پاک بھارت بہتر تعلقات کا خواہشمند امریکا

پاکستان نے ہمیشہ خطے کے استحکام اور امن و امان کے فروغ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے


Editorial August 25, 2016
نہ صرف بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے بلکہ سب سے اہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے راضی کرنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے.فوٹو: فائل

بالآخر دنیا کے سپر پاور امریکا کو مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار کی حمایت کا خیال آہی گیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا بلکہ مقبوضہ کشمیر اور بنگلور میں آزادی اظہار کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری ملک میں عوام کو پرامن مظاہروں کا حق حاصل ہے۔

بلاشبہ مارک ٹونر کی بات صائب ہے لیکن سپر پاور کو یہ بات بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں کشمیری عوام پر گزشتہ 68 برسوں سے جاری ریاستی مظالم کی دردناک داستان کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر امریکا کی جانب سے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی روک تھام کے لیے کوئی پالیسی بیان سامنے آتا۔ امریکا کی خطے کے عظیم تر مفاد میں پاک بھارت بہتر تعلقات کی خواہشات کو خوش آیند قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر امریکا کی جانب سے پاک بھارت مسائل پر دونوں ممالک کے مل بیٹھنے کی خواہش کا اظہار تو کیا گیا تھا لیکن امریکی تعاون کا ذکر نہیں تھا، جب کہ مارک ٹونر کے حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ چاہتے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی سطح کے مذاکرات میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔

دیر آید درست آید۔ بہرحال امریکا کی اہمیت سے صرف نظر ممکن نہیں، اگر سپرپاور کی جانب سے پاک بھارت مسائل کے حل اور بہتر تعلقات کے لیے واقعتاً مخلصانہ کوششیں کی جاتی ہیں تو راست نتائج کی امید کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ دونوں ممالک کو برابری کی سطح پر ڈیل کیا جائے اور مسائل کے حل کے لیے درست سمت میں پیش رفت کی جائے۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور بنیادی ایشو 'مسئلہ کشمیر' سے صرف نظر کبھی معاملات کو مکمل حل کی جانب نہیں لے جا سکتے۔ امریکا کو پہلے بھارت کو راضی کرنا ہوگا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے تیار ہو۔ پاکستان نے ہمیشہ خطے کے استحکام اور امن و امان کے فروغ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی اور مذاکرات کو ڈیڈ لاک کی سطح پر لے آنے کے باوجود پاکستان کی جانب سے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا رہا اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی گئی۔

لیکن یہ بھارت ہی ہے جو ہمیشہ ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کرتا آیا ہے، اور بھارت کی موجودہ حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے اسے کسی طور ایک سیکولر جمہوری ریاست کا رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حالیہ دنوں میں کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم کی جو نئی لہر جاری ہے وہ قابل مذمت ہے جب کہ بھارت کے شدت پسند وزراکی جانب سے پاکستان مخالف شرانگیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

امریکا کی جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہشات سر آنکھوں پر، لیکن بھارتی ہٹ دھرمی اور شرانگیزیوں کی موجودگی میں یہ خواب کیا شرمندہ تعبیر ہو پائے گا؟ اگر عالمی طاقت واقعی دونوں ممالک کے معاملات حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو امریکا کو اس سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا، نہ صرف بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے بلکہ سب سے اہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے راضی کرنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے، جس کے بغیر نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی استواری بلکہ خطے میں امن و استحکام کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔

مقبول خبریں