- قومی فاسٹ بولر نسیم شاہ ڈی ایس پی بن گئے
- جاسوسی غباروں کی پرواز؛ امریکی وزیر خارجہ نے چین کا دورہ ملتوی کردیا
- عمران خان کا جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان
- امریکی صدر نے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اسرائیلی مؤقف مسترد کردیا
- شیخ رشید کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم
- ڈی ایس پی کو تھپڑ مارنے والی خاتون نے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی
- فواد چوہدری گرفتاری کے وقت نشے میں تھے، میڈیکل رپورٹ
- صوابی میں تباہی کا منصوبہ ناکام، پولیس مقابلے میں دو دہشت گرد ہلاک اور چار گرفتار
- انتقامی کارروائیوں میں حکومت کے پیچھے کچھ اور لوگ ہیں، عمران خان
- کراچی میں انتہائی مطلوب دہشتگرد گرفتار
- بھارت؛ ڈائریکٹر آئی بی کے گھر میں فوجی اہلکار کی خود کشی
- آئی ایم ایف کی پی آئی اے کا خسارہ کم کرنے کی ہدایت
- پی ڈی ایم کو ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے، فضل الرحمان کا وزیراعظم کو مشورہ
- جس طرح مجھے رکھا ہے اس سے بہتر ہے موت کی سزا سنا دیں، شیخ رشید
- وزیراعظم سے مریم نواز کی ملاقات؛ شاہد خاقان کے تحفظات دورکرنے کا فیصلہ
- راولپنڈی میں مردہ جانوروں کا دو ہزار کلو گوشت برآمد
- چین نے تبدیلی لانے والوں کو کہا تھا الیکشن میں مداخلت نہ کریں،وزیر منصوبہ بندی
- بینظیر کی شہادت پر بھی الیکشن ملتوی ہوئے تھے، گورنر کے پی
- الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت سیلاب متاثرین سمیت مستحقین میں ونٹرپیکیج تقسیم
- ملک بھر میں قائم حراستی مراکز کی فہرست طلب
ڈریوڈستان تحریک، تقسیم ہندوستان کا گم شدہ باب

اگر ڈریوڈستان تحریک کو تھوڑی سی بھی حمایت حاصل ہوجائے تو بھارت میں اتنا بڑا فساد کھڑا ہوگا کہ وہ کشمیر اور پاکستان یکسر بھول جائے گا۔
جن دنوں تحریک پاکستان عروج پر تھی انہی دنوں جنوبی ہندوستان میں ’’ڈریوڈ‘‘ نسل کے افراد کی علیحدہٰ ملک حاصل کرنے کی تحریک بھی زوروں پر تھی۔ یہ 1940 کی دہائی کا ذکر ہے جب قائداعظم محمد علی جناح نے انڈین نیشنل کانگریس پر پریشر بڑھانے کے لئے ڈریوڈستان کی تحریک کے رہنما ’’راما سوامی‘‘ کو نہ صرف مسلم لیگ مدراس کے جلسے میں دعوت دی بلکہ مسلم لیگ گارڈز نے انکو باقاعدہ سلامی بھی دی۔ اس کے بعد ذاتی ملاقات میں راما سوامی نے قائداعظم سے ڈریوڈستان کی بھرپور حمایت کے جواب میں پاکستان کی حمایت کا بھی بھرپور یقین دلایا۔
ڈریوڈ نسل کے افراد علیحدہ ملک کیوں حاصل کرنا چاہتے تھے اس کے لئے آپ کو تھوڑا ہندوازم کو سمجھنا ہوگا۔ اس وقت دہلی میں جو برہمن ہندو انڈیا کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں ’’ڈریوڈ‘‘ نسل کے لوگ ان سے 180 درجے مختلف ہندو ہیں۔ برہمن ہندو ’’رام‘‘ کو اپنا سپریم بھگوان سمجھتے ہیں اور ’’راون‘‘ کو بطور شیطان پیش کرتے ہیں۔ جبکہ ڈریوڈ نسل کے لوگوں کے نزدیک ’’راون‘‘ ایک ہیرو تھا۔ آج بھی انڈین فلموں میں کسی کو شیطان سے تشبیہ دینی ہو تو اسے راون سے تشبیہ دی جاتی ہے اور برہمن ہندوؤں کی اس حرکت کو ساؤتھ انڈین ڈریوڈ شدید ناپسند کرتے ہیں۔
اس کے پیچھے برہمن ہندو ایک کہانی بیان کرتے ہیں جو کہ لازماً فرضی ہے مگر قارئین کی دلچسپی اور معاملے کی باریکی کو سمجھنے کے لئے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ رام کی بیوی سیتا کو راون اٹھا کر سری لنکا لے گیا۔ 8 سال تک رام اپنی بیوی واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر ناکام رہا اسکے بعد بندر بھگوان یعنی کہ ہنومان کی مدد سے رام نے بھارت اور سری لنکا کے درمیان ایک پل بنایا جس پر چل کر رام نے اپنی بیوی سیتا کو راون کی قید سے چھڑایا۔
پھر رام نے سیتا کو اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لئے آگ پر چل کر بے گناہی ثابت کرنے کا کہا جس پر سیتا نے آگ پر چل کر ثابت کردیا کہ وہ پاک ہے اور آٹھ سالوں میں راون کی دسترس سے دور رہی۔ برہمن ہندوؤں کے مطابق جس جگہ رام نے پل بنایا۔ اس کو آج کے بھارتی نقشے پر دیکھیں تو یہ تامل ناڈو کا جنوب مشرقی ساحل بنتا ہے۔ اس کے ساتھ دہلی میں اقتدار کسی نہ کسی طرح ہمیشہ سے برہمن ہندوؤں کے ہاتھ میں رہا ہے، جو اس جگہ کو مقدس سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں ان کے رام بھگوان نے پل بنایا تھا جبکہ ’’ڈریوڈز‘‘ کے نزدیک ایسا کچھ ہوا ہی نہیں اور وہ چاہتے ہیں اس جگہ کا نام تبدیل کرکے یہاں بندرگاہ تعمیر کی جائے مگر برہمن ہندو ایسا ہونے نہیں دے رہے کیونکہ ان کے مطابق یہ مذہب کا معاملہ ہے۔ آپ گوگل پر Ramabridge لکھ کر سرچ کریں تو آپ کو یہ ساری تفصیل مل جائے گی۔ یہ مسئلہ اس قدر شدید ہے کہ برہمن ہندو اپنے ایک تہوار میں علامتی طور پر ’’راون‘‘ کو جلاتے بھی ہیں۔
یہ تو اس کا مذہبی پہلو ہوگیا۔ اب اس کا جغرافیائی اور معاشی پہلو یہ ہے کہ بھارت کے سب معدنی ذخائر زیادہ تر اسی خطے میں ہیں جبکہ بھارت کا سب سے زیادہ ٹیکس ریونیو بھی یہیں سے پیدا ہوتا ہے، پھر سب سے کم بیروزگاری اسی خطے میں ہے۔ بیرونی ممالک میں جو بڑے بھارت سرمایہ دار آباد ہیں اور بھارت میں سالانہ اربوں ڈالر بھیجتے ہیں، ان کا تعلق بھی زیادہ تر اسی خطے سے ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ ساؤتھ انڈین فلمیں باقی ہندوستان سے زیادہ کاروبار کرتیں ہیں۔
گویا اگر یہ خطہ علیحدہ ہوتا ہے، یا اس خطے میں ’’ڈریوڈستان‘‘ جو کہ United States of South India کے نام سے بھی سرگرم ہیں کی تحریک زور پکڑتی ہے تو بھارت کی معاشی کمر مکمل طور پر ٹوٹ جائے گی۔ بھارت کی برہمن دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے اس خطرے کو سمجھتے ہوئے 70ء کی دہائی میں ’’ڈریوڈستان‘‘ کی تحریک سے کچھ اسطرح ہوا نکالی کہ اس علیحدگی کی تحریک کو سری لنکا میں شفٹ کردیا اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نامی ایک دہشتگرد تنظیم تیار کی جسکا مقصد سری لنکا میں ’’ڈریوڈستان‘‘ کا قیام تھا۔
اس تنظیم نے 30 سالوں تک سری لنکا میں دہشتگردی کا بازار گرم کئے رکھا حتیٰ کہ پاکستانی فوج نے سری لنکا کے ساتھ مل کر آپریشن کر کے ہندوستانی حمایت یافتہ تامل ٹائیگرز سے سری لنکا کو نجات دلائی۔ ڈریوڈستان کی تحریک آج بھی ساؤتھ انڈیا میں سرگرم ہے۔
اگر آپ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر اس تحریک کو تلاش کریں تو ڈریوڈستان تحریک کے لوگ پاکستان کی سیاسی اور دفاعی اسٹبلشمنٹ سے مطالبہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ وہ ’’ڈریوڈستان‘‘ کی بھی حمایت کرے اور قائداعظم محمد علی جناح کا وعدہ پورا کرے۔ ایسے حالات میں جب ہندوستان کے وزیراعظم کھلم کھلا بلوچستان توڑنے کی بات کرتے ہوں، کراچی دہشتگردی میں ایک معروف سیاسی جماعت کے رہنما کے بھارتی فنڈنگ سے دہشتگردی کی باتیں زبان زد عام ہوں، بھارتی وزیر دفاع کا آن ریکارڈ بیان موجود ہو کہ ہم دہشتگردی کا جواب پاکستان میں دہشتگردی کروا کر دیں گے تو اگر پاکستان بھارت کو دباؤ میں لانے کے لیے ’’ڈریوڈستان‘‘ یا United States of South India نامی تحریک کی حمایت کرلے تو یہ کونسا غلط کام ہوگا۔
یہ بات میں اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب تک بھارت اپنے اندرونی مسائل میں نہیں الجھے گا تو کس طرح پاکستان سکھ کا سانس لے گا اور جب بھارتی وزیراعظم بلوچستان کے معاملے پر کھلم کھلا پاکستان کو دباؤ میں لارہا ہے تو ذرا سوچئے پاکستان کی تھوڑی سی حمایت دہلی میں ہندو برہمن کا کیسا دماغ ٹھکانے لگائے گی، کیونکہ ہندو برہمن جس معیشت کے زور پر پاکستان کو للکارتا ہے اسکا 80 فیصد ساؤتھ انڈیا سے پیدا ہوتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔