بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  پير 22 اگست 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بلوچستان کے انتظام و انصرام کو انگزیز دور سے ہی برصغیر کے باقی خطوں سے بالکل علیحدہ طرز پر استوار کیا گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجنٹ رابرٹ سنڈیمن نے اس وقت اپنی مشہور ’’فاروڈ پالیسی‘‘ پر حکومت برطانیہ سے منظوری کے بعد عمل درآمد کا آغاز کیا جب انگریز اس خطے کے بلوچ قبائل سے جنگ میں بری طرح شکست کھا رہا تھا۔ سندھ اور پنجاب فتح ہو چکے تھے لیکن زار روس کے مقابلے میں خود کو مستحکم کرنے کے لیے انگریز کو بلوچستان کا خطہ بھی درکار تھا۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑ ایک فصیل کا کام دے سکتے تھے۔

اسی لیے اس نے سبی کے اردگرد شروع ہونے والے پہاڑی سلسلوں میں آباد بلوچ قبائل سے جنگ شروع کر دی۔ آغاز میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو سنڈیمن نے ایک تجویز پیش کی کہ اس علاقے کے بلوچ اور پشتوئی قبائل کو ان کے قدیم رواج کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے‘ ان کی قبائلی خود مختاری کا احترام کیا جائے‘ یہاں کے قبائلی دستور کو انگزیزی قانون کا حصہ بنا دیا جا ئے اور علاقے میں امن عام اور انصاف کی ذمے داری سرداروں کو دے دی جائے۔ اس کے بدلے میں سرداروں کو تاج برطانیہ کا وفادار ہونے پر قائل کر لیا جائے۔

اسی کی کوکھ سے لیویز سسٹم نے جنم لیا۔ انگریز قبیلے کے سردار کو لیویز کے سپاہی رکھنے کے لیے ڈپٹی کمشنر یا پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے رقم فراہم کرتا اور وہ بدلے میں انگریز کو ایک پرامن خطہ عطا کرتے۔ یہاں حالات پرامن چاہیے تھے کہ سرحدی علاقہ تھا اور سردار وفادار چاہیے تھے کیونکہ یہاں ذرا سا بھی اختلاف یا احتجاج برداشت نہیں ہو سکتا تھا۔ قبیلے کی قوت نافذہ نے انگریز کو یہاں سو سال تک بے خوف و خطر حکمران رکھا۔ خان آف قلات ہو یا کوئی اور نواب یا سردار سب انگریز سے ’’خانہ نشینی‘‘ الاؤنس وصول کرتے تھے جس کا مطلب ہے کہ تم گھر میں بیٹھے رہو اور وظیفہ کھاؤ۔

البتہ انگریز ان سرداروں کے علاوہ بھی لوگوں میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے دوستیاں پالتا اور ایجنٹ بناتا۔ لیکن اس نے قبیلے کی روایات کے مقابلے میں کسی غیر سردار کو سردار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ایک دو ناکام کوششوں کے بعد اس نے یہ سب بھی ترک کر دیا۔ البتہ اس نے ان سرداروں کے ذریعے افغانستان میں خفیہ طور پر اپنے ایجنٹ پھلائے ہوئے تھے جو بارڈر کے اس پار واقع روس کے افغانوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔

پاکستان نے اس انتظام کو ورثے میں لیا تھا۔ جہاں قبائل سرداری نظام اور انتظامیہ کا گٹھ جوڑ انگریز کا تحفہ ہے وہیں افغانستان سے مسلسل دشمنی بھی انگریز ہی کا تحفہ ہے۔ تمام سرحدی تنازعات اسی دور کی پیداوار ہیں۔ بلوچستان اپنے علاقائی اور سرحدی اہمیت کی وجہ سے ہر دور میں عالمی طاقتوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل خطہ رہاہے۔ 1917ء میں جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے 1920ء میں آذربائیجان جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا‘ اس کے شہر باکو میں کمیونسٹ تنظیموں کا عالمی اجلاس منعقد ہوا۔

اس میں بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا سوویت یونین ہندوستان میں قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کر کے کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سب سے زیادہ انقلابی جدوجہد کی داستانیں اس خطے میں رقم ہوئیں۔ افغانستان روس کا ہمیشہ سے حلیف رہا ہے‘ اور پاکستان امریکا کا حواری۔ 1979ء میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو بلوچستان کی سرزمین بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس خطے میں وہ سب کھیل کھیلا گیا جس نے روس کو شکست سے دوچار کیا اور گوادر جس کے خواب کبھی روسی رہنما دیکھا کرتے تھے کریملین کی گلیوں میں ناکام و نامراد لوٹ گئے۔

افغانستان پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے زیر اثر رہا۔ پہلے 8 سال قتل و غارت اور اگلے پانچ سال مثالی امن و امان۔ اسی ادھیڑ بن میں امریکا  دہشتگردی ختم کرتے وہاں آ گھسا۔ پاکستان اس جنگ میں اس کا حلیف تھا لیکن امریکا نے ایک بے وفا معشوق کی طرح دوستیاں اور آشنائیاں ہمارے دشمنوں سے رکھیں۔ بھارت امریکی سائے میں افغانستان میں مستحکم ہوا اور اس کے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے دلآرام اور زرنج تک ایک سڑک بنا ڈالی۔ اس سب کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ بلوچستان کے اہم ترین خطے کا متبادل پیش کر کے اس خطے کو پسماندگی‘ جہالت اور خونریزی کے سمندر میں دھکیل دینا۔ جس دن سے گوادر کے ساحل پر بندگاہ تعمیر کرنے کی مشینری پہنچی کم از کم سات ایسے ممالک تھے جنہوں نے بلوچستان کی بدامنی میںنمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا بنیادی مقصد چین کو اس بندرگاہ کی دسترس رکھنے سے روکنا تھا بلکہ ایسا کرنے سے وہ چین کی معیشت کو الٹا گھومنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اور ان سب کا سرپرست ا مریکہ جس کے اشاروں پر یہ سب ناچتے ہیں۔

اس لیے گوادر کے راستے چین کی تجارت ان تمام بڑے بڑے تجارتی مراکز کی موت ہے جو اس خطے میں تیزی سے بلند و بالا عمارتوں کا جنگل بنے ہیں۔ بھارت‘ امریکا اور ایران گٹھ جوڑ اس خطے میں بالادستی بھی چاہتا ہے اور چین کی معاشی ناکہ بندی بھی۔ دوسری جانب چین کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو چین کی معیشت کا بلبلہ ایسے پھٹے گا کہ رہے نام اللہ کا۔ عالمی طاقتوں نے اس معاشی راہداری کو روکنے کے لیے اس کے دونوں جانب فتنوں اور شرارتوں کا جال پھیلایا ہے۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد کو ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کی طرف اس کار خ موڑا جا رہا ہے۔

حیران کن بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام این جی اوز اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی اچانک کشمیر کی یاد آ گئی ہے۔ وہ اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ اگر کشمیر کو اقوام متحدہ کے کنٹرول کے لیے دس سال کا وقت دے دیا جائے تو ظاہر ہے یہ امریکا کے کنٹرول میں ہو گا۔ یوں گلگت بلتستان سے جموں تک ہر جگہ خود بخود امریکیوں کو رسائی مل جائے گی اور چین کا گھیرا تنگ۔ ایسا ہوا تو بلوچستان چاہے جو کچھ کرے معاشی راہداری نہیں بن سکے گی۔ اور اگر کشمیری پاکستان سے ملنے پر ڈٹے رہے تو آزاد بلوچستان اور پھر گوادر کو اگلے کئی سالوں تک کھنڈر بنانا۔ اس کے لیے آزاد بلوچستان ضروری ہے لیکن یہ آزاد بلوچستان بلوچوں کے لیے نہیں ہو گا‘ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے ہو گا۔

حالات کی خرابی دخل اندازی کا موقع دے گی اور پھر رہے نام اللہ کا۔ مگر اس سے پہلے کہ بلوچ اور پشتون پاکستان سے علیحدہ ہوئے تو ان کا حشر یقینا اسے پرندے جیسا ہو گا جس کی تاک میں بلے‘ بھیڑیئے اور کتے ہوتے ہیں کہ پرندہ گھونسلے سے گرے اور وہ اسے دبوچ لیں۔ ایجنڈا صرف ایک ہے بلوچستا کو انگولا کی طرح پسماندہ اور خون خرابے میں گم رکھا جائے تا کہ یہاں پسماندگی بڑھے‘ تحریکیں چلیں اور ایک دن یہ پرندہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ یہ ایجنڈا خوب ہے لیکن اس کی کوکھ سے یہ خطہ ایسی جنگ کی طرف نکل جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سے نقشے بدلیں اور بہت سی لکیریں مٹ جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔