چھوٹے چھوٹے غم…

شیریں حیدر  اتوار 28 اگست 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’کیا تکلیف ہے آپ کو بی بی؟ ‘‘ ڈاکٹر نے اس کا سرسری نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا، اس کے کاغذات کی فائل ڈاکٹر کی میز پر کھلی ہوئی رکھی تھی اور وہ اسے بھی دیکھ چکا تھا، مریضہ کو ڈپریشن کی تکلیف لگتی تھی اور اس کی شوگر بھی معمول سے زیادہ تھی، ’’ کیا آپ کے خاندان میں کسی کو اس سے قبل شوگر کا مرض لاحق ہوا ہے؟‘‘’’ نہیں ڈاکٹر صاحب، کم از کم میرے ماں باپ، دادا دادی اور نانا نانی کی حد تک تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں !!‘‘

’’ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی شوگر کا تعلق نہ وراثت سے ہے اور نہ ہی آپ کی خوراک کے باعث… کون سا ایسا غم ہے آپ کو جس کے باعث آپ ڈپریشن میں چلی گئی ہیں؟ ‘‘ اس نے مریضہ کی دوسرے ڈاکٹر کی تجویزکردہ دواؤں کا جائزہ لیا جن کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ شدید ڈپریشن کا شکار تھی۔

’’ غم تو انسان کو چاٹ جاتا ہے ڈاکٹر صاحب، زندہ انسانوں کو غم سے نجات کہاں !!‘‘

’’ پھر بھی میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کو کون سا غم ہے جس سے آپ کو نجات نہیں حاصل ہو سکتی؟ ‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔…’’ چھوٹے چھوٹے کئی غم ہیں‘‘ اس نے مغموم لہجے میں کہا۔…’’ کیا آپ مجھے اپنی آج کے دن کی تفصیلات بتا سکتی ہیں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سے مسائل ہیں جو آپ کواتنا رنجور کیے ہوئے ہیں؟ ‘‘ …’’آج صبح اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹاتے ہی اس کی نظر باہر صحن میں پڑی جہاں چڑیا کا ایک نومولود زمین پر گرا پڑا تھا اور اس کی ماں بے بسی سے اس کے گرد دیوانہ وار چکر لگا رہی تھی، میں نے باہر نکل کر اسے اٹھایا اور ارد گرد دیکھا کہ مجھے اس کا گھونسلا نظر آئے تو میں اسے وہاں چھوڑ دوں مگر مجھے اس کا گھونسلا نہیں ملا، چڑیا میرے گرد گھوم رہی تھی مگر میں بے بس تھی، آخر کار میں نے اس کو اپنے گھر کی دیوار پر رکھا اور میں مڑی ہی تھی کہ تاک میں کھڑی ایک بلی نے جھپٹا مارا اور اس ننھی سی جان کو دیوار سے اچک کر یہ جا وہ جا، میں نے اس چڑیا کے غم کو محسوس کیا اور مجھے لگا کہ ایک برے دن کا آغازہوا ہے۔

میری بیٹی اسکول جانے کے لیے تیار تھی، میز پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے اس نے اپنے ہوم ورک والی کاپی کھول رکھی تھی اور اس پر سے ٹیسٹ کے لیے آخری لمحات کی تیاری کر رہی تھی، اچانک اس کے اپنے ہی ہاتھ سے دودھ کا گلاس گرا اور اس کی نوٹ بک پر اس کے اس سارے ہوم ورک کو داغدار کر گیا… وہ جس طرح خوف زدہ اور روتی ہوئی اسکول گئی، اس کے آنسو دن بھر میرے دل پر گرتے رہے۔

میرے ملازم کا والد کئی دنوں سے سرکاری اسپتال کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکا ہے مگر اس کی شنوائی نہیں ہوتی، اس کی ٹانگ پر کوئی زخم ہو گیا تھا جو کہ بگڑ کر اس حالت کو پہنچ گیا کہ اب وہ چل بھی نہیں سکتا، آج ہی ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ اس کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی!

میری بیٹی کی منگنی ہو چکی ہے، اس کے ہونے والے جیٹھ کی بیٹی کو شادی کے فقط پانچ سال کے بعد طلاق ہو گئی ہے اور اس کے سسرال والوں نے اس کے بچے بھی اسے نہیں دیے۔

میری ساس کو رعشے کی تکلیف ہے اور ان کی تکلیف علاج کے باوجوددن بدن بڑھتی جا رہی ہے، یادداشت بھی کم ہو رہی ہے اور کمزور ہو گئی ہے!

میرابیٹا ایم بی اے کر چکا ہے اور چھ ماہ سے بے روز گار ہے کبھی کچھ کہتا ہے کبھی کچھ، آج کل اس پر بھوت سوار ہے کہ کسی اور ملک میں چلا جاتا ہوں کہ اس ملک میں نہ تو ہنر کی قدر ہے نہ تعلیم کی!!‘‘ بات کرتے کرتے وہ سانس لینے کو رکی، ’’ صرف یہی نہیں ڈاکٹر صاحب ‘‘

’’ رکیں بی بی، یہیں تک رکیں!!‘‘ ڈاکٹر نے اس کو بیچ میں ٹوکا۔…’’ آپ مجھے بتائیں کہ اس وقت تک آپ نے مجھے اپنے آج کے آدھے دن کے سات مسائل بتائے ہیں، ان میں سے نصف مسائل کا تعلق نہ آپ کی ذات سے ہے نہ آپ کے گھر سے، باقی نصف بھی ایسے ہیں کہ جن میں کسی حادثے کی وجہ سے کچھ ہوا یا قدرت کی طرف سے بیماری یا آزمائش… آپ کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے نہ دوا، پھر آپ ان مسائل کو اپنے سر پر سوار کر کے خود کو کیوں بیمار کیے بیٹھی ہیں؟ ‘‘

’’ کیا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ کسی مسئلے کو اپنے سر پر سوار کرے یا نہ کرے؟ ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا، ’’ میں ایک حساس ذہن اور نازک دل رکھتی ہوں، میرے ارد گرد ہونے والا ہر واقعہ خواہ اس کا تعلق مجھ سے ہو یا نہیں،مجھے متاثر کرتا ہے، اپنے بچوں کی تکالیف اور دوسروں کے دکھ میرے سکون کو برباد کر دیتے ہیں!!‘‘

’’ اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک جیسا حساس ذہن اور ایک جیسا درد رکھنے والا دل دیا ہے، ہم انسان خود اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ کسی چیز کی حساسیت کو خود پر سوار کر لیں یا اس بات کی تسلی رکھیں کہ ہر انسان اور ذی نفس پر آنے والی تکلیف اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور وہی حل المشکلات ہے۔ دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنا، ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی کوشش کرنا اسی حد تک کریں جہاں تک آ پ کے اپنے احساس کی حد ہے، دوسروں کے درد کو حد سے زیادہ خود پر سوار کر کے انسان ان نعمتوں کے وجود سے منکر ہوتا ہے جو اللہ تعالی نے اس کو دی ہیں۔ نہ آپ کسی حادثے کو روک سکتے ہیں نہ بیماری کو، نہ کسی کے درد کو اس طرح محسوس کر سکتے ہیں جس طرح وہ شخص خود کر سکتا ہے نہ اس کے درد کا مداوا کر سکتے ہیں!!‘‘…’’ مگر کہتے ہیں کہ بندہ ہی بندے کا دارو ہے ‘‘…’’درست ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان دارو بن جائے اور اپنے وجود کو ختم کر دے، اپنے وجود کے سکون کو ختم کر دے۔ اپنے اختیار کی حد کو سمجھنا بہت اہم ہے، جانوروں ، پرندوں اور اپنے جیسے انسانوں کے درد کو بٹانا اہم سہی مگر اپنی صحت اور جان کی قیمت پر نہیں!!‘‘

’’ پھر میں کس طرح خود کو بدلوں، اب تو میں ایسی ہی ہوں، ہمیشہ سے ایسی ہی رہی ہوں، اب کیسے لاتعلق ہو جاؤں ، کیا اللہ تعالی نے ہمیں اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم دوسروں کے دکھ سکھ میں ساتھی ہوں ؟ ‘‘…’’ اللہ کی دی ہوئی نعمت کی قدر نہ کرنا بھی تو کفران نعمت ہے، آپ ہر طرح سے دوسروں کی معاون اور ہمدرد تو بنیں مگر خدا بننے کی کوشش نہ کریں، آپ ہر رونے والے کو اپنا کندھا دینا شروع کر دیں گی تو لوگ آپ کو صرف رلائیں گے… آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ نے بھی کسی سے اپنا غم کبھی شئیر کیا؟ ‘‘…’’ نہیں … کبھی نہیں، اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں اور یوں بھی مجھے ایسا کوئی غم نہیں جو میں کسی کے ساتھ شیئر کروں !‘‘…’’ اس لیے کہ آپ کو کوئی ایسا ملا ہی نہیں جسے آپ کے دکھ جاننے سے دلچسپی ہو!‘‘ ڈاکٹر نے ہنس کر کہا، ’’ اور آپ خود دوسروں کی خوشیوں کو جاننے کی بجائے ان کے غم جان کر خوشی محسوس کرتی ہیں، دوسروں کے غم جان کر ان پر کڑھ کر خود اذیتی میں مبتلا ہوتی ہیں اور خود کو بیمار بنا بیٹھی ہیں… بوجھ اتنا اٹھائیں جتنا اٹھانے کی سکت ہو، اپنی استطاعت سے زیادہ بوجھ اٹھانے والے یونہی جسمانی بے ضابطگیوں کا شکار ہوتے ہیں، ہماری صحت اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے، اس نعمت پر ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں ، کم ہے اور اس کی قدر نہ کرنے والا جلد اسے کھو دیتا ہے ‘‘ …’’ سمجھ گئی ڈاکٹر صاحب ‘‘ مریضہ نے دل سے ممنون ہوتے ہوئے ، زبان سے بھی ان کا شکریہ ادا کیا، ’’آپ چاہتے ہیں کہ میں اس ملک کے حکمرانوں جیسی ہو جاؤں!! چلیں میں کوشش کروں گی!‘‘ کہہ کر وہ باہر نکلی اور ڈاکٹر صاحب اسے جاتا ہوا دیکھ کر رہ گئے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔