جنابِ وزیراعظم! دہشت گردی ایسے تو ختم نہیں ہو گی

رحمت علی رازی  اتوار 21 اگست 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

بدقسمتی سے ضربِ عضب اور حساس معلومات پر ہونیوالے آپریشنز نیشنل ایکشن پلان کے دیگر 20 نکاتی نتائج فراہم کرنے میںکل بھی ناکام تھے اور آج بھی ناکام ہیں! شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار حکمرانوں کی بے حسی اور غیرسنجیدگی کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بادلِ نخواستہ مگر کھلے بندوں اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے اور نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا اصل ذمے دار حکومت کو قرار دیا۔ ہماری حکومت اور اداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ہربار خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے ایک بڑے سانحہ کی ضرورت ہوتی ہے،جس طرح سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان اور 21 ویں ترمیم کا وجود عمل میں آیا۔

بعینہٖ سانحہ کوئٹہ کے بعد ہماری آنکھوں سے غبار چھٹا تو معلوم پڑا کہ ایکشن پلان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ مجبور کیے گئے حکمرانوں نے حسبِ روایت عسکری قیادت کی معاونت میں ایک بار پھر ایک اجلاس بلایا جس میں نیشنل ایکشن پلان پر تشکیل دی جانے والی مانیٹرنگ کمیٹی کی سربراہی وزیرداخلہ کی سابقہ کارکردگی سے متاثر ہو کر اس بار وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو سونپی گئی ہے۔

کمیٹی کے ارکان میں وفاقی و صوبائی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی نیکٹا، تمام صوبائی چیف سیکریٹریز، تمام صوبوں کے آئی جی پولیس اور وزیراعظم ہاؤس کے ایڈیشنل سیکریٹری بھی شامل ہونگے،تمام خفیہ اداروں کا ایک ایک نمایندہ کمیٹی کی معاونت کریگا جب کہ فوج کی نمایندگی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کرینگے،بہ ایں ہمہ سول آرمڈ فورسز کے مزید 29 ونگز کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا گیا تا کہ سرحدی انتظام اور ملک میں سیکیورٹی کی داخلی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔

اجلاس میں زیربحث آنیوالا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ دہشت گردوں کو ملنے والی فنڈنگ پر کنٹرول کرنے کے لیے مزید سختی برتنے کی ضرورت ہے جس کے لیے پارلیمان سے حال ہی میں منظور ہونیوالے سائبر کرائم بل سے متعلق قوانین کو جلد ہی لاگو کیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کے حوالے سے تازہ رپورٹ کے مطابق پلان کے 20 میں سے 8 نکات پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے جب کہ کالعدم تنظیمیں نام بدل کر کام کر رہی ہیں،فوجداری مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے حوالے سے صوبوں نے تاحال سفارشات پیش کیں نہ ہی دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ روکنے کے حوالے سے مربوط کارروائی کی جا سکی ہے،فاٹا اصلاحات پر بھی تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی جب کہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا معاملہ بھی التوا کا شکار ہے۔

افغانیوں کی واپسی کا عمل تیز کرنے کے بجائے مزید چھ ماہ کے لیے لٹکا دیا گیا ہے،دہشت گردوں کے خلاف کومبنگ آپریشن کا دائرکار ملک بھر میں بڑھانے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس طرح کی یاد دہانیاں فوج کی طرف سے حکومت کو پہلے بھی کئی بار کرائی جاتی رہی ہیں۔

دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 145 سے زائد افراد کی اموات کے بعد حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ملک میں انسدادِ دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھاتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جسکے تقریباً تین ماہ بعد اس کی رپورٹ عام کی گئی جس پر میڈیا نے کافی شور مچایا اور نیشنل ایکشن پلان کی مجموعی کارکردگی پر بیشمار سوالات اٹھائے،بعدازاں حکومتی وعسکری ذمے داران کی نگرانی میں گاہے بہ گاہے کئی ایک اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے جن میں قومی سلامتی کے مسائل زیرغور آتے رہے اور نیشنل ایکشن پلان کے مختلف مراحل کا جائزہ بھی لیا جاتا رہا۔

آج سے 9 ماہ قبل بھی اسی تغریض کا ایک اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں بلایا گیا تھا جس میں پلان کے ان حصوں پر بات چیت کی گئی جہاں پیشرفت سست روی کا شکار تھی۔ نیشنل ایکشن پلان کے کچھ عوامل جن کی صورتحال کو خراب قرار دیا گیا، ان میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کے خلاف ایکشن، مدارس، کالعدم تنظیموں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی بیرونِ ممالک سے امداد، نفرت انگیز تقاریر اور مدارس میں اصلاحات شامل تھیں جب کہ صوبائی سطح پر فوج اور سویلین حکام کے تعاون میں درپیش مشکلات کا معاملہ بھی اجلاس میں اٹھایا گیا اور ان مسائل کے مستقل بنیادوں پر حل میں حائل رکاوٹوں پر تشویش کااظہار کیا گیا۔

علاوہ ازیں ملک میں اُٹھنے والی فرقہ واریت کی حالیہ لہر پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی تاہم ان مسائل کی کئی بار نشاندہی کے باوصف حکومت ہمیشہ ہی ان پر قابو پانے کی کوششوں کو نظرانداز کرتی آئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی خوبی یہ تھی کہ اس میں ان تمام خامیوں کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی تھی جن کی وجہ سے ماضی میں انسدادِ دہشتگردی کے منصوبے کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے، مثلاً دہشت گردی جیسے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم میں جس قسم کے اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت تھی، وہ ماضی میں ناپید تھی لیکن نیشنل ایکشن پلان کو تمام سیاسی پارٹیوں اور عسکری قیادت کی حمایت سے تشکیل دیا گیا۔

اس طرح دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ کے لیے تلف کرنے کی خاطر جو سب سے اہم شرط یعنی مکمل قومی اتفاقِ رائے درکار تھا، وہ اس پلان کی بنیاد تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستانی قوم اور فوج کے بہادر سپوتوں نے بے مثال قربانیاں دیں لیکن جو عوامل دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں یا جن کے سہارے دہشتگرد پھلتے پھولتے ہیں، ان کی بیخ کنی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔

اگرچہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے صرف آٹھ سست روی کا شکار ہوئے ہیں،بارہ نکات پر بھرپور کام ہوا ہے مگر یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ جس کام کے لیے اربوں روپے کے فنڈزکی ضرورت تھی وہاں چند کروڑ دیے گئے،چوہدری نثار تو یہاں تک کہہ گئے کہ 20 میں سے 15 نکات پر عملدرآمد ہوا ہے۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد تو آپریشن ضربِ عضب کی ناکامی بھی حکومتی نااہلی کی وجہ سے عیاں ہونے لگی ہے۔

کورکمانڈرز کانفرنسز میں ہمیشہ نیشنل ایکشن پلان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا لیکن وزیراعظم اور ان کا میڈیا سیل اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیکر اپنے ہم خیال میڈیا ہاؤسز کے ذریعے عوام میں ابہام پیدا کرتے رہے۔ آج عوام کے سوا کوئی سیاسی جماعت حقیقی معنوں میں افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آ رہی کیونکہ سب سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کو ملکی سلامتی کا واحد ذریعہ سمجھ کر معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر نے اسے باہمی طور پر سپورٹ کیا تھا، جسکے مطابق طے تو یہ ہوا تھا کہ عدالتی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جائے گا،اس شق پر عملدرآمد عدلیہ کے امتناعی حکم کے بعد روک دیا گیا۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لا کر دہشتگردی کے مقدمات کا بوجھ عدلیہ سے کم کیا جائے گا،اس شق میں یہ پخ لگائی گئی کہ فوجی عدالتیں خود ایکشن نہیں لے سکیں گی بلکہ سول حکومت ان کومقدمات فارورڈ کریگی،ان آرمی عدالتوں کی مدت صرف دو سال رکھی گئی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ گیارہ ہزار کیسوں میں سے صرف چند ایک ہی آرمی عدالتوں کے حوالے کیے گئے جن کے فیصلے فوری طور پر آرمی کورٹس نے سنا دیے،تب آرمی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ نے ایکشن لے کر ان پر عملدرآمد رکوا دیا۔ ان سزاؤں کو وکلاء بار کی صدر عاصمہ جہانگیر نے انسانیت کے خلاف قرار دیا،اب ان عدالتوں کی مدت ایک مہینہ ہوا ختم ہو گئی ہے،حکومت کہتی ہے کہ ان کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو باقی سیاسی جماعتوں کو پہلے اعتماد میں لے گی۔

فوجی عدالتوں کے قیام کا ہدف بہترین انداز میں حاصل نہیں ہو سکا،ان عدالتوں کے قیام کے لیے نہ صرف آئین میں ترمیم کی گئی بلکہ اس کے تحت ذیلی قوانین بھی بنائے گئے،ان عدالتوں نے معدودے چند مجرمان کو پھانسی کی سزا بھی سنا ئی جس کے خلاف اپیل دائر کرنے کے اختیار کی وجہ سے وہ بری ہو کر پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے دہشتگرد کارروائیوں میں مصروفِ عمل ہو گئے ہیں۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ ملک سے مسلح ملیشیاز کا خاتمہ کیا جائے گا،یہ کام پاک فوج کر رہی ہے اور اس نے یہ کر دکھایا ہے کہ خیبرپختونخوا کی قبائلی پٹی، بلوچستان اور کراچی سے دہشت گردوں کے مراکز اور لشکروں کا خاتمہ کر دیا ہے‘ملک میں مسلح جتھوں کو کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا،سرکار کی ناک کے نیچے مسلح گروہ مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں، اب بھی جلسے منعقد کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں، بیان بازی کرتے ہیںاور پہلے کی طرح دندناتے پھر رہے ہیںمگر اس کے باوجود سرکاری رپورٹ میں ایسے کسی بھی مسلح گروہ کا ذکر نہیں جو پہلے تو سرگرم عمل تھا مگر نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں اسے ختم کر دیا گیاہو۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ نیکٹا کا قیام موثر طریقے سے عمل میں لایا جائے گا،دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے اس ادارے کے لیے اسحاق ڈار پچھلے 2 سال سے فنڈزنہیں دے رہے تھے کیونکہ حکومت کے پاس 21 ارب روپے نہیں تھے جب کہ اسی اثناء میں اورینج ٹرین کے لیے 160 ارب، میٹرو کے لیے 70 ارب اور کسان پیکیج کے لیے 300 ارب فوری طور پر فراہم کر دیے گئے۔

حالت یہ ہے کہ نیکٹا کے پاس اپنی بلڈنگ تک نہیں ہے،اس کے بورڈ اور گورنرز کا پہلا اجلاس ہی طلب نہیں کیا جا سکا کیونکہ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کرنی ہے جو ابھی تک اس میٹنگ کے لیے ٹائم نہیں نکال سکے جب کہ کوئٹہ دھماکے سے پہلے وہ پچھلے 4 دن سے مری کے موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے،نیکٹا کو فعال اور موثر بنانے کے ضمن میں سرکار کی رپورٹ خاموش ہے،ہم 15 سال سے دہشتگردی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ متعلقہ ادارہ سوائے ایک ناکارہ سی ویب سائٹ بنانے کے اور کچھ نہیں کر سکا۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ انتہاپسندانہ مواد اور تقاریر کا خاتمہ مقصود ہو گا،اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کروایا گیا، گو کہ وزیرداخلہ نے اعلانات بھی کیے،آج بھی نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں اور اہم ترین سیاسی علماء حکومت کے اتحادی ہیں جن کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ناپختہ ذہن انتہاپسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں،نفرت پر مبنی تقاریر اور مواد شایع کرنیوالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی،سرکاری رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں نفرت انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں بہت کم مقدمات درج کیے گئے جب کہ لاؤڈ اسپیکر کی خلاف ورزی پر بے وجہ مقدمات بنائے گئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں،لہٰذا یہ کارکردگی کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کو روکا جائے گا،اس کے لیے پاک فوج نے کراچی میں زبردست آپریشن کیا جسکے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے اہم لوگ بھی دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنیوالوں کے طور پر سامنے آئے اور اسی کی سندھ میں حکومت بھی ہے،ایم کیو ایم میں بھی مبینہ طور پر دہشتگرد بے نقاب ہوئے،پیپلز پارٹی نواز حکومت کی غیراعلانیہ اتحادی ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کا معاملہ لٹکا دیا گیا،آصف زرداری، ٹپی اور شرجیل میمن وغیرہ پاکستان سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے،ایسے میں وہ فنڈنگ کیسے روکیں؟

دہشتگرد تنظیموں کی فنڈنگ کے ذرایع مکمل طور پر بند نہیں کیے گئے،ذرایع کے مطابق اسٹیٹ بینک نے اس ہدف کے تحت دس ارب روپوں کے اثاثے منجمد کیے جب کہ ایف آئی اے نے غیرقانونی رقم منتقلی کے سو کے قریب مقدمے درج کیے، اتنے ہی افراد بھی گرفتار کیے اور کروڑوں روپے وصول کیے مگر اسے کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک تو یہ رپورٹ حکومت کی جاری کی ہوئی ہے جو مصدقہ نہیں، دوسرا یہ کہ پاکستانی بینکوں میں کالعدم تنظیموں کے اب بھی کھربوں روپے پڑے ہیں۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے فعال ہونے سے روکا جائے گا،اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہو رہا بلکہ کچھ کالعدم تنظیمیں پنجاب کے ایک طاقتور وزیر کے ذریعے حکومت کی اتحادی بنی ہوئی ہیں،کالعدم تنظیموں کو کسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا عہد تھا مگر اس کی کارکردگی بھی صفر ہے،فوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات کی غرض سے آئین میں ترمیم کے بعد ضروری قوانین تک نافذ نہیں کیے جا سکے اور اس بابت کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی،آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے ترقیاتی اور انتظامی اصلاحات کا عمل اس لیے اطمینان بخش ہے کیونکہ یہ کام فوج نے ذاتی دلچسپی سے کیا ہے۔

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشتگردوں کا پروپیگنڈہ بند کرنے کے لیے سائبرکرائم بل ڈیڑھ سال بعد پارلیمان سے منظور ہوا اور تشویش کی بات یہ ہے کہ مجوزہ بل میں ناقابلِ بیان قانونی سقم موجود ہیں۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے خصوصی فورس قائم کی جائے گی،وفاقی حکومت تاحال اس پر پوری طرح کام نہیں کر پائی،خصوصی فورس برائے انسدادِ دہشت گردی بنانے کے حوالے سے بہت حد تک پنجاب اور بلوچستان میں ہدف حاصل کر لیا گیا جب کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں اس پر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ مذہبی بنیادوں پر استحصال اور امتیاز کے عمل کو روکا جائے گا،اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہو رہا حتیٰ کہ میڈیا پر بھی فرقہ واریت پر مبنی مباحثے پیش کیے جا رہے ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ پیمرا بھی اس پرخاموش ہیں۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کو یقینی بنایا جائے گا،اس پر عملدرآمد تو دور کی بات حکومت توابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ یہ کام مذہبی وزارت نے کرنا ہے، تعلیم کی وزارت یا وزارتِ داخلہ نے، جب کہ مدارس کے سب سے بڑے نیٹ ورکس چلانے والے فضل الرحمن جیسے لوگ حکومت کے اہم ترین اتحادی ہیں۔

مدرسوں کا ضابطہ کار طے کر کے ان میں اصلاحات کے ضمن میں بھی سرکار کی رپورٹ خاموش ہے اور اس بارے میں کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں کیا گیا،اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سرے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نیپ کی توضیع کے محض تین ماہ کے دوران امام بارگاہوں اور لاہور میں گرجا گھروں پر حملے ہوئے۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ میڈیا وغیرہ سے دہشت گردوں کو پرکشش بنانے کے عمل کا سدِباب کیا جائے گا،میڈیا میں تو پاک فوج کے خوف سے یہ عمل کم ہو گیا ہے لیکن جب بات دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی آتی ہے تو آج بھی نہ صرف میڈیا بھرپور انداز میں ان کا موقف پیش کرتا ہے بلکہ میڈیا پر آ کر وہ دھڑلے سے رینجرز اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں،حکومت اس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہی،اسی طرح سوشل میڈیا پر یہ کام بدستور جاری ہے،میڈیا میں دہشت گردوں کے بیانئے کو جگہ نہ دینے کا ہدف کسی حد تک حاصل ہوا ہے گو کہ اس میں میڈیا نے خود ذمے داری دکھائی ہے۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ فاٹا میں ریفارمز متعارف کروائی جائینگی،یہ ایک سہانا خواب تھا جس پر جمہوری حکومت کی جانب سے صفر کام کیا گیا بلکہ دہشتگردی سے متاثرہ وزیرستان کے لوگوں کے لیے فنڈز تک منظور نہیں کیے جا سکے،ان لاکھوں متاثرین کی دیکھ بھال اور وزیرستان میں ممکنہ حد تک انفرسٹرکچر کی تعمیر پاک فوج محض اپنے بل بوتے پر کر رہی ہے۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ دہشتگردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورکس کو توڑا جائے گا،پاک فوج اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس پر کام کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کی اور نہ صرف پورے پورے نیٹ ورکس پکڑے گئے بلکہ تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کی صورت میں دہشتگردوں کے نیٹ ورک چلانے والے بھی پکڑے گئے۔

حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ اب وہ یہ معاملہ بھرپور انداز میں انڈیا اور ایران کے سامنے اٹھائے گی بلکہ اقوامِ عالم کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب کریگی لیکن وزیراعظم کی زبان سے تاحال کلبھوشن کا نام تک نہیں لیا گیا بلکہ کچھ عرصہ قبل لندن پہنچنے پر ایک صحافی نے بار بار ان سے بھارتی جاسوس کے حوالے سے سوال کیا جسے انھوں نے بڑی مہارت کے ساتھ نظرانداز کر دیا۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکا جائے گا،اس پرآج بھی کھل کر دہشت گرد اپنے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں تاہم حکومت پر تنقید کے خلاف کچھ دن پہلے نہایت تیزی سے سائبر کرام بل منظور کر لیا گیا ہے۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ پنجاب کے اندر سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا،پنجاب میں پاک فوج اور رینجرز کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں آپریشن کرنے کی اجازت ہی نہیں دے رہیں جب کہ زیادہ تر دہشتگردوں کی ذہنی پرورش جنوبی پنجاب میں کی جاتی ہے اور وہیں سے سب سے زیادہ بھرتیاں بھی ہوتی ہیں جب کہ سندھ سے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے انہیں فنڈز آتے ہیں،تمام صوبوں سے دہشتگرد بھاگ کر جنوبی پنجاب میں پناہ لیتے ہیں جس کو دہشتگردوں کے لیے جنت کا ٹکڑا بنا دیا گیا ہے اور وہاں رینجرز کوخواہش کے باوجود آپریشن نہیں کرنے دیا گیا۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ کراچی میں بلاامتیاز آپریشن جاری رکھا جائے گا،اس پر رینجرز اور پاک فوج پوری تندہی سے عمل کر رہی ہے اور اس کے تحت جتنی بھی گرفتاریاں ہوئیں،سب کی پشت پر سیاسی و جمہوری جماعتیں برآمد ہوئیں جنھوں نے اب اس آپریشن کو ہی متنازعہ بنا دیا ہے،ڈاکٹر عاصم اور عذیر بلوچ کا معاملہ لٹکا دیا گیا ہے،نائن زیرو پر چھاپے میں دو درجن مشکوک افراد پکڑے گئے تھے، ان کا ابھی تک کچھ نہیں ہو سکا ،بہت سوں کی قبل از گرفتاری ضمانتیں منظور کر لیں گئیں،عدالت میں گرنیڈ پھٹ جاتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ ’’ثابت‘‘نہیں ہو رہا،حکومت نے پاک فوج کی مدد کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا جس کا دو سال بعد بھی کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔

کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن منطقی انجام تک پہنچایا جانا مقصود تھا،اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ شائد بدترین ناقد بھی مانیں کہ سندھ رینجرز کی کارکردگی قابلِ تعریف ہے۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ بلوچستان میں مفاہمت کا عمل یقینی بنایا جائے گا،اس پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے بہت کام کیا اور بیشمار بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا لیکن جہاں تک ان بلوچوں کی محرومیاں دور کرنے کی بات ہے تو حالت یہ ہے کہ صرف صوبائی سیکریٹریوں کے گھروں سے کروڑوں روپے برآمد ہو رہے ہیں،بلوچوں کے حقوق جمہوریت کھا گئی،اگر یہی حالت رہی تو آپ انکو دوبارہ واپس دہشت گردی کی طرف جانے سے کتنا عرصہ تک روک پائینگے؟

طے تو یہ ہوا تھا کہ فرقہ وارانہ تنظیموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا،کیا اس پر آپ نے کسی پیشرفت کے بارے میں سنا ہے؟ ابھی تک تو کارکردگی صفر ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ فرقہ پرستی پر بنی کچھ جماعتوں کے سیاسی ونگ بھی ہیں جو حکومت کے کافی قریب ہیں۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ افغان مہاجرین کے مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے گا۔

اس معاملے میں صرف پاک فوج اور کے پی کے میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت ہی کام کر رہی ہے اور افغان مہاجرین کی باعزت اور جلد واپسی پر کام ہو رہا ہے جب کہ حکومتی جماعت کے تینوں اہم ترین اتحادی مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور اسفند یار والی افغان مہاجرین کی واپسی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں بلکہ محمود اچکزئی تو خیبرپختونخوا کو افغانستان کا حصہ قرار دے چکے ہیں لیکن کسی نے ان سے سوال تک نہیں کیا،پلان میں تھا کہ افغان مہاجرین کے اندراج کی جامع پالیسی وضع کی جائے گی مگر اس صورتحال میں ہماری وفاقی وصوبائی حکومتیں اور پولیس بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔

طے تو یہ ہوا تھا کہ عدلیہ یا جسٹس سسٹم کی تشکیلِ نو کی جائے گی،اس پر کوئی کام نہیں ہوا کیونکہ عدلیہ ہی پاکستان میں تمام مسائل کی جڑ ہے،صرف عدالتیں ٹھیک ہو جائیں تو ہر قسم کی کرپشن، بدانتظامی اور جرائم کا تدارک کیا جا سکتا ہے لیکن ہنوز اس معاملے میں حکومت کی طرف سے پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا،ذرا تصور تو کیجیے کہ نیشنل ایکشن پلان کے صرف ان ہی حصوں پر کام ہو سکا ہے جو پاک فوج نے کرنے تھے،جمہوری حکومت کے حصے کا کام دو سال بعد بھی صفر کا صفر ہے،منتخب جمہوری حکومت نے ابھی تک کمیٹیاں بنانے، اجلاس کرنے، بیان بازی اور بھاری بھر کم تنخواہوں پر نئے نئے وزیر اور مشیر بھرتی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

پاکستان میں دہشت گردی ایک نہایت پیچیدہ معاملہ ہے جس میں دنیا بھر کی بڑی بڑی طاقتیں ملوث ہیں اور ان کی مدد پاکستان کے اندر سے کئی مذہبی اور سیاسی گروہ کر رہے ہیں،اس جنگ کے بیشمار پہلو ہیں، اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے مشورے سے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تا کہ سارے پہلوؤں کا احاطہ ہو سکے۔ پاک فوج کے ذمے اس پلان کا سب سے مشکل حصہ تھا جو اس نے پورے جوش و جذبے سے اور اپنے ہزاروں جوانوں کی قربانی دیکر بخوبی پورا کیا،اسی کا نتیجہ ہے جو آپ ملک میں کسی حد تک امن و امان دیکھ رہے ہیں لیکن جو حصہ منتخب جمہوری حکومت نے کرنا تھا اس پر ایک فیصد کام بھی نہیں ہوا بلکہ اُلٹا پاک فوج کے راستے میں بھی طرح طرح کی رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں جن کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔

صداقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں نیشنل ایکشن پلان کو مکمل طور پرناکام بنانے پر کمربستہ ہیں،اگر صورتحال یہی رہی تو 6 لاکھ تو کیا 60 لاکھ کی فوج بھی دہشتگردی کے عفریت کو قابو نہیں کر پائیگی۔ وزیراعظم کی بھارت سے نرم پالیسی کی وجہ سے حکومت اور عسکری اداروں کی خارجہ پالیسی کے بارے میں وژن پر بڑا اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔ پاکستان کے قیام سے آج تک اتنا بڑا تضاد کبھی پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ گزشتہ 15 ماہ سے پاکستان میں سیاسی حکومت کے وجود کا دُور دُور تک نام و نشان نہیں مل رہا۔

نیشنل ایکشن پلان کا عملی فلسفہ جو 6 ستمبر 2015ء کو جنرل راحیل شریف نے ایک پروقار تقریب میں قوم کے سامنے پیش کیا تھا، وہ آج کہیں بھی نظرنہیں آ رہا۔ فوج ایک بڑا طاقتور ادارہ ہے،عوام کی سوچ یہ ہے کہ فوج ہی ملک کو بچائے گی،نوازشریف 30 برس سے سیاست میں ہیں لیکن وہ سیاست کے بنیادی اُصولوں کو ابھی تک نہیں سمجھ پائے،انہیں حکمرانی کا طریقہ نہیں آتا،وہ کاروبار کی طرح سیاست کو بھی کاروبار ہی سمجھتے ہیں اور حکومت بھی کاروباری انداز سے ہی چلاتے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان پر سست روی کے حوالے سے تشویش یہ واضح کرتی ہے کہ صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے حصے کا کردار احسن طریق سے انجام نہیں دیا۔ یہ ملک وقوم کی زندگی موت کا سوال ہے۔ ضربِ عضب سو فیصد منطقی انجام تک نہ پہنچا تویہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اس کا ردِعمل کتنا بھیانک ہوگا،یہ آتش فشاں دوبارہ پھٹ پڑا تو پہلے سے زیادہ تباہ کن ہو گا۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک ہمہ جہتی اور مکمل حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تا کہ دہشتگردوں کو بچ نکلنے کا موقع نہ مل سکے،ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کو فروغ دیکر دہشتگردی کے خلاف اس کارروائی کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے تا کہ پاکستان کے ستم رسیدہ عوام سکھ اور چین کی فضا میں سانس لے سکیں،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کہاں کہاں کوتاہی ہوئی ہے؟ کون سے مورچے تھے جن کو خالی پا کر دہشتگردوں نے قوم پر اپنے حملوں کے لیے استعمال کیا؟ کون سے محاذ ایسے تھے جن پر منظم طریقے سے کام نہیں کیا گیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔