ماحولیاتی آلودگی کے اثرات

شبیر احمد ارمان  منگل 16 اگست 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے 195ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد سے زمین کا درجہ حرارت بلند ہونے کی حد 2 ڈگری سینٹی گریڈ مقررکی گئی ہے کیونکہ اس سے زیادہ درجہ حرارت قدرتی ماحول کے لیے تباہ کن ہے، جس کے ذمے دارایندھن  اورصنعتی عمل سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اوردیگرگیسز ہیں جو زمین پرحرارت بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

دسمبر 2015 کو فرانس میں کانفرنس آف پارٹنرکے تحت ہونے والی 21 ویں کانفرنس میں زمین (کرہ ارض ) کے تحفظ سے متعلق ایک اہم معاہدہ سامنے  آگیا ہے جس میں تمام ممالک نے اعادہ کیا کہ زمین کے درجہ حرارت میں اوسط اضافے کو 2 درجے سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی لیکن انفرادی سطح پراس معاہدے  پر تمام ممالک کی منظوری ابھی باقی ہے ۔

آب و ہوا میں تبدیلی یعنی کلائمنٹ چینج کے عنوان سے ہونے والی اس کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی سے انتہائی متاثرہ ممالک کے لیے 100ارب ڈالرکے فنڈ کا بھی وعدہ کیا گیا جو پہلے 2020ء تک تھا لیکن اب اس کی حد 2025ء تک رکھی گئی ہے  ان تمام امور کو قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ لیکن امریکا اور چین دونوں ہی سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے ممالک ہیں، اگران دوممالک نے اس معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھی توان سے کون پوچھے گا؟اصل بات یہ ہے کہ بڑی طاقتیں ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی کوسمجھیں کیونکہ کمزوراقوام صنعتی طور پر ترقی یافتہ نہیں ہیں لہٰذا  وہ ماحولیاتی آلودگی کی ذمے دار نہیں ۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ میں اضافے کے باعث دنیا کے اوسط ٹمپریچر میں تیزی سے اضافے  کے نتیجے میں پاکستان میں قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات سے 2ہزار ہلاکتیں،اربوں روپے مالیت کی سرکاری و نجی املاک، پاور ہاوسز، فصلیں، سڑکیں اورپل تباہ ہوئے، سب سے زیادہ پختونخوا ،گلگت  بلتستان ، اورکراچی متاثر ہوئے ، پختونخوا میں ٹارنیڈو طوفان سے 49، سیلاب سے 250افراد جاں بحق ہوئے ، کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے 1300افراد  لقمہ  اجل بنے ،اسپتالوں کے مردہ خانوں  میں جگہ کم پڑ گئی تھی، 26 اکتوبرکا زلزلہ 280 جانیں لے گیا تھا۔پاکستان دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والے ملکوں میں ہرگز شامل نہیں ہے تاہم پاکستان ان 10 ملکوں میں ضرور شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے زیادہ متاثر ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے نتیجے میں ملک کی کل اراضی کا 22فیصد جب کہ 50فیصدآبادی کو خطرہ لاحق ہے ۔اس سے نمٹنے کے لیے اگر بروقت منصوبہ نہ کی گئی تو ملکی معیشت ، زراعت اور انسانی حیات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، کثیرالمنزلہ عمارتیں گرنے کے باعث اکثر لوگ ان میں دب جاتے ہیں تاہم اگر انھیں بروقت ملبے سے نکال لیا جائے تو انھیں بچایا جاسکتا ہے،اسی طرح آگ لگنے کی صورت میں امدادی ادارے وقت ضایع کیے بغیر پہنچ جائیں تو قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔

ملک میں وسائل اورآبادی میں عدم توازن کے باعث سماجی اورمعاشی مسائل پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں،کرہ ارض کی آبادی 7ارب انسانوں تک پہنچ چکی ہے،آبادی کے رہنے کے لیے اراضی بھی کم پڑتی جارہی ہے، بیرون شہر سے آنیوالوں کو بغیر منصوبہ بندی کے بسایا جارہا ہے ، دن بہ دن کراچی عالمی یتیم خانہ بنتا جارہا ہے، آبادی میں اضافے کے باعث شہرکے حسن کو تباہ کردیا گیا، 1947ء میں کراچی کی آبادی 4 لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب یہاں روزگار، مکان ، پینے کے پانی،صحت وصفائی،ٹرانسپورٹ ودیگر بنیادی مسائل نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں سب نے مل کر شہر کو آلودہ کردیا ہے۔

ایک نئی امریکی تحقیق  میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سمندرکی سطح میں مسلسل اضافے کی وجہ سے امریکا کے 400 سے زائد شہروں کوخطرہ ہے، یہ شہربہت جلد دنیا کے نقشے سے غائب ہوسکتے ہیں۔سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی عالمی حدت اورکاربن کے اخراج پر قابو پانے کے اقدام نہ کیے گئے اور 2050 تک مغربی انٹارکٹیکا کی برف پگھل گئی تو 20ملین آبادی 414 امریکی شہر سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ تحقیق کیمطابق امریکی شہرنیوآر لینز اورمیامی خطرے کے دائرے میں داخل ہوچکے ہیں جب کہ ریاست کیلی فورنیا ،لوئی سینیااورنیویارک سمیت فلوریڈا کے کئی شہر اس خطرے کی زد میں ہیں۔ یہاں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے کوسٹل ایریا کے ہزاروں افراد بے گھرہوگئے، ڈیلٹا کا 35لاکھ ایکڑ سمندر برد ہوگیا۔

عالمی اسٹڈی کے مطابق 2040 کے دوران پاکستانی علاقے ٹھٹھہ اور بدین ڈوب جائیں گے ، سمندر بدین شہر سے 40کلومیٹر دور رہ گیا ہے جس سے ڈیلٹا ختم ہورہا ہے،اب صورتحال یہ ہے کہ سمندردریا کے اندر داخل ہوگیا ہے، حکومتوں نے کوسٹل ایریا کونظرانداز کیا ہوا ہے، ملک میں 1050کلومیٹرکوسٹل ایریا ہے جس میں 700کلومیٹرکوسٹل ایریا بلوچستان میں ہے، ڈیلٹا کی 35لاکھ ایکڑ زمین سمندر نگل گیا ہے، ٹھٹھہ کے رہائشی گلاب شاہ کی  375ایکڑ زمین تھی جو ساری سمندر میں چلی گئی ہے،اب گھر تک نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے 5سے6 فٹ پانی سطح زمین کے قریب ہوگیا ہے جس سے زرعی زمینیں کلراور سیم تھورکی وجہ سے تباہ ہوگئی ہیں ، 81ہزار ایکڑ زمین سیم زدہ ہوگئی ہے جس وجہ سے زمین دار مچھیرے بن گئے ہیں۔

کراچی کے 129کلو میٹر طویل ساحل پر بڑھتی آلودگی اورموسمی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہورہے ہیں، کیماڑی، ہاکس بے ، شمس پیر، بابا بھٹ اورساحلی علاقوں کے کناروں پرنایاب سمندری حیات کچھوے بڑی تعداد میں مررہے ہیں، تیز طوفانی ہواؤں کو روکنے اورمچھلی کی افزائش کے لیے مفید مینگروز اور تیمر کے جنگلات کی کٹائی جاری ہے جس سے کراچی کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سمندری آلودگی  میں اضافے کے سبب کراچی کا سا حلی علاقہ تیزی سے ڈیڈ زون میں تبدیل ہورہا ہے، بڑھتی آلودگی سے نہ صرف سمندرکے پانی کا رنگ تبدیل ہورہا ہے بلکہ آبی حیات کی افزائش میں نمایاں کمی آرہی ہے ، صرف سیوریج کا پانی ہی سمندری آلودگی کا سبب نہیں بلکہ پابندی کے بوجود سیکڑوں فیکٹریوں،کارخانوں کا فضلہ اور کیمیکل زدہ پانی بھی آبی حیات کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے، بحری جہازوں کا استعمال شدہ تیل بھی سمندر میں شامل ہونے سے ساحلی پٹی پر پائی جانیوالی آبی حیات متاثرہورہی ہے، جس کے نتیجے میں20  لاکھ ماہی گیروں کے متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

کراچی سے یومیہ 500ملین گیلن زہریلا  پانی ٹریٹمنٹ کے بغیرسمندر میں ڈالا جارہا ہے ۔پتھر توڑنیوالے کارخانوں سے آلودگی پھیلانے والا عنصرسلیکا نکلتا ہے جو ارد گرد موجود افراد کو سانس اوراعصاب کی متعدد بیماریوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں بھی اضافے کا سبب ہے،کراچی میں شورکی آلودگی کا تناسب 10برس کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں سماعت سے متعلق بہت سے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کا پیدا ہونیوالے بچے کے وزن پر بھی اثر پڑتا ہے ، عدم صفائی سے بھی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، درخت بہتر ماحول فراہم کرتے ہیں لیکن ان کی کٹائی معمول بنتی جارہی ہے،یہ تمام عنصر انسانی حیات کی تباہی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں کیونکہ فضائی، زمینی اورسمندری آلودگی کا عام طور پراثردنیا کے ہر انسان پر پڑتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔