بے حسی کا موسم

رئیس فاطمہ  اتوار 21 اگست 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کیسے کیسے موسم انسانوں پہ گزرتے ہیں، جن کا کوئی حساب نہیں۔ لیکن ایک بے حسی کا موسم بھی ہوتا ہے، جس کی تمازت ہم سب سہہ رہے ہیں۔ تقسیم کیا ہوئی، گھر اجڑ گئے، خاندان بکھر گئے، آپا دھاپی شروع ہو گئی۔ سیاستدانوں اور بیوروکریٹ کی چالبازیوں، مکاریوں اور عیاریوں کی بدولت اس ملک کو ساجھے کی ہانڈی سمجھ کر خوب گھونٹا گیا اور خوب گھی ڈال کر کھایا گیا۔ لیکن برصغیر کی تقسیم کے بعد جو صورتحال سامنے آئی وہ بقول کسی کہ ’’ہندوستان میں ہندو اور مسلمان مل کر رہتے تھے، پھر ہندوؤں نے مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیا۔

تب مسلمانوں نے سوچا کہ ایک ایسا ملک بنانا چاہیے جہاں مسلمان، مسلمان کو مار سکے۔ سو اس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا۔‘‘ بات تو سو فیصد سچ اور تلخ ہے کہ اب مسجدوں میں دھماکے ہوتے ہیں، بندوقوں کی چھاؤں میں عید کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ حد تو یہ کہ کھلی فضا میں جشن آزادی اس طرح منایا جاتا ہے کہ صبح سے موبائل فون سروس بند کر دی جاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر دہشتگردی کا خطرہ تھا۔ بندربانٹ کا سلسلہ جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گا۔ کس کو توڑنا ہے؟ کس کو خریدنا ہے؟ کس ملزمہ کو مسٹریس اور ہیروئن کا درجہ دینا ہے؟

کس کی بلیک منی کس طرح اجلی اور شفاف ہو گی؟ کون کراچی شہر کی قیمتی زمین اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر کسی بہروپیے کو دان کر دے گا؟ کون کون سیاسی انتقام کا نشانہ بنے گا؟ اور کون کون شاہ کے قدموں میں گر کر اپنی وفاداری کی قیمت الیکشن کا ٹکٹ حاصل کرے گا۔ اور جیتنے کے بعد کرپشن کے وعدے پورے کرے گا؟ کون شہر کو کچرا کنڈی بنائے گا؟ کون ٹینکر مافیا سے گٹھ جوڑ کر کے لوگوں کو پانی کی بوند بوند کو ترسائے گا؟ اور اپنا گھر ڈالروں سے بھرے گا؟ کون اپنی خبیث مسکراہٹ سے لوٹ مار کے نئے داؤ پیچ اگلی نسلوں کو منتقل کرے گا؟ یہ سب کھلی کتاب کی طرح ہے۔

لیکن بے حسی کے جس عذاب سے آج ہم دوچار ہیں۔ وہ ایک بہت بڑا سماجی اور تہذیبی نقصان ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے اور بے حسی کے مظاہرے دیکھیے۔ صاحب دل ہیں تو اس پر دکھ بھی ہو گا اور افسوس بھی۔ ایک عجیب طرح کی نفسا نفسی سوسائٹی میں در آئی ہے۔ اب تو مطلب کے بغیر کوئی کسی کو فون بھی نہیں کرتا۔ بقول محسن بھوپالی:

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو آ جاتی ہے، مصنوعی سی مجبوری

اب کسی کے کام آنا خواب و خیال ہو گیا ہے۔ جب تک جواب میں کسی فائدے کی امید نہ ہو، لوگ تعزیتی جلسہ بھی نہیں کرتے۔ کتنے ادیب، شاعر، صحافی، موسیقار اور اداکار وفات پا گئے۔ لیکن خواہ آرٹس کونسل ہو یا کوئی اور علمی و ادبی ادارہ۔ تعزیتی ریفرنس صرف انھی کے ہوئے جن کے لواحقین سے کسی ذاتی اور مالی فائدے کی امید تھی۔ یہ بے حسی ہمیں کہاں لے جائے گی؟ سوچ کر خوف آتا ہے۔

ذرا سوچیے کہ کسی ہوٹل میں سے جب کوئی فیملی کھانا کھا کر نکلتی ہے، کسی برگر یا پیزا شاپ پر ہزاروں کے بل پے کرتی ہے تو وہیں کہیں آس پاس بہت سے چہروں پہ حسرت و یاس بکھر جاتی ہے کہ وہ یہ سب کیوں نہیں خرید سکتے۔ بے حسی کا تکلیف دہ نظارہ وہ بھی ہے جو لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن آنکھ بچا کر نکل جاتے ہیں۔ اس بیمار باپ کے بارے میں سوچیے جو اپنے اکلوتے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کی حسرت میں قبر میں جا سویا۔ بیٹے نے قبر میں تو اتار دیا لیکن پلٹ کر پھر کبھی نہ باپ کی قبر پہ گیا نہ اکیلی رہ جانے والی ماں کا خیال کیا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟ لیکن بے حسی کی سفاک چادر اوڑھے یہ زمانہ چپ چاپ سب دیکھتا رہا۔

سفاکی اور بے رحمی کی ایسی مثالیں آپ کو صرف پاکستان ہی میں نظر آئیں گی، جہاں ایک طرف تھر میں بھوک، پیاس اور غربت سے بے شمار بچے مر جاتے ہیں اور دوسری طرف وقت کے بے رحم نمرود اور فرعون  جیسے حکمرانوں کے لیے منرل واٹر کی بوتلیں اور 72 قسم کے کھانے انھیں اس لیے پیش کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنی عیاشیوں سے کچھ وقت نکال کر مردہ بچوں کی ماؤں کو پرسہ دینے آئے تھے۔ بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتے ہیں۔ ہر جگہ ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا جاتا ہے، کیونکہ ہمارے یہ حکمران اس طبقے سے لیے جاتے ہیں، جن کے لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ:

غنچہ چٹکا تو کہا سر میں دھمک ہوتی ہے
فرشِ مخمل پہ مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں

بے حسی کا ایک اور نظارہ دیکھیے، جشن آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ لیکن قومی پرچم کی بے حرمتی جس طرح اگلے دن ہوتی ہے، جس طرح جھنڈیاں پیروں تلے روندی جاتی ہیں۔ کیا یہ بے حسی نہیں ہے۔ جتنا روپیہ جھنڈیاں اور جھنڈے لہرانے پر خرچ کیا جاتا ہے، کیا اس سے کچھ گھروں کے چولہے نہیں جل سکتے تھے؟ لیکن نہیں محض دکھاوا اور بے حرمتی۔ کوئی بھوکا ہے تو ہمیں کیا؟

بے حس قوموں پہ جلدی زوال آتا ہے۔ آج ہمیں نہ اپنے پڑوس کی خبر ہے، نہ بوڑھے والدین کی، بیمار باپ رات بھر کھانستا ہے، جس سے بچوں کی نیند خراب ہوتی ہے۔ بہو بیگم کا حکم ہے کہ سسر کو اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کرا دو۔ کم از کم ہر وقت کی کھانسی کی ناگوار آواز سے تو نجات ملے گی، بچے چین کی نیند تو سو سکیں گے۔ بے حسی اور بے رحمی کی ایک تکلیف دہ تصویر آپ کو اس اولڈ پیپل ہوم میں ملے گی، جہاں صاحب حیثیت لوگ اپنی اولاد کی بے حسی کا شکار ہو کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔

بعض خواتین و حضرات کی اولادیں مال دار ہیں، لیکن بہوئیں انھیں ساتھ رکھنے کی روادار نہیں، اور بے رحم بیٹے انھیں ماہانہ معاوضہ دے کر یہاں داخل کرا گئے ہیں لیکن بعض بدنصیب ایسے بھی ہیں جنھیں خود ان کی پیٹ کی اولاد اولڈ پیپلز ہوم کے گیٹ پہ چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ کبھی موقع ملا تو اس اولڈ پیپل ہوم کا تفصیلی تعارف کراؤں گی۔ اپنوں کی بے رخی، سفاکی اور بے حسی کی مار کھاتے ہوئے یہ بوڑھے والدین غیروں کی پناہ میں ہیں اور وہی ان کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں۔ جو لوگ اس ادارے کو جانتے ہیں وہ بے سہارا بوڑھوں کے لیے تحفے تحائف لے کر جاتے ہیں۔ اپنوں کو دیکھنے کے لیے جن کی آنکھیں ترستی ہیں وہ غیروں کا پیار پا کر رو پڑتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا بے حس معاشرہ۔ یعنی پاکستانی معاشرہ جہاں بے حسی سفاکی میں بدل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔