شہر بسانے والے جنونیوں کی ضرورت

نصرت جاوید  بدھ 5 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کچھ لوگوں کے چند ڈرامائی لمحوں میں کہے کچھ بے ساختہ فقرے ایسے ہوتے ہیں جنھیں آپ کبھی ذہن سے نہیں نکال سکتے ۔ 2010ء کے سیلاب آئے تو میں نے پانی اور اس کی پھیلائی تباہی کا سکھر سے ٹھٹھہ تک کئی دنوں تک پیچھا کیا ۔اس سفر کے دوران مجھے شکارپور سے جیکب آباد کے درمیان ایک بڑے قصبے میں جانے کا موقع بھی ملاجوچاروں طرف پھیلے کم از کم آٹھ فٹ گہرے پانی میں جزیرے کی مانند گھرا ہوا تھا۔

بڑی مشکل سے وہاں پہنچنے کے بعد میں نے اس علاقے کے ایک بڑے جاگیردار کو ملنے کی کوشش کی جو طاقتور سیاسی شخصیت بھی ہیں ۔میڈیا میں پھیلائی کہانیوں کے برعکس وہ سیلاب کے بدترین دنوں میں بھی اپنے علاقے میں موجود رہے تھے اور وہاں محصور لوگوں کو ہر ممکنہ مدد فراہم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ۔میں جب ان کے محل نما گھر کے مرکزی دروازے پر پہنچا تو وہاں سیکڑوں لوگوں کا ہجوم جمع تھا جو اس شخصیت کی جانب سے بانٹے جانے والے راشن کے حصول کے لیے بے رحم دھکم پیل میں مصروف تھا۔وڈیرے کے لوگ ہاتھوں میں موجود چھڑیاں گھماگھما کر انھیں قابو میں رکھنے کی کوششیں کررہے تھے ۔

میرے لیے وہ ایک بہت ہی ڈرامائی منظر تھا جو انسانی ہجوم کی بے بسی اور ایک طاقتور شخص کی قوت کا بھرپور اظہار تھا۔بہر حال راشن وغیرہ بانٹنے سے فارغ ہونے کے بعد مجھے اس وڈیرے نے گلے لگا کر خوش آمدید کہا اور اپنے گھر میں کھانا کھلانے کی دعوت دی۔ان کے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے باہر موجود ہجوم کی شدید بدحالی اور بے بسی کا ذکرکیا تو وہ صاحب فوراً  بولے کہ انھیں تو یہ فکرکھائے جا رہی ہے کہ پانی اترجانے کے بعد ان کے علاقے سے نکل گئے بے زمین کسان واپس بھی لوٹیں گے یا نہیں ۔’’وہ نہ آئے تو ہماری فصلیں کون اُگائے گا؟انھوں نے بڑی پریشانی سے سوال کیا۔پتہ نہیں کیوں ان کا ادا کیا یہ فقرہ آج بھی اکثر میرے ذہن میں گونج اٹھتا ہے اور منگل کو تو مجھے یہی فقرہ بار بار یاد آیا۔

انگریزی کے ایک اخبار میں منگل کی صبح عارف حسن کا ایک مضمون چھپا تھا۔عارف ایک مشہور ماہر تعمیرات ہیں مگر ذہن ایک محقق کا پایا ہے ۔انھوں نے کراچی کے پھیلائو پر ایک ٹھوس کتاب بھی لکھ رکھی ہے جس کو ہماری حکومتوں، پالیسی سازوں اورصحافیوں نے تھوڑا وقت نکال کر پڑھ لیا ہوتا تو شاید اس شہر کا وہ حال نہ ہوتا جو آج دکھ رہا ہے۔ عارف حسن توخیر تعمیرات کے ماہر ہوتے ہوئے بڑے شہروں کے پھیلائو سے پیدا ہونے والے سیاسی اور عمرانی سوالات اٹھاتے اور ان کے اپنے طور پر قابل عمل جوابات لکھتے رہتے ہیں ۔مگرقرۃ العین حیدر تو سیدھی سادی ناول نگار تھیں۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے ایک نہیں دو ناولٹ لکھے تھے۔

’’سیتاہرن‘‘اور ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ ان کا نام تھا۔ انھیں ذرا غورسے پڑھ لیں تو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں مہاجرین کی آمد اورکراچی میں 1947ء کی وجہ سے بنتا ہوا سماج کیسے گمبھیر مسائل کو جنم دے رہا تھا جو آج پوری طرح ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ کتابیں پڑھنے کی ہمیں مگر عادت ہی نہیں ۔ان سے کچھ سیکھنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ٹیلی وژن کے پھیلائو کے بعد تو ویسے بھی ہمارے لیے اینکرپرسن سوچا کرتے ہیں اور انھیں ہرموقع کی غزل منہ زبانی یاد ہے ۔

ان ہی کی ’’تحقیق‘‘ اور نام نہاد عقل ودانش کے طفیل ہماری اکثریت یہ طے کیے بیٹھی ہے کہ آج کراچی بارود کے ڈھیر پر بیٹھا دکھ رہا ہے تو شاید اس لیے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں یہاں لاکھوں کی تعداد میں پشتون ،وزیرستان اور مالاکنڈ کے شورش زدہ علاقوں سے آکر رہنا شروع ہوگئے ہیں ۔ان کی بڑھتی ہوئی آبادی جس کی اکثریت کو بندوق کا استعمال بھی آتا ہے اب اس شہر میں اپنا حق جما رہی ہے ۔ان کا ایسا کرنا پہلے سے موجود’’اجارہ داروں‘‘ کو پریشان کررہا ہے ۔جھگڑا قبضے اور اپنے اپنے خود مختار علاقے قائم کرنے کا ہے مگررنگ لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کا نظر آرہا ہے۔یہ باتیں جو ہم ابھی تک فرض کیے بیٹھے ہیں وہ اپنی جگہ اتنی غلط بھی نہیں ہیں۔ مگران کے ساتھ ساتھ کچھ نئی چیزیں بھی ہورہی ہیں جن کا کوئی ذکرتک نہیں کررہا ۔عارف حسن داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایسی ہی کچھ باتوں کی طرف اشارہ کیاہے۔

مثال کے طور پر ان کی نظر میں گزشتہ چند برسوں سے کراچی میں صرف پشتون بولنے والے ہی ہجوم درہجوم وارد نہیں ہوئے ایک بہت بڑی تعداد ان ہنر مند کاریگروں کی بھی ہے جو اندرون سندھ سے اس شہر منتقل ہوئے ہیں۔

عارف نے بڑی وضاحت سے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مستری،ترکھان،درزی،سنار اور لوہار اپنے طورپر بہترین کاریگر ہوتے ہوئے بھی جاگیردار اور قبائلی معاشروں میں محض’’کمی‘‘سمجھے جاتے ہیں ۔وڈیرہ ان کا اصل سرپرست ہوا کرتا تھا اور ان کی خدمات کا معاوضہ نقد رقم کی صورت میں نہیں بلکہ کٹی فصل میں سے کچھ حصہ دے کر ادا کیا کرتا تھا۔جدید زرعی مشینیں آجانے سے ایسے ہنر مندوں کی اب اس معاشرے میں ضرورت باقی نہیں رہی۔

جب پلاسٹک کے بنے جگ،گلاس اور پلیٹیں ہرجگہ میسر ہوں تو کمہارکا ہنر کس کام آئے گا ۔ریڈی میڈکپڑوں نے درزی کو فارغ کردیا ہے اور لوہار کی جگہ مکینک نے لے لی ہے ۔مگر یہ ہنر مند شہر میں اب بھی بڑا کارآمد ہے ۔کمہار امیر گھروں کے لیے سجاوٹ والی Potteryبناکر نقد رقم کماتا ہے ۔درزی Embroidery کے ذریعے بیگمات کو متوجہ کرتا ہے ۔ترکھان شہروں میں بنتے مکانات میں لکڑی کا کام کرتا ہے اور بے ہنر شخص بھی مختلف مستریوں کا مددگار بن کر اپنی دیہاڑی وصول کرلیتا ہے ۔اپنے ہنر کی منڈی دریافت کرنے کے بعد نقد رقم کی کشش میں اندرون سندھ کے ہنر مند اور بے زمین کسان بہت بڑی تعداد میں کراچی اورحیدر آباد کا رخ کر رہے ہیں۔

عارف حسن کی نظر میں اندرون سندھ سے نقد رقم کے حصول کی خاطر کراچی اور حیدر آباد جیسے شہروں میں ہنر مند اور بے زمین کسانوں کی منتقلی طویل المدت بنیادوں پر ’’اچھے‘‘ کی خبر ہے ۔یہ بالآخر سندھی بولنے والوں کے اس احساس کوختم کردے گی جو انھیں چند برس پہلے تک کراچی اور حیدر آباد کو اپنے سے الگ اور ’’کسی اور کا‘‘ سمجھنے پرمجبور کررہا تھا۔کراچی کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اسے ہماری ریاست اور آتی جاتی حکومتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہنستا بستا شہر بنانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔اس کی زمین قبضہ گیروں کے حوالے کردی گئی۔

جو اپنے اپنے زیر تسلط علاقے میں ’’اپنے‘‘ہی لوگوں کو بساتے ہیں اورپھر یہ بستیاں پھیلتی ہوئی دوسروں کی بستیاں ہتھیانے کے جھگڑوں میں الجھ جاتی ہیں ۔عارف حسن جیسے عمرانی مسائل سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین تعمیرات پوری دنیا میں کتابیں لکھ لکھ کر سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کراچی جیسے میگا سٹی کون کون سے طریقوں سے وہاں رہنے والے تمام باسیوں کے ’’اپنے‘‘بنائے جاسکتے ہیں ۔نیویارک امریکا کے مشرق میں بسے اینگلوسیکسن لوگوں کا نہیں رہا ۔یہ اطالوی نژاد لوگوں کا بھی نہیں ہے اورنہ ہی صرف وہاں بسے یہودیوں کا ۔کل کے سیاہ فام غلام آج بھی بڑے فخر سے نیویارک کو اپنا شہر قرار دیتے ہیں اور یہ سب اچانک نہیں ہوا ۔

اس کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی ہے ۔فن کاروں کی لگن اور وہاں کام کرنے والے صحافیوں کی تڑپ اورسب سے بڑھ کر ایسی منتخب مقامی حکومتیں جنھیں ’’اپنے شہر‘‘ کے لیے کچھ کرکے دکھانا ضروری ہے ۔کراچی کو اب بھی بہت سارے عارف حسن اور چند ایک قرۃ العین حیدر درکار ہیں ۔مگر سب سے بڑھ کر  ایسی سیاست کرنے والوں کی اشد ضرورت ہے جنھیں شہر اجاڑنے نہیں بسانے کا جنون ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔