وہ بیٹی میں بھی ہو سکتی تھی!!!

شیریں حیدر  اتوار 21 اگست 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

خوف و ہراس فضا میں پھیلا ہوا ہے، ہر طرف ، بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اس بات سے آگاہی دی جا رہی ہے کہ اپنے بچوں کو کس طرح محفوظ بنانا ہو گا، کس طرح ان ننھے منوں کی حفاظت کرنا ہو گی۔

موسم گرما کی تعطیلات اختتام پذیر ہوتے ہی والدین میں خوف کا احساس بڑھ گیا ہے کیونکہ اب انھیں ہر روز اپنے بچوں کو اسکول بھجوانا ہوتا ہے اورچند گھنٹوں کے بعد اسکول سے لینا ہوتا ہے، کسی کے بچے بس ، ویگن یا ٹیکسی پر گھر لوٹتے ہیں تو کوئی والدین بچوں کو خود لینے جاتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کی وجہ سے بھی دیر سویر ہو جاتی ہے یا کسی بھی اور وجہ سے… اب اس دیر کے عرصہ میں والدین کے سروں پر ننگی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے کہ یہی وہ وقفہ ہے جس میں اغوا کرنے والوں کے گروہ کو آسانی سے ’’شکار‘‘ مل سکتا ہے۔

اغوا کی ایک واردات کا ذکر کرتی ہوں … کھاریاں چھاونی سے ایک سڑک جلالپور چھاؤنی تک جاتی ہے ، اس سڑک کو ڈیفنس روڈ کہا جاتا ہے، اسی ڈیفنس روڈ پر میرا گاؤں ہے، بھدر۔ بھدر موڑ سے ایک سمت جلالپور، دوسری کھاریاں اور تیسری سمت کوٹلہ اور بھمبر کی بنتی ہے، آخر الذکر راستے میں میجر عزیز بھٹی شہید ( نشان حیدر) کا گاؤں لادیاں بھی ہے۔ اسی سمت میں بھدر موڑ سے مڑیں تو پہلا گاؤں جکھڑ آتا ہے، اسی گاؤں میں چند دن قبل ہونے والی اغواء کی واردات سے علاقے میں خوف کی ایک لہر سرایت کر گئی۔

علاقے میں اسکول کھلے ہی تھے کہ اگلے روز خبر ملی کہ کسی اسکول کی نرسری کلاس کی بچی گھر سے اسکول کے لیے نکلی، چھٹی کے وقت جب اسے گھر لانے کے لیے گئے تو علم ہوا کہ بچی تو اس روز اسکول ہی نہ آئی تھی، والدین فکر مند ہوگئے اور تفتیش جاری ہو گئی ، شام تک بچی کی لاش کھاریاں کے کسی نواحی قصبے سے پانی کے تالاب سے مل گئی۔پولیس نے اپنا کام شروع کیا، بچی کے باپ کو شامل تفتیش کیا گیا، مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں اور جلد ہی بچی کے باپ نے اقبال جرم کرلیا۔

وہ ایک نشئی ہے اور اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے لوگوں سے رقوم ادھار لے رکھی ہیں، لوگوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات کی وجہ سے اس نے یہ سوچا کہ اس ڈرامے سے لوگوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو جائیں گی کہ اس کی بیٹی اغواء اور قتل ہوئی۔ کیا کوئی بچی اتنی بے وقعت ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی باپ اتنا خود غرض ہو سکتا ہے؟ کیا ایک انسانی جان اتنی ارزاں ہو سکتی ہے؟ کیا کوئی اپنے خون کو یوں صفحۂ ہستی سے مٹا سکتا ہے؟ بچی بھی وہ معصوم کہ جس کا کوئی قصوربھی نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ ایک لالچی، بے رحم اور بے ضمیر باپ کی بیٹی تھی!!

اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب کوئی مجرموں کا گروہ متحرک ہوتا ہے تو اس میں بہت سے ایسے لوگ بھی فائدہ اٹھا جاتے ہیں جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان پر کسی کا شک نہیں جائے گا اور ان کی کی گئی واردات بھی اسی گروہ کے کھاتے میں درج کر دی جائے گی۔ اس واقعے کے مجرم تک فوری پہنچ جانے کے باعث ہمیں ان پولیس اہل کاروں کو داد ضرور دینی چاہیے جنھوں نے علاقے کے لوگوں کو یہ اطمینان فراہم کیا کہ وہ مجرموں کو پکڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اس وقت ملک میں جو گروہ سرگرم ہیں وہ بچوں کو اغواء کر کے ان کے اہم جسمانی اعضاء کو نکال کر فروخت کر رہا ہے۔گزشتہ برس میں صوبۂ پنجاب میں اٹھارہ سو آٹھ بچوں کے اغواء کی رپورٹ درج ہوئیں اور اس میں سے 980 بچے صرف ایک شہر ، لاہور سے اغواء ہوئے۔

اگرچہ پولیس کے مطابق ان اغوا ہونے والے بچوں میں سے زیادہ تر بچے بازیاب کر لیے گئے تھے۔ خطرے کے نشان کو پار کرتی ہوئی یہ سطح ہم سب کے لیے لمحۂ الم اور فکریہ ہے، کسی ایک بچے کے اغواء پر بھی ہمارے اداروں کو متحرک ہو جانا چاہیے تھا مگر حد سے بڑھتی ہوئی اغواء کی وارداتوں کے باوجود بھی ہماری حکومت نے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ماہ جولائی کے بعد بھی، اگست کے مہینے کے تین ہفتے گزر چکے ہیں اور ہر روز اخبار میں درج ہوتا ہے کہ کتنے بچے مزید اغواء ہو گئے ہیں۔

اگر کوئی گروہ ان بچوں کو اغواء کر کے ان کے جسمانی اعضاء کو نکال کر فروخت کر رہا ہے تو ہم سب کو اندازہ ہونا چاہیے کہ یہ گروہ کس حد تک منظم ہیں اور اس میں کس کس نوعیت کے ماہرین شامل ہوں گے، جسمانی اعضاء کو نکال کر فروخت کرنے کا عمل کوئی عام انسان نہیں کر سکتا، یقینا اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو اس کام میں ماہر ہیں۔ کون لوگ یہ اعضاء خریدتے ہیں، یقینا ان کا تعلق بھی ان اداروں سے ہو گا جہاں پر انسانی اعضاء کی transplant ٹرانسپلانٹ ممکن ہے، ہر عام اسپتال میں ایسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہر ایک ڈاکٹر ایسا کر سکتا ہے، یہ بھی لازم نہیں کہ ہر اغواء ہونے والے بچے کے اعضاء کو کسی اور کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

یقینا بہت سے بچے اس لیے اغوا کیے جاتے ہیں کہ ان کے والدین اور خاندان سے بھاری تاوان وصول کیے جا سکیں، کچھ خاندانوں کی آپسیں دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، کچھ گداگروں کے کاروبار میں استعمال ہوتے ہیں، کچھ کو مجرم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وجہ ان میں سے جو بھی ہو مگر سب سے اہم یہ ہے کہ یہ سب بچے بے قصور اور معصوم ہوتے ہیں، وہ ان وجوہات سے بے خبر اور بے ضرر ہوتے ہیں۔

اس وقت اگر کوئی اس سارے معاملے سے متاثر ہے تو وہ عوام ہیں، جن کے ووٹ حاصل کرتے ہی حکومت ان سے یوں آنکھیں پھیر لیتی ہے کہ وہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں ، ’ کبھی ہم اور تم بھی تھے آشنا!‘ ملک میں کسی محکمے کو لے لیں، کسی ادارے کو لے لیں ، پبلک سروس کی کسی عمارت کو لے لیں، سرکاری فضائی ادارے، ریلوے، سرکاری بسوں کے اڈے، سرکاری اسپتال، سرکاری اسکول، سرکاری بینک، انتظار گاہیں، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے دفاتر، پوسٹ آفس!!! غرض جس طرف کو سوچ جائے، ایسا کیوں ہے کہ جہاں ’’سرکار‘‘ کا لفظ آتا ہے وہاں سرکاری سرپرستی والے ادارے یا عمارتیں بہتر ہونے کی بجائے، گندگی، غلاظت، بے ترتیبی، بد نظمی، بدسلوکی، وسائل کی کمی اور کرپشن کی منہ بولتی تصویریں ہیں؟

کیا حکومت نے عوام کو ٹیکسوں کی چکی میں نہیں پیس رکھا ہے ؟ تنخواہ پر ٹیکس دینے والے لوگوں کے علاوہ ہم سانس لینے پر بھی ٹیکس دیتے ہیں پھر بھی سانس لینا محال ہو گیا ہے۔ان ہی بدانتظامیوں کے سبب ہم نے اپنی نئی نسل کا ایک بڑا حصہ گنوا دیا ہے، وہ بچے جو اس ملک میں بہترین تعلیم حاصل کر نے کے بعد ملازمتوں کے فقدان یا نظام کی خرابیوں کی وجہ سے یہاں سیٹ نہیں ہو سکتے، انھیں اس کرپشن بھرے ملک میں اپنا مستقبل نظر نہیں آتا تو وہ ان ملکوں میں جا کر بس جاتے ہیں، کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔ جہاں وہ چاہے تیسرے درجے کے شہری ہیں مگر وہاں انھیں سکون اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے، انھیں ناانصافی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، وہاں حکمرانوں سے لے کر عوام تک کے لیے تعلیم ، صحت اور انصاف کا ایک ہی معیار ہے۔ وہ اقدار جو کسی اسلامی معاشرے کا حصہ ہونا چاہئیں وہ وہاں موجود ہیں، وہ کیوں لوٹ کر اس ملک میں آئیں جہاں انسانوں کے ہر درجے کے معیار، ان کی سہولیات اور اختیارات مختلف ہیں۔

حکومت کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے کسی مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اپنے بڑے منصوبوں سے ہٹ کر بھی سوچے۔ چاہے اس میں ان کا ذاتی اور مالی فائدہ کوئی نہیں مگر عوام میں بے سکونی اور انتشار پھیلا ہوا ہے۔ عوام کے مسائل کا حل موجودہ حکومت کی ترجیحات میں کہیں بھی نہیں بیٹھتا مگر ان وارداتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے، ان کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن کیا جائے جس کے لیے پولیس اور ایجنسیوں میں سے بہترین کارکنوں کو فرائض تفویض کیے جائیں اور گرفتار مجرمان کے بارے میں مکمل تحقیقات کی جائیں کہ ان کے ڈانڈے کہاں ملتے ہیں، کسی کو معاف نہ کیا جائے خواہ اس میں کتنے ہی پردہ نشینوں کے نام آتے ہوں، کتنے ہی بڑے ہاتھ ہوں یا انھیں کسی بھی سرکاری یا سیاسی سرپرستی حاصل ہو۔

گنتی کے دوسال رہ گئے ہیں آپ کے پاس، کم از کوئی ایک مسئلہ تو حل کر جائیں کہ جس کے بارے میںآپ کے جانے کے بعد تاریخ میں لکھا جائے کہ آپ نے اس کا سدباب کرنے میں ذاتی دلچسپی لی، اگر عوام آپ سے متنفر ہو گئے تو آپ بھی تاریخ کی کتابوں میں ان ہی حکمرانوں کی طرح دفن ہو جائیں گے جن کے بارے میں ہماری موجودہ نسل کو بھی کچھ علم نہیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔