شہرکی فصیلوں پر دیوکا جو سایہ تھا

جاوید قاضی  ہفتہ 27 اگست 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں لگا ہے کراچی نے اب نئی کروٹ لی ہے کہ ’’جیسے اژدھام انساں سے ذات کی نوا آئی ، آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو، تم ابھی سے ڈرتے ہو۔‘‘ ن۔م راشد کی یہ سطریں اس شہر کے گلی کوچوں میں، بازاروں میں اک نئی ترنگ لے کے آئی ہیں۔ تیس سال کی تاریخ پر مبنی ایک سیاسی دور ختم نہیں ہوا، لیکن اس کے مروج طریقے اب تاریخ ہوئے اور اس کے سیاسی آداب انتہائی احترام کے لائق ہیں،اس کا احترام ہونا بھی چاہیے۔آپ چاہیں جسے ووٹ دیں یہ اہل کراچی کا استحقاق و بنیادی حق ہے مگر آپ جنھیں ووٹ دیں وہ بندوق کی سیاست پر، مارپیٹ و جلاؤ گھیراؤ پر بھی یقین رکھتے ہوں وہ سراسر غیر اخلاقی غیرآئینی وغیر انسانی عمل ہے۔

اب کم ازکم لسانی دہشت گردی تاریخ ہوئی ، پنجابی، پختون، اتحاد ہو یا لیاری امن کمیٹی ہو یا حق پرستی ہو۔ ہاں مگر اس بار مذہبی دہشت گردی اس خلا کو پرکرنے کی پوری کوشش میں غلطاں ہے۔اس پر ریاست کا نیشنل ایکشن پروگرام شاید کہیں کھو سا گیا ہے۔

انتہائی بدنصیب یہ شہر ہے ۔ جو اس کے مالک تھے اور جو اس کے مالک نہ تھے، سب نے اس شہرکو لوٹا کھسوٹا اوراب یہ خستہ حال جسم کی مانند شہر کراچی آپ پہ عیاں ہے۔ کوڑے وگند کے ڈھیروں کا مجموعہ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گٹر کھلے ہوئے، ٹینکر مافیا، سرکاری اسپتال کسی شمشان گھاٹ کی مانند ، ٹرانسپورٹ سسٹم برباد، سڑکیں گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک سے لدی سسک سسک کے رواں، اندھیروں کی پناہیں،کیا کرے یہ شہرکہ اس شہرکا نہ اسلام آباد سے یارانہ ہے، نہ حکومت سندھ سے اوراس کا نیا چنا ہوا میئر جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے پرانے غیظ وغضب کے الزامات کو غلط ثابت کرنے کی پاداش میں پڑا ہے۔

مگر اس میں ایک کراچی کے شہری کا کیا قصور؟اس کا قصور یہ ہے کہ وہ لاہوری نہیں؟ جہاں انفرا اسٹرکچرکا بازار لگا ہوا ہے انھیں ٹیکسوں کا جوکراچی دیتا ہے اور پھر اس پر یہ ستم کہ وفاق کو ہم کمزور کر رہے ہیں اور وہ سب سے بڑے وفاق پرست ہیں۔

پھر تو کہنے دیجیے ’’ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا‘‘

ہواؤں میں کھڑا کراچی، ان کے مالکوں نے پہلے ایک لسانی فساد کیا، پھر دوسرے سے لسانی فساد کیا اور پھر تیسرے سے اور اس طرح اپنے ووٹروں کو سب سے کاٹ دیا۔ آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے بھی جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا اور آپ پر پراکسی جنگوں میں پڑوسی ملکوں کا گیم کھیلنے کے الزامات بھی ہیں۔

مارے کون گئے؟ اہل کراچی۔گھر کس کا برباد ہوا، اہل کراچی۔ رنگ ہو یا ذات ہو یا زبان ، جتنا یہ شہر اپنے وجود پر رکھتا ہے ، سوائے کراچی کے کوئی بھی شہرایسا ہمہ رنگ نہ ہوگا اور اب تو سب کے مل جل کر رہنے کے لیے ایک نیا کلچر پنپ رہا ہے ۔

یہ شہر اب امن کے لیے ٹھوس بنیادیں بنا چکا۔ لیکن جو مذہبی انتہا پرستی ہے اس پر اب بھی ایک جنگ اور ہونا باقی ہے۔کراچی کے امن سے اس کے پھلنے پھولنے سے،اس ملک کے شرح نموکا گہرا تعلق ہے۔ اب اس شہر کو لندن سے چلانا تاریخ ہوا۔ تو پھر لیجیے آپ لندن کے صاحب بالکل اونچے ہتھکنڈوں پر اتر آئے اور ایک ہی جھٹکے میں اپنے سارے ووٹروں پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے۔ آپ برصغیر میں چلتی ہوئی پراکسی جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے مگر آپ کے ووٹروں نے آپ کے اس خیال کو ناکام کیا آپ نے معافی مانگی پھرآپ معافی کے بعد امریکا میں اپنے چاہنے والوں سے اس سے بھی بدتر خطاب کیا۔آپ تو آپ ہیں،آپ کی کیا بات ہے مگر مجھے یہ نایاب شخص رہبرکی صورت میں طویل مدت تک بال ٹھاکرے کی طرح راج کرتا ہوا نظر آیا۔اس میں کوئی شک بھی نہیں۔

ان کی تقریر سے پہلے رینجرز چاہتی بھی کہ قبضہ شدہ عمارتوں پر ان کے دفاتر اور اس کے مختلف چوراہوں پر لگے بینرزوتصاویر اتارتی تو نہ اتار سکتی کہ لوگ اس پر ردعمل کرتے اور اب یہ عالم ہے کہ رینجرزکم لوگ زیادہ یہ تصاویر اتار رہے ہیں۔ آپ کی پوری پارٹی’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہی ہے۔ کوشش تو بے نظیر سے بھی دوستی کی ہندوستان کی تھی مگر بے نظیر نے اپنے وطن سے غداری نہیں کی ۔ چاہے کتنا بھی اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے اس کے پورے خاندان سے حساب کتاب کیے۔

پاکستان میں اب بھیحکومتی سطح پر تنازع رہے گا اور اس تنازع کی دو اہم بنیادیں پنجاب سے ہی ہیں۔ اب بھی یہ ملک سیکیورٹی ریاست کے گڈمڈ خیال میں ڈوبا ہوا ہے۔ اب بھی ہندوستان دشمنی کی رسم روا ہے اور وہاں معاملات اور بھی پیچیدہ ہیں وہ ہمارے وجود کو ماننے سے انکاری ہیں۔ اس شہر سے برطانیہ و امریکا کے اثرورسوخ میں بتدریج کمی آرہی ہے اور آہستہ آہستہ چائنا و سی پیک اپنی راہیں بناتا ہوا نظر آرہا ہے۔

دنیا اب ایک سپرپاورکے محور سے نکلتی جارہی ہے۔ یہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کا عمل ہے اور اب دنیا پھر سے دو سپر پاور کے محور پہ واپس بحال ہورہی ہے اور یوں چائنا دنیا کے اندر سپر پاور کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔

اس سے پہلے ہم نے جو اسٹریٹجک اتحاد کیے اس میں معیشت کے پس منظر میں کوئی بھی اتحاد نہیں تھا، لیکن اب ہمارا چائنا سے انفرا اسٹرکچر کے اعتبار سے اتحاد ہورہا ہے۔اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے۔ اس ملک نے اب اپنی راہیں متعین کرنی ہیں ایک ناکام ریاست سے کامیاب ریاست کی طرف سفر۔

اور وہ سفر تب مکمل ہوگا جب ہم آئین پرعمل کریں گے اور خود آئین کو تقدس عطا کریں گے نہ کہ اس کا حلیہ اور بگاڑ دیں گے۔ یقیناً ہماری فوج ہماری سالمیت کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی مانیے کہ یہ گند جو ہمارے سامنے پڑا ہے یہ بھی آمریتوں کا دیا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔