پاکستان کی اولمپکس گیمز میں چھٹی کی کہانی

بلندی سے پستی کی طرف سفر دو دہائیوں پر محیط ہے ۔  فوٹو : فائل

بلندی سے پستی کی طرف سفر دو دہائیوں پر محیط ہے ۔ فوٹو : فائل

 لاہور /  کراچی /  اسلام آباد: کھیل لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ اور کسی بھی معاشرے میں تحرک کی علامت ہوتے ہیں، بالخصوص نوجوانوں کو صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لئے کھیلوں کی ترویج بہت ضروری ہے۔ اسی لئے ترقی یافتہ قومیں اپنے ملکوں میں کھیلوں کے فروغ کو دیگر شعبوں کے برابر ہی اہمیت دیتی ہیں،مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں سپورٹس کبھی بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔

ماضی میں قدرتی ٹیلنٹ سے مالا مال کھلاڑی ہاکی اور سکواش میں عالمی فتوحات حاصل کرتے رہے ہیں،کرکٹ میں بھی ایک خاص پہچان بنی، دیگر کھیلوں میں گنی چنی کامیابیاں بھی ایشیا تک محدود رہیں، حکومتوں نے سپورٹس کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے پر توجہ دی، نہ ہی کھلاڑیوں میں پیشہ ورانہ سوچ لانے کے لیے ان کے معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔  اسپورٹس فیڈریشنز میں عہدیداروں کی تعداد بڑھتی اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی تعداد کم ہوتی گئی، کھیلوں کا گراف تیزی سے گرتا رہا مگر اس طرف کسی نے توجہ نہ دی صرف بیانات دینے اور پالیسی سازی پر زور دیا گیا عملی طور پر کچھ زیادہ اقدامات نہ کئے گئے، افسوس کی بات یہ ہے کہ زوال کی جانب سفر کے رکنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا، سپورٹس کے عالمی میلے اولمپکس میں پاکستان کی کارکردگی اس کا ایک ثبوت ہے۔

ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ریو گیمز سے قبل پاکستان کولندن اولمپکس 1948 سے لندن اولمپکس 2012 تک سوائے ایک کے باقاعدگی سے ہر ایڈیشن میں شرکت کا اعزاز حاصل رہا، میگا ایونٹ میں شامل نہ ہونے کا واحد موقع 1980میں آیا جب افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف پاکستان سمیت کئی ملکوں نے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ گزشتہ 68 سال میں 16 اولمپکس میں پاکستان نے اب تک 11 سپورٹس میں حصہ لیا لیکن صرف 3 کھیلوں ہاکی، باکسنگ اور ریسلنگ میں10تمغے ہی ہاتھ آسکے۔

ان میں 3 گولڈ، اتنے ہی سلور اور4 برانزمیڈلز شامل ہیں۔ پاکستان نے تینوں طلائی تمغے ہاکی میں جیتے، یہ کامیابیاں 1960 کے روم، 1968کے میکسیکو اور 1984کے لاس اینجلس گیمز میں ملی تھیں، ہاکی میں پاکستان نے3 سلور اور2 برانز میڈلزبھی حاصل کیے، دیگر2 برانز میڈلز ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے، ریسلر محمد بشیر نے 1960کے روم اولمپکس میں 73 کلوگرام کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ 1988 کے سیول اولمپکس میں باکسر حسین شاہ مڈل ویٹ کیٹیگری میں کانسی کا تمغہ پانے میں کامیاب ہوئے۔ ہاکی میں پاکستان کی شرکت ہر اولمپکس میں رہی، ایتھلیٹکس میں 14گیمز میں شرکت کی، پاکستانی ایتھلیٹس کی سب سے قابل ذکر کارکردگی 1956 کے میلبورن اولمپکس میں رہی جب عبدالخالق 100 اور 200 میٹرز کے سیمی فائنل تک پہنچے جبکہ غلام رازق نے 110 میٹرز ہرڈلز کے فائنل فور میں جگہ بنائی۔ 4×100 میٹرز ریلے میں بھی پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی۔

1950 اور1960 کی دہائیوں میں جب پاکستانی ایتھلیٹس ایشین اور کامن ویلتھ گیمز میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے انھیں اولمپکس میں بھی شرکت کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا تاہم وہ عالمی معیار کے قریب نہ آسکے۔ روم اولمپکس میں محمد اقبال ہیمرتھرو میں 12ویں نمبر پر آئے اور غلام رازق ایک بار پھر 110 میٹرز ہرڈلز کے سیمی فائنل تک پہنچے۔ 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس سے پاکستانی خواتین ایتھلیٹس بھی اولمپکس میں شرکت کر رہی ہیں۔ شبانہ اختر اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ایتھلیٹ ہیں۔ انھوں نے اٹلانٹا اولمپکس میں لانگ جمپ میں حصہ لیا تھا۔ان کے بعد شازیہ ہدایت، سمیرا ظہور اور صدف صدیقی کو ایتھلیٹکس مقابلوں میں شرکت کا موقع ملا لیکن کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔

ہاکی اور ایتھلیٹکس کے بعد اولمپکس میں پاکستان کی تیسری اہم شرکت باکسنگ میں رہی، ملکی باکسرز 13گیمز میں حصہ لے چکے ہیں، 1968 کے میکسیکو اولمپکس میں پاکستان نے صرف ہاکی اور فری سٹائل ریسلنگ میں شرکت کی تھی۔ 2008کے بیجنگ اولمپکس میں پہلی بار پاکستانی باکسرز کوالیفائی نہ کرسکے اور لندن اولمپکس میں بھی یہ صورتحال رہی۔ 1988 کے سیول اولمپکس میں جب ہاکی سے میڈل جیتنے کی امید پوری نہ ہوسکی تو حسین شاہ باکسنگ رنگ سے خوشی کی خبر لے آئے اور کانسی کا تمغہ جیت لیا، وہ مڈل ویٹ میں میکسیکو زائرے اور ہنگری کے باکسرز کو ہرا کر کوارٹرفائنل میں پہنچے جہاں کینیڈا کے باکسر ایگرٹن مارکس نے انھیں شکست دی۔

پاکستان نے ابتدائی چار اولمپکس میں اپنے سائیکلسٹس بھی باقاعدگی سے بھیجے لیکن وہ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے، البتہ 1956 کے میلبورن گیمز میں حصہ لینے والے سائیکلسٹ شہزادہ شاہ رخ کو اولمپکس کے2 مختلف کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کا منفرد اعزاز حاصل ہوا، وہ اس سے قبل 1948 کے اولمپکس میں حصہ لینے والی ہاکی ٹیم کے نائب کپتان تھے۔ اولمپکس میں پاکستانی ویٹ لفٹرز اور پہلوانوں کی شرکت بھی باقاعدگی سے ہوتی رہی لیکن سوائے محمد بشیر (برانز میڈل)کسی بھی ویٹ لفٹر یا پہلوان نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی۔ پاکستان کے تیراکوں نے پہلے 3 اولمپکس میں کسی متاثر کن کارکردگی کے بغیر حصہ لیا اور اب وہ پچھلے 4 اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کی بدولت شریک ہیں ۔

2004 کے ایتھنز اولمپکس میں رباب رضا اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون تیراک بنیں۔ 4 سال بعد کرن خان نے بیجنگ اولمپکس میں شرکت کی۔ پاکستان نے 3 اولمپکس کے کشتی رانی مقابلوں میں بھی حصہ لیا لیکن ایشیائی سطح پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پاکستانی کشتی راں اولمپکس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے اس کی وجہ یہ رہی کہ انھیں 470 کلاس میں حصہ لینا پڑا جبکہ ان کی ایشین گیمز میں کامیابیاں انٹرپرائز میں رہی تھیں۔ پاکستانی شوٹرز نے ہیلسنکی، میلبورن اور روم اولمپکس میں حصہ لیا لیکن اپنے ہدف سے بہت دور رہے۔ 2000 کے سڈنی اولمپکس سے شوٹرز کو شرکت کا دوبارہ موقع ملا، وہاں اور ایتھنز میں خرم انعام مایوس کن کارکردگی کے ساتھ بالترتیب 23 ویں اور 37 ویں نمبر پر رہے، بیجنگ میں صدیق کی کارکردگی بھی ان سے زیادہ مختلف نہ تھی ۔ پاکستان نے اولمپکس میں ٹیبل ٹینس اور روئنگ میں بھی ایک ایک مرتبہ حصہ لیا لیکن دونوں کھیلوں میں کارکردگی غیرمعیاری رہی۔ 2012ء کے لندن اولمپکس میں ایک بار پھر پاکستانی کھلاڑیوں نے ہاکی سمیت مختلف کھیلوں میں حصہ لیا لیکن کوئی بھی پلیئر میڈل جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔

ریو اولمپکس 2016 ء کے دلچسپ مقابلے برازیل کے شہر ریوڈی جینرو میں منعقد ہوئے ہیں، امریکا، چین، انگلینڈ، جرمنی کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی کا شکار فجی، کینیا، ایتھوپیا اور ویت نام سمیت متعدد ممالک کے کھلاڑی بھی میڈلز کی دوڑ میں شامل ہو کر اپنے ملک وقوم کا نام روشن کرنے میں پیش پیش رہے ہیں، لیکن افسوس پاکستانی کھلاڑیوں کا سفر میگا ایونٹ کے صرف 8 دن بعد ہی ختم ہو گیا، ایونٹ میں 552 ایتھلیٹس پر مشتمل امریکی دستہ سب سے بڑا رہا جبکہ پاکستان ان ممالک میں شامل رہا جس نے سب سے چھوٹے دستے کے ساتھ کھیلوں کے سب سے بڑے میلے میں شرکت کی۔ قومی دستے میں 2 شوٹرز، 2 پیراک،2 ایتھلیٹس اور ایک جوڈوکا پلیئر شامل تھا، ریو اولمپکس میں پاکستانی دستے کی قیادت کے معاملے پر جو تنازعہ ہوا تھا اس میں جیت پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی ہوئی جس نے قومی پرچم تھامنے کے لیے شوٹر غلام مصطفی کا نام تجویز کیا تھا۔

اس سے پہلے دستے کی قیادت کے لیے پاکستان سپورٹس بورڈ نے جوڈوکا شاہ حسین شاہ کا نام دیا تھا لیکن آخری لمحات میں یہ فیصلہ تبدیل ہوا اور شوٹر غلام مصطفی نے دستے کی قیادت کی۔ پاکستانی دستے کے ساتھ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن، پاکستان سپورٹس بورڈ اور مختلف فیڈریشنوں کے10عہدیداروں نے بھی برازیل کے لئے اپنی ٹکٹیں پکی کیں، پاکستانی پلیئرز نے ایونٹس کے دوران نہ صرف انتہائی مایوس کن کھیل پیش کیا بلکہ وہ مقابلوں کے دوران آخری نمبروں پر رہے، جوڈو کے شاہ حسین شاہ امیدوں کے محور تھے لیکن وہ بھی شکست کھا کر ریو اولمپکس سے باہر ہو گئے، انہیں 100 کلوگرام ویٹ کیٹگری کے دوسرے مرحلے میں یوکرائن کے آرٹم بلوشینکو کے ہاتھوں 100 کلوگرام میں شکست ہوئی، شاہ حسین نے گلاسگو میں دولت مشترکہ گیمز2016 کے مقابلوں میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا جبکہ رواں سال بھارت میں منعقدہ جنوبی ایشیائی گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

قبل ازیں پاکستان کی منہال سہیل 10میٹر رائفل شوٹنگ کے مرکزی مرحلے تک رسائی میں ناکام ہو کر مقابلوں کے پہلے روز ہی اولمپک سے باہر ہوئیں، رائفل شوٹنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں داخلے کے لیے 51 شوٹرز میں مقابلہ تھا جہاں منہال کا نمبر 28 واں رہا جبکہ سرفہرست 8 شوٹر نے اگلے راؤنڈ میں کوالیفائی کرنا تھا، 21 سالہ منہال سہیل پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنھوں نے اولمپکس کے 10 میٹر رائفل شوٹنگ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 2012 میں کیا جس کے بعد انھوں نے مختلف بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا اور کئی مقابلے اپنے نام کئے۔ منہال سہیل نے پی این ایس کارساز میں منعقدہ 10 میٹرآئررائفل قومی شوٹنگ چمپیئن شپ میں کامیابی کے بعد اولمپک میں براعظم کے کوٹے پر جگہ بنائی تھی۔

سوئمر حارث بانڈے بھی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکے اور مینز 400 میٹر فری سٹائل سوئمنگ ایونٹ میں 49 تیراکوں میں آخری نمبر پر رہے، انہوں نے مقررہ فاصلہ 4 منٹ اور 33 سیکنڈز میں طے کیا۔ پاکستانی شوٹر غلام مصطفٰی بشیر 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل ایونٹ میں پہلے مرحلے سے باہر ہوئے، انہوں نے سترھواں نمبر پایا، ویمنز 50 میٹر فری سٹائل سوئمنگ میں پاکستانی تیراک لیانا سوان بھی پہلے مرحلے کی مہمان ثابت ہوئیں۔ پاکستان نے اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں آخری بار 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں طلائی کا تمغہ جیتا تھا جب کہ پاکستان کا آخری تمغہ 24سال قبل 1992 کے بارسلونا اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں ہی تھا جس میں اس نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ بارسلونا کے بعد پاکستانی ہاکی ٹیم 5 اولمپکس میں شریک تو رہی لیکن کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ ہونے کے باوجود کم از کم اس بات کی ہی خوشی رہتی تھی کہ وہ اولمپکس میں موجود تو ہے لیکن ریو اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہ کرنے کے نتیجے میں شرکت برائے شرکت کی برائے نام خوشی بھی چھن گئی۔

یہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے اور ساتویں ایٹمی طاقت ملک کو اولمپکس میں میڈل حاصل کئے ہوئے 24 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، عالمی سطح پر میڈلز سے دوری کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں وہاں سپورٹس فیڈریشنوں پر سالہا سال سے براجمان شخصیات بھی ملکی کھیلوں کی تباہی کی بڑی ذمہ دار ہیں، ان عہدیداروں کو کھیلوں سے زیادہ دنیا بھر کے سیر سپاٹوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے یہ عہدیدار برازیل کی سیر کے بعد جب واپس آئیں گے تو فنڈز نہ ہونے اور وسائل کی کمی کا رونا روئیں گے، ملکی انفراسٹرکچر کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کریں گے، ان کے کھلاڑیوں کو ملنے والی مراعات کا تذکرہ کریں گے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی اولمپکس مقابلوں میں میڈلز سے دوری کی وجہ سابق اولمپئنز اور مختلف کھیلوں سے وابستہ عہدیدار فنڈز اور انفراسٹرکچر کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔

لاس اینجلس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والی ٹیم کے کپتان منظور جونیئر کا کہنا ہے کہ کسی نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستانی ہاکی اس بد ترین مقام پر آجائے گی، ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن اس ٹیلنٹ کو نکھارنے کے لیے جس سسٹم کی ضرورت ہونی چاہیے وہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اکیڈ میز تو بنا دی گئیں لیکن اگر وہ صحیح طریقے سے کام کرتیں تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے، انہوں نے موجودہ فیڈریشن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 2018 اور 2022 کو ذہن میں رکھ کر منصوبہ بندی کرے، اگر ہاکی فیڈریشن آج منصوبہ بندی کرے گی تو اس کا نتیجہ آنے والے دنوں میں اچھا مل سکتا ہے۔ فیڈریشن کو چاہیے کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو مستقبل کے لیے تیار کرے۔

منظور جونیئر کا کہنا ہے کہ قومی اکیڈمیز میں ان کوچز کو مقرر کیا جائے جن کو ہاکی کی سمجھ بوجھ ہو اور وہ اس کھیل سے مخلص ہوں ۔ پاکستانی ہاکی کی بد سے بدتر ہوتی ہوئی صورت حال میں یہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اختر رسول اور قاسم ضیا اپنے دور کے بہترین کھلاڑی تھے لیکن جب وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے تو انتظامی معاملات میں بری طرح کیوں ناکام ہوگئے؟ منظور جونیئر اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں’’ اختر رسول اور قاسم ضیا دونوں اپنے سیکریٹریز آصف باجوہ اور رانا مجاہد کے ہاتھوں یرغمال بن گئے تھے حالانکہ انھیں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی بھی غلط اقدام یا فیصلے کی تائید نہیں کرنی چاہیے تھی۔

منظور جونیئر کو1984میں ٹیم کی روانگی سے قبل ایوان صدر میں دیا گیا استقبالیہ بھی اچھی طرح یاد ہے جس میں اس وقت کے صدر ضیا الحق نے جس طرح ہر کھلاڑی کی تعریف کی تھی وہ ان کے لیے حیران کن تھی۔ صدر ضیا الحق ہاکی پروفیشنل نہیں تھے لیکن انھوں نے کہا کہ اگر میں اس ٹیم کے ہر کھلاڑی کی صلاحیتیں بیان کروں تو وہ ایک ڈکشنری کی طرح ہے، آپ خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ٹیم کے بارے میں صدر مملکت کا تجزیہ اتنا زبردست تھا تو پھر ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیار ایئر مارشل نور خان اور بریگیڈیئر عاطف اس ٹیم کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔

شہباز احمد کا شمار پاکستانی ہاکی کی تاریخ کے کامیاب کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 1994میں ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی۔ 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں پاکستانی ٹیم نے انھی کی قیادت میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ شہباز سینئر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہاکی کے زوال کی ایک وجہ نہیں ہے، ماضی کی فیڈریشنز پر بھی اس کی ذمہ داری عائد کی جاسکتی ہے کیونکہ انھوں نے صحیح منصوبہ بندی نہیں کی۔ فیڈریشنز کو حکومت کی بھرپور سرپرستی بھی حاصل نہیں رہی تھی جب کہ اداروں میں ہاکی کے کھلاڑیوں کو ملازمتیں ملنا بھی بند ہوگئیں۔ شہباز احمد کو بحیثیت کھلاڑی اولمپک گولڈ میڈل نہ جیتنے کا اب بھی افسوس ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جو کمی کھلاڑی کی حیثیت سے رہ گئی وہ کوشش کریں گے کہ اسے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں رہ کر دور کر سکیں اور پاکستانی ٹیم دوبارہ فاتح عالم کے طور پر پہچانی جائے۔

پاکستان بیس بال فیڈریشن کے صدر خاور شاہ کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ 2 دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہم اولمپکس گیمز میں کوئی میڈل نہیں جیت سکے تاہم اگر اب بھی کھلاڑیوں کی درست سمت میں راہنمائی کی جائے تو وہ عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں، بیس بال کو ہی دیکھ لیں، ہم نے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کھلاڑیوں کو بہترین سہولیات فراہم کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی مردوں اور خواتین دونوں کی بیس بال ٹیمیں ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، ہماری بلائنڈ ٹیم نے حال ہی میں کوریا کا دورہ کیا اور مقابلے میں شریک مضبوط حریفوں کے خلاف کامیابیاں سمیٹیں۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر برگیڈیئر(ریٹائرڈ) خالد سجاد کھوکھر قومی ہاکی ٹیم کے اولمپکس گیمزسے باہر ہونے پر افسردہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ریو اولمپک کیلیے کوالیفائی نہ کرنے پر مایوسی ہوئی لیکن پرانی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرتے ہوئے ہاکی کی ساکھ بحال کرنے کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف خود بھی قومی کھیل میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں، اس وقت ضروت اس امر کی ہے کہ سابق اولمپئنز بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئیں۔

سابق ہاکی اولمپیئن نوید عالم کے مطابق ماضی کی فیڈریشنوں کی پالیسیوں کی وجہ سے قومی ہاکی ٹیم نہ صرف ورلڈ کپ بلکہ اولمپکس کی دوڑ سے بھی باہر ہوئی، ریو اولمپکس میں دنیا کی تمام بڑی ٹیموں کے ساتھ گرین شرٹس کو ایکشن میں دکھائی نہ دیکھ کر افسوس ہوا، قومی کھیل کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لئے کوشاں ہیں، پر امید ہوں کہ مستقبل میں ہاکی کے کھیل میں قوم کو اچھی خبریں سننے کو ملیں گی۔

صدارتی تمغۂ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنے والے گولڈ میڈلسٹ اولمپین حنیف خان ریواولمپکس 2016 میں پاکستان کی کارکردگی سے بہت کبیدہ خاطر نظر آئے۔ اس بابت ان کا کچھ یوں کہنا ہے:

پاکستان ہاکی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہماری ٹیم اولمپکس کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی۔ ریو میں ہونے والے سمر اولمپکس میں صرف 7 کھلاڑی پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں اور انہیں بھی وائلڈ کارڈ کے مرہون منت اولمپکس میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ اس میں کھلاڑیوں کا کوئی قصور نہیں کیوں کہ بہت سے کھلاڑی تو اپنی جیب سے اپنی تربیت اور دیگر اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ وائلڈ کارڈ اولمپکس میں کسی ملک کے لیے مخصوص کوٹا ہے۔ اسے آپ اس طرح سمجھ لیں کہ آپ کو اولمپکس میں شرکت کے لیے خیرات میں اجازت مل گئی ہے کہ جی آپ آئیں کھیلیں اور اپنا شوق پورا کرکے چلے جائیں۔ اس میں نہ اولمپکس ایسوسی ایشن کا کردار ہے اور نہ ہی اس میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کا۔ اگر کھیل کے میدان میں ہماری یہی حالت رہی تو شاید مستقبل میں ہمیں وائلڈ کارڈ پر بھی انٹری نہ مل سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میرٹ کی بنیاد پر ریو اولمپکس میں شامل ہوتا، لیکن ایسا اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب ہم ہاکی اور دوسرے کھیلوں کا ڈومیسٹک اسٹرکچر مضبوط نہ بنائیں۔

ہمارے ملک میں اچھا کھیلنے والوں، ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، ایک سے ایک بہترین کھلاڑی ہمارے ملک میں ہے، لیکن ہم نہ انہیں باقاعدہ تربیت اور نہ ہی دوسری سہولتیں دیتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے کھلاڑیوں کی تربیت نہیں کریں گے اس وقت تک ہم کھیل کے کسی بھی میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ جہاں تک بات ہے ہاکی کی تو یہ نہ صرف پاکستان کا قومی کھیل ہے بل کہ اس کھیل نے دنیا بھر میں پاکستانیوں کا سر ہمیشہ فخر سے بلند کیا۔ پاکستان نے اولمپکس مقابلوں میں دس میڈلز جیتے ہیں جن میں 8 میڈلز مردوں کی ہاکی ٹیم نے حاصل کیے ہیں۔ اسی ہاکی نے 1960میں روم میں ہونے والے سمر اولمپکس میں روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر سو نے کا میڈل حاصل کیا تھا اور یہ اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کا پہلا سونے کا تمغہ بھی تھا۔ 1960سے 1984تک ہونے والے ہر اولمپک مقابلوں میں پاکستان نے باقاعدگی سے گولڈ میڈلز حاصل کیے، لیکن ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ دوسرے کھیلوں کی طرح یہ کھیل بھی زوال پذیر ہوگیا۔ بات سادہ سی یہ ہے کہ آپ نے ابھی تک ہاکی کا اسٹرکچر ہی نہیں بنایا۔

1984 میں اولمپکس مقابلے جیتنے کے بعد آپ نے اسی فاتح ٹیم کے 9 کھلاڑیوں کو نکال باہر کیا۔ یہ اس وقت کا سب سے غلط فیصلہ تھا، اگر آپ نے ان لڑکوں کو نہیں نکالا ہوتا تو آج ہمارا یہ حال نہیں ہوتا۔ اولمپکس مقابلوں میں دوسرے کھیل نہ سہی لیکن ہم کم از کم ہاکی میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنے کی توقع کر سکتے تھے۔ کچھ لوگوں کے غلط فیصلوں نے پاکستان میں کھیلوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور خصوصاً ہاکی کے ساتھ تو بہت خراب معاملہ رہا۔ جہاں تک بات ہے ہاکی فیڈریشن کے کردار کی تو اس کے معاملات تو تیس سال سے خراب چل رہے ہیں۔ میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ اگر 1984میں اولمپکس جیتنے والی ٹیم کے اُن نو کھلاڑیوں کو باہر نہیں نکالا جاتا، کلب ہاکی کو فروغ دیا جاتا، لڑکوں کو ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے کھلایا جاتا تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی، آج اس طرح ہمارا منہ کالا نہیں ہوتا۔ بات صرف ہاکی کی ہی نہیں ہے بل کہ ہم نے تو کسی بھی کھیل کی قدر کی نہ ہی اچھا کھیلنے والوں کی۔

سابق اولمپین اور ہاکی کے کھیل میں ٹاپ گول کیپرز میں شمار کیے جانے والے شاہد علی خان کا کہنا ہے کہ ریو اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم کا کوالیفائی نہ کرنا بہت افسوس ناک ہے۔ ہاکی فیڈریشن اور حکومت سے تھوڑی مس مینجمنٹ ہوئی ورنہ ہم نہ صرف اولمپکس میں حصہ لے سکتے تھے بل کہ پاکستان کے لیے ایک آدھ میڈل تو جیت ہی جاتے۔ اولمپکس میں پاکستان کے زوال پذیر ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ آپ کے پاس بیک اپ میں اچھے کھلاڑی نہیں ہیں، حکومت اخراجات کے لیے فنڈز نہیں دیتی، کلب اور ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر کھیلوں کی سرپرستی تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ پہلے لڑکوں کو کلب اور ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کھلایا جاتا تھا، بہت سے اداروں اور حکومتی سرپرستی بھی تھی، لے دے کر ہمارے پاس ایک پی آئی اے ہی بچا تھا لیکن اب اس نے بھی ہاکی پر سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

حکومت کو اگلے اولمپکس کے لیے ابھی سے حکمت عملی طے کرنی ہوگی۔ اب آپ خود دیکھیں کہ اسکول، کالج کی سطح پر ہاکی نہیں کھیلی جا رہی۔ ہاکی اب ایک منہگا کھیل ہے، حکومت اور فیڈریشن کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ اسکول، کالج اور ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر ہاکی کو فروغ دیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم کو ہاکی کی بحالی کے لیے ایک سمری بھیجی گئی تھی۔ حکومت کو اس سمری کو فوراً منظور کرنا چاہیے اور اس فنڈ کو ایمان داری اور اکاؤنٹیبیلٹی کے ساتھ خرچ کیا جائے تو یقیناً 2020 کے اولمپکس میں ہماری ہاکی ٹیم ایک بار پھر پاکستان کا نام روشن کر سکتی ہے۔

شہناز شیخ ہاکی کے ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں اس میدان میں دنیا بھر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے 1969 سے 1978 تک پاکستان کا نام روشن رکھا۔ انہیں ہاکی کی گیند پر بے مثال گرفت حاصل تھی اور ان کی تیز نظر کبھی موقع سے غافل نہیں رہتی تھی۔ انہوں نے قومی ہاکی ٹیم میں کھیل کے دوران 45 شان دار گول کیے اور 68 مرتبہ کیپ ہوئے۔ وہ ہاکی کے میدان میں کسی بھی سمت اور مقام سے یکساں مہارت کے ساتھ کھیل سکتے تھے۔ پاکستان میں ہاکی کے کھیل کی موجودہ حالتِ زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’ ہمارے زمانے میں سرکاری اور غیرسرکاری ہرسطح پر کھیلوں کو ترجیح دی جاتی تھی، اسکولوں اور کالجوں میں بھی کھیلوں کو اہمیت دی جاتی تھی، تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے میدان ہوا کرتے تھے اور یہاں کھیلنے والے طلبا وطالبات کو عزت اور مقام دیا جاتاتھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے چھٹی جماعت سے گریجوایشن تک کبھی فیس نہیں دی تھی، اس وقت کھلاڑیوں کو ملازمت کا تحفظ حاصل تھا، اسی لیے کھیلوں کا اسکوپ اور کلچر وسیع تھا کہ کھیلنے والے لڑکے سمجھتے تھے کہ انہیں مستقبل میں ملازمت کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرنی پڑے گی، انھیں آسانی سے کسی ادارے میں روزگار مل جائے گا، افسوس کہ وہ دن خواب و خیال ہوگئے۔ اب ہر طرف پرائیویٹ اسکولوں کا کلچر ہے، ایک کنال بل کہ اس سے بھی بہت کم رقبے میں اسکول کھل جاتاہے، ایسے اسکولوں میں چلنا پھرنا تک محال ہوتا ہے، کھیل کے میدان کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو اس بات کی ذرہ بھر پروا نہیں ہے کہ وہ اتنے چھوٹے چھوٹے اسکول قائم کرنے کی اجازت دے کر اس معاشرے کے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے ہاں کھیلوں میں نام اور مقام پیدا کرنے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کرتی ہیں لیکن ہماری حکومتیں جب تک کھیلوں کو اہمیت دیتی رہی ہیں، ملک کا نام روشن رہا لیکن اب حکومتوں کے کام اور پالیسیوں کا جائزہ لیاجائے تو کھیلوں کا شعبہ انتہائی فضول نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں کھیلوں بالخصوص ہاکی کے زوال کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کرکٹ نے سب کچھ سمیٹ لیاہے۔ سارا پیسہ اسی کھیل میں چلا جاتا ہے جب کہ ہاکی کھیلنے والے کو ملازمت تک نہیں ملتی۔ پھر کوئی لڑکا ہاکی کی طرف کیوں آئے گا بھلا!‘‘

سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے شہناز شیخ سن 1969 سے 1978ء تک قومی ہاکی ٹیم کا حصہ رہے۔ انھوں نے دو اولمپکس میں شرکت کی۔ میونخ اولمپکس(1972ء) میں چاندی جب کہ مونٹریال اولمپکس(1976ء) میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ انہوں نے تین ورلڈکپ ٹورنامنٹس، تین ایشیائی گیمز اور ایک بار ایشیا کپ چیمپیئنز ٹرافی میں بھی شرکت کی۔ پاکستان نے 1971ء اور1978ء کے ورلڈکپ جیتے جبکہ 1975ء کے ورلڈکپ میں دوسرے نمبر پر رہا۔ تینوں ایشیائی گیمز میں پاکستان ہاکی ٹیم فاتح رہی جب کہ ایشیا کپ میں بھی فتح حاصل کی۔ وہ پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ بھی ہیں، کہتے ہیں:

’’ حب الوطنی نام کی چیز ہمارے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ ایک فرد بھوکے پیٹ کے ساتھ کیسے کھیل کے میدان میں اچھی کارکردگی دکھاسکتا ہے،سارے وسائل حکمران اور ان کا پسندیدہ طبقہ اٹھا لے جاتا ہے، ہم وسائل فراہم کیے بغیر ایک ٹیم سے فتوحات کی توقع وابستہ کرتے ہیں، یہ کہاں کی عقل مندی ہے۔ دراصل کھیلوں میں اچھی کارکردگی ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات ہی میں نہیں۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ بھوٹان جیسے ملک میں کھیلوں کا بجٹ ہمارے ملک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ضرورت اس امر کی تھی کہ ہمارے ہاں ہاکی اور اسکواش میں ملنے والے میڈلز کو قومی اثاثہ قرار دیا جاتا لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

افسوس کامقام یہ ہے کہ ہماری کھیلوں کی وزارت اور اسپورٹس بورڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی نااہل ہیں۔ میں نے انھیں بلجیئم میں کھیلے جانے والے اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کے دورے کے لیے ٹیم تیار کرنے کا ایک سو پچاس دن کا ایک پروگرام دیاتھا لیکن انھوں نے مجھے صرف تیس دن دیے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بل کہ شرم ناک امر یہ تھا کہ اس کے لیے فنڈز بھی فراہم نہیں کیے گئے اور صرف تین دن پہلے وہاں بھیجاگیا۔ اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے ٹیم کو تیاری کے لیے جو سہولتیں چاہیے تھیں، وہ نہیں ملیں، جس کی وجہ فیڈریشن کی خراب مالی حالت تھی‘‘۔

یاد رہے کہ شہناز شیخ نے اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ سے ناکام واپسی پر کہا تھا کہ کھلاڑی اور کوچ آٹھ ماہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں اور وہ خود ڈیڑھ سال سے بغیر پیسے کے کام کر رہے ہیں، آسٹریلیا میں ڈیلی الاؤنس کا نصف ملا جب کہ کوریا میں ایک پیسہ بھی ڈیلی الاؤنس کی مد میں نہیں دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات بھی ہمیں سکھاتی ہیں کہ کوئی کام کرو تو مکمل تیاری کے ساتھ کرو، رسول اکرم ﷺ جب بھی کسی معرکے کے لیے جاتے تھے، تو مکمل تیاری کرتے تھے۔ جب تک ہمارے حکمران کھیلوں میں بہتر مقام حاصل کرنے کو ایک ترجیح قرار نہیں دیتے، ہمارے زوال کا سفر جاری رہے گا۔ جب پاکستانی ہاکی کو عروج حاصل تھا، تب ہمارے اسکول اور کالج کھیلوں کی نرسریاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب ان سکولوں اور کالجوں کے فنڈز بند کردیے گئے، یوں کھیلوں کی یہ نرسریاں بھی بند ہوگئیں۔ ‘‘

’’ سن 1947ء میں ہم نے گوروں سے آزادی حاصل کی لیکن براؤن لوگوں کی غلامی میں آگئے۔ ان لوگوں کی ترجیحات وہ نہیں ہیں جن کے لیے ہم سب پریشان ہیں۔ ان کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں، انہیں پاکستان سے کیا محبت ہوسکتی ہے۔ میں نے حالیہ یوم آزادی کے موقع پر ایک ٹویٹ کی تھی، جس میں کہاتھا کہ میں آزادی کا جشن نہیں منارہا کیوںکہ ہم گوروں کی غلامی سے نکل کر براؤنز کی غلامی میں آئے ہوئے ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔