کب یہ سوچاتھا کہ یوں بھی ہوگا

شاہد سردار  اتوار 28 اگست 2016

گا، گے، گی کا راگ کلاسیکی موسیقی کا کوئی راگ نہیں بلکہ ہمارے وطن عزیز میں الاپا جانے والا وہ روایتی راگ پاٹ بن گیا ہے جو ہر سرکاری سطح سے گایا جاتا ہے۔ مثلاً پھانسی کی سزا پر فوری عمل در آمد شروع کیا جائے گا، دہشت گردوں کو سزا دینے میں تاخیر سے بچنے کے لیے خصوصی ملٹری ٹرائل کورٹس قائم کیے جائیںگے، کسی بھی عسکریت پسند گروپ یا ادارے کو کام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ملک کے ہر حصے میں دہشت گردوں کے لیے جگہ تنگ کردی جائے گی، کشمیری آپریشن مطلوبہ مقاصد کے حصول تک جاری رہے گا، فرقہ وارانہ عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔ حکومت، صوبائی انٹیلی جنس ایجنسی کے اداروں کو دہشت گردوں کے نیٹ ورک تک رسائی کے لیے قانون سازی کرے گی، وغیرہ وغیرہ۔برسہا برس سے اس ملک میں ہم نے بیانات کی حکمرانی کو ہی پایا ہے۔ ہمارے حکمران ایک سانحے کے رونما ہونے پر اس قسم کے بیانات دیتے ہیں، تعزیت کرتے ہیں، قومی سوگ کا اعلان کرتے ہیں اور پھر دوسرے اور تیسرے سانحے کے ظہور پذیر ہونے پر یہی پریکٹس دوہراتے ہیں۔

شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ریاست کے اولین ذمے داری ہوتی ہے لیکن ہر دور کی حکومت ہمیشہ سے اپنی یہ آئینی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہی رہی ہے، پولیس اہلکاروں اور خفیہ ایجنسیوں کی بڑی تعداد ملک کی اہم شخصیات کی سیکیورٹی پر مامور رہتی ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہوتا، لگتا ہے کہ قیام امن حکومت کی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں۔ کراچی کی دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے ایک اہلکار تک موجود نہیں۔ دوسری طرف حکومتی افراد کو بچانے کے لیے ان کی حفاظت پر درجنوں اہلکار مامور کردیے جاتے ہیں۔

ملک میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پولیس اہلکار سڑکوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور بے بس، کمزور لوگوں کی تلاشی لیتے ہیں جب کہ واردات کرنے والے اپنا کام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کے روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات محکمہ پولیس اور بالخصوص انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی ہے۔ حالیہ سانحہ کوئٹہ اس کی تازہ ترین مثال ہے اس واقعے کے بعد متعلقہ اداروں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ورنہ متعدد زخمی وکلا کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ متعلقہ ادارے چاہیں تو اس قسم کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن چیک اینڈ بیلنس کا ہمارے ہاں سرے سے کوئی اہتمام کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔

برطانیہ میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی کرنیوالے چار پاکستانی نژاد نوجوانوں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ان معلومات کی بنیاد پر پکڑا کہ وہ زراعت سے تعلق نہ ہونے کے باوجود کیمیائی کھاد خرید کر اپنے گیراج میں جمع کررہے تھے جب کہ ہمارے ہاں یہ انٹیلی جنس اداروں کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ بم کی تیاری کے دوران دہشت گردوں کا سراغ نہیں لگا سکتے۔ حالانکہ اگر کوئی مشتبہ شخص بڑی تعداد میں بارودی مواد خریدتا ہے تو اس سے جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں دکانوں سے کوئی بھی شخص با آسانی یہ سارا سامان خرید سکتا ہے۔

ماضی میں اسلام آباد جیسے حساس شہر میں واقع لال مسجد میں بھاری مقدار میں اسلحہ جمع ہوتا رہا لیکن کسی نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کوئٹہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اسے بارہ سڑکوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور وہاں جتنی بڑی تعداد میں فورسز موجود ہیں ان کے ذریعے تو ہر گھر پر نظر رکھی جاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود آئے دن دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو کوئی ادارہ یا فرد اس کی ذمے داری قبول نہیں کرتا، استعفیٰ دینا تو بہت بعد کی بات ہے، ہمارے ہاں ابتدا ہی سے کسی ذمے دار کو ذمے دار ٹھہرانے کا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔

کوریا میں ایک مظاہرے کے دوران ایک طالب علم آنسو گیس سے ہلاک ہوگیا تو وہاں کے وزیر داخلہ نے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن افسوس ہم صدیوں سے ایسی کسی مثال کو اپنانے سے گریزاں چلے آرہے ہیں۔  شاید اس لیے بھی کہ ہمارے نصاب میں (ب) سے بندوق اور (کاف) سے کلاشنکوف لکھا ہوا ہے۔

اب یہ بات ایک ناقابل تردید حقیقت بن کر سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ کرنے کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے کسی ایک ادارے کی طرف انگلی اٹھانے کی بھی کسی کو اجازت نہیں ہے، نیتوں کا فتور بھی امن و امان کی خرابی کا ایک سبب ہے اگر جذبہ حب الوطنی ہو تو نیت اچھی ہوسکتی ہے اور کسی بھی حساس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے کیا سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کو اور بعد ازاں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے اور پھر حال ہی میں سندھ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو بازیاب نہیں کروالیا گیا۔

کوئٹہ کے سانحے کی جانچ پڑتال کی جائے تو لگتا ہے سبھی سو رہے تھے جبھی سارے کے سارے وکلا جن میں سینئر اور جونیئر سبھی تھے شہید کر دیے گئے اور پورا ’’کوئٹہ بار‘‘ سنسان ہوکر رہ گیا۔قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد میں اتنی سستی کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس بارے میں تو ہم کچھ نہیں جانتے ہمارے سامنے تو سرکاری ذرایع سے اطلاعات سامنے آتی ہیں۔ کراچی میں بھی آپریشن جاری ہے لیکن اس کے اصل ذمے داروں کو کوئی بھی کیفر کردار تک پہنچانے سے قاصر نظر آتا ہے جبھی امجد صابری کا قتل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس کا بیٹا اغوا ہوتا ہے اور سانحہ کوئٹہ جیسا دردناک واقعہ منظر عام پر آتا ہے۔ہماری دانستہ میں ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے نہ صرف اندرونی عوامل ہیں بلکہ بیرونی عوامل بھی ہیں ’’را‘‘ کے ایجنٹ یا دیو کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہمارا مقصد ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ اس کے باوجود حکومتی سطح پر آج تک اس کا کوئی تدارک نہیں ہوسکا بھارتی جاسوس کو پکڑے بھی آج مہینوں ہو چلے ہم نے اپنی ناقص خارجہ پالیسی کو موثر اور طاقت ور پالیسی ابھی تک نہیں بنایا ہے۔

وقت یہ بات ثابت کرچکا ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں بیرونی مداخلت ختم نہیں ہوگی یہ مسئلہ یوں ہی سر اٹھائے کھڑا رہے گا اور ہماری خود مختاری پر سوالیہ نشان بدستور کھڑا رہے گا جس کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک عرب ملک کے شہری کو پرندے کے شکار سے نہیں روک سکتی۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ملکی بقا اور ترقی ہماری تمام پالیسیوں کا مرکز اور محور ہونا چاہیے۔ دستور پاکستان کی حقوق انسانی کی شقوں کو مقدم رکھنا، عوام کی حفاظت، ان کے حقوق کی پاسداری، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر توجہ رکھنا اور غربت اور امارت کی خلیج گھٹانا بھی حکومت کی اولین ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

افسوس ملک کے کسی حکمران، کسی ارباب اختیار نے کبھی صدق دل سے اپنے فرائض کو ادا نہیں کیا اور اس کا تازہ ترین مظاہرہ ہمیں کوئٹہ میں دیکھنے کو ملا۔ سانحہ کوئٹہ کے نتیجے میں وہاں کے وکلا کی کم و بیش ساری قیادت دنیا سے چلی گئی۔ حالانکہ اس شہر میں قانون دانوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور بد قسمتی سے یہ اس طبقے سے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ محروم ہوگیا، اس عظیم قومی سانحے سے متعلق قومی سطح کے رد عمل کو دیکھا جائے تو وہ اس سانحے کے دکھ کو اور بھی گہرا اور نوعیت کو سنگین بنا دیتا ہے۔

ہمارے حکمران، سیاست دان، عوام کو تو ملک کے لیے متحد ہونے کا درس دیتے نہیں تھکتے مگر خود کبھی ملک کی خاطر متحد نہیں ہوسکے۔ غور کیا جائے تو حکمرانوں کے قول و فعل کا یہی تضاد ہماری تنزلی کا سبب ہے، ہم صحیح اور غلط میں فرق کرنا بھول گئے ہیں۔ غلط کے غلط ہونے کی سمجھ رکھتے ہوئے بھی اسے صحیح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ہمارے عوام اب بھی قائد اعظم کے نظریات و افکار پر عمل در آمد کے منتظر ہیں جسے ہمارے حکمرانوں نے اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک اپنے اغراض و مقاصد سے کوسوں دور چلا آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔