمہ کے لیے مدرسہ اتھارٹی ابھی تک قائم نہیں کی گئی، کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر قانون سازی نہیں ہوئی، یہ تنظیمیں نام بدل کر ابھی تک فعال ہیں، خارجہ پالیسی کا سکیورٹی حالات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پاکستان کے دو پڑوسی بھارت اور افغانستان ہمارے خلاف ہیں جب کہ تیسرے پڑوسی ایران کی نظریں بھی بدل رہی ہیں، ہمیں افغان مہاجرین پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور ایک فورس بنا کر انھیں بتدریج واپس دھکیلنا چاہیے۔

سکیورٹی ایجنسیوں کی رات دن کی محنت کے بعد انفرادی طور پر دہشتگرد اب کسی بھی دھماکے کی ذمے داری قبول کرنے کو ترس گئے ہیں، کوئٹہ میں دھماکا ایک ہوا لیکن ذمے داری تین دہشت گرد تنظیمیں قبول کر رہی ہیں، مختلف کالعدم اور دہشتگرد تنظیموں کے درمیان کوئٹہ خودکش حملہ کی ذمے داری قبول کرنے کا مقابلہ چل رہا ہے، اب تک جماعت الاحرار، داعش اور حکیم اللہ محسود گروپ، کوئٹہ حملے کی ذمے داری قبول کر چکے ہیں مگر ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے، اگر داعش کوئٹہ حملے میں ملوث ہے تو یہ داعش کی پاکستان میں براہ راست پہلی کارروائی تصور ہو گی، سوال یہ بھی ہے کہ یہ تنظیمیں اس گھناؤنی کارروائی کی ذمے داری کیوں قبول کر رہی ہیں؟

جماعت الاحرار کئی دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، امریکہ نے اسے دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے لیکن اب تک پاکستان میں اس جماعت پر پابندی نہیں لگائی گئی! اگر غیرملکی ایجنسیاں اتنی طاقتور ہیں کہ بار بار کارروائیاں کرتی ہیں تو اس کی روک تھام کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ اس پر وزیراعظم کوچاہیے کہ عوام کو اعتماد میں لیں۔ حکومت کے پاس ایسی معلومات تھیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں کوئی بڑا واقعہ رونما کروا سکتا ہے۔

سارک کانفرنس کے بعد پاک بھارت تعلقات بہت خراب ہوئے۔ چوہدری نثار نے کانفرنس میں نہایت دانشمندی اور ہوشمندی کے ساتھ معاملات کو ہینڈل کیا مگربھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے بہت نازیبا تقریر کی جس کا چوھردی نثار نے منہ توڑ جواب دیا اور ہمارے  عوام نے اسے دل کی آواز قرار دیا، راج ناتھ ہی سارک کے پلیٹ فارم پر باہمی تنازعات لے کر آئے، انھوں نے اپنی تقریر میں کہا، ’’جو ممالک دہشتگردی کے پیچھے کھڑے ہیں ہم انھیں برداشت نہیں کرینگے‘‘۔ پاکستان میں آ کر پاکستان کے خلاف ان الفاظ میں خطاب کرنا کیسے درست قرار دیا جا سکتا ہے؟

بھارتی وزیر داخلہ کی ہٹ دھرمی اور متکبرانہ رویہ کی وجہ سے سارک کانفرنس ناکام ہوئی ، راج ناتھ شاید یہ تصور کر بیٹھے تھے کہ وہ اسلام آباد میں نہیں بلکہ دہلی میں موجود ہیں، وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ کشمیر کی صورتحال کا ذکر نہیں ہو گا اور وہ اپنا رٹا رٹایا موقف بیان کر دینگے اور سب اس کو خاموشی سے سن لیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ چوہدری نثار دبنگ آدمی ہیں، انھوں نے اچھا مقدمہ پیش کیا مگر صرف الفاظ ادا کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومتی پالیسیوں سے پاک بھارت تعلقات میں فرق نظر آتا ہے یا دوری میں اور اضافہ ہوتا ہے، ہم تو حکمرانوں سے کہیں گے کہ وہ90 سالہ بابے کی بجائے چوہدری نثار کو ہی وزیر خارجہ بنا دیں تو وہ اس محاذ پر دشمن ممالک کے ساتھ حساب برابر کر سکتے ہیں۔

سارک کانفرنس میں وزیراعظم کے خطاب کا مقصد پاناما لیکس پر سے توجہ ہٹانا تھا جب کہ انھوں نے یہاں بھی کشمیر کا مسئلہ نہیں اٹھایا جس سے عوام کی نظر میں ان کی ساکھ اور بھی کمزور ہوئی، اب لگتا یہ ہے کہ اور کچھ نہیں تو پانامہ ایشو پر ان کی جان نہیں چھوٹے گی اور انھیں مستقبل قریب میں مختلف فورمز پر قانونی ریفرنسوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ حکومت کی سمت اسلیے واضح نہیں کہ وزیراعظم اپنے کام میں یکسو نہیں ہیں، وہ بلوچستان ایسے جاتے ہیں جیسے کسی تقریب میں شرکت یا تعزیت کے لیے جا رہے ہوں، وہاں بیٹھتے کیوں نہیں؟ پولیس میں اصلاحات کیوں نہیں کی جا رہیں؟

وزیراعظم بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کیوں بیتاب ہیں؟ وہ بھارت کے خلاف اس وقت ہی کیوں بولتے ہیں جب ان پر دباؤ ہوتا ہے؟ سانحہ کوئٹہ کے بعد پہلی بار ’’را،، کا نام کھل کر لیا گیا، ہمیں صرف ماتم کرنا ہے یا منصوبہ بندی بھی کرنی ہے؟ نیکٹا، حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، حکمران بتائیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ ضربِ عضب کو کیوں صرف ایک ملٹری آپریشن تک محدود رکھا ہوا ہے؟ سب لوگ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے بنیادی فیصلے کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ بنیادی فیصلوں کے بارے میں بتائیں، اس کا مطلب ہے یہاں کچھ گڑبڑ ہے۔

حکومت کی ترجیحات میں دہشتگردی کا خاتمہ نہیں بلکہ وقت گزارنا ہے، نیشنل ایکشن پلان کی ایک بھی شق پر عمل نہیں کیا گیا جسکا نتیجہ ہمیں لاشوں کی صورت میں مل رہا ہے۔ 3 سال ہو چکے، ابھی تک نیکٹا کی ایک میٹنگ تک ہو سکی اور نہ ہی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آپس میں کوآرڈی نیشن بہتر ہو سکی ہے، جب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا وقت آیا تو سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات آڑے آ گئے، کاغذوں کی حد تک تو نیکٹا اب دہشتگردی سے نمٹنے کا سب سے مؤثر ادارہ ہے مگر وزیراعظم نے نہ صرف نیکٹا کے اعلیٰ سطح کے طاقتور بورڈ کا ہی کوئی اجلاس بلایا نہ ہی اس کے لیے دفتر بن سکا اور نہ ہی اسے فنڈز دیے گئے حالانکہ قانون کے مطابق اس بورڈ کا اجلاس ہر تین ماہ بعد طلب کرنا ضروری ہے۔

پاکستان واحد ملک ہے جہاں30 سے زائد انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیاں کسی کوآرڈی نیشن کے نظام کے بغیر کام کر رہی ہیں۔ نیکٹا کو صرف اسی صورت میں طاقتور بنایا جا سکتا ہے کہ اسے وزارت داخلہ کے بجائے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل حاضرسروس جنرل کو سربراہ بنایا جائے، وزیراعظم اور آرمی چیف بھی اس ادارے پر کڑی نظر رکھیں، اسے مکمل طور پر فری ہینڈ دیا جائے اور ٹارگٹ بھی دیے جائیں۔

اس سے یہ امر یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ اب اس ادارے کو مزید نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور ایجنسیوں کے مابین ہم آہنگی بھی پیدا ہو سکے گی، تاہم یہ امر بھی حقیقت ہے کہ اگر چوہدری نثار جیسے دبنگ وزیر داخلہ کی موجودگی میں نیکٹا طاقتور نہیں بن سکتا تو کوئی اور اسے طاقتور بنا بھی نہیں سکتا، فائلوں کی حد تک نیکٹا انتہائی طاقتور ادارہ ہے کیونکہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سربراہی وزیراعظم کر رہے ہیں اور اس کے ارکان میں تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان، وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر، وزیرداخلہ، وزیر قانون، وزیردفاع، وزیرخزانہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی انٹیلی جنس بیورو، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس، ڈی جی ایف آئی اے، چیف سیکرٹریز، چاروں صوبوں کے آئی جیز، سیکرٹری داخلہ اور دیگر شامل ہیں۔

اگر نیکٹا کو مطلوبہ فنڈز مہیا کر کے اس کا اسٹاف بھرتی کر لیا جائے اور ہر صوبہ میں اس کے دفاتر بھی قائم کر لیے جائیں تو دہشتگردی پر ہرحال میں قابو پایا جا سکتا ہے، سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد لوگوں میں ایک جذبہ اور امید کی کرن تھی کہ ہماری پرانی پالیسیاں بدل جائینگی لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ وہ پالیسیاں نہیں بدلی گئیں اور پرانی پالیسیوں کی جھلکیاں آج بھی ہمیں نظر آ رہی ہیں، پاکستان میں سیاسی جماعتیں طالبان کی پرورش کرنیوالے مدرسوں کو پیسے دیتی ہیں، اس صورت میں سیاسی جماعتوں کو دہشتگردی کے خلاف متحد نہیں کیا جا سکتا۔

اس کام کے لیے عوام کو خود میدانِ عمل میں نکل کر پاک فوج کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہونا ہو گا اور پاکستان کا دفاع خود کرنا ہو گا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دہشتگردوں کی بزدلانہ کارروائیوں کے لیے ہمیں سب کو بحیثیت ِمجموعی اپنی اپنی بساط کے مطابق ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا، اس جنگ میں کامیابی کے لیے سکیورٹی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔کچھ لوگ پردوں میں بیٹھ کر اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جتنے دہشت گرد حملے روکے ہیں انھیں بھی سامنے رکھا جائے، ادارے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے مطابق کام کر رہے ہیں، انھی کی بدولت آج پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں یکسر تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ہمیں ان کی بیشمار قربانیوں اور حاصل ہونے والی کامرانیوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا، کسی ایک حادثے کے بعد اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانا قطعاً درست اقدام نہیں ہے۔ محمود اچکزئی پہلے بتائیں ان کے گھر میں سے کس نے قربانی دی، پھر وہ سوال کرنے کے قابل ہونگے، سوال کرنے کا حق صرف اسے ہوتا ہے جو پہلے اپنا کام مکمل کرے۔ افسوس فقط اس بات کا نہیں کہ حکومت کے ایماء پر اس کے چند سیاسی سلیپر سیل افواجِ پاکستان پر انگشت نمائی کر رہے ہیں بلکہ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ میڈیا کے کچھ نام نہاد روشن خیال اپنی شکم سیری کے لیے ایسے ایسے عجیب و غریب تجزیے پیش کر رہے ہیں جو ملکی سلامتی کو بری طرح نقصان پہنچا رہے ہیں۔

شاید ایسے ہی منطبق کاروں سے مجروح ہو کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جمعہ کو جی ایچ کیو میں ہونیوالے اجلاس میں یہ نکتہ اٹھانا پڑا کہ کچھ حلقوں کے منفی تجزیوں نے آپریشن ضربِ عضب کو سخت نقصان پہنچایا۔ جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ ’’نیشنل ایکشن پلان پر پیشرفت نہ ہونے سے آپریشن ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے، بعض حلقوں کے بیانات اور تجزیے قومی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں، فریقین کی طرف سے بامعنی اور مناسب اقدامات نہ ہونے سے امن قائم نہیں ہو گا، نیشنل ایکشن پلان ہمارے مقاصد کے حصول کا مقصد ہے۔

دہشتگردی کے خلاف طویل جنگ اختتام کے قریب ہے، پاکستانی سرزمین سے دہشتگردی کی لعنت کا خاتمہ کر کے رہیں گے، پوری قوم سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، تمام ادارے باہمی تعاون سے شدت پسندی کا خاتمہ یقینی بنائیں‘‘۔  آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور قومی سلامتی کے مشیر نے وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں بھی اس نکتے کو اٹھایا تھا کہ ایسے بیانات کو فوج میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ سکیورٹی فورسز کے جوان وطن عزیز کے لیے اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن ان کے اپنے سویلین نمایندے ہی ان کے خلاف ایسے بیانات دیکر ان کا مورال گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایسے بیانات تو اشرف غنی کی جانب سے بھی نہیں سننے کو ملتے جیسے راگ محمود اچکزئی اور ان کے ہم نوا الاپتے دکھائی دیتے ہیں۔ تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ آرمی چیف کے اس بیان کے ردِعمل میں کچھ تشنج زدہ تجزیہ کاروں نے اور بھی طنز و تشنیع کا انداز اپنا لیا اور اپنی خاص ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے ایک بار پھر فوج کو اپنے منفی تیروں کا نشانہ بنایا، ایک دو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس طرح کے بیانات آرمی چیف کے حلقۂ اختیار میں نہیں آتے بلکہ یہ کام وزیر دفاع کا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس میں سارا قصور الیکٹرانک میڈیا کو دی گئی مادر پدر آزادی کا ہے جس نے ایک انوکھی طرز کی صحافت پاکستان میں متعارف کروائی ہے۔

میڈیا نے ایسے احباب کو بھی اینکرز اور تجزیہ کار بنا دیا ہے جنہوں نے زندگی میں کبھی چار سطور کی خبر بھی رپورٹ نہیں کی اور ہفتہ بھر کے لیے بھی کبھی کسی صحافتی ادارے سے منسلک نہیں رہے نہ ہی کبھی انھوں نے کسی تجربہ کار صحافی کی شاگردی اختیار کی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی یہ بے لگام روش نہ صرف پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کو کمزور کر رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائی اور سبکی کا بھی سبب بن رہی ہے، امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی پاکستان کے میڈیا کو ضرورت سے زیادہ آزاد قرار دے چکے ہیں۔

ہر ملک کے اپنے داخلی و خارجی ضوابط ہوتے ہیں، ہر حکومت کی کچھ نپی تلی پالیسیاں ہوتی ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں موجود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اپنا لائحہ عمل طے کر کے اس پر چلنا پڑتا ہے، سلامتی اُمور اور خارجہ سطح کے معاملات اسقدر حساس ہوتے ہیں کہ اس بابت ہر ملک کے میڈیا کو اپنی حکومت کے ضوابط کار کے مطابق عمل کرنا پڑتا ہے مگر ہمارا میڈیا معاشرتی، قانونی و اخلاقی حدود پھلانگ کر بریکنگ نیوز کی دوڑ میں غلطاں و پیچاں ہے! میڈیا پر چیک رکھنے کے لیے پیمرا جیسا ادارہ موجود ہے لیکن اس نے ان اینکرز پر پابندی لگانا شروع کر دی ہے جو حکمرانوں کو روزانہ آئینہ دکھاتے ہیں۔

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ پی بی اے نے بھی پیمرا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ٹی وی اینکروں پر لگائی گئی پابندیوں کی مذمت تک نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے کے عہدیداران و ممبران کو اعتماد میں لے کر کوئی ایسا قانون بنایا جائے جو اس طرح کی کارروائیاں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کر سکے ورنہ اگر ناتجربہ کار اور صحافیانہ بیک گراؤنڈ سے عاری بیوروکریٹوں کا تیارکردہ کوئی بھی قانون ابہام سے بھرپور اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کچلنے کے مترادف ہوگا۔

ملک دشمنوں نے پاکستان کو چاروں اطراف سے اور ہر محاذ پر گھیر رکھا ہے، اگر وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے والے میڈیا میں گھسے ہوئے ہیں تو یہ بات اور بھی افسوسناک ہے کہ ان جیسے بہروپئے، سیاستدانوں کے بھیس میں اسمبلیوں میں بھی موجود ہیں جو لوہے کو گرم دیکھ کر ایسی کاری ضرب لگاتے ہیں کہ پاکستان کے سارے ڈھیلے بل کس تن جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں محمود اچکزئی اور فضل الرحمن جیسے اور بھی بیسیوں سیاستدان موجود ہیں جو پاکستان کا نمک کھا کر بھی بھارت اور افغانستان کے گن گاتے ہیں۔

اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر را، این ڈی ایس اور موساد کو معصوم قرار دینا اور اپنی فوج اور ایجنسیوں پر انڈر گراؤنڈ دہشتگردی اور ناکامی کے لیبل چسپاں کرنے کے بعد کیا قانون انھیں پاکستانی قرار دیتا ہے؟ کیا انھوں نے ایسے بیانات دیکر اپنے حلف سے انحراف نہیں کیا؟ کیا قانون ایسے سیاستدانوں پر غداری کے مقدمات قائم کرنے کا عندیہ نہیں دیتا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو سیاسی لحاظ سے نشانِ عبرت نہ بنایا گیا تو ملکی سلامتی کے اداروں اور افواجِ پاکستان کا وقار غیرمعمولی مجروح ہو گا۔

اس سے پہلے کہ یہ لوگ پاکستان کی جغرافیائی اکائیوں کو نقصان پہنچائیں، حکومت کو چاہیے کہ ایسے حلیفوں سے فی الفور علیحدگی کا اعلان کرے اور نیشنل ایکشن پلان میں ترمیم کر کے اس میں ایسی شق داخل کی جائے جسکی رُو سے افواجِ پاکستان اوراس سے متعلقہ ایجنسیوں کی کردار کشی کرنیوالی شخصیات اور ان کی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر کے ان پر غداری کے مقدمات قائم کیے جائیں اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔