دشمنان پاکستان کے مذموم عزائم

نسیم انجم  اتوار 28 اگست 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پھولوں اور بچوں کو تقریباً سب ہی پسند کرتے ہیں نیلے، اودے، سرخ اور گلابی ڈالیوں پر جھومتے ہوئے پھول دلکش منظر پیش کرتے ہیں، پھولوں کی نمائش بھی مختلف جگہوں پر کی جاتی ہے۔ تروتازہ اور خوشنما رنگوں کے گل و برگ کو دیکھ کر لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں، یقیناً پھولوں کو پروان چڑھانے میں باغ کے مالی کی شبانہ روز محنت شامل ہوتی ہے، تب یہ زمین سے اگنے والے ننھے منے پودے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب کلیاں پھول بن جاتی ہیں اور ہوائیں معطر ہوجاتی ہیں، باغبان کا دل بھی خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ہے کہ اس کی کاوش اور مشقت رنگ لے آئی۔

بچے بھی پھولوں ہی کی طرح ہوتے ہیں، نرم و نازک ان کی کلکاریوں سے گھر والے اور گھر کا ماحول خوشی سے جھومنے لگتا ہے، ہر شے رقص کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ اولاد ہوتی ہی اتنی پیاری ہے ہر شے سے عزیز ترین، گویا دل کا ٹکڑا، ماں ممتا نچھاور کرتی ہے تو باپ اس کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی نئی تدابیر پر غور کرتا ہے تاکہ اس کی اولاد ہر خوشی اور کامیابی سے آشنا ہوسکے اسے کسی قسم کی محرومی اور تکلیف نہ پہنچے، جہاں بچے ہوں اور ان کی نت نئی شرارتیں ہوں تو وہ گھر جنت کا نمونہ پیش کرتا ہے، لیکن اگر گھر کے خوشگوار ماحول میں کوئی دکھ کا زہر گھول دے تب زندگی محرومیوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔

ایک وقت تھا جب اسپتالوں سے نومولود بچوں کو باقاعدہ سازش کے تحت غائب کردیا جاتا تھا اس گھناؤنے کھیل میں ڈاکٹر، نرسیں اور آیا شامل ہوتی تھیں۔

چوری ہونے والے معصوم فرشتوں کو باقاعدہ فروخت کرکے رقم کھری کر لی جاتی تھی، والدین، تڑپتے اور فریاد کرتے تھے کہ ان کے گوشہ جگر کو تلاش کیا جائے اور ماں کی اجڑی گود ایک بار پھر آباد ہوجائے، ان دنوں ایسی خبریں تو ذرا کم ہی آرہی ہیں۔ ورنہ تو یہ روز کی کہانی تھی۔

ہر دن ایسے ہی واقعات پیدا ہوگئے ہیں کہ دوسرا گروہ منظم منصوبہ بندی کے تحت سامنے آگیا ہے اور دن دہاڑے بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہے معتبر ذرایع، میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کے گردے نکال کر باہر بھیجے جا رہے ہیں اور دوسرے اعضا کا بھی باقاعدہ کاروبار شروع کردیا گیا ہے، پہلے پنجاب میں بچوں کے اغوا کے سنگین جرائم سامنے آرہے تھے اور اب یہ وبا کراچی میں بھی پھیل چکی ہے، بچوں کا اغوا وائرس کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔

والدین اس قدر خوفزدہ ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں پر تنہا نکلنے پر پابندی لگا دی ہے، اسکولوں سے چھٹیاں کروائی جا رہی ہیں، اسکول کے منتظمین والدین سے یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی خود حفاظت کریں، ساتھ لے کرجائیں اور اسکول بھیجنے کی ذمے داری بھی پوری کریں۔

قابل غور یہ بات ہے کہ گروہ کی شکل میں تخریب کار آخر کہاں سے نازل ہوگئے ہیں، زمین سے نکلے ہیں یا پھر اپنے مشن کو پورا کرنے کے لیے خفیہ تہہ خانوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑی اہم اور حیران کن خبر سامنے آئی کہ پاکستان کی 19 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں سے سات کروڑ افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس(محکمہ شماریات)  اور نادرا کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ان اداروں نے بتایا کہ یہ سات کروڑ لوگ کہاں رہتے ہیں، ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اس حوالے سے ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ انھوں نے مردم شماری کی ضرورت پر زور دیا۔

ہمارے ملک کا آوے کا آوا ہی خراب ہے ملکی ڈھانچے کو کمزور کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں اندرون اور بیرون پاکستان سے آنے والے گھر کرائے پر لیتے ہیں، تمام لوگوں کی طرح رہتے بستے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، کارخانوں اور دفاتر میں جاتے ہیں، تجارت کرتے ہیں لیکن خفیہ طریقے سے پاکستان اور اس کی عوام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے منصوبے بناتے ہیں اور اس پر چند دنوں کے وقفے کے بعد عمل کر ڈالتے ہیں، تاکہ پاکستان ترقی کی راہوں پر گامزن نہ ہوسکے، پاکستانی بچے تعلیم سے محروم رہیں اسی لیے تعلیمی درسگاہوں میں خچر اور دوسرے جانور باندھے جانے لگے ہیں۔

اور اسکول و کالج کو مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اصطبل میں بدل دیا گیا ہے اگر دہشت گرد پکڑے گئے تو جیل کی چار دیواری ان کا مقدر بن جاتی ہے لیکن تخریب کار قسمت کے دھنی ہیں کہ ان سے فائدے اٹھانے والے افسران بالا انھیں اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر بہت جلد رہا کرا لیتے ہیں اس طرح جرائم کا بازار گرم رہتا ہے۔

پہلے ہمیں فلموں میں ڈان نظر آتے تھے جو اپنے جیلوں کے ذریعے اغوا، ڈکیتی اور قتل و غارت کروانے میں اپنا جواب آپ رکھتے تھے اب حال یہ ہے کہ قدم قدم پر ’’ڈان‘‘ موجود ہیں ان لوگوں نے اپنے گروہ بنا لیے ہیں ان کے ایک حکم پر وہ گلی کوچوں میں پھیل جاتے ہیں اور دل کھول کر انسانوں کا قتل عام اور ڈکیتیاں کرتے ہیں حال ہی میں عبدالرحمن کا قتل ہوا جس کی عمر تین سال تھی، بچے کے لواحقین نے یونیورسٹی روڈ پر لاش کے ہمراہ دھرنا بھی دیا، لیکن کیا حاصل ہوا، ان کا چمن تو اجڑ گیا ایک خوبصورت، تروتازہ پھول مرجھا گیا، اغوا برائے تاوان کے سلسلے میں عباد کو اغوا کیا گیا تھا عمران اور اس کے ساتھیوں نے تاوان کے لیے دس لاکھ کی رقم مانگی تھی اور بچے کو پنجاب لے گئے پولیس کی کاوشوں سے ملزمان پکڑے گئے ہیں وفاقی محتسب نے بچوں کے اغوا کا نوٹس لیا ہے۔

لیکن حالات جوں کے توں ہیں، ملزمان کی بجائے کچھ بے قصور راہ گیر بھی شہریوں کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس کی وجہ پولیس اپنی ذمے داریوں کو خلوص دل کے ساتھ نباہ نہیں رہی ہے، ان کی اس لاپرواہی اور سفاکی نے شہریوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ مجرمان کو خود سزا دیں۔

چند روز قبل کا واقعہ ہے جب ایک چور اچکے کو محلے کے نوجوانوں نے پکڑ لیا اور خوب تشدد کیا اور اسے نالے میں اس طرح پھینکا، جس طرح مرے ہوئے کوے کی لاش کو اچھال دیتے ہیں، حیرت اور افسوس کی بات یہ تھی کہ یہ سنگ دل نوجوان قہقہے لگاتے جاتے تھے اور اس کی درگت بنانے میں ہر شخص اپنا فرض ادا کرکے کار ثواب حاصل کر رہا تھا۔ اس طرح تو جانور پر بھی ظلم نہیں کیا جاتا ہے، وہ تو انسان تھا، کسی کا لخت جگر تھا، جو صراط مستقیم سے بھٹک چکا تھا، وہ ٹارگٹ کلر نہیں تھا نہ اس کے ساتھ تیزاب گردی و اغوا اور کسی کی عصمت فروشی کا واقعہ منسوب تھا۔ قانون کو ہاتھ میں لینا جرم تو ہے ہی، ساتھ میں بے رحمی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرنے والے کے لیے خیر کے بہت دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ کاش کہ یہ سمجھیں۔

پچھلے کئی سالوں سے بچوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائی جا رہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ محکمہ پولیس اور رینجرز کے لیے شہر کے ہر علاقے اور چوراہوں پر چوکیاں قائم کرنا ناگزیر ہوچکا ہے، جرائم میں اسی طرح کمی واقع ہوسکتی ہے۔بچوں کا اغوا بھی پاکستان کے استحکام کو کمزور کرنے کی ناپاک سازش ہے تاکہ فورسز اندرونی مسائل میں الجھی رہیں اور دشمن اپنا کام آسانی سے انجام دیتا رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔