حکومت سرپرستی کرے تو عالمی سطح پر کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں!!

جونیئر عالمی سکواش چیمپئن شپ کی فاتح قومی ٹیم کا ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں اظہار خیال ۔  فوٹو : ایکسپریس

جونیئر عالمی سکواش چیمپئن شپ کی فاتح قومی ٹیم کا ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : ایکسپریس

کھیل کا کوئی بھی میدان ہو، پاکستانی کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ سکواش میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کیا۔ پاکستان نے مسلسل 35 سال تک سکواش کی دنیا پر حکمرانی کی اور عالمی افق پر پاکستان کے سکواش چیمپئنز کا طوطی بولتا تھا۔

پھر بدقسمتی سے پاکستان میں سکواش بھی سازشوں کی نذر ہوگیا اور پاکستان اس کھیل میں پستی کی طرف چلا گیا۔اب پاکستان نے آٹھ سال بعد جونیئرعالمی سکواش چیمپئن شپ مقابلوں میں ایک بار پھر بین الاقوامی میدانوں میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں جس پر پوری قوم خوشی سے جھوم اٹھی ہے۔ پاکستان جونیئرسکواش ٹیم کے دورہ پولینڈ سے واپس آنے پر ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں انہیں مدعو کیا گیا اور ان کے ساتھ دلچسپ گفتگو کی گئی۔ جونیئر سکواش ٹیم کی جیت پر سابق عالمی سکواش چیمپئن جان شیر خان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

قمر زمان
(کوچ )
پولینڈ روانگی سے قبل مجھے یقین تھا کہ پاکستانی کھلاڑی ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ہماری کامیابی کی بنیادی وجہ کھلاڑیوں کی بہترٹریننگ اور کوچنگ تھی۔ تمام کھلاڑیوں نے ٹریننگ کے دوران خاصی محنت کی اور ان کوجدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیاگیا۔ کوئی بھی پیدائشی بڑا کھلاڑی نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی پلیئر کو بڑابننے کے لئے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔

پاکستان 35سال سے زائد عرصے تک سکواش کی دنیا پرحکمرانی کرتارہا کیونکہ ہمارے ماضی کے سٹارزنے سخت محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھاتھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ جس ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے جاتے تھے وہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کرآتے تھے تاہم بعد میں آنے والے کھلاڑی سست پڑ گئے جس کی وجہ سے ان کے کھیل کا معیار بین الاقوامی نہ رہا اوراب یہ حالت ہے کہ پاکستان ،سکواش میں محض تاریخ بن کر رہ گیا ہے۔تاہم موجودہ سکواش فیڈریشن کی کوششوں سے اب امیدپیدا ہورہی ہے کہ آنے والے دنوں میں نوجوان کھلاڑی اپنی محنت ،لیاقت اورانتھک جدوجہد کے نتیجے میں ایک بارپھر سبزہلالی پرچم دنیا بھرمیں لہرانے کے اہل ہوجائیں گے۔

جب جونیئر سکواش ٹیم پولینڈ میں منعقدہ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے جارہی تھی تو ہمیں ایک ہی ٹاسک دیا گیا تھا کہ ہر صورت جیت کرآنا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کھلاڑی بلکہ مینجمنٹ پربھی ایک مثبت دباؤ تھااورہم نے اس کوایک چیلنج کے طورپرقبول کیا جس کا نتیجہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ انفرادی مقابلوں میں کھلاڑیوںکی کارکردگی زیادہ خراب نہیں رہی‘تاہم مد مقابل مصری کھلاڑی ، پاکستانی کھلاڑیوں سے بہتر تھے۔اگرچہ مصری کھلاڑیوں میں کوئی غیر معمولی صلاحیت نہیں ہے، صرف محنت اوران کی قومی فیڈریشن کی جانب سے کھلاڑیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹورنامنٹس کا انعقاد اوربین الاقوامی سطح پر ان کی گرومنگ کا فرق ہے۔ مصر، فرانس، ہانگ کانگ، پولینڈ اوردیگر سکواش کھیلنے والے ممالک میں سکواش سکھانے اورٹورنامنٹس کا انعقاد کرنے والے تمام لوگ پروفیشنل ہوتے ہیں، وہاں پر سکواش کوپیشہ وارانہ طور پر لیا جاتا ہے اورکسی بھی عہدے پرسفارشی بھرتیاں نہیں ہوتیں ۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے ماضی میں پیشہ وارانہ طورطریقوں کا فقدان رہاہے ۔اپنے شاندار ماضی کو دیکھتے ہوئے ہمیں ٹاپ پرہونا چاہیے تھا لیکن ہماری اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ہم سکواش میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں تاہم موجودہ کامیابی پاکستان میں سکواش کے احیاء کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی۔ پاکستان میں سکواش کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوری کے باوجود کھلاڑیوں کی انتھک محنت کے نتیجے میں پاکستان انفرادی مقابلوں میں بھی بہت کم مارجن سے ہارا جو مستقبل کے لئے ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔ انفرادی مقابلوں میں اسراراحمد نے پاکستان کیلئے کانسی کا تمغہ جیتا جو بلاشبہ لائق تحسین ہے۔مستقبل میں بھی اگر فیڈریشن کی جانب سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رہا تو یہی بچے آگے چل کر جہانگیر خان اورجان شیرخان بنیںگے۔

پاکستان سکواش فیڈریشن کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان ‘سینئر نائب صدر رضی نواب اور فیڈریشن کے سیکرٹری عامر نوازنے ہماری حوصلہ افزائی کی جس پر میں ان کا مشکورہوں۔مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی حکومت جس کے سربراہ خود بھی ایک بین الاقوامی سطح کے سٹاررہ چکے ہیں، سکواش کے ساتھ محبت رکھنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ کئے جانے والے وعدے پورے نہ کرسکی ۔ صوبائی حکومت کی جانب سے سکواش کے فروغ کے لئے تین سالوں کے دوران کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

افسوس ہے کہ سپورٹس کے نام پرکروڑوں روپے ضائع کرنے والی پشاور کی حکومت کے محکمہ کھیل سمیت کسی شخصیت نے ان قومی ہیروز کو مبارکباد نہیں دی،اگر یہی صورتحال رہی تو صوبہ کھیل کے حوالے سے کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ پولینڈ میں پاکستانی جونیئر کھلاڑیوںنے شاندار کامیابی حاصل کی ہے، اب یہ ان کھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اپنی کارکردگی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رکھیں گے یا نہیں۔ان کی کامیابی اس وقت ہی ممکن ہو گی جب وہ محنت کریں گے۔ اس حوالے سے فیڈڑیشن کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کرے تاکہ کورٹس کے اندر یہ کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی سے ملک و قوم کا نام مزید روشن کرسکیں۔

مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی کھلاڑی عالمی درجہ بندی میں نمایاں پوزیشن حاصل کر لیں گے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ مذکورہ کامیابی کے بعدآرام سے بیٹھنے اورجشن منانے کے بجائے ، ملک میں سکواش کی بہتری کے لئے گراس روٹ لیول پر جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ صرف فرد واحد کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے بطورٹیم پوری فیڈریشن کوایئرچیف مارشل سہیل امان اوران کی ٹیم کا بھرپورساتھ دینا ہوگا۔ سردست یہ بات خوش آئند ہے کہ ائیر چیف مارشل سہیل امان کی قیادت میں موجودہ فیڈریشن سکواش کی بہتری کے لئے اپنا کرداربخوبی نبھارہی ہے۔ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے سکواش کا کھیل پاکستان میں ترقی کررہا ہے اور انہی کی کوششوں کے باعث پاکستان کو جونیئرچیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا ہے تو انشاء اللہ پاکستان سینئر لیول پر بھی چیمپئن بن سکتا ہے ۔

کھلاڑی تب پالش ہوتا ہے جب وہ زیادہ سریز یا ٹورنامنٹس میں حصہ لیتا ہے لیکن موجودہ حالات میں ہمارے جونیئر کھلاڑیوں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ایک جانب تو وہ خود زیادہ محنت نہیں کرتے اوردوسری جانب انہیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کا موقع نہیں ملتا اور یہی چیز ہماری سکواش کی پستی کا سبب بن رہی ہے لہٰذا اس کا ایک ہی حل ہے کہ کھلاڑی سخت محنت کریں۔

امجد خان
(کوچ )
جیت جونیئرسکواش ٹیم جھولی میں آکرنہیں گری بلکہ یہ سخت محنت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہ اعزاز پانے کے لئے کھلاڑیوں نے پانچ ماہ تک شبانہ روز محنت کی ۔ٹیم منیجر قمر زمان کی موجودگی کی وجہ سے ٹریننگ کے دوران کھلاڑیوں کی کافی ڈھارس بندھی رہی ۔ وہ کھیل کے دوران اور ٹریننگ سیشن میں کھلاڑیوں کو گاہے بگاہے مفید ٹپس دیتے رہے اور ان کا جوش بڑھاتے رہے جس کی وجہ سے ہم نے آٹھ سال بعد یہ ٹائٹل جیتا۔جیسا کہ قمر زمان نے بتایا کہ جب ہم پولینڈ جا رہے تھے تو ایک عجیب سی کیفیت تھی ،کبھی جیت کا خواب دکھائی دیتا تو کبھی کھلاڑیوں کا عزم ہمیں فتح کی امید دلاتا تھا ۔میں کافی عرصے بعد پاکستان واپس آیا اور خواہش تھی کی اب پاکستان کے لئے کچھ کروں کیونکہ میں قومی چیمپئن بھی رہا تھا اور عالمی نمبر گیارہ تک کی پوزیشن پر بھی آیا۔یہاں سے جانے کی وجہ بھی حکمرانوں کی سواکش میں عدم توجہی بنی ۔جب ہم پاکستان سے باہر ہوتے ہیں تو بھی پاکستان کے لئے ہر لمحہ کچھ نہ کچھ کرنے کا سوچتے رہتے ہیں اور مجھے جب پاکستان سکواش فیڈریشن نے قومی جونیئر ٹیم کے کوچ کی ذمہ داریاں سونپی تو میں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو فاتح ضرور بناؤں گا ۔

اس دوران پولینڈ میں جونیئر عالمی کپ کا انعقاد ہونا تھا ہم نے باصلاحیت کھلاڑیوں کا انتخاب کیا۔ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا جو پاکستان کا بہترین ٹیلنٹ تھا، ہم نے چار ماہ سے زیادہ ٹریننگ اور کوچنگ کی۔ میں نے اس صورتحال کو چیلنج کے طور لیا اور اس طرح ہی اقدامات کیے ۔جب ہم پولینڈ پہنچے تو میں نے اپنے مینجر کے ہمراہ مد مقابل کھلاڑیوں کو دیکھا، وہ ہم سے زیادہ بہتر تو نہ تھے لیکن ماضی کے فاتح کھلاڑی ضرور تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہیں پاکستانی کھلاڑیوں نفسیاتی برتری حاصل تھی۔

اگرچہ ہمارے دو کھلاڑی عباس شوکت اور احسن ایاز انفرادی مقابلوں میں ہار گئے مگر اسرار احمدنے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔ مجھے بڑی امید تھی کہ اسرار جیت جائیں گے مگر وہ سیمی فائنل ہار گئے البتہ کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے ۔میں سمجھتاہوں کہ جونیئر عالمی کپ میں تیسری پوزیشن بری کارکردگی نہیں ہے۔ انفرادی مقابلوں میں ہمارے کھلاڑی اگرچہ آخری مراحل میں مصری کھلاڑیوں سے ہار گئے مگر انہوں نے کئی کھلاڑیوں کو اچھے مارجن سے شکست بھی دی۔جہاں تک ٹیم مقابلوں میں فتح کا تعلق ہے تو اسرار احمد اور عباس شوکت نے کامیابی حاصل کی جبکہ احسن ایاز کو شکست ہو گئی البتہ ہم نے عالمی فاتح ہونے کا اعزاز جیت لیا۔

میں سمجھتا ہوںکہ طویل عرصے کے بعد حاصل ہونے والی اس کامیابی کے بعد ہمیں مستقبل میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔مجھے ایران میں ملازمت مل چکی ہے اور مجھے بلایا جا رہا ہے لیکن اس کامیابی کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایران نہیں جاؤں گا بلکہ اب پاکستان میں رہوں گا تاکہ پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے اپنی صلاحیتیں وقف کروں۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان سکواش فیڈریشن کی حمایت کے ساتھ ساتھ سینئر کھلاڑیوں کی مدد اور تعاون بھی مجھے حاصل رہے گا۔میں اس فورم کے ذریعے گزارش کروں گا کہ پاکستان میں سکواش کی عدم ترقی کی ایک وجہ سپانسرز کی عدم دستیابی ہے۔ بیرونی ممالک کے دورے کرنا غریب کھلاڑیوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔

چونکہ ہمارا تعلق ایک پسماندہ ملک سے ہے اس لئے ہماری سکواش فیڈریشن بیرون ملک ٹورنامنٹس میں حصہ لینے والے بچوں کے لئے مہنگے ایئرٹکٹس اوران کی خوراک کا بہتربندوبست کرنے سے قاصر ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورت حال پرقابو پانے کے لئے اچھے سپانسر ڈھونڈے جائیں تاکہ ہمارا ٹیلنٹ ضائع نہ ہو بلکہ ہمارے کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لے کرنکھر کرسامنے آئیں۔ ماضی میں جب میں خود کھیلا کرتا تھاتو میرے سمیت بے شمار باصلاحیت کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اور انہیں پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانا پڑا۔ پاکستان کا ہرکھلاڑی بین الاقوامی سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کرنا چاہتا ہے لیکن بہترمواقع فراہم نہیں کئے جاتے۔ باصلاحیت پلیئرز اس لئے وقت سے پہلے ریٹائرڈ ہوگئے یا بیرون ملک کوچنگ کا پیشہ اپنالیا ہے کیونکہ ملک کے اندرسرکاری سطح پر انہیں نہ تو نوکری دی جاتی ہے اورنہ ہی ان کی مالی سپورٹ کی جاتی ہے ۔

میری تجویز ہے کہ باصلاحیت سکواش کھلاڑیوں کو کم عمری سے ہی مختلف نجی وسرکاری اداروں میں عارضی اورمستقل بنیادوں پرملازمت فراہم کی جائیں تاکہ وہ معاشی فکرسے آزاد ہوکر ملک و قوم کے لئے سکواش کی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال کرسکیں۔ مجھے امید ہے کہ ایئرچیف مارشل سہیل امان کی قیادت میں سکواش کھیل مزید ترقی کرے گا۔ اس سلسلے میں رضی نواب جو سینئر نائب صدر ہیں انہیں بھی مبارکباد دینا چاہوں گا کیونکہ وہ بہت عرصے سے ایسی ہی کامیابیوں کی خواہش رکھتے تھے جو ہمارے کھلاڑیوں نے پوری کر دی ہے اور اب ہمیں مزید آگے بڑھنا ہے۔

عباس شوکت
(کھلاڑی )
یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ اس نے ہمیں عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے کا موقع دیا۔پاکستان سے روانگی کے موقع پر یہی ذہن میں تھا کہ ملک کے لئے کچھ کر کے ہی واپس لوٹنا ہے ۔ ہم نے وہاں ہر میچ کو فائنل سمجھ کر کھیلا کیونکہ ہمارے پاس آل آؤٹ جانے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور یہی ہمیں منیجر قمرزمان نے بتایا۔ کوچ اور منیجر نے وہاں ایسا ماحول بنایا ہوا تھا جیسے جان شیر اور جہانگیر خان ہمارے درمیان موجود ہوں، یہی وجہ تھی کہ ہمارا مورال کافی بلند تھا ۔

دونوں ہیروز نے بتایا کہ وہ بھی جان شیر خان اور جہانگیر خان کی طرح ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔قمرزمان نہ صرف پریکٹس سیشن کے دوران بلکہ میچ کے دوران بھی ہرسٹروک پرہماری رہنمائی کرتے اور بہترپوزیشن اورکلائی کے استعمال کے بارے میں ہدایت دیتے جس کی وجہ سے ہماری کارکردگی میں مسلسل نکھار آتا رہا۔مجھے پہلے بھی غیر ملکی دوروں کا موقع ملا اور ہمیشہ یہ کوشش اور خواہش رہی کہ پاکستان کے لئے فتح حاصل کروں مگر میرے خیال میں اب غیر ملکی کھلاڑیوں خاص طور پر مصر کے کھلاڑی بہت آگے ہیں اورنہ صرف جونیئر بلکہ سینئر کی سطح پر اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے مقابلوں میں بھی وہ چیمپئن ہیں۔

ان کے خلاف کھیلتے ہوئے ہم نفسیاتی طور پر خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پائے مگر اس بار اللہ نے ہمیں کامیابی دی جس کا ہمیں بہت عرصے سے انتظار تھا ۔میں سمجھتا ہوں کہ کورٹ کے اندر ہم نے اچھا کھیلا اور کورٹ کے باہر کوچ اورمنیجر نے ہمیں حوصلہ دیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی کے لئے ہمیں کامیابیاں حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ میری استدعا ہے کہ ہمیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لئے مواقع فراہم کئے جائیں کیونکہ جب مواقع ملیں گے تو عالمی درجہ بندی خود بخود بہتر ہو جائے گی۔

احسن ایاز
(کھلاڑی)
اس ٹورنامنٹ کی خاص بات سابق سٹار کی وہاں موجودگی تھی۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف ہمارے حوصلے بلند تھے بلکہ مخالف ٹیم پر بھی کافی دباؤ تھا۔جب بھی مصر اورفرانس کے کھلاڑیوں کو موقع ملتا وہ قمرزمان کو دیکھنے ضرور آتے تھے۔ان کی موجودگی میں ہمیں کھیل کے دوران کسی قسم کی دشواری سامنا نہیں کرنا پڑا ، میرے خیال میں یہی ہماری کامیابی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ اگر اللہ نے چاہا اورقوم کی دعائیں شامل حال رہیںتوہم مستقبل میں بھی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان سکواش فیڈریشن کی کوششیں اسی طرح جاری رہیں تو ایک دن ضرور آئے گا کہ پاکستان نہ صرف جونیئر بلکہ سینئر لیول پر بھی اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اگر سہولتیں دی جائیں اور بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کیلئے بھیجا جائے تو پاکستان کیلئے سینئر کی سطح پر بھی اعزازات حاصل کرسکتے ہیں۔

جونیئر عالمی سکواش مقابلے کسی بھی طور آسان نہیں تھے۔ ہم آٹھ سال پہلے چیمپئن تھے، اس کے بعد ہر بار شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس لیے ان مقابلوں میں ہم پر نفسیاتی دباؤتھا لیکن کورٹ کے اندر ہم نے کوشش کی کہ اپنا کھیل بہتر رکھیں۔ بدقسمتی سے مجھے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن مصری کھلاڑی کے خلاف میں نے اچھا میچ کھیلا، وہ مجھ سے زیادہ بہتر تھا اس کے باوجود چند پوائنٹس کے فرق سے مجھے شکست ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ عباس شوکت اور اسرار احمد جیت گئے ، اس طرح ہم نے ٹیم ایونٹ کا فائنل دو ایک کے سکور سے جیت لیا۔اس جیت کا کریڈٹ پاکستان سکواش فیڈریشن، ٹیم مینجمنٹ اور ساری قوم کو جاتا ہے جنہوں نے آگے بڑھنے میں ہمارا ہر ممکن ساتھ دیا ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جائیں، خاص طور پر پشاور میں تو صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ سکواش کورٹ تعمیر کرے ،کھلاڑیوں کو سپانسر کرے تاکہ وہ بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لئے تیار کیے جاسکیں۔

اسرار احمد
(کھلاڑی)
پولینڈ میں منعقد ہونے والے جونیئر عالمی مقابلوں میں کامیابی ،والدین اور قوم کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ جب آپ کسی بھی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے جاتے ہیں یا کوئی بھی میچ کھیل رہے ہوتے ہیں تو ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ جیتنا ہے۔ اس بار بھی ہمارے حوصلے بلند تھے اور ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ فاتح بن کر لوٹیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں کامیابی دی۔ میرے لئے دہری خوشی ہے کہ مجھے کانسی کا تمغہ بھی ملا اور سونے کا تمغہ بھی۔ کاش !میں سیمی فائنل جیت جاتا اور پھر فائنل میں پاکستان کے لئے فاتح بن کر کورٹ سے نکلتا مگر یہ اللہ کو منظور نہیں تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ کوچ امجد خان اور منیجر قمر زمان نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے سابق کوچ اور منیجر خیال نہیں رکھتے تھے لیکن اس بار کچھ منفرد دکھائی دیا کہ کوچ نے اپنی بساط سے بڑھ کر ہمیں تربیت دی اور منیجر نے ہر لمحے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ اس طرح ٹیم ورک کے نتیجے میں ہم سرخرو ہوئے۔جہاں تک مقابلوں کا تعلق ہے تو ہم نے ہر میچ کو فائنل سمجھ کر کھیلا اور ہماری پرفارمنس قدرے بہتر رہی۔ عباس شوکت اور احسن ایاز بھی بہت کم مارجن سے ہارے، انفرادی مقابلوں میں بھی ہم مزید بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے۔

اب میری خواہش یہ ہے کہ ہمیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لئے بھیجا جائے تاکہ اب سینئرز کی سطح پر ہم پاکستان کی نمائندگی کریں اور عالمی درجہ بندی میں بہتری لائیں۔ اگر ہمیں کھیلنے کے مواقع نہیں ملیں گے تو پھر فتوحات ماضی کا حصہ بن جائیں گی اور ہم عالمی سطح پر پیچھے رہ جائیں گے۔ پاکستان سکواش فیڈریشن نے ہمیں ان مقابلوں کے لئے ہر ممکن سہولت دی اور ہم اس قابل ہوئے کہ پاکستان کے لئے یہ گراں قدر اعزاز جیت سکیں۔

جان شیر خان
(سابق عالمی سکواش چیمپئن )

میں ٹیم کی فتح پر بے حد خوش ہوں ، پاکستان نے عالمی جونیئر چیمپئن کا اعزاز حاصل کر کے کمال کیا ہے۔ٹیم میں شامل تمام کھلاڑیوں نے معمول سے ہٹ کر کارکردگی دکھائی کیونکہ سکواش کے کھیل میں فتح تب ہی ملتی ہے جب آپ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ اب اس کامیابی کو برقرار رکھنے کے لئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

میری خدمات بھی قومی فیڈریشن کو حاصل ہیں، جب فیڈریشن چاہے میں کھلاڑیوں کو ٹپس دینے کے لئے حاضر ہوں۔میری یہ خواہش بھی ہے کہ اب پاکستان سکواش فیڈریشن، عالمی سکواش فیڈریشن کو مجبور کرے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ٹورنامنٹ پاکستان میں منعقد کروائے اور ٹاپ کھلاڑیوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ پاکستان میں آ کر کھیلیں۔ پاکستان سکواش فیڈریشن کے صدر ایئر چیف مارشل اور ان کی ٹیم بھی خراج تحسین کے مستحق ہے جنہوں نے پاکستان میں سکواش کی ترقی کے لئے اپنے طور پر قابل ذکر کام کیا ہے۔ میرے نزدیک پاکستانی جونیئر کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ سینئر کھلاڑی بھی خاصے باصلاحیت ہیں، اگر انہیں زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی مقابلوں میں شریک کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے تو عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے کھلاڑی پھر سے نمایاں ہو جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔