عبوری وزیراعظم کون ہوسکتا ہے؟

نصرت جاوید  منگل 4 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1970 کی دہائی شروع ہوتے ہی میں کالج پہنچا اوروہاں پہنچنے سے پہلے ہی خود کو ’’انقلابی ٹائپ‘‘ کا سمجھنا شروع ہوگیا۔امریکا سے اندھی نفرت اس ٹائپ کے لیے بہت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ ایف اے میں معاشیات  پڑھی ضرور مگر رٹے لگاکر پاس ہوا تھا۔زیادہ دھیان شاعری یا افسانے پڑھنے پر رہتا ۔منٹو اور ابن صفی کی کتابیں تقریباََ پوری کی پوری یاد رہا کرتی تھیں ۔ادب پڑھنے سے شاید اخبار کے لیے لکھنے کے قابل ہوگیا مگر ایسا کرتے ہوئے ثقافت کے بعد پوری توجہ سیاست پر مبذول ہوگئی۔ 1985کے بعد ویسے بھی جوحکومت آئی اس کے آنے کے چند ہفتے بعد ہی اس کے جانے کی باتیں بھی شروع ہوجاتیں۔بطور رپورٹر میں ایک حکومت کے جانے کے بعد آنے والے لوگوں کی تلاش میں اپنا سارا وقت گزار دیتا۔

اس ملک کے عام لوگوں کی اکثریت کی طرح میں بھی یہی سمجھا کرتا تھا کہ طویل عرصے سے اس ملک کی مختار کل ہوتے ہوئے ہماری عسکری قیادت کسی سیاسی جمہوری حکومت کو چلنے ہی نہیں دیتی۔اقتدارکی بساط پرمہرے بٹھاتی اور ہٹاتی رہتی ہے ۔مجھے یہ دریافت کرنے میں بڑا عرصہ لگا کہ عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ امریکا اور دوسرے وہ تمام ممالک جو اپنے وسیع تر مفادات کی خاطر اپنے خرچ کے برابر محاصل جمع نہ کرنے والی پاکستانی ریاست کو قرضے یا امداد دیا کرتے ہیں حکومت بھیجنے اورلانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں ۔آہستہ آہستہ یہ بات بھی سمجھ آنا شروع ہوگئی کہ ہمیں قرضے اور امداد دینے والے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے اپنا کھیل رچایا کرتے ہیں ۔

مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب پاکستان میں مقیم بہت سارے سفارتکاروں نے نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران لاہور۔اسلام آباد موٹروے کی تعمیر پر اپنی نجی محفلوں میں شدید اعتراضات کرنا شروع کردیے۔  پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی موٹروے پر قومی اسمبلی میں بھی شور شرابہ برپا ہونا شروع ہوگیا۔یہ شورشرابا اس وقت بہت ہی دھانسو محسوس ہوتا جب ان دنوں فیصل آباد سے منتخب ہونے والے میاں زاہد سرفرازحکومتی بنچوں سے اٹھ کر  بڑی سخت زبان میں اس منصوبے کے خلاف بہت معقول اعدادوشمار کے ساتھ تقریریں کیا کرتے تھے ۔بعدازاں مجھے بتایا گیا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان بھی نواز شریف کی ’’معاشی پالیسیوں‘‘سے خوش نہیں ہیں ۔ایک سخت گیر منظم ہوتے ہوئے ان کا خیال تھا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صنعت کار گھرانے کے فرد نواز شریف ریاستی سرمایے کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے بے دریغ خرچ کررہے ہیں ۔ایسا کرتے ہوئے وہ جہاندیدہ اور تجربہ کار افسران کی جنہوں نے پوری زندگی وزارتِ خزانہ یا منصوبہ بندی میں صرف کردی تھی کوئی بات نہیں سنتے، من مانی کرتے ہیں اورکرتے چلے جاتے ہیں ۔

اس سارے پس منظر میں مجھے ہرگز حیرت نہ ہوئی جب کچھ مہربان بزرگوں کی طفیل بالآخر مجھے پتہ چلنا شروع ہوا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ،جن کی پہلی حکومت کو غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات لگاکر برطرف کیا تھا، چوہدری الطاف اور سردار فاروق خان لغاری کے ذریعے اس وقت کے صدر سے روابط استوار کررہی ہیں ۔ان کے بعد غلام مصطفیٰ کھر اور آفتاب احمد شیر پائو بھی غلام اسحاق اور بے نظیر بھٹو کے درمیان معاملات طے کرنے میں مصروف ہوگئے ۔غلام مصطفیٰ جتوئی اور منظور وٹو بھی بالآخر ان لوگوں سے آن ملے اور حالات اس طرح کے ہوگئے کہ سپریم کورٹ سے اپنی حکومت بحال کرانے کے باوجود نواز شریف کے لیے اسے چلانا ناممکن ہوگیا۔بالآخرمجھے یہ خبر بھی مل گئی کہ نواز شریف اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کو استعفیٰ دینا چاہ رہے ہیں ۔

لیکن اس شرط کے ساتھ کہ غلام اسحاق خان بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں اورعبوری وزیر اعظم لاکر نئے انتخابات کرائے جائیں ۔محض رپورٹرہوتے ہوئے مجھے اب جاننا صرف یہ تھا کہ عبوری وزیر اعظم کون ہوگا۔اپنے تمام تر وسائل کو بروے کار لانے کے باوجود میں متوقع وزیر اعظم کا نام نہ جان پایا ۔پھر اس آخری ملاقات کے فوراََ بعد جو جنرل وحید کاکڑ اور نواز شریف کے درمیان ہوئی، ایک بڑے ہی قابل اعتماد ذریعے نے بتایا کہ معین قریشی نام کا ایک شخص ہے جس پر اتفاقِ رائے ہوگیا ہے۔یہ صاحب کون ہیں ،کیا کرتے ہیں؟ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں پورے دو دن لگ گئے اور اسی دوران یہ بھی دریافت ہوا کہ ان کا نام ورلڈ بینک کی طرف سے آیا تھا۔نواز شریف نے فوراََ مان لیا ۔جب کہ محترمہ کو پہلے ہی اس نام کے بارے میں اعتماد میں لے لیا گیا تھا اور یہ کام کرنے والے ان دنوں پاکستان میں برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ تھے جنہوں نے بعدازاں جنرل مشرف سے این آر او کرانے کی راہ بھی نکالی تھی۔

1993کے انتخابات سے پہلے معین قریشی کے اچانک’’ نزول‘‘ کے بعد سے میں اپنے تئیں کافی سیانا یا کم از کم شکی ذہن والا ضرورہوگیا ہوں ۔ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی معیشت کے بارے میں رپورٹیں وغیرہ آئیں تو میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ان دنوں نومبر کے آخری ہفتے میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے بہت تذکرے ہورہے ہیں۔اس رپورٹ کی طرف سے پھیلائی گئی مایوسی اور ناامیدی کے باوجود آج کل ہمارے وزیر خزانہ ایک بڑے وفد کے ساتھ واشنگٹن میں پائے جارہے ہیں۔ان کی شدید کوشش ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے  لیے کوئی’’پروگرام‘‘ بنائے ۔نظر بظاہر آئی ایم ایف والے تیار نہیں ہورہے۔بار بار پوچھ رہے ہیں شوکت ترین کی وساطت سے طے کیے ’’پروگرام‘‘ پر پاکستانی حکومت نے کیا عمل درآمد کیا؟۔ویسے بھی موجودہ حکومت سے کسی طویل المدتی پروگرام کی بات کیوں کی جائے۔

آیندہ سال مارچ میں اس حکومت کی معیاد ختم ہوجائے گی۔پھر عبوری حکومت آئے گی ۔زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ ٹھوس بات چیت آیندہ منتخب ہونے والے لوگوں سے کی جائے۔آئی ایم ایف کا یہ بہانہ بھی معقول لگتا ہے ۔مگر وہ جنھیں معاشی معاملات کی پوری سمجھ بوجھ ہے مجھے بتارہے ہیں کہ ہماری ریاست اپنے روپے کی قدر کو برقرار رکھنے یا کم از کم سنبھالنے کے لیے اتنا لمبا انتظار نہیں کرسکتی۔اشاروں کنایوں میں چند سیانے یہ بھی بتارہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے تمام تر اعتراضات کے باوجودامریکا اس پر دبائو ڈال کر ہماری راہیں آسان کرسکتا ہے ۔مگر امریکا کو راضی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جنرل کیانی جو حناربانی کھر کے ساتھ برسلز گئے ہیں۔

افغانستان کے مسئلے پر کچھ حوصلہ افزا وعدے کریں۔اگر ایسے وعدے ہوگئے تو حفیظ شیخ خالی ہاتھ واپس نہ آئیں گے۔یاد رہے کہ افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کو پاکستانی راستوں کے ذریعے رسد کی فراہمی کے فیصلے بھی ان ہی حفیظ شیخ نے کرائے تھے۔مجھے شبہ ہورہا ہے کہ اگرشیخ صاحب کا دورہ ’’کامیاب‘‘ رہا تو شاید ’’پالیسیوں کے تسلسل‘‘ کے نام پر ان کا نام ہی عبوری وزیر اعظم کے طورپر تقریباًپکاہوجائے گا۔یہ نہ بھی ہوا تو کم از کم پیپلز پا رٹی اور نواز شریف کو اتنا وعدہ ضرور کرنا ہوگا کہ عبوری حکومت کا وزیراعظم جوبھی ہو اس کے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ ہی رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔