ادب اور ادبی مکالمے

رفیع الزمان زبیری  بدھ 24 اگست 2016

ساٹھ سال سے زیادہ وقت گزرا شفیع عقیل نے اس دورکی ممتاز ادبی شخصیتوں سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان کے یہ انٹرویو شورش کاشمیری کے ہفتہ وار رسالے ’’چٹان‘‘ میں شایع ہوئے، عقیل کراچی میں تھے، وہ لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں یہ انٹرویو کیے گئے اس وقت چار پانچ ایسی شخصیتیں تھیں جو ان کے ہاتھ نہ آ سکیں اور ادب اور ادبی مسائل پر ان کے خیالات وہ قلم بند نہ کر سکے۔ ان میں چراغ حسن حسرت، منٹو اور قدرت اﷲ شہاب شامل ہیں۔ تاہم جن شخصیات سے وہ ان کے خیالات معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ان کا اس دور کے ادبی ماحول کی تخلیق میں کلیدی کردار رہا ہے۔ شفیع عقیل کے یہ انٹرویو محفوظ رہے اور پھر بہت بعد میں انھوں نے انھیں مرتب کر کے ’’ادب اور ادبی مکالمے‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع کیا۔

شفیع عقیل نے ادب کے حوالے سے دو اہم سوالوں کے جوابات معلوم کرنے کی خاص طور پر کوشش کی۔ ایک یہ کہ ہمارا نظریہ ادب کیا ہونا چاہیے؟ اور دوسرا یہ کہ اردو تنقید نگاری کا معیار کیا ہے اور تنقید نگار کیا کر رہے ہیں؟ سب سے پہلے انھوں نے جوشؔ صاحب سے یہ دو سوال کیے۔ پہلے سوال کا جواب انھوں نے یہ دیا ’’ادب پوری زندگی پر حاوی ہے، ہم اس کو کسی ایک نظریے میں پابند نہیں کر سکتے‘‘ دوسرے سوال کا جواب تھا ’’حقیقی تنقید ناممکنات میں سے ہے اب جو چیز ناممکن ہے میں اس کے متعلق کیا کہوں۔‘‘

فیضؔ صاحب نے نظریہ ادب کے بارے میں فرمایا ’’سیاست سے کوئی چیز الگ نہیں ہوتی۔ سیاست زندگی کے ہر پہلو میں شامل ہوتی ہے اور اسے متاثر کرتی ہے۔ اس میں شاعری بھی شامل ہے اور کھانا بھی۔ اگر آٹے کی جگہ چاول ملنے لگیں تو وہ بھی سیاست میں آتا ہے۔ ادب میں اپنے گرد و پیش کا نہایت گہرا مطالعہ ہوتا ہے اس لیے اس میں سیاست سے فرار ممکن نہیں‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اردو ادب میں کوئی ایسا نقاد ہے جو موجودہ ادب کی رہنمائی کر سکے؟ فیضؔ صاحب نے کہا ’’ایسا کوئی نقاد ہمارے ہاں نہیں ہے جس کی قامت اتنی بلند ہوکہ اسے ہر بات میں رہنما ٹھہرایا جا سکے۔‘‘

شاہد احمد دہلوی کا کہنا تھا کہ نظریہ ادب’’ادب برائے زندگی‘‘ ہونا چاہیے، تنقید نگاری کے بارے میں سوال کا جواب ان کا یہ تھا کہ ’’کامیاب تنقید نگار وہ ہے جس کا مطالعہ وسیع ہو، وہ جذباتی نہ ہو، صرف غلطیاں ہی نہ نکالی جائیں خوبیاں بھی بیان کی جائیں۔‘‘

پروفیسر حسن عسکری نے اس سوال کا کہ نظریہ ادب کیا ہونا چاہیے جواب یہ دیا کہ نظریہ اچھا ہو یا برا اس سے کام نہیں چلتا، اصل چیز تو تخلیق ہے، برے نظریے کے تحت بھی اچھی تخلیق ممکن ہے بہ شرط یہ کہ لکھنے والے میں صلاحیت ہو، تنقید نگاری کے بارے میں انھوں نے کہاکہ تنقید نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمالیاتی جذبے کو دوسرے جذبوں سے الگ کر کے دیکھ سکے۔ بس۔

افسانہ نگار عزیز احمد سے شفیع عقیل نے سوال کیا کہ اکثر لوگوں کی جو یہ رائے ہے کہ ہماری تنقید صحیح کردار ادا نہیں کر رہی ہے تو آپ کیا کہتے ہیں؟ عزیزاحمد نے جواب دیا میری بھی یہی رائے ہے۔ ہماری تنقید میں توازن نہیں ہے۔ یوں کہیے کہ دیانت داری سے کام نہیں لیا جاتا حالانکہ تنقید کا تو کام ہی یہ ہے کہ کھرے کھوٹے میں امتیاز کر کے دکھائے۔ نظریہ ادب کے بارے میں انھوں نے کہاکہ ’’ادب میں کوئی ایک نظریہ یا ایک نکتہ نظر کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘

تنقید کے بارے میں ممتاز شیریں نے کہا کہ ’’تنقید نگارکا کام ادب کو Evaluate کرنا ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ نقاد میں ذوق سلیم کی ضرورت ہے، جس صنف ادب پر نقاد لکھ رہا ہو اس کو اس کی پہچان اور پرکھ اچھی طرح ہونی چاہیے۔ غیر جانبداری کا نقاد میں ہونا بہت ضروری ہے‘‘ نظریہ ادب کے سوال پر ممتاز شیریں نے کہاکہ ’’میرا اپنا نظریہ تو ادب برائے زندگی ہے لیکن اگر ہمارا نظریہ ادب ’’ادب برائے ادب‘‘ ہو تو اس کے لیے تخلیقی لگن کی ضرورت ہے کہ زندگی ادب کے لیے وقف کی جائے۔

ناصرکاظمی سے شفیع عقیل کا سوال یہ تھا کہ ایک نقاد کو غزل پر تنقید کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے؟

ناصر کاظمی نے جواب دیا ’’پہلے تو یہ دیکھئے کہ شاعر ہے یا نہیں، یہ نظم ہے، غزل ہے، یا گیت ہے۔ نقاد کو چاہیے کہ اپنی پسند اور ناپسند کو ایک طرف رکھ کر پہلے شاعر کے ساتھ بچے کی طرح چلے یہ بھی دیکھے کہ اس شخص نے زندگی میں کیا کچھ دیکھا ہے‘‘

ظہیرکاشمیری نظریہ ادب کے بارے میں کہتے ہیں ’’جب سے یہ دنیا بنی ہے ادب کا ایک ہی نظریہ رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ملکوں اور قوموں اور افراد کو ایک دوسرے سے روشناس کرانا، ان کے جذبات، احساسات اور شعور میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب تر لانا۔ جو ادب سچی انسانیت پرستی کو فروغ دیتا ہے وہ اعلیٰ ادب ہے اور یہی ہمارا نظریہ ادب ہونا چاہیے‘‘

احمد ندیم قاسمی نے اس سوال کا تفصیل سے جواب دیا۔ وہ کہنے لگے ’’میرے خیال میں فن کار کو چاہیے کہ وہ ادب کے ذریعے زندگی کو موجودہ صورت سے بہتر بنانے کی سعی کرے زندگی کی مثبت قدریں اس طریقے سے فن میں منتقل کرے کہ وہ زندگی کو زیادہ آگے، زیادہ اونچا، زیادہ حسین اور زیادہ پاکیزہ بنانے میں ممد ثابت ہو‘‘

شفیع عقیل کا اصل میدان صحافت تھا، انھوں نے اس میدان کے لیے کئی شہ سواروں سے بھی انٹرویو کیے۔

مولانا عبدالمجید سالک سے انھوں نے پوچھا ’’آپ کے خیال میں صحافت اور ادب میں کیا فرق ہے؟‘‘ مولانا نے جواب دیا ’’صحافت اور ادب میں وہی فرق ہے جو اخبار اور کتاب میں ہے۔ صحافت کے مطالب فوری ہوتے ہیں اور تحریر عاجلانہ، ادب کے مقاصد، مستقل اور تحریر سنبھلی ہوئی ہوتی ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی فرق ہے؟‘‘

شفیع عقیل نے پھر سوال کیا ’’کامیاب صحافی کون ہوتا ہے؟ سالک صاحب نے جواب دیا ’’وہ جسے صحافت اور سیاست کا پیدائشی ذوق ہو، زبان اورمحاورہ پر پورا قابو رکھتا ہو۔ سیاسیات، اقتصادیات، ادبیات کا مطالعہ وسیع ہو اور مطالعے میں عمر بھرایک دن کا بھی ناغہ نہ کرے‘‘

آغا شورش کاشمیری نے عقیل کے سوال پراچھے صحافی کی یہ خوبیاں بتائی کہ ’’سب سے زیادہ اسے اپنی قوم اور ملک کے مسائل پرعبور ہونا چاہیے اوراس کی جنرل نالج اتنی وسیع ہونی چاہیے کہ وہ اقوام عالم کے مسائل کے فہم میں کوئی دقت محسوس نہ کرے۔ صحافی میں بنیادی طور پرخلوص ہونا چاہیے۔ اس میں قوت اظہار اوراحساس ذمے داری ہونا چاہیے۔‘‘

شفیع عقیل کے اسی سوال کا حمید نظامی نے یہ جواب دیا ’’عالم ہونا چاہیے، ایمان داری ہونا چاہیے، مطلب یہ کہ جس چیز پر لکھنا ہو اس کے متعلق علم اورمعلومات ہوں اور پھر ایمان داری سے وہ ان چیزوں پر لکھے‘‘ حمید نظامی نے اس سوال کا کہ کیا وہ اردو صحافت کے معیار سے مطمئن ہیں؟ یہ جواب دیا کہ مطمئن تو شاید وہ اور پچاس سال بعد بھی نہ ہوں۔ ابھی صحافت کو بہت ترقی کی ضرورت ہے۔

شفیع عقیل نے اپنے انٹرویوز کے سلسلے میں قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی، قتیل شفائی اور مشتاق احمد یوسفی سے بھی ملاقاتیں کیں۔ قرۃ العین نے ایک سوال کے جواب میں عقیل کو بتایاکہ انھیں اپنا افسانہ ’’جلاوطن‘‘ بہت پسند ہے جو ان کے مجموعے ’’شیشے کا گھر‘‘ میں ہے۔ انھوں نے اس کا انگریزی میں بھی The Exile کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔

ذہنی جلاوطنی اس افسانے کا موضوع ہے۔ شوکت صدیقی نے اچھے افسانے کی تعریف کی کہ ’’جس موضوع پر لکھا جائے اس کا اظہار اس طرح ہوکہ پڑھنے والے کی دلچسپی فوت نہ ہو اور وہ افسانہ نگار کی بات کو پوری طرح سمجھ جائے‘‘قتیل شفائی نے ایک اچھے غزل گو شاعر کی صفت یہ بیان کی کہ ’’سب سے پہلے وہ غزل کی روایات سے واقف ہو اور غزل کے تمام تقاضے اس کے پیش نظر ہوں‘‘ نظریہ ادب کے بارے میں انھوں نے کہاکہ ادب کو سماجی پس منظر میں رکھ کر اگر اسے آگے بڑھایا جائے تو وہ مفید ہوگا اور فن اور زندگی کے تقاضوں کو پورا بھی کرے گا۔

شفیع عقیل سے مشتاق احمد یوسفی کی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس سوال کا کہ اچھے مزاح نگار میں کیا خوبی ہونی چاہیے۔ یوسفی صاحب نے یہ جواب دیا کہ ’’بنیادی خوبی تو وہی ہے جو کسی اور صنف ادب میں ہوسکتی ہے یعنی سچائی اورزندگی کی صحیح عکاسی، لیکن فرق یہ ہوجاتا ہے کہ مزاح بنیادی طور پر Distortion کا فن ہے، ایک چیزکو ٹیڑھے زاویے سے دیکھنا۔ وہ اس زاویے سے زندگی کے تضادات کو دیکھتا ہے اور پیش کرتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔