نیشنل ایکشن پلان ۔۔۔ سیاسی و ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کرعملدرآمد کرنا ہوگا!!

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘میں اظہار خیال ۔  فوٹو : فائل

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کو اڑھائی برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں۔

چند روز قبل کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا، اس میں کیا کھویا ،کیا پایا اور ابھی اس پر مزید کتنا کام باقی ہے ؟اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

بریگیڈیئر(ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)
یہ جنگ ہم نے جیتنی ہے اور اس میں ہار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جنگ صرف فوجی آپریشن سے نہیں جیتی جاتی بلکہ اس میں سیاسی حکومت اور گورننس کاکردار بھی اہم ہوتا ہے۔ فوج نے سوات، نارتھ، ساؤتھ وزیرستان، کرم ایجنسی و دیگر علاقوں میں کامیاب آپریشن کیا، امن قائم ہوگیا لیکن سیاسی حکومت ابھی تک وہاں اپنا کردار ادا نہیں کرپائی۔

میرے نزدیک حکومت سیاسی سٹرٹیجی کو ملٹری سٹرٹیجی کے ذریعے چلانے کی کوشش کررہی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات سانحہ آرمی پبلک سکول سے شروع نہیں ہوتے بلکہ ان کا ادراک جنرل ضیاء الحق دور کے شیعہ سنی فسادات سے کیا گیا۔ حکومتیں دہشت گردوں کی فنڈنگ و دیگر حوالے سے باتیں تو کرتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کام نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد ہم سوویت یونین کے مسئلے میں پھنس گئے جس دوران بہت زیادہ فنڈنگ کی گئی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی لیکن ہوم لینڈ سیکورٹی کا نظام نہیں بنایا گیا، حالانکہ اس طرح کی جنگ کے لیے سول، ملٹری انٹیلی جنس کے نظام کو مزید موثر اور ان میں رابطے کو مزید فعال کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں خلاء موجود ہے جو ہماری ناکامی کا باعث بنا ہے۔

سانحہ پشاور کے بعد آل پارٹیز کانفرنس محض ایک ڈرامہ تھا، اس کے دو ہفتے بعد تمام جماعتیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئیں کیونکہ ان سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کے لیے تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ یہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ہے لیکن عام آدمی کی سیکورٹی اور اس کی جان و مال کا تحفظ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔

افسوس ہے کہ ہمارے رویے درست نہیں ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات میں کچھ لانگ ٹرم جبکہ بعض شارٹ ٹرم ایکشن تھے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، نیکٹا کا کردار اب کہیں نہیں ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں تسلسل بہت ضروری ہے، ہم نے جو بھی کام کیے وہ کسی ایک صوبے نے کیے لیکن صوبوں کے درمیان رابطوں کو یقینی نہیں بنایا گیا، اکٹھے مل کر اقدامات نہیں کیے گئے، وفاق نے ان سب کو لے کر چلنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب وزارت داخلہ کے ہوتے ہوئے ٹاسک فورس بنائی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری جنرل ناصر جنجوعہ کو سونپی جارہی ہے۔

میرے نزدیک حکومت اپنی ذمہ داریوں سے ہٹنے کے لیے ایسا کر رہی ہے اور اب یہ نیا مسئلہ بنے گا۔ ٹاسک فورس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صوبوں میں فورسز و دیگر سٹرکچر موجود ہے، صرف ان کے درمیان رابطوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو صوبوں کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے اور اسے وزارت داخلہ نے یقینی بنانا ہے۔حیرت ہے کہ ہم دہشت گردی کی جنگ لڑرہے ہیں لیکن ہماری پولیس کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے، وہ آج بھی روایتی طریقوں پر کام کررہی ہے۔ افسوس ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو مذاق بنادیا گیاجس کی قیمت عوام کی جان کی صورت میں دی جارہی ہے۔ ہماری تمام کارروائیاں ردعمل کا نتیجہ ہیں اور ہم کسی بھی سانحہ سے پہلے اقدامات نہیں کرتے۔ اب ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور تمام اقدامات کو سیاسی سپورٹ کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا۔

سلمان عابد
(دانشور)
نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے پاکستان کی ریاست ،دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کی سنجیدہ کوشش کررہی ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر سے الزامات لگائے جاتے تھے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کو تقویت دیتا ہے۔ ان الزامات کی روشنی میں سول، ملٹری باہمی رضا مندی سے نیشنل ایکشن پلان ،اپیکس کمیٹیاں اور فوجی عدالتیں بنائی گئیں لہٰذا میرے نزدیک نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی اور انہتا پسندی کے خاتمے کیلئے ایک نصاب ہے اور یہ پاکستان کی قومی خودمختاری اور سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں شروع سے سول ، ملٹری بداعتمادی موجود ہے۔ سولین سمجھتے ہیں کہ شاید فوج ہم پر بالادست ہونے کی کوشش کرتی ہے جبکہ فوج یہ سمجھتی ہے کہ سویلین ہم سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقابلہ اور رسہ کشی کے درمیان جب دہشت گردی سے نمٹنے کا یہ ماڈل آیا تو اپیکس کمیٹی کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف بیانات سامنے آئے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ ہوشیار رہیں، یہ اپیکس کمیٹیاں ہمارے گلے کی گھنٹی بنیں گی اور یہ جمہوریت کو کمزور کریں گی۔ اپیکس کمیٹی کا ماڈل یہ تھاکہ یہ کمیٹیاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں،مختلف ایجنسیوں اورفوج کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں گی۔

آج نیشنل ایکشن پلان اور اپیکس کمیٹیوں کو اڑھائی سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اپیکس کمیٹی کا ماڈل پرفارم نہیں کرسکا، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ باقاعدگی سے اجلاس نہیں بلا سکے اور نہ ہی اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بنائی جاسکی۔ جب سندھ میں آپریشن شروع ہوا تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ سیاسی انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں، جب پنجاب میں آپریشن شروع ہوا، چھوٹو گینگ کا واقعہ ہوا تو تب بھی اسی قسم کی باتیں سامنے آئی۔

دہشت گردوں کی پشت پناہی اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں سیاسی جماعتیں سنجیدہ نہیں بلکہ ان طاقتور لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے نیشنل ایکشن پلان کے نتائج حاصل نہیں ہورہے ، اس کے علاوہ عمران خان کی تحریک، دھرنا، حکومت اور اپوزیشن کی محاظ آرائی، عوامی تحریک کا معاملہ و دیگر سیاسی مسائل کی وجہ سے بھی ایک خلاء رہی ہے اور خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ خود وزیر داخلہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ چند نکات جو وفاق کی ذمہ داری تھی ان پر ہم نے کام کیا ہے لیکن صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کے 16نکات پر عملدرآمد نہیں کرسکیں۔ 9/11کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے معاملات کو مرکزی پالیسی کے تحت چلایا کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے کارروائیوں کو اوپر سے ہی مانیٹر کیا جائے گا۔

افسوس ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے معاملے کو بھی 18ویں ترمیم کی طرح صوبوں پر چھوڑ دیا حالانکہ یہ صوبائی معاملہ نہیں بلکہ قومی معاملہ ہے۔ اس جنگ کی قیادت وزیراعظم نے کرنی تھی لہٰذا اگر صوبے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کرسکے تو پھر وزیراعظم اس پر جوابدہ ہیں۔ پارلیمنٹ میں محمودخان اچکزئی، مولانا شیرانی اور مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان متنازعہ ہوگیاہے، سنگین الزامات لگادیے گئے کہ دہشت گردوں کو پالا ہی ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہے۔

جب انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کہا جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ملٹری ایجنسیوں کی بات کی جارہی ہے حالانکہ سول ایجنسیاں بھی موجود ہیں، ان کے درمیان جو رابطے کا فقدان تھا اس کے خاتمے کے لیے کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان سے پہلے قومی سیکورٹی پالیسی آئی تھی اسے کس طرح آگے بڑھایا گیا؟ افسوس ہے کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے موقع کو ضائع کردیا۔ اب نئی مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جارہی ہے جس پر مجھے تحفظات ہیں۔ مانیٹرنگ کمیٹی اور اپیکس کمیٹی کا سٹرکچر ایک ہی ہے، اس سے دونوں کے درمیان ایک نئی لڑائی شروع ہوجائے گی، ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ اپیکس کمیٹی کا ماڈل ناکام ہوگیا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر اب دونوں کمیٹیاں ہی کام کریں گی تو انہیں کون مانیٹر کرے گا؟

صوبے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے پرفارم نہیں کرسکے ، انہیں کون مانیٹر کرے گا؟ کیا مانیٹرنگ کمیٹی اتنی بااختیار ہوگی کہ وہ صوبوں سے حساب لے سکے؟ اگر محض انہوں نے صوبوں سے ڈیٹا ہی اکٹھا کرنا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کمیٹی کو کتنا بااختیار بنایا جاتا ہے۔ جنرل ناصر جنجوعہ کو اس کی ذمہ داری دے دی گئی ہے، اگر وہ یہ کام دیکھیں گے تو خطے اور عالمی سطح پر ملکی سلامتی کا کام کون دیکھے گا؟؟ اس طرح وزارت داخلہ کا کردار بھی محدود کیا گیا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو چودھری نثار پر شدید اعتراض تھا لہٰذا اب یہ نیا بحران نظر آرہا ہے۔ صرف مانیٹرنگ کمیٹی سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جنگ فوج نے نہیں جیتنی بلکہ اس کے لیے ہمیں بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا، لوگوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی لیکن اس حوالے سے حکومت یا کسی سیاسی جماعت نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ سب اپنے تعصبات میں الجھے ہوئے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے بہت خلاء موجود ہے، نیکٹا کہاں گیا؟ کیا پولیس کی کپیسٹی بڑھائی گئی؟ کیا بھارتی مداخلت کو روکا گیا؟ کیا دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کے نیٹ ورک کو توڑا گیا؟ سندھی میں آپریشن میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، پنجاب اور بلوچستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، کسی حد تک کے پی کے میں معاملات آگے بڑھے ہیں لیکن صرف اس سے بہتری آنے والی نہیں ہے ۔ اگر دہشت گردی کے حوالے سے بیانیہ بدلنا ہے تو پھر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اس جنگ کی قیادت کرتے ہوئے نظر آنا ہوگا ۔

اسی طرح سیاسی جماعتیں یہ شور تو مچاتی ہیں کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان ہر عمل نہیں کررہی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے کیا کام کیا؟ افسوس ہے کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان میں معاشرے کو شامل نہیں کیا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے گزشتہ اڑھائی سالوں کا پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے، تمام صوبے اور وفاق اپنا اپنا ڈیٹا پیش کریں کہ انہوں نے اس حوالے کیا کیا اور تمام سیاسی جماعتیں بھی اس میں اپنا کردار واضح کریں۔

افسوس ہے کہ پاکستان کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دہشت گردی کی اس جنگ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں ہم تضادات میں پھنسے ہوئے ہیں، اب بھی ہم نے جو اقدامات اٹھائے ہیں یہ ردعمل ہے۔ اگر کوئٹہ کا سانحہ نہ ہوتا تونہ یہ مانیٹرنگ کمیٹی بنتی، نہ حکومتی و فوجی اجلاس ہوتے اور نہ وزیراعظم اتنے متحرک نظر آتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سانحہ کوئٹہ نے ہمیں جھنجورا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس سانحہ کو کچھ وقت گزرنے کے بعد ہم واپس اپنی اسی روش پر آجائیں گے۔ دہشت گرد ہمارے اندر کی خامیوں کافائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ ہم نے ابھی تک اپنی خامیوں کا ادراک نہیں کیا۔

بھارت کے ساتھ ساتھ اب افغانستان بھی ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے، فوج تو بھارتی مداخلت پر بھرپور موقف اختیار کرتی ہے لیکن حکومت کی جانب سے بیرونی مداخلت پر بات نہیں کی جاتی لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت بھارت کے حوالے سے کتنا مضبوط موقف اختیار کرتی ہے۔ وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں ڈیڑھ سال رہ گیا ہے اس لیے ٹال مٹول سے کام چلایا جائے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں صرف دہشت گرد ہی نہیں پکڑے جائیں گے بلکہ ان کے سہولت کار بھی پکڑے جائیں گے جو بڑی بڑی جماعتوں میں بیٹھے ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اب یہ جنگ جیتنے کے سوا ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنی خامیوں کو دور کرکے متحد ہونا ہوگا اور سول ، ملٹری خلاء کو پُرکرکے نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تب ہی ہم اس جنگ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(تجزیہ نگار )
ہمارا المیہ ہے کہ ہم وسیع النظری سے کام نہیں لیتے بلکہ کوئی سانحہ رونما ہونے کے بعد اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمارا رویہ سٹرٹیجی بنانا نہیں بلکہ فائر فائٹنگ ہوتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان ان تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے جن سے دہشت گردی ہوتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر فوج اور حکومت نے مل کر کام کرنا ہے لیکن اس کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان ’’پراکسی وار‘‘ کا خاتمہ کیا جائے۔ چونکہ ماضی میں فوج کا حکومت میں کردار رہا ہے جبکہ فوج سمجھتی ہے کہ سیاسی حکومتیں بعض جگہ سمجھوتہ کرلیتی ہیں اس لیے دونوں طرف عدم اعتماد اور ہچکچاہٹ ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کالعدم تنظیموں کا خاتمہ ہونا تھا لیکن اس کے باوجود بعض جماعتیںکسی دوسرے نام سے کام کرتی نظر آتی ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ کے خلاف ایکشن ہورہا ہے جبکہ بعض کو چھوٹ دی جارہی ہے۔جب فوجی عدالتوں کے قیام کی بات آئی تو سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان پر تنقید کی گئی جبکہ فوجی عدالتوں میں کیس بھیجنے کے حوالے سے حکومت کا رویہ بھی غیر تسلی بخش ہے، ایسی کوشش بھی کی گئی کہ سب کیسوں کے بجائے کچھ مخصوص کیس بھیجے گئے۔ اس کے علاوہ سندھ میں رینجرز اختیارات میں توسیع کے حوالے سے بھی آئے روز معاملات کشیدہ نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی اور ناکامی کے کریڈٹ کے حوالے سے سول، ملٹری تضاد موجود ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ آپس کے عدم اعتماد کو ختم کیے بغیر نیشنل ایکشن پلان میں کامیابی ناممکن ہے۔

امریکا نے آج تک یہ بیان نہیں دیا کہ آج کے بعد وہاں میں دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوگا بلکہ وہ یہ کہتے ہیںہم اس سے بچنے کیلئے بہترین پیشگی اقدامات کررہے ہیں۔ہمارے ہاں کریڈٹ لینے کے لیے دہشت گردوں کا صفایا کرنے اور ان کی کمر توڑنے کے بیانات دیے جاتے ہیں، پھر جب وہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

اس سے عوام کا حوصلہ کم ہوجاتا ہے اور ملک دشمن طاقتوں کوتقویت ملتی ہے۔اگر ہم نے اس معاملے میں ہمیشہ کے لیے کامیابی حاصل کرنی ہے تو ملک میں بلا استثنیٰ قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے، پولیسنگ کے نظام کو بہتر اور فعال بنایا جائے اور فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ سپورٹنگ سول انفراسٹرکچر بنایا جائے کیونکہ اس کے بغیر نیشنل ایکشن پلان میں کامیابی نہیں ہوسکتی۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے لیے ’’مرو یا مرجاؤ‘‘ والا مسئلہ ہے کیونکہ بھارت، پاکستان دشمن طاقتوں کی مدد کیلئے تیار بیٹھا ہے۔

ابھی تک مردم شماری نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ہمارے پاس لوگوں کا ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ ہمیں بنیادی انٹیلی جنس کے نظام کو فعال بنانا ہوگا۔ بعض علاقوں میں نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ بنا دیا گیا، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اقتصادی راہداری و دیگر معاشی منصوبے ہماری سیکورٹی کے ساتھ وابستہ ہیں، اگر ملک میں امن ہوگا تو پھر ہی ہم اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آئین کا دائرہ کار وسیع کرکے اقدامات کرنا ہوں گے اور سول، ملٹری تعلقات کو مزید بہتر کرنا ہوگا۔

بیرسٹرمحمد علی گیلانی
( چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان)
نیشنل ایکشن پلان ایک اہم اقدام تھا اور ہم نے اس میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دہشت گردی کی کارروائیوں میں خاطر خواہ کمی آچکی ہے۔ آرمی چیف نے بارہا یہ ذکر کیا کہ ہم نے اس سے بہت ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہماری سوچ منفی ہے اور ہم ہر چیز پر تنقید کرتے ہیں۔ اس وقت فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں، اگر ایک سسٹم سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تو باہم مشاورت سے دونوں نیا سسٹم تشکیل دیتے ہیں لیکن بعض عناصر عوام میں منفی رائے پھیلا رہے ہیں جو درست نہیں، اس سے نیشنل ایکشن پلان پر غلط اثرات پڑتے ہیں۔

جن دہشت گردوں نے امریکا کی کمر توڑ دی ، اسے بلین ڈالرز خرچ کرنے کے باجود شکست کے بعد واپس لوٹنا پڑا، ہم صرف دو سالوں میں ان سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اب ہم صرف چند ایجنسیوں سے لڑ ررہے ہیں جن میں بھارت، افغانستان امریکا و دیگر بیرونی ممالک کی ایجنسیاں شامل ہیں جن کے یہاں اپنے اپنے مفادات ہیں۔ان ایجنسیوں کے سرکردہ لوگ پکڑے گئے ہیں اور ان سے ملنے والی انفارمیشن پر نیشنل ایکشن پلان آگے بڑھایا گیا۔ اس وقت حکومت پر فوج، عوام، اپوزیشن و دیگر اطراف سے دباؤ ہے، حکومت اس صورتحال میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کررہی ہے۔

آئی ایس پی آر کا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے کا بیان، میرے نزدیک حکومت پر دباؤ ہے تاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو مزید موثر بنایا جاسکے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات اہم ہیں۔ اس کے مطابق نیکٹا ا ایکٹ لایا گیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اسے فعال نہیں کیا جاسکتا، پھر اپیکس کمیٹیاں بنیں اور اب جنرل ناصر جنجوعہ کو نئی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے جس سے اچھے نتائج ملیں گے۔

اس کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں پر پابندی، ان کی فنڈنگ اور سہولت کاروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہوئی ہیں، 500بلین روپے سے زائد کی فنڈنگ روکی گئی ہے اوران کانیٹ ورک توڑا گیا ہے۔ہمارا کریمینل جسٹس سسٹم درست نہیں تھا، حکومت نے 21ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں بنائیں تاکہ معاملات بہتر ہوسکیں۔ اب تک سینکڑوں مجرموں کو سزائیں ہوئیں، پھانسیاں بھی دی گئیں ہیں۔ پہلی مرتبہ سائبر کرائم ایکٹ لایا گیا جو بڑی کامیابی ہے۔ اگر اس کا مثبت استعمال کیا جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے ہمیں مثبت سوچ کو فروغ دینا ہوگا، حکومت اور فوج کو سپورٹ کرنا ہوگا تاکہ وہ دونوں مل کر بڑا قدم اٹھا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔