حج: مجموعۂ عبادات

ماہ طلعت نثار  جمعـء 26 اگست 2016
حج کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں۔ فوٹو: فائل

حج کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں۔ فوٹو: فائل

حج کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں۔ شریعت میں حج سے مراد کعبۃ اﷲ کی زیارت کا ارادہ کرنا اور مکہ مکرمہ کے آس پاس شعائر اﷲ میں مخصوص اعمال و آداب کو بجا لانا ہیں جس کا اﷲ نے حکم دیا ہے۔

سورہ ال عمران میں ار شاد ربانی ہے ’’ لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے گھر کا حج کرے اور جس نے کفر کی روش اختیار کی تو اﷲ سب عالم سے بے نیاز ہے۔‘‘

خالقِ کائنات اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے اپنے گناہ گار بندوں کو دنیا ہی میں پاک صاف کردینے کا انتظام حج جیسی عظیم عبادت میں کردیا ہے۔

حج اسلام کا اہم رکن اور مالی اور بدنی عبادات کا مجموعہ ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں باقی تمام عبادات کی روح شامل ہے یعنی حج اپنے اندر شان جامعیت لیے ہوئے ہے۔ نماز، حج نماز بھی ہے کیوںکہ حج میں ایک حاجی مسلسل زبان سے ذکر الٰہی کرتا رہتا ہے اور قرب خداوندی حاصل کرتا ہے۔ یہ عمل نماز سے مشابہت رکھتا ہے۔ زکوٰۃ، حج ایک مالی عبادت ہے مال خرچ کرنا زکوٰۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔ روزہ، نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز، تقویٰ اختیار کرنا اور صبر کرنا یہ تمام صفات روزے کی سی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ جہاد، گھر سے دوری اور سفر کی صعوبتوں میں جہاد کا رنگ نظر آتا ہے۔ مخصوص اعمال و آداب کی مقررہ ایام میں ادائی مناسک حج کہلاتی ہے۔

٭ احرام : یہ وہ بن سلا کپڑا ہے جو حاجی دوران حج پہنتا ہے۔ یہ انسان کے ابتدائی دور کی یاد اور مرنے کے بعد کفن پہنائے جانے کی بھی یاد دلاتا ہے۔ یہ خالق کائنات کے دربار میں حاضری کا خاص لباس ہے جو بالکل سادہ اور بے تکلف ہے۔ یہ شاہ و گدا سب کے لیے ایک ہی ہے۔ احرام باندھنے کے ساتھ ہی انسان اپنی معمول کی زندگی سے نکل کر خاص حالت میں آجاتا ہے اس پر وہ کچھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو عام حالت میں جائز ہوتی ہیں۔

٭ تلبیہ: حاجی جب میقات (احرام باندھنے کی مقررہ جگہ) سے آگے چلتے ہیں تو مختلف زبانوں اور مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ان سب کی زبان سے ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے۔ ’’حاضر ہوں، اے اﷲ! میں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقینا تعریف سب تیرے ہی لیے ہے، نعمت سب تیری ہے، ساری بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘

مذکورہ نعرہ زبان، نسل، قوم اور ملک کا اختلاف مٹا دیتا ہے اور ایک اﷲ کے ماننے والوں کی ایک عالم گیر جماعت تشکیل پاتی اور ایک عجیب سی فضا پیدا ہوجاتی ہے جس کے نشے میں سرشار ہوکر آدمی اپنی انا کو بھول جاتا ہے اور لبیک کی ایسی کیفیت میں جذب ہوکر رہ جاتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔

٭ طواف: خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کا نام طواف ہے۔ ہر حاجی کو سات مرتبہ طواف کرنا اور ساتھ ہی دنیا و آخرت کی فلاح و کام رانی کے لیے خالق کائنات کے حضور دعائیں مانگنا ہے۔ اسی لیے حضور پاکؐ کا ارشاد ہے ’’خانہ کعبہ کا طواف بھی گویا نماز ابراہیمی ہے صرف فرق یہ ہے کہ تم اس میں بول سکتے ہو مگر نیک بات کے سوا اس حالت میں کچھ اور نہ بولو‘‘ (ترمذی، نسائی)

٭ مقام ابراہیمی: تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیمؑ نے جس پتھر پر کھڑے ہوکر خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں وہ پتھر حرم کعبہ میں ایک شیشے کی جالی میں بند کردیا گیا ہے، اسے مقام ابراہیمی کہتے ہیں۔ ہر حاجی کو طواف کے بعد یہاں دو رکعت نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔

٭ حجر اسود کے لفظی معنی کالے پتھر کے ہیں۔ جو خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں نصب ہے۔ حاجی طواف شروع کرتے وقت اسے بوسہ دیتا ہے یا ہاتھ سے چھوتا ہے یا صرف اشارہ کرتا ہے۔

٭ سعی: سعی کے معنی دوڑنا ہے، اس سے مراد صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان حاجی کا سات بار دوڑنا ہے۔ یہ حضرت ابراہیم کی بیوی حضرت ہاجرہؓ کی یاد تازہ کرتا ہے جو اپنے بچے حضرت اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش میں ان پہاڑوں پر مضطرب دوڑی تھیں اور آخر زم زم کا چشمہ ابل پڑا۔ حاجی پہلے صفا اور پھر مروہ پر چڑھ کر کعبہ کی طرف منہ کرکے خدا کی حمد و ثنا کرتا ہے اور دعا کرتا ہے۔ یہ مقدس مقامات ہیں جہاں ربانی کرشمے کے عظیم الشان جلوے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہؓ کو نظر آئے۔

٭ وقوف عرفہ: عرفات کے میدان میں تمام حاجی ٹھہرتے ہیں اور زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک یہاں دعا اور خدا کی حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں یہ حج کا ضروری رکن ہے۔ یہاں پر تاحدِ نظر ایک ہی لباس میں کھڑے ہوکر، عاجزی و انکساری سے رو رو کر حاجی اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور خالق کائنات سے نیا عہد باندھتے ہیں۔ یہیں پر جبل رحمت کے پاس کھڑے ہوکر امیر حج تمام دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں کے سامنے خطبۂ عام دیتا ہے اور انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کرتا ہے۔ عرفات کے اس وقوف میں ایک طرف تو اسلام کی شان و شوکت کی ایک عظیم الشان نمائش جلوہ افروز ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ اجتماع عظیم روز محشر کی یاد دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ حج کا آغاز حشر کے بیان سے ہوتا ہے۔

٭ قیام مزدلفہ: حج ایک مشقت طلب عبادت ہے مغرب کے بعد عرفات کے میدان سے روانہ ہوکر حاجیوں کو رات مزدلفہ میں گزارنی ہوتی ہے۔ یہاں وہ مسجد واقع ہے جس کو مشعر حرام کہتے ہیں۔ یہ عبادت کا خاص مقام تھا اسی لیے یہاں رات کو قیام کرنا اور طلوع فجر کے بعد تھوڑی دیر عبادت کرنا ضروری قرار دیا۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد الٰہی ہے ’’ تو جب عرفات سے چلو تو مشعر حرام کے پاس خدا کو یاد کرو اور اس کو یاد کرو جس طرح اس نے تم کو بتایا اور تم پہلے حق کی راہ کو بھولے ہوئے تھے‘‘ مزدلفہ کے میدان سے حاجی کنکریاں چن کر اگلے محاذ کی تیاری کرتا ہے یہ بھی خدا کی قدرت ہے کہ اس میدان میں بے شمار کنکریاں ہیں جو ہر حاجی جمع کرتا ہے مگر ختم نہیں ہوتیں۔

٭ رمی جمرات: رمی کنکریاں مارنے کو کہتے ہیں۔ مزدلفہ سے واپسی پر منیٰ کے میدان میں تین ٹیلوں ’’جمرات‘‘ پر سب حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ بھی حضرت ابراہیمؑ کی وہ یاد ہے جب وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربانی کے لیے لے چلے تو شیطان نے اس موقع پر ان کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ انہوں نے اس کو یہاں ’’رجم‘‘ کیا جس کے لفظی معنی کنکریاں مارنے کے ہیں۔ اسی لیے شیطان کو ’’رجیم‘‘ یعنی کنکریاں مارا گیا کہتے ہیں۔ اﷲ رب العزت کی تسبیح اور حمد پڑھ کر ان کنکریوں کو ان ستونوں پر پھینکتے ہیں۔

٭ قربانی: منیٰ کے میدان میں تمام حاجی رمی کے بعد جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کی یاد گار اور اپنی نفسانی قربانی کی تمثیل ہے۔

٭ حلق راس: منیٰ میں قربانی کے بعد حاجی سر کے بال منڈواتے ہیں۔ یہ اس پرانی رسم کی تعمیل ہے کہ نذر دینے والے جب نذر کے دن پورے کرلیتے تو اپنے بال منڈواتے۔ اس کے علاوہ ایک اور پرانی رسم یہ بھی تھی کہ جب غلام کو آزاد کیا جاتا تو اس کے سر کے بال منڈادیے جاتے تھے۔ یہ غلامی کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ چوں کہ حج خدا کی دائمی غلامی اور بندگی کا اقرار و اعتراف ہے اس لیے انسانیت کی یہ پرانی رسم باقی رکھی گئی۔ سورۃ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے ’’اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے‘‘ اب حاجی احرام کھول دیتا ہے۔

٭ طواف زیارت: حاجی اب واپس آکر خانہ کعبہ کا طواف زیارت کرتا ہے اور وہی عمرے والا عمل دہراتا ہے۔ واپس آکر منیٰ میں قیام کرتا ہے۔

حج کے مذکورہ بالا ارکان کے اجتماعی و انفرادی فوائد سے ہم اسی وقت مستفید ہوسکتے ہیں جب کہ ہمارا مقصد رضائے الٰہی ہو، نمود و نمائش بالکل نہ ہو۔ ہماری سرگرمیوں کا مرکز و محور دین حق کی سربلندی ہو۔ حج کے روحانی مقاصد پر نظر جمی رہے۔ ان تمام کاموں کی طرف رغبت ہو جو اﷲ اور رسولؐ کے پسندیدہ ہوں اور ان کاموں سے اجتناب کیا جائے جو اﷲ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہوں پھر انشاء اﷲ ہمارا حج مقبول و مبرور ہوسکتا ہے۔

اسی لیے سرور کائنات ﷺ نے اصل اور صحیح حج کا نام صرف حج نہیں بل کہ ’’حج مبرور‘‘ رکھا ہے یعنی وہ حج جو سراپا نیکی ہو۔ ایسا ہی حج ان تمام برکات اور رحمتوں کا خزانہ ہے۔

حج کی روحانیت درحقیقت توبہ و استغفار، آئندہ کے لیے اطاعت و فرماں برداری کے اعتراف اور اقرار کا نام ہے۔ حج اتحادِ امت اور مساوات انسانی کا عظیم مظہر ہے جہاں رنگ و نسل اور امیر و غریب کے امتیازات مٹ جاتے ہیں۔ یہی درحقیقت امت مسلمہ کا امتیاز ہے۔ یہ وہ امتیاز اور نعمت ہے جو اسلام کے سوا اولادِ آدم میں کسی کو نہیں عطا ہوا۔ قوموں کی دشمنی کو مٹانے اور جنگ و جدال کے بجائے محبت و آشتی اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لیے حج سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ایجاد ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔