مصیبتیں اور ان کے بچے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 31 اگست 2016

آئیں معروف نفسیات دان آر ڈی لیننگ کے اقتباس کو پڑھیں، سوچیں اور پھر پڑھیں۔ ’’ہمارے سوچنے اور عمل کرنے کی وسعت اس لیے محدود ہو جاتی ہے کہ ہم اندازہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں، چونکہ ہم یہ بات سمجھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں کہ ہم اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں چنانچہ ہم تبدیل ہونے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ معمولی ہوتا ہے، جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہم اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہے ہیں ہم اپنے خیالات اور افعال کو بہتر شکل نہیں دے سکتے‘‘۔ ذہنی طور پر آج ہم اسی مقام پر کھڑے ہوئے ہیں، جہاں بنی اسرائیل اپنی ہجرت کے فوراً بعد پہنچے تھے۔

ہم ماضی اور حال کو تو کوس رہے ہیں لیکن کسی نئی تعمیر کا نقشہ ہمارے ذہن میں موجود ہی نہیں ہے۔ ہم ہر بات کا اندازہ لگانے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ مصیبت بانجھ نہیں ہوتی ہے اور جب یہ آ دھمکتی ہے تو پھر اپنے بچے دینا شروع کر دیتی ہے اور ایک روز آپ کے آنگن میں چاروں طرف اس کے بچے اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر آپ روز یہ سوچتے ہیں کہ کل ان سے نمٹ لوں گا، لیکن وہ کل کبھی نہیں آتی ہے اور مصیبت اور اس کے بچے پھر آپ سے خوب نمٹ رہے ہوتے ہیں۔

جب دو آئینے ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیے جاتے ہیں تو عکس کا ایک لامتناہی سلسلہ بنتے چلا جاتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آخری عکس کونسا ہے، اسی طرح جب مصیبت ایک دفعہ بچے دے دیتی ہے تو پھر کوئی نہیں بتا سکتا کہ آخری بچہ کون سا ہے۔ ایسا کیجیے آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔ پہلے روز سے لے کر آج تک کی اپنی ساری مصیبتوں  کی فہرست بنانا شروع کر دیجیے۔ پہلی مصیبت کا تو سب ہی کو علم ہے اور وہ تھی قرارداد مقاصد۔ لیکن پھر آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے جائیں گے، بس آگے ہی آگے بڑھتے رہیں گے اور مصیبتوں کے آخری بچے تک زندگی بھر نہیں پہنچ پائیں گے۔

آپ جس کو چاہیں کوستے رہیں، چاہے تقریر کرنے والے کو یا تقریر نہ کرنے والے کو یا تقریر کرنے کا سوچنے والے کو، آپ کا کوسنا یا نا کوسنا دونوں برابر ہے، کیونکہ دونوں ہی صورت میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے اور جب تک آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے مصیبت اور نئے بچے دے چکی ہو گی۔ دنیا بھر کے تمام فلسفی اور نفسیات دان اس بات پر متفق ہیں کہ جب ہم اپنی سوچ بدل لیتے ہیں تو اپنی دنیا تبدیل کر لیتے ہیں۔ مصر کے سابق  صدر انور سادات نے کہا تھا ’’جو شخص اپنی سوچ کے تانے بانے کو تبدیل نہیں کر سکتا وہ کبھی بھی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا، چنانچہ کبھی بھی کوئی پیشرفت نہیں کر سکتا‘‘۔ اسرائیل کے بارے میں اپنی سوچ میں تبدیلی لانے سے پہلے سادات ایک مقبول ترین صدر اور عرب کاز کے سرگرم کارکن بن چکے تھے۔

انھوں نے مصر بھر کا دورہ کیا اور اپنی سیاسی تقریروں میں کہتے رہے جب تک مصر کی ایک انچ سرزمین بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے، میں کبھی بھی اسرائیل سے دوستی کا ہاتھ نہیں ملاؤں گا، کبھی نہیں، کبھی نہیں‘‘۔ ان کے جلسوں میں موجود بے پناہ ہجوم چلا اٹھتا کبھی نہیں، کبھی نہیں۔ نامور ادیب اسٹیفن آر کو وے لکھتے ہیں، ہم نے انور سادات کی بیوی جیہان سادات کو اپنے ایک انٹرنیشنل سمپوزیم میں خصوصی مقرر کی حیثیت سے مدعو کیا، مجھے بیگم سادات کے ساتھ لنچ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، میں نے ان سے پوچھا ’’انور سادات کے ساتھ زندگی گزارنے کا تجربہ کیسا رہا، بالخصوص اس وقت کیفیت کیا تھی جب انھوں نے امن کے لیے جرأت مندی سے قدم اٹھاتے ہوئے یروشلم کے یہودی معبد کا دورہ کیا اور اس پیشرفت کو کیمپ ڈیوڈ میں حتمی صورت دی؟‘‘ بیگم سادات نے کہا ’’میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا کہ ان کی سوچ میں اس طرح کی بنیادی تبدیلی آ چکی ہے، میں نے سرکاری رہائشگاہ میں ان سے ملتے ہی پوچھا، میرا خیال ہے آپ اسرائیل جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، کیا یہ درست ہے؟‘‘ ’’ہاں‘‘۔ ’’اسرائیل کے خلاف اتنا کچھ بولنے کے بعد آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘ ’’میں غلط تھا اور اب جو کرنے والا ہوں، درست ہے‘‘۔

’’آپ قیادت بھی کھو دیں گے اور عرب دنیا کی حمایت بھی‘‘۔ ’’ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو گا‘‘۔ ’’آپ سے اپنے ملک کی صدارت بھی چھین لی جائے گی‘‘۔  ’’ہاں، ایسا بھی ہو سکتا ہے‘‘۔ ’’آپ کی زندگی بھی جا سکتی ہے‘‘۔ (سب جانتے ہیں بعد میں ایسا ہی ہوا)۔ ’’میری زندگی نوشتہ تقدیر ہے، اس میں نہ تو ایک لمحے کا اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ ایک لمحے کی کمی‘‘۔ بیگم جیہان سادات کا کہنا ہے کہ میں وفور جذبات سے ان سے لپٹ گئی اور کہا آپ بلاشبہ عظیم انسان ہیں‘‘۔ میں نے بیگم جیہان سادات سے پوچھا کہ اسرائیل سے واپسی پہ کیا صورت حال تھی، بیگم سادات نے بتایا ’’ائیرپورٹ سے قصر صدارت کا فاصلہ عام طور پر تین منٹ کا ہوتا ہے لیکن اس روز ہمیں تین گھنٹے لگ گئے، گلیاں اور سٹرکیں ہزاروں لوگوں سے بھری پڑی تھیں، لوگ سادات کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، وہی لوگ جو ایک ہفتہ پہلے مخالفت میں گلے پھاڑ رہے تھے، اب وہ ہی حمایت کر رہے تھے، لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ سادات جو کچھ کر رہا ہے وہ درست ہے۔ روحانی ذہانت، جذباتی ذہانت سے بڑی نعمت ہے، انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ آپ اس باہمی انحصار کی دنیا میں نہ تو الگ تھلگ رہ سکتے ہیں اور نہ سوچ سکتے ہیں‘‘۔

ایک بڑے دانشور کا کہنا ہے ’’اس میں کبھی تاخیر نہیں ہوتی کہ ہم وہ کچھ نہیں جو ہمیں بننا چاہیے تھا‘‘۔ اپنے 20 کروڑ لوگوں میں ہم کسی سے بھی پوچھیں گے تو وہ یہ ہی کہتا ہوا ملے گا کہ بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ لیکن اب بھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی ہے کہ سب کچھ بدل نہ سکے، سب کچھ بدلنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کے اندر جھانکنا ہو گا اور اپنی آواز سننا ہو گی، جب تک ہم اپنی آواز نہیں سنیں گے جو ہم کو خواب دکھا رہی ہے، بہ الفاظ دیگر تاریکی میں دروازے پہ دستک کا جواب نہیں دیتے، اس وقت تک ہم اس لمحے کو گرفت میں نہیں لے سکتے جس میں ہم قید ہیں۔

بیرونی فتح سے پہلے اندرونی فتح ضروری ہوتی ہے، اندرونی فتح کے لیے تین عادتوں کا ہونا بہت ضروری ہے، پہلی عادت Proactive بنیے، یعنی یہ کہ زندگی میں چیزیں شروع کرنے والے بنیے۔ دوسری عادت، آخر کو ذہن میں رکھ کر شروع کیجیے۔ تیسری عادت، اہم چیزیں پہلے اور ہر وقت صرف جیت کا سوچیے۔ یاد رکھیے، یہ جو مصیبتیں ہوتی ہیں یہ انسانوں سے زیادہ بزدل ہوتی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مصیبتیں زیادہ بزدل ہیں یا ہم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔