بلوچستان کا آئینی بحران کیا رنگ لائے گا؟

عارف محمود  منگل 4 دسمبر 2012
اجلاس میں صوبے کے عوام کو درپیش مشکلات وسائل باالخصوص امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا.  فوٹو: فائل

اجلاس میں صوبے کے عوام کو درپیش مشکلات وسائل باالخصوص امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا. فوٹو: فائل

کوئٹہ: سپریم کورٹ کے20 اکتوبر کو بلوچستان حکومت کے حوالے سے عبوری حکم نامے کے بعد اگرچہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد کیا گیا اور وفاقی حکومت نے عبوری حکومت پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کردی ہے لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت بدستور آئینی بحران سے دوچار ہے اور پیپلز پارٹی صوبے میں دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔

صوبائی صدر اور رکن صوبائی اسمبلی میر صادق عمرانی بلوچستان حکومت کو سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے بعد غیر آئینی قرار دے رہے ہیں ،سپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی نے بھی تین دسمبر کو بلوچستان اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اجلاس کی صدارت سے انکار کردیا تھا ،سپیکر نے موقف اختیار کیا ہے کہ جب تک اسمبلی کی آئینی حیثیت واضح نہیں ہوجاتی وہ اسمبلی اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتے۔

صوبائی حکومت کیلئے تین دسمبر کو بلایا گیا بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی بہت اہم تھا جس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ممبران اسمبلی کو بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے اِن کیمرہ بریفنگ دینی تھی اور اس اجلاس کیلئے اسمبلی کی جانب سے جاری کئے گئے میڈیا سمیت تمام پاس بھی منسوخ کردیئے گئے اور یوں تین دسمبر کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر سید مطیع اﷲ آغا کی زیر صدارت منعقد ہوا اور صرف تین منٹ کے بعد ہی اجلاس کو چار مئی تک ملتوی کردیا گیا جس کی ایک ہی وجہ تھی اور وہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کوئٹہ نہ پہنچنا۔

وزیر داخلہ رحمان ملک کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ گلگت میں ہیں جس کے بعد وہ اسلام آباد آئیں گے اور پھر کوئٹہ پہنچنے کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ چونکہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا بھی ایک تھا جس کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ اسمبلی اجلاس کے بعد مخلوط صوبائی حکومت میں شامل بڑی اتحادی جماعت جے یو آئی (ف) کے پارلیمانی لیڈر اور سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع نے وفاقی وزیر داخلہ کے اسمبلی اجلاس میں نہ آنے پر کڑی تنقید کی۔

میڈیاسے گفتگو کے دوران مولانا عبدالواسع نے کہا کہ رحمان ملک کے اسمبلی اجلاس میں نہ آنے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور وفاقی حکومت ہو یا وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک ہم ان سے نہ پہلے کبھی مطمئن ہوئے ہیں اور نہ آئندہ مطمئن ہونگے ۔

مولانا عبدالواسع نے رحمان ملک کے نہ آنے کو صوبے میں اندرونی خلفشار بھی قرار دیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر صادق عمرانی نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کوئٹہ نہیں آئیں گے اور ایسا ہی ہوا لیکن مسلم لیگ (ق) بھی جو مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ ہے کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر خزانہ میر عاصم کرد گیلو نے مولانا عبدالواسع کی وفاقی وزیر داخلہ کے بارے میں تنقید کو نرم لب و لہجہ میں اس طرح بیان کیا کہ وفاقی وزیر داخلہ چترال میں مصروف تھے جس کی وجہ سے وہ اسمبلی اجلاس میں نہ آسکے لیکن ہمارے وزیراعلیٰ کا ان کے ساتھ رابطہ ہے اور اُمید ہے کہ وہ چار دسمبر کو ضرور آئیں گے۔

اگرچہ بعض حلقے اسمبلی کے اس اجلاس کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ اس میں بلوچستان کی جو مجموعی صورتحال ہے اس پر اراکین کو بریفنگ دیں گے لیکن دوسری طرف بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورتحال بریفنگ کے ذریعے بہتر نہیں ہوسکتی اس کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو کس طرح اعتماد میں لیتے ہیں۔

بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے پہاڑوں پر جانے والے ناراض بلوچ رہنمائوں کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے اور پہاڑوں سے اُتر کر آنے والوں کیلئے مراعات کا اعلان کیا گیا ہے، اس حوالے سے گذشتہ دنوں گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی ، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد عالم خٹک، چیف سیکرٹری بلوچستان، آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اﷲ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں صوبے کے عوام کو درپیش مشکلات وسائل باالخصوص امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ان مسائل کے حل کیلئے مختلف تجاویز پر غوراور اہم فیصلے کئے گئے، اجلاس نے پہاڑوں پر چلے جانے والوں کی واپسی کی صورت میں اُن کیلئے خصوصی رعایت اور مراعات کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا گیا کہ واپس آنے والوں کا خیر مقدم کیا جائے گا انہیں باعزت روزگار فراہم کرنے کے علاوہ ان کی بہبود کیلئے صوبائی سطح پر امدادی فنڈز قائم کیا جائے گا اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ قبائلی تنازعات کے تصفیئے کیلئے صوبائی حکومت اپنا کردار ادا کرے گی۔

بلوچستان کے حالات کو واپس بہتری کی طرف لانے کیلئے اجلاس کے فیصلوں کو بہتر فیصلے قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن بعض سیاسی اور قوم پرست حلقوں کی جانب سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اس طرح کے فیصلے تو اس سے قبل بھی ہوئے ،آغاز حقوق بلوچستان پیکج بھی لایا گیا لیکن ان فیصلوں پر بہتر انداز سے عملدرآمد نہیں ہوا اور نہ ہی ناراض لوگوں اور پہاڑوں پر جانے والوں کو براہ راست کوئی فائدہ مل،ا اس لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے اس پر خلوص کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے اور براہ راست متاثرہ فریق سے مذاکرات کئے جائیں تو حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔