ایک ہی راستہ

مقتدا منصور  پير 15 اگست 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سانحہ کوئٹہ ذہن سے نکل ہی نہیں پا رہا کہ کسی اور جانب دیکھا یا سوچا جا سکے۔ کیا غضب ہوا ہے کہ ایک ایسا صوبہ، جہاں ویسے ہی خواندگی کی شرح بہت کم ہے، ستر کے قریب عالی دماغ دہشت گردی کا نشانہ بن کر پیوند خاک ہو گئے۔ ویسے تو پورا ملک ہی کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی عفریت کا شکار ہے۔ مگر بلوچستان جس طرح گزشتہ 68 برسوںکے دوران مختلف حیلوں بہانوں سے خون میں نہلایا جاتا رہا ہے، ایک داستان الم ہے۔ کبھی ریاستی، کبھی غیر ریاستی عناصر کی چیرہ دستیاں اس صوبے کے عوام کی زندگیوں میں زہر گھولنے کا باعث بنتی رہی ہیں۔ آج بھی بلوچستان کچھ اپنوں، کچھ پرائیوں کے لگائے زخم چاٹ رہا ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اپنے قیام کے وقت ہی سے دو متضاد بیانیوں (Narratives) کا شکار کر دیا گیا۔ ایک بیانیہ بانی پاکستان اور عوام کی اکثریت کا ہے، جب کہ دوسرا بیانیہ اسٹبلشمنٹ کا جبراً مسلط کردہ ہے۔ بانی پاکستان کی پوری سیاسی زندگی بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ بمبئی کرانیکل پر پابندی کے خلاف احتجاجاً اس کے بورڈ سے استعفیٰ ہو یا 1926ء کے لیبر قوانین کے ڈرافٹ کی تیاری ہو، جس میں نوآبادیاتی دور میں محنت کشوں کو وہ حقوق دیے گئے، جو آج قومی حکومتی ادوار میں بھی ممکن نہیں، جناح پیش پیش نظر آئیں گے۔ 1916ء سے 1946ء کے دوران 30 برس کے عرصے میں ان کی سیاست کا محور برٹش انڈیا میں صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا حصول تھا۔

وہ رہنما، جب اپنے سیاسی وژن اور سیاسی وقانونی جدوجہد کی طویل تاریخ کے ساتھ نئے ملک کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتا ہے، تو اس کی سوچ، بصیرت اور خواہشات الفاظ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ وہ اپنی طویل جدوجہد کو عملی شکل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر انگریز کی تنخواہ دار اور نمک خوار بیوروکریسی کچھ اور ہی منصوبہ بنا چکی تھی۔ اس کے سرخیل چوہدری محمد علی اس بیانیہ کی بنیاد رکھتے ہیں، جو بانی پاکستان کے بیانیہ سے کلیتاً متصادم تھا۔ ان کے حکم پر بابائے قوم (Father of nation) کی تقریر قیام ملک سے تین روز قبل سنسر کر دی جاتی ہے۔ اس شخص کی تقریر سنسر ہوتی ہے جو بمبئی کرانیکل پر پابندی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور احتجاجاً اس کے بورڈ سے مستعفی ہو جاتا ہے۔ ان علما و اکابرین کو اس ملک میں آنے کی خفیہ دعوت دی جاتی ہے، جو 13 اگست 1947 تک نہ صرف قیام پاکستان کی مخالفت کرتے رہے تھے، بلکہ اس کے بانی کے خلاف ہزیان بھی بکتے رہے تھے۔

ایک اور المیہ یہ تھا کہ جناح کی اپنی جماعت میں ان کے وژن اور بیانیہ کو سمجھنے اور اسے پھیلانے کی خواہش رکھنے والی کوئی دوسری ہمہ گیر شخصیت نہیں تھی۔ جب کہ چوہدری محمد علی کے متعارف کردہ جذباتی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے اسٹبلشمنٹ کی فوج ظفر موج کے علاوہ وہ مذہبی جماعتیں موجود تھیں، جنھیں اس مقصد کے لیے نئے ملک میں مدعو کیا گیا تھا۔ خود مسلم لیگی قیادت کی ایک بڑی تعداد بھی اسی سحر میں مبتلا تھی۔ چنانچہ قرارداد مقاصد وہ پہلی چھری تھی، جو دانستہ جناح کے بیانیہ کی کمر میں گھونپی گئی۔ اس کے بعد وہ راستہ کھل گیا، جو آج کے منظرنامہ تک پہنچتا ہے۔ اس بیانیہ کے نتیجے میں 69 برسوں کے دوران ریاست اور عوام کے ساتھ کیا ہوا اور کسے فائدہ پہنچا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔

جناح کے تصور پاکستان کی کمر میں دوسری چھری وفاقیت کو رد کرتے ہوئے ملک کے دونوں حصوں میں پیریٹی کے نام پرکیا گیا ایڈونچر تھا۔ جس کے نتیجے میں مغربی حصے میں ون یونٹ قائم کیا گیا، جس نے چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان کو پنجاب کی کالونی بنا دیا۔ تیسری چھری 1973ء کے آئین میں دوسری آئینی ترمیم اور چوتھی چھری افغان قضیہ میں پاکستان کو الجھانا تھا۔ اگر ون یونٹ نے قومیتی اور لسانی عصبیتوں کو فروغ دیا، تو دوسری آئینی ترمیم اور افغان قضیہ میں الجھنے کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت میں اضافہ ہوا۔ جس طرح کراچی کے وسائل کو ہڑپ کرنے کے لیے ’’منی پاکستان‘‘ کا راگ الاپا گیا، اسی طرح پاکستان کو ’’اسلام کا قلعہ‘‘ قرار دے کر عام پاکستانی مسلمان کے جذبات کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔

ہمارے منصوبہ سازوں اور اسٹیبلشمنٹ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جناح کے بیانیہ سے روگردانی کی اس ملک اور عوام کو کتنی بڑی قیمت چکانا پڑی ہے اور آج تک چکائی جا رہی ہے۔ کسی نے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ناقدانہ جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کیا موجودہ حالات وفاقیت اور ہمہ دینیت سے مسلسل انکار کا نتیجہ نہیں ہیں؟ اگر وفاقی اکائیوں کی حیثیت اور حقوق کو تسلیم کر لیا جاتا اور بنگالی عوام پر پیریٹی کا اصول مسلط نہ کیا جاتا تو کیا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنتا؟ اگر اسٹیبلشمنٹ قائداعظم کے خان قلات کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا احترام کرتی، تو کیا بلوچستان یوں آتش فشاں بنتا؟ اگر سائیں جی ایم سید کے مشوروں کو مان لیا جاتا تو کیا آج سندھ اس بے چینی کا شکار ہوتا، جس سے آج گزر رہا ہے؟

المیہ یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بنگلہ دیش کا بننا قبول کر لیا، مگر اپنی انا نہیں چھوڑی۔ پورے ملک کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، مگر اپنا Perception نہیں بدلا۔ بلوچستان کو لہولہان کر دیا، مگر بلوچ عوام سے مکالمہ کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جب کہ افغانستان کی منتخب قیادت کو اعتماد میں لینے کے بجائے وہاں شدت پسندوں کے ذریعے تزویراتی گہرائی تلاش کرتے رہے۔ نتیجتاً وہ بھارت کی گود میں جا بیٹھا۔ ایران اور سعودی عرب کو اپنی کوتاہ بینی کے سبب دشمن کا رفیق بنا دیا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ آج ہمارے ایک طرف سمندر ہے، تین طرف جو مملکتیں ہیں، ان میں ایک کے ساتھ تو ہمارے حقیقی اور دیرینہ تنازعات ہیں، مگر دو پڑوسی ریاستیں تو ہماری غلط پالیسیوں کے سبب ہم سے دور ہوئی ہیں۔

محمود خان اچکزئی پر تنقید بہت آسان ہے، مگر قومی اسمبلی کے فلور پر انھوں نے جو کچھ کہا وہ بہرحال ایک تلخ اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ایک ان ہی پہ کیا موقوف، عدالت عظمیٰ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ ’’را‘‘ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ہوں یا طالبان کی دہشت گردی، سب کچھ ہماری غلط خارجہ پالیسی کی پیداوار ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ بھی ہمیں مسلسل متنبہ کر رہی ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ مگر ہمارے منصوبہ سازوں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے اور فیصلہ کر رکھا ہے کہ کسی کی ایک نہیں سننی۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لینے سے طوفان نہیں ٹلتے۔ عذر لنگ حقیقت کو دھندلا ضرور دیتے ہیں، مگر ختم نہیں کر سکتے۔ یہ بات ملک کے منصوبہ سازوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی؟ وہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

یہ طے ہے کہ دیگر ممالک اقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ وہ ضرب عضب کے ثمرات کو دیرپا نہیں ہونے دینا چاہیں گے۔ وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں ہر ممکنہ روڑہ اٹکانے کی کوشش کریں گے۔ اگر یہ سب کچھ ہمارے حکمران اور منصوبہ ساز سمجھتے ہیں تو پھر اس بیانیہ پر کیوں اصرار کر رہے ہیں، جس نے 70 برسوں کے دوران سوائے تباہی، ہزیمت اور شرمندگی کے ہمیں کچھ نہیں دیا۔

اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فرسودہ بیانیہ سے جان چھڑائی جائے اور جناح کے تصور پاکستان کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ وفاق اسی وقت مضبوط ہو گا جب وفاقی اکائیاں مضبوط ہوں گی۔ اسٹیبلشمنٹ کا کام وفاقی اکائیوں کے کام میں مداخلت نہیں معاونت ہے۔ اسی طرح اس تصور سے بھی جان چھڑائی جائے کہ ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔ ہم ایک مسلم ریاست ہیں، جو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ترقی کرنے کی خواہشمند ہے۔ اس مملکت میں مسلمانوں کے تمام فقہوں، فرقوں اور مسالک کے علاوہ غیر مسلم بھی مساوی شہری ہیں اور انھیں بھی بلاامتیاز تحفظ کا حق حاصل ہے۔ یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ جمہوریت ہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے، جو وفاقی اکائیوں کو جوڑ کر وفاق کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ لہٰذا یہی وہ واحد راستہ ہے، جو ملک کو امن کا گہوارہ بنانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہم نے 69 برس چوہدری محمد علی کے بیانیے پر چل کر دیکھ لیا، اب ذرا محمد علی جناح کے بیانیے پر بھی چل کر دیکھ لیا جائے۔ اس عمل میں قباحت کیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔