صالح محمد سرحدی کی یاد میں

شبیر احمد ارمان  پير 29 اگست 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

لیاری کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل  بزرگ سماجی رہنما صالح محمد سرحدی 17اگست 2016ء کو89عمر میں انتقال کرگئے ۔  لیاری میں رہائش پزیر محمد عثمان بلوچ کے ہاں 17جون1928ء کو ایک بیٹا پیدا ہوا ، جس کانام صالح محمد رکھا گیا اور  نو جوانی میں سرحدی اس کا تخلص ہوا ۔ اس زمانے میں لیاری کے اسکولوں میں صرف چوتھی جماعت تک تعلیم کا انتظام تھا۔

اس لیے مزید تعلیم کے لیے لوگ اپنے بچوں کو سول اسپتال کراچی کے قریب واقع کوتوال اسکول میں داخل کرادیتے تھے جہاں ہندو اور مسلم طالب علم کو مشترکہ نصاب پڑھایا جاتا تھا ۔ صالح محمد سرحدی کو بھی اسی درس گاہ میں داخل کیا گیا جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم پائی ۔ اس زمانے میں چاکیواڑہ چوک پر ٹرام کا جنکشن تھا جس کے گرد ہوٹل، دکانیں اور کچھ دفاتر ہوا کرتے تھے یہ مقام مذہبی ، سیاسی اور سماجی رہنماوں کا بھی مرکز تھا ۔ صالح محمد سرحدی روز اس مقام پرجاتا اور رہنماؤں کی باتیں غور سے سنتا ۔ وہ مفتی عثمان کے درس سے بہت متاثر تھا ، اسی دوران انھوں نے اپنے اردگردکے ماحول کا جائزہ لینا شروع کیا تو وہ علاقے کی پسماندگی سے تڑپ اٹھا، اسی دن سے انھوں نے لوگوں کی خدمت اورعلاقے کی ترقی کو اپنا مقصد بنایا ۔

صالح محمد سرحدی نے لیاری کمیونٹی ڈیولیپمنٹ پروجیکٹ کے قیام 1954ء ہی سے سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ علی محمد نبی داد کی سر پرستی میں یہ ادارہ  سب سے پہلے گبول ہاؤس کے سامنے واقع تھا اس کے بعد توحید مسجد چاکیواڑہ  اور پھرگل محمد لین میں منتقل کیا گیا ۔ جو آج بھی قائم ہے ۔ الحاج غلام محمد نورالدین نے اپنے دیگر سماجی کارکن ساتھیوں کے تعاون سے اس ادارے کو پروان چڑھایا ۔ اپنی بے لوث خدمات کی بنا ء پر صالح محمد سرحدی  لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے مختلف سب کمیٹیو ں کے چئیر مین اور نائب صدر رہ چکے ہیں اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک آپ اس تاریخی سماجی ادارے کا سرپرست اعلیٰ رہے ۔ ان دنوں اس ادارے کے صدر عبدالرحیم موسوی اور جنرل سیکریٹری عبدالرزاق ہیں ۔ خواتین چئیرپرسن صبیحہ شاہ ہیں جو اپنے سماجی کارکنوں کے ہمراہ شبانہ روز لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ۔

صالح محمد سرحدی کی سماجی خدمات کی طویل فہرست ہے  جسے میں اختصار سے بیان کررہا ہوں ۔ سرحدی  اتفاق بلوچاں سنگولین ، انجمن اتحاد بلوچاں سنگو لین ، سید آباد کے بھی صدر رہ چکے ہیں ۔مزید براں آل پاکستان لیگ ، بلوچ ایجوکیشنل سوسائٹی ، انجمن بیداری بلوچاں کے مشاورتی کونسل کے ورکنگ کمیٹی کے رکن اور انجمن نوجوانان بلوچاں کے سر پرست اعلیٰ رہے ہیں ۔

آ پ 1960ء اور 1965ء میں دو مرتبہ بی ڈی ممبر (کونسلر ) منتخب ہوئے اور یونین کمیٹی نمبر 32کے چئیر مین رہے ۔ 80سال کی عمر میں بھی آپ سماجی عزم کے اعتبار سے توانا نظر آتے تھے پھر دھیرے دھیرے آپ کی نظریں کمزور ہوتی رہی اور لوگوں کو ان کی آوازسے پہنچانتے تھے لیکن ان کی یاداشت کمال کی تھی،  یادوں کو اس طرح دہراتے تھے کہ جیسے وہ ڈائری پڑھ رہے ہو ۔ سرحدی لیاری کے علاقے سنگو لین میں واقع نوجوانوں کی سما جی تنظیم وائس کے بزرگ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں آپ نے 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کے دوران سول ڈیفنس وارڈز فائر فائٹنگ کی تربیت حاصل کی اور لیاری کی نمایندگی کی ، آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل کی داستان ہے ۔ 9برس قبل میں نے سرحدی صاحب کا انٹرویو کیاتھا ، اس ملاقات میںانھوں نے جو کہا تھا ،اس کی اپنی زبانی سنیں ۔

میں 1945ء میں بمبئی میں تھا ، تحریک پاکستان عروج پر تھا ، مسلمانوں کا قتل عام معمول تھا ، میں بمبئی کے علاقے اندھیری میں رہائش پزیر تھا ،  جوآج بھی بلوچوں کا اکثریتی علاقہ ہے، میں مسلم لیگ کا  سرگرم کاکن تھا ۔ مسلم کشی کے دوران ایک مرتبہ میری جان بھی خطرے میں پڑگئی تھی ۔ کسی ہمدرد خاندان نے مجھے پناہ دی جب کراچی آیا تو سعید ہارون کی قیادت میں مسلم لیگ کے کارواں میں شامل ہوگیا ۔ دو مرتبہ گرفتار بھی ہوا لیکن حوصلہ نہیں ہارا ، وطن کی آزادی اور اس کی بحالی وترقی کی جنگ میں مصروف رہا ۔ آج بھی میں خود کو سچا پاکستانی سمجھتا ہوں ۔

سہروردی جو بعد میں وزیر اعظم پاکستان بنے ایک روز لال محمد نامی شخص کے ہمراہ میری سائیکل کی دکان پر تشریف لائے اور سیاسی تعاون چاہا ۔ہم سماجی بنیاد پر ان  کے ساتھ ہوگئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کا پہلا  کارخانہ   ولیکا مل  قائم ہوا ۔ جس کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا ۔ ہم خوش ہوگئے کہ لیاری کے بے روزگار نوجوانوں کو بھی اس کارخانے میں نوکری مل جائے گی ۔ مجھے بھی ملازمت کی ضرورت تھی ۔اس روز والدہ نے گرم گرم پراٹھے میرے لیے پکائے اور ایک رومال میں لپیٹ کر دیے کہ دوپہر میں کھانا ۔ ہم دو تین لڑکے خوشی خوشی ولیکا مل کے دروازے پر پہنچ گئے ۔ اپنا مدعا بیان کیا ۔ جواب ملا کہ صرف انڈیا سے آئین ہوئے مہاجرین کو بھرتی کیا جارہا ہے جو ان کا حق ہے ۔

اس طرح ہم مایوس ہوکرگھر لوٹ گئے ۔  ہمارے زمانے میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا معیوب تصور کیا جاتا تھا ۔ چونکہ میں اس روایت کا باغی تھا چنانچہ مزاحمت کا سامنا رہا ۔ دراصل مخصوص طبقے نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ انگریزی پڑھنا گناہ ہے جب کہ ان کی اپنی اولاد انگریزی پڑھتی تھیں اس طرح بھی لیاری کی بچیاں تعلیم کے زیور سے محروم رہ گئیں ۔ آج کل صورت حال مختلف ہے ۔ لیاری میں تعلیم کی شرح پہلے کے نسبت بہتر ہے ۔ اگر تعلیمی سہولیات فراہم کی جائے تو مزید بہتری ہوسکتی ہے ۔ علاقے میں ایک ساقی خانہ تھا جس کے اردگرد چند دکانیں قائم تھی اس کے پیچھے گائے باندھی جاتی تھی ۔علاقے کے ماحول کی بہتری کے لیے اس منظر نامے کے خلاف ہم نے مہم چلائی جس کی پاداش میں مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔

میری موٹر سائیکل کو جلا دیا گیا ۔ ہمارے اس سماجی کام کی مخالفت بڑی بڑی ناموں والی شخصیات نے کی حتیٰ کہ میرے اپنے عزیز ہماری اس مہم جوئی سے رنج تھے ۔آخر کار اس جگہ پر اسکول تعمیر کرنے کی منظوری ہوگئی لیکن مخالفین نے 6مرتبہ عدالت سے اسٹے آرڈر لے کر اس اسکول کو بند کرنے کی کوششیں کیں ۔ ہم نے طویل عدالتی چکر لگائے ۔ جب ہم اس جدوجہد سے باز نہ آئے تو مجھ پر جھوٹا مقدمہ دائرکیا گیا کہ میں غلط قسم کے لوگوں کو پناہ دیتا ہوں ۔ اس مقدمے میں میری مدد الحاج نورالدین نے کی ۔ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ میں اپنی جان بچا کر دبئی گیا لیکن حوصلہ نہیں ہارا ۔ آخر کار 1969ء میں  سیدآباد سنگولین میں پہلا پرائمری اسکول قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ آج بھی یہ اسکول قائم ہے۔ جو صالح محمد سرحدی کے نام سے منسوب ہے ۔

اسی طرح صالح محمد سرحدی کی کوششوں کے نتیجے میں 1984ء میں سنگولین میں بلوچ ہال تعمیر کیا گیا جسے سماجی تقریبات کے علاوہ تعلیم وتربیت کے پروگرام کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے ۔بزرگ صالح محمد سرحدی کی سماجی خدمات کی طویل فہرست کا ایک خلاصہ درج ذیل ہے ۔اجتماعی لیٹرینوں کی تعمیر کروانا ، پختہ سڑکیں بنوانا ، پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے کوشش کرنا ، نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے لیے صحت مندانہ ماحول فراہم کرنا ، نوجوانوں کو تعلیم وتربیت اور اسپورٹس کی طرف راغب کرنا ، ناگہانی آفت کے متاثرین لوگوں کی مدد کرنا ، تعلیم بالغان کی بنیاد  رکھنا ، غریب نادار طالب علموں کی ہر ممکن مدد کے لیے کوشاں رہنا، طالب علموں کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہیں ۔

سماجی خدمات پر انھیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا جس میں بین الاقوامی دن برائے سماجی رضاکار  2000ء کا   ایوارڈ بھی شامل ہے جو یوسف ہارون  کے دست مبارک سے وصول کیا ۔ صالح محمد سرحدی نے اپنے انٹرویو میں نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے فارغ اوقات میں سے چند ساعت سماجی سرگرمیوں کے لیے بھی نکالیں تاکہ آیندہ نسل کو صحت مندانہ ماحول میسر آسکے ۔

آج صالح محمد سرحدی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی بے لوث سماجی خدمات ہمیشہ لوگوںکے دلوں میں زندہ  رہیں گی  ۔ خاص طور پر ان کی سماجی جدوجہد کا ثمر پرائمری اسکول ان کی یاد دلاتا رہے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔