نوجوان دنیا کی آبادی کا 24 فیصد مگرپارلیمنٹ میں نمائندگی صرف 1.9فیصد کیوں؟

محمد عاطف شیخ  اتوار 28 اگست 2016
ملک میں نوجوانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے اورمعیاری تعلیمی سہولیات تک اُنکی رسائی کو یقینی بنانا بڑے چیلنجز ہیں : فوٹو : فائل

ملک میں نوجوانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے اورمعیاری تعلیمی سہولیات تک اُنکی رسائی کو یقینی بنانا بڑے چیلنجز ہیں : فوٹو : فائل

ترقی یافتہ ممالک کی ایک بڑی محرومی اور ترقی پذیر ممالک کی ایک نمایاں خوبی ’’ نوجوان آبادی‘‘ دونوں دنیائوں میں فیصلہ سازی کے عمل میں اپنی جائز شرکت سے محروم ہے۔ دنیا کی 24 فیصد آبادی جن کی عمر 15 سے29 سال ہے۔ سیاسی عمل میں اپنی شرکت بطور کارکن، بطور ووٹر اور بطور امیدوار کے حصول کے لئے کو شاں ہے۔ لیکن یہ کوششیں ابھی تک صرف اتنی ہی بار آور ہوسکیں ہیں کہ دنیا کے 1.9 فیصد اراکین پارلیمنٹ نوجوانوں یعنی 30 سال سے کم عمر ارکان پر مشتمل ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے مرتب کردہ اعدادوشمار اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیںکہ نوجوان ووٹرز اپنے سے زیادہ عمر والے ووٹرز کے مقابلے میں اپنا ووٹ کم ہی ڈالتے ہیں۔ جبکہ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر ووٹر اپنے نام کے اندراج کے بعد پہلے انتخابات میںہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر لیتا ہے تو پھر اُس کے تمام عمر انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالتے رہنے کہ امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں35 سال سے کم عمر افراد اعلیٰ سیاسی قیادت کی پوزیشن پر کم سے کم نمائندگی کر رہے ہیں۔

یہ تمام صورتحال جمہوری معاشروں میں میڈیا کے اس کردار کی حقیقت پربھی ایک بڑا سوال اٹھارہی ہے کہ میڈیا ( ماس میڈیا اور سوشل میڈیا) نوجوانوں کو بطور ووٹر اپنے نام کے اندراج، بطور ووٹر اپنے حق رائے دہی کے استعمال، بطور سیاسی کارکن دیگر افراد کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینے اور ووٹ کے اندراج اور ڈالنے کے عمل میں ان کی مدد کرنے اور بطور امیدوار انتخابات میں حصہ لینے کے پہلوئوں پر کتنا کام کر رہا ہے؟ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور الیکشن کمیشنز کو ان امور پر کام کرنے کے حوالے سے ترغیب کے بارے میںمیڈیا کا کردار کتنا موثر ہے؟ان دونوں بنیادی مفروضوں کا جواب سیاسی عمل میں نوجوانوں کی شرکت کی عملی صورت کو واضح کرنے کے لئے نہایت اہم ہیں۔

دنیا میں اس وقت نوجوانوں کی آبادی کے لئے عمر کے دو طرح کے گروپس کا تعین کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ 15سے 24 سال کی عمر کی آبادی کو نوجوان قراردیتا ہے۔ جبکہ دولتِ مشترکہ 15سے 29 سال کی آبادی کو نوجوان آبادی کی تعریف کے زمرے میں لاتا ہے۔ ان دونوں عمر کے گروپس کے حوالے سے دنیا میں نوجوانوں کی تعداد یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق اس وقت(2016) بالترتیب 1.18 ارب اور 1.78 ارب سے زائد ہے جو عالمی آبادی کا 16.1 اور 24.4 فیصد ہے۔

دنیا بھر میں نوجوانوں کی یہ فوج ظفر موج سیاست اور اقتدار کا نقشہ تبدیل کرنے کی بھرپور اہلیت کی حامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود یو این ڈی پی کے مطابق سیاسی عمل اور اداروں میں نوجوانوں کی باقاعدہ شرکت عمر رسیدہ افراد کی نسبت قدرے کم ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کو پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، انتخابات اور پبلک ایڈمنسٹریشن میں موزوں نمائندگی نہیں ملتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ بہت سے ممالک میں نوجوانوں اور سیاسی جماعتوں کے تعلقات کی نوعیت کا بناوٹی ہو نا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ورلڈ یوتھ رپورٹ 2016 ، یوتھ سوک انگیج منٹ میں رولڈ ویلیوز سروے (2010-14) کے حوالے سے اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ’’ دنیا کی سیاسی جماعتوں میں نوجوان ( 18 سے 29 سال) متحرک کارکنوں کا تناسب صرف 4.1 فیصد ہے‘‘۔ اس کم تر سیاسی شرکت کی وجہ بہت سے نوجوانوں کا سیاسی جماعتوں پر اعتبار نہ کرنا ہے۔ جبکہ اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ نوجوان سیاسی عمل میں شامل ہونے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں۔

اس عدم اعتماد کی فضاء کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو سیاسی جماعتوں سے تعلق استوار کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوںاور رجحان کو بڑھانا ہوگا۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر نوجوانوں کو شامل کرنے کے لئے جگہ بنا نا ہو گی۔ اور اس حوالے سے رکاوٹ کا باعث بننے والی پالیسیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ لیکن فی الحال اس عدم اعتماد کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کے 30 فیصد ایونِ زیریں (Single and lower houses of Parliaments) میں ایسا کوئی ایک رکن بھی موجود نہیں ہے جس کی عمر 30 سال سے کم ہو۔ جبکہ دنیا کے 80 فیصدایوانِ بالا (Upper houses of Parliaments) میں کسی بھی رکن کی عمر 30 سال سے کم نہیں۔ انٹر پارلیمنٹری یونین کی رپورٹ یوتھ پارٹیسیپیشن ان نیشنل پارلیمنٹس 2016 کے یہ اعدادوشمار نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شرکت کی جس تصویر کو ہم سب کے سامنے لا رہے ہیں اس کی کچھ مزید وضاحت رپورٹ میں موجود 30 سال سے کم عمر ارکان اسمبلی کے زیادہ تناسب کے حامل ممالک کی درجہ بندی سے بھی ہوتی ہے۔

جس کے مطابق سویڈن دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ایوانِ زیریں میں 12.3 فیصد ارکان کی عمر 30 سال سے کم ہے۔دوسرے نمبر پر ایکواڈور ہے جہاں 10.9 فیصد ارکان 30 سال سے کم عمر ہیں۔ جبکہ اس رینکنگ میں فن لینڈ تیسرے اور ناروے چوتھے نمبر پر ہے۔ فرانس اس فہرست میں اعشاریہ2 فیصد(0.2) نوجوان ارکان کی تعداد کے ساتھ 87 ویں نمبر پر ہے۔

جو سب سے کم تناسب ہے۔ اس کے بعد 38 ایسے ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں جہاں کوئی ایک رکن بھی30 سال سے کم عمر نہیں امریکہ بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور ان ممالک کو درجہ بندی میں 88 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایوانِ بالا کی درجہ بندی میں بھوٹان سرفہرست ہے جہاں 9.1 فیصد ارکان 30 سال سے چھوٹے ہیں۔ دوسرے نمبر پر کینیا ہے جہاں 5.9 فیصد ارکان 30 سال کی عمر سے ابھی پیچھے ہیں۔35 ممالک ایسے بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن کے ایوانِ بالا میں30 سال سے کم عمر ارکان کی تعداد صفر ہے۔ ان ممالک کو درجہ بندی میں 9 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

نوجوانوں سے امتیازی سلوک کا یہ رویہ عددی حوالے کے علاوہ امورِ پارلیمنٹ میں بھی موجود ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کی پارلیمنٹس میں نوجوانوںکے امور کی کمیٹیوں کے 25 فیصد سے بھی کم کی صدارت نوجوانوںکے پاس ہے اور زیادہ تر ان کمیٹیوں کی سربراہی ایسے مرد کرتے ہیں جن کی عمر 40 سال سے زائد ہے۔ اکثر کمیٹیاں اگرچہ نوجوانوں کے امور سے متعلقہ ہیں لیکن یہ تمام دیگر امور کو بھی دیکھتی ہیں۔

نوجوانوں کی صلاحیتوں پر عدم اعتماد اور نوجوانوں کے امور خاص کر سیاسی عمل اور فیصلہ سازی میں اُن کی شرکت کو یقینی بنانے میں ارباب اختیار کی دلچسپی کا فقدان نوجوانوں کو انتخابات میں اپنا حق رائے دہی کے استعمال سے دور رکھتا ہے۔ جس کی تائید انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ ایلیکٹورل اسسٹنس کے اس تجزیہ سے بخوبی ہوتی ہے کہ 1945 سے1997 تک دنیا کے170 ممالک کے 1400 پارلیمنٹری اور صدارتی انتخابات میں ووٹرز ٹرن آوٹ 1940 کے عشرے میں61 فیصد سے بڑھ کر 1980 کی دہائی میں68 فیصد ہو گیا۔ لیکن 1990سے یہ کم ہوکر 64 فیصد تک آگیا تھا۔ اور اس کمی کی بنیادی وجہ نوجوانوں کی انتخابی سرگرمیوں میں شرکت کی کمی کے باعث ہوا۔ کیونکہ ورلڈ ویلیوز سروے (2010-14) کے مطابق دنیا کے صرف 43.6 فیصد نوجوان جن کی عمر 18 سے29 سال کے درمیان ہے ہمیشہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ انتخابی عمل میں نوجوانوں کی شرکت کے حصول کے لئے دنیا بھر کے اکثر ممالک میں ووٹر کی عمر کو کم کیا گیا ہے۔ یعنی دنیا کے 90 فیصد ممالک میں اس وقت ووٹر کی انتخابی فہرستوں میں نام درج کرانے کی کم ازکم عمر 18 سال ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کی اہل عمر دنیا بھر میں مختلف ہے اور یہ زیادہ تر 18 سے 25 سال کے درمیان ہے۔ جبکہ ایک تہائی ممالک میں یہ شرط25 سال اور اس سے زائد ہے۔ لیکن اعداد وشمار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 30 سال سے کم عمر آبادی کا جتنا زیادہ تناسب ہوگا اتنا ہی کم تناسب 30 سال سے کم عمر پارلیمنٹرینز کا ہوگا۔

جبکہ 2012 میں دنیا کے 186 ممالک میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کے ایک سروے میں یہ حقیقت مزید عیاں ہوئی کہ فیصلہ سازی کے مراحل میں نوجوانوں کی موثر شمولیت کے محدود مواقع نوجوانوں کو درپیش ایک اہم بنیادی چلینج ہے۔ اقوام ِمتحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ انہانسنگ یوتھ پولیٹیکل پارٹیسیپیشن تھرو آوٹ دی اکٹوریل سائیکل اس حوالے سے تجویز کرتی ہے کہ ووٹ ڈالنے کی کم از کم عمر اور پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی کم از کم عمر میں ہم آہنگی پیدا کی جائے جس کے لئے نوجوان دوست لیگل فریم ورک نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں انتخابی قوانین میں نوجوانوں اور خواتین کا کوٹہ مختص کیا جائے۔

حکومتی، سیاسی اور فیصلہ سازی کے عمل میں نوجوانوں کی شرکت کا بنیادی انحصار کسی بھی ملک کے سیاسی، سماجی و معاشی اور ثقافتی تناظر پر ہے۔ اگر ہم پاکستان کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیں تو جو حقیقت سامنے آتی ہے اس کے مطابق پاکستان اس وقت (2016) دنیا میں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔ جہاں یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 4 کروڑ 30 لاکھ اور 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوںکی تعداد 6 کرورڑ 19 لاکھ سے زائد ہے۔

نوجوانوں کی عمر کے ان دونوںگروپس میں سے قومی یوتھ پالیسی کے مطابق پاکستان دولت مشترکہ کے متعین کردہ ایج گروپ 15سے 29 سال کو نوجوان آبادی تسلیم کرتا ہے۔ عمر کا گروپ چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کے پاس نوجوانوں کی صورت میں ایک بے بہا ہیومن کیپٹل موجود ہے۔ اور ہمیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ نوجوانوں کی ملکی آبادی میں تناسب کے حوالے سے پاکستان 15 سے24 سال کے گروپ کی بنیاد پر دنیا بھر میں 17 ویں اور15سے29 سال کی عمر کے حوالے سے دنیا بھر میں12 ویں نمبر پر ہے۔ اور یہ تناسب بالترتیب21.3 اور30.7 فیصد ہے۔ جنوب ایشیا کا 15سے 24 سال اور15سے29 سال کا 13.38 اور13.29 فیصد حصہ پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

ملک کی آبادی کا تبدیل ہوتا ہوا یہ Demographic Profile اس بات کا متقاضی ہے کہ نوجوانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ماضی قریب تک اس اثاثہ سے فیض یاب ہونے سے کسی حد تک چشم پوشی اختیار کی جاتی رہی۔ لیکن جیسے ہی ملک میں ووٹر کی کم ازکم عمر کو 18 سال کیا گیا۔ ملک کے سیاسی منظر نامے میں نوجوانوں نے یکدم اہمیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ نوجوانوں کی ترقی کے حوالے سے اقدامات اور پالیسیاں ملک کی سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ جگہ پانے لگیں۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کے لئے زیادہ اقدامات ہونے شروع ہوئے۔

دسمبر2008 ء میں پاکستان کی قومی یوتھ پالیسی سامنے آئی۔ نوجوانوں کے لئے انٹرن شپ پروگرام کا آغاز، سکلز ڈیویلپمنٹ پروگرامز، لیپ ٹاپ سکیم، صوبوں کی سطح پر یوتھ فیسٹیول اور وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ اور اُن میں اضافہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات آغازِ سفر ہے۔ کیونکہ ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں نے اس حقیقت کا جلد ہی ادراک کر لیا ہے کہ اب نوجوان ووٹرز ہی اقتدار کے ایوانوں تک اُن کی رسائی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اور 2013 ء کے عام انتخابات کے لئے استعمال ہونے والی ووٹرز کی فہرستیںبھی اس حقیقت کی تائید کر رہی ہیں۔ ان فائنل فہرستوں کے مطابق ملک میں17.5 ملین رجسٹرڈ ووٹرز 18 سے 25 سال کی عمر کے گروپ پر مشتمل تھے۔

یعنی پاکستان بھر کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 20.35 فیصد 18 سے 25 سال کے Age Group کے حامل ووٹرز پر مشتمل تھا۔ جنہوں نے پہلے کبھی اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا تھا۔ اور اگر ہم ایک پل کے لئے دولت مشترکہ کے نوجوانوں کے Age Bracket کو 29 کی بجائے 30 سال تک محیط کر لیں تو 2013 ء کے انتخابات کے وقت ملک کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 35 فیصد یعنی 3 کروڑ سے زائد تعداد 18 سے 30 سال کی عمر کے ووٹرز پر مشتمل تھی۔ NADRA Electoral Rolls Booklet 2012 کے مطابق 2013 ء کے عام انتخابات کے موقع پر صوبہ پنجاب نوجوان ووٹرز کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔ جہاں پاکستان بھر کے رجسٹرڈ نوجوان ووٹرز کا 56 فیصد موجود تھا۔ اس کے بعد 22 فیصد نوجوان ووٹرز کا تعلق سندھ، 15 فیصد کا خیبر پختونخوا سے، 4 فیصد بلو چستان سے، 2 فیصد فاٹا اور ایک فیصد رجسٹرڈ نوجوان ووٹرز کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔

2013 ء کے عام انتخابات کی ووٹر فہرستوں میں ملک کے18 سے 25 سال کی عمر کے تقریباً 55 فیصد نوجوانوں اور18 سے 30 سال کی عمر کے تقریباً62 فیصد نوجوانوں کی بطور ووٹر رجسٹریشن موجود تھی جس نے سیاسی میدان میں ہل چل پیدا کردی اورٹرن آوٹ 55 فیصد تک پہنچا دیا۔ جو 1977 کے انتخابات کے ٹرن آئوٹ کے برابر ہے جس کے بعد یہ ٹرن آوٹ کم ہو تا ہوتا1997 کے انتخابات تک35.2 فیصد رہ گیا۔ 2002 میں جب ووٹر کی عمر کی حد کو کم کرکے 18 سال کر دیا گیا تو ٹرن آئوٹ میں پھر سے اضافہ ہوا اور یہ41.8 فیصد ہوگیا اس کے بعد یہ اضافہ اگلے الیکشنزمیں بھی جاری رہا اور 2008 کے الیکشن میں ٹرن آئوٹ44 فیصد رہا۔ووٹر ٹرن آوٹ میں یہ اضافہ نوجوانوں کی انتخابی عمل میں شرکت ہی کے باعث ممکن ہوا۔ اور ذرا سوچئے! اگر ووٹر فہرستوں میں نوجوانوں کا اندراج 100 فیصد کے لگ بھگ ہو جائے اور نوجوان اپنے حق ِ رائے دہی کا مکمل استعمال کریں تو پھر ملک کی کوئی بھی سیاسی قوت نوجوانوں کو مطمئن کئے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک

واضح اکثریت میں نہیں پہنچ پائے گی۔ نوجوانوں کا ووٹنگ لسٹوں میں100 فیصد اندراج اور انھیں اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال کے لئے قائل کرنے کے سلسلے میںالیکشن کمشن آف پاکستان، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک متواتر جاری رکھنا چاہئے۔کیونکہ انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کا اندراج ایک باقاعدہ اور تواتر کے ساتھ جاری رہنے والا عمل ہے۔(جب عام انتخابات کا اعلان ہو جائے تو الیکشن سے دو ماہ قبل نئے ووٹرز کے اندراج کو عارضی طور پر روک دیا جا تا ہے) لیکن اس پہلو پر چاروں Stake holders میں سے کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ اور اب2018 میں قوم ایک بار پھر انتخابات کے مراحل سے گزرنے والی ہے۔ اور 2018 تک ملک کے نوجوانوں 18) سے 30 سال( کی آبادی 5 کروڑ 35 لاکھ سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہے جو 2012 کے مقابلے میں12.3 فیصد زائد ہوگی۔

2013 کے انتخابات کی ووٹر فہرستوں میں اندراج سے محروم رہنے والے اور 2018 تک اضافی نوجوانوں کے ناموں کا ووٹر فہرستوں میں اندراج اور انھیں اپنے حق رائے دہی کے استعمال کی ترغیب الیکشن کمشن، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی بھر پور مہم پر منحصر ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ بلاتاخیر نوجوان آبادی کو اپنا نام ووٹرز فہرستوں میں درج کروانے کی ترغیب پر مبنی ایک بھرپور ملک گیر مہم کا آغازکیا جائے۔

جسے میڈیا کو ایک سماجی ذمہ داری کی صورت میں پبلک براڈکاسٹنگ کی مد میں نا صرف چلانا ہو گا بلکہ سیاسی جماعتوں، الیکشن کمشن اور سول سوسائٹی کو بھی اس میںاپنا ہمنوا بنانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں، الیکشن کمشن اور سول سوسائٹی کو بھی اس حوالے سے ماس میڈیا اور خصو صاً سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال ابھی سے شروع کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں کل 4 کروڑ 62 لاکھ 17 ہزار4 سو 82 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ جبکہ آنے والے2018 کے عام انتخابات میں عمر کے حساب سے اہل نوجوان ممکنہ ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ سے بھی زائد ہوگی۔ یہ 2013 کے انتخابات میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی کل تعداد سے بھی زیادہ ہے جو سیاسی جماعت آنے والے الیکشن میں اس انسانی سرمائے سے فیض یاب ہونے میں کامیاب ہو گئی اُس کے لئے اقتدار میں واضح اکثریت کے ساتھ آنا ہر لحاط سے ممکن ہو جائے گا۔

انتخابی عمل میں نوجوانوں کی بطور نمائندہ اور ووٹر دونوں طرح سے شرکت بہتر قیادت کو سامنے لانے کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں تو بھر پور دلچسپی لیتی ہیں لیکن نوجوانوں کو پارلیمنٹ میں لانے کے حوالے سے کسی واضح پالیسی کے فقدان کا شکار ہیں۔ اور نوجوان قیادت بھی صرف سیاسی جماعتوں کے ایک انتخابی نعرہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ پارٹی منشوروں میں نوجوانوں کو الیکشن میں ٹکٹس دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس سے متضاد ہے۔

اور اس طرح کے کسی بھی فیصلے کو رسک قرار دیا جاتا ہے اور کوئی بھی پارٹی انتخابات میں اس طرح کا رسک لینے سے کتراتی ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل کی وجہ سے ملک کا نوجوان طبقہ سیاسی عمل میں شرکت کرنے سے پہلو تہی اختیار کر تا ہے۔ سینٹر فار سوک ایجوکیشن کا ملک کے 18سے30 سال کے نوجوانوں میں کئے جانے والا سروے بھی اس امر کی تائید کر رہا ہے کیونکہ سروے کے 82 فیصد رائے دہندگان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ سیاست میں سرگرم حصہ نہیں لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی پارلیمنٹ میں 30 سال سے کم عمر ارکان کے تناسب کے بارے میں کو ئی مصدقہ معلومات موجود نہیں کیونکہ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر ممبرز پروفائل میں اراکین اسمبلی کی تاریخ پیدائش موجود نہیں ہے۔ سینٹ کے بھی اکثر ممبرز کے پروفائل میں تاریخ پیدائش کو صرف نظر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کے بھی کافی اراکین کی تاریخ پیدائش کی تفصیلات اسمبلیوں کی ویب سائٹس پر موجود پروفائلز میںدستیاب نہیں اور اگر پارلیمینٹ پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اس حوالے سے کوئی کام کیا ہے تو وہ باآسانی دستیاب نہیں۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں ینگ پارلیمنٹرین فورم پاکستان کے نام سے ایک سیٹ اپ موجود ہے جس کے ممبرز کی تعداد 78 ہے لیکن یہ تمام ارکان 11مئی 2013 تک 40 سال سے کم عمر کے حامل تھے۔ تو پھر کوئی کیا جانے کے ملکی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں30 سال سے کم عمر نوجوانوں کا کتنا تناسب موجودہے؟ ملک میںنوجوانوں کی فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت اور اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کا فی الحال سب سے بہتر فورم مقامی حکومتوں کا نظام / بلدیاتی نظام ہے جس کی رکنیت کے حصول کے لئے صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں شرکت کی طرح قانونی عمر کی حد25 سا ل اور اس سے زائد ہے جبکہ سینٹ کے لئے یہ حد 30 سال اور اس سے زائد ہے۔ ملکی سیاست کی ان ابتدائی نرسریوں کو بھی اس وقت اختیارات اور فنڈر کے حوالے سے بے اختیاری کی کیفیت کا سامنا ہے۔

پاکستانی سیاست میں نوجوانوں کے کردار کے بارے میں 1947سے 20 ویں صدی کے اختتام تک کے دورانیہ پر مشتمل تمام تر لٹریچرصرف طلباء سیاست پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھا۔ اور یہ تقسیم نوجوانوں کی اُس بڑی تعداد کو یکسر نظر انداز کئے ہوئے تھی جو دیہی علاقوں میں آباد ہیں اور جن کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے اور ایسا صرف زیادہ ترطلباء سیاست کے اثر انگیز کردار کے باعث تھا۔ جناح انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ پولیٹیکل آرڈی پولیٹی سائیڈ؟ پاکستان یوتھ اینڈ پالیٹکس، اے ہیسٹوریکل اینلسز آف یوتھ پارٹی سیپیشن ان پاکستان کے مطابق 21 ویں صدی میں پاکستانی طالب علموں کی مقامی اور قومی سیاست میں براہ راست شمولیت قدرے کم ہوئی ہے۔ کیونکہ طلباء سیاست زیادہ تر پر تشدد اور غیر قانونی ہو چکی ہے۔

سیاسی اظہار کا ایک ذریعہ احتجاج اور مظاہرے ہیں جس کے ذریعے نوجوان سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے عدم اطمینان اور مسائل کا اظہار کرتے ہیں۔ احتجاج اور مظاہرے کوئی نئی بات نہیں لیکن ابلاغی ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع اور سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ نوجوان اس طرح کی تحریکوں میںمشغول اور متحرک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ڈیجیٹل ڈویلپمنٹ کمیشن کے مطابق 2015 تک دنیا کی 43 فیصد آبادی انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی تھی۔ یعنی 3.2 ارب افراد انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک کے صرف 35 فیصد افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ لیکن آن لائن اور سوشل میڈیا کے بڑھتی تعداد میں دستیاب ذرائع نے سیاسی اور سماجی مسائل کے حوالے سے نوجوانوں کی شرکت اور فعالیت کو مربوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ یوتھ رپورٹ2016 ’’ یوتھ سوک انگیجمنٹ‘‘ نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شرکت کے حوالے سے ایک بہت اہم اور ضروری امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ’’نئے سیاسی عمل اور اداروں میں نوجوانوں کو شامل کرنے میں ناکامی کا ردعمل نوجوان سیاسی کارکنوں میں مایوسی اور ناراضگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

جو جمہوریت کو غیر مستحکم اور تنازعات کے محرکات کو تیز کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جب نوجوان یہ محسوس کریں کہ اُن کی شکایات اور محرومیوں کو گورننس اور فیصلہ سازی میں نظر انداز کیا جارہا ہے تو بعض صورتوں میں وہ پُرتشدد اور انتہا پسند سرگرمیوں پر مائل ہوسکتے ہیں‘‘۔ اور اس طرح کی صورتحال کا متحمل کوئی بھی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ اپنی سیاسی اور Human Capital اہمیت کے باوجود پاکستان کا نوجوان ابھی بھی گوں نا گوں مسائل کا شکار ہے۔

ملک میں نوجوانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے اورمعیاری تعلیمی سہولیات تک اُنکی رسائی کو یقینی بنانا بڑے چیلنجز ہیں۔اس کے علاوہ قومی ، صوبائی اور مقامی ترقی کے عمل میں نو جوانوں رائے کو شامل کرنے جیسے اقدامات پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔ اس حوالے سے قومی یوتھ پالیسی میں وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل یوتھ کونسل کے علاوہ سنٹرل یوتھ کونسل اور سٹی یوتھ کونسل کے قیام کا ذکر تو موجود ہے لیکن ابھی ان کی کوئی ظاہری صورت سامنے نہیں آئی۔ اگرچہ یوتھ پارلیمنٹ کی صورت میں ملک میں نوجوانوں کا ایک فورم موجود ہے۔لیکن اس فورم کو قومی فیصلہ سازی کے عمل کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔تاکہ قومی اور علاقائی امورمیں نوجوانوں کی رائے کوبھی شامل کیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔