کرکٹ بھی۔۔۔۔۔

ایاز خان  جمعرات 1 ستمبر 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

انگلینڈ سے تیسرا ون ڈے میچ ہارنے کے ساتھ ہی پاکستان نے سیریز بھی گنوا دی۔ ابھی دو میچ باقی ہیں مگر ان کا سیریز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ 1974ء کے بعد پاکستان نے انگلینڈ سے کبھی ون ڈے سیریز نہیں جیتی۔ 8مرتبہ انگلینڈ فاتح رہا اور ایک سیریز برابری پر ختم ہوئی۔ قومی ٹیم نے پہلے دو میچ بھی واضح مارجن سے ہارے لیکن تیسرے ون ڈے میں تو حد کر دی۔ اس شکست پر ویسے تو بہت سے تبصرے ہوئے ہیں مگر سب سے دلچسپ تبصرہ سوشل میڈیا پر کچھ یوں ہوا۔ ’’پاکستان ٹیسٹ ٹیم نے ون ڈے ٹیم کے ساتھ اظہار لاتعلقی کر دیا ہے‘‘۔ یہ لاتعلقی کا ویسا ہی اظہار ہے جیسا ان دنوں ڈاکٹر فاروق ستار متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی اور قائد کے ساتھ کر رہے ہیں۔

قومی ون ڈے ٹیم سے زیادہ امیدیں تو نہیں تھیں مگر تیسرے ون ڈے میں جو درگت بنی اس کا بھی خدشہ نہیں تھا۔ وسیم اکرم نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم نے قومی کرکٹ ٹیم کو مارا کم اور گھسیٹا زیادہ ہے۔ پاکستان کو اپنی بولنگ پر ہمیشہ ناز رہا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بھی ہمارا زیادہ انحصار بولنگ پر ہی تھا مگر کیا ہوا۔ پاکستان کے بظاہر مضبوط بولنگ اٹیک کے خلاف گوروں نے 50 اوورز میں 444 رنز بنا ڈالے۔ یہ ایک اننگز میں کسی بھی ٹیم کا سب سے زیادہ اسکور ہے۔ اس سے پہلے سری لنکن ٹیم نے 2006ء میں نیدر لینڈ کی کمزور ترین ٹیم کے خلاف 443 رنز کا ریکارڈ بنایا تھا۔ کہاں نیدر لینڈ کا بولنگ اٹیک اور کہاں ہمارے بولرز۔ اس ایک میچ میں کچھ اور ریکارڈ بھی بن گئے ہیں۔

جوز بٹلر نے 22گیندوں پر نصف سنچری بنا کر انگلینڈ کی طرف سے تیز ترین ففٹی کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ان سے پہلے پال کولنگ ووڈ نے 24گیندوں پر ففٹی بنائی تھی۔ الیکس ہیلز نے 1993ء میں روبن اسمتھ کی آسٹریلیا کے خلاف 167 رنز کی انفرادی اننگز کا ریکارڈ 171 رنز بنا کر توڑ دیا۔ جوئے روٹ اور الیکس ہیلز کی دوسری وکٹ کے لیے 248 رنز کی پاکستان کے خلاف کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی عالمی پارٹنر شپ ہے۔ انگلینڈ نے ون ڈے میں تیز ترین 400 رنز کا ویسٹ انڈیز کا ریکارڈ بھی برابر کر دیا۔ وہاب ریاض 110 رنز دے کر پاکستان کے پہلے اور دنیا کے دوسرے مہنگے ترین بولر بن گئے۔ انگلینڈ نے کسی ایک میچ میں سب سے زیادہ 59 باؤنڈریز (43چوکے، 16چھکے) کا سری لنکن ریکارڈ بھی برابر کر دیا۔ اس پورے میچ میں پاکستان کے حصے میں صرف ایک ریکارڈ آیا۔ محمد عامر گیارہویں نمبر پر ففٹی بنانے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ ان کے 58 رنز بنانے سے شعیب اختر کا 2003 ء کا ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف ہی بنایا گیا 43 رنز کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔

اس میچ کے ریکارڈز سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک ہی میچ میں کتنا کچھ ٹوٹ کر نیا بن گیا۔ ہماری ٹیم اگرچہ بری طرح ہار گئی ہے مگر کیا کریں ہم اس سے اظہار لاتعلقی نہیں کر سکتے۔ یہ ہارے یا جیتے ہماری قومی ٹیم ہے۔ انگلینڈ سے سیریز ہارنے کے بعد ایک بات تو یقینی لگتی ہے کہ آیندہ ورلڈ کپ میں شریک ہونے کے لیے ہمیں کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔ ایسی ہزیمت کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا؟ قومی کرکٹ ٹیم کی یہ حالت ہوئی تو اس میں کھلاڑیوں کا زیادہ قصور نہیں ہے۔ اس ٹیم کے کافی کھلاڑی اس ٹیسٹ ٹیم کا بھی حصہ تھے جس کی پرفارمنس پر انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل ایتھرٹن کو کہنا پڑا کہ انگلش سرزمین پر آخری بار 2006ء میں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے اتنا شاندار کھیل پیش کیا تھا۔ چار میچوں کی سیریز دو، دو سے برابر کرنا قومی ٹیسٹ ٹیم کا بڑا کارنامہ تھا۔ کئی بار لکھ چکا ہوں کہ جس ٹیم کو اپنی ہوم گراؤنڈز پر انٹر نیشنل کرکٹ نہ ملے وہ اتنا اچھا پرفارم کرے تو اسے سر آنکھوں پر بٹھانا چاہیے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مصباح الیون اس وقت دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ ٹیم ہے۔ یہ حیثیت مگر کب تک برقرار رہے گی۔ مصباح الحق زیادہ عرصہ کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ پھر وہی ہو گا جو ون ڈے اور ٹی 20 ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایک نویں اور دوسری 7ویں نمبر پر ہے۔ قومی ہاکی کا زوال بھی ایک دن میں نہیں ہوا تھا۔اولمپکس 2016ء میں کوئی پاکستانی کھلاڑی کوالیفائی نہیں کر سکا تو اس کے پیچھے بھی ایک طویل داستان ہے‘ جو کھلاڑی وہاں چہرہ دکھانے گئے ان سب کی انٹری وائلڈ کارڈ کے ذریعے ہوئی۔ گذشتہ 24سال سے اولمپکس میں ہم نے کوئی میڈل نہیں جیتا۔ کرکٹ کے زوال کی ذمے داری بھی ہمارے حکمرانوں اور ان کے نامزد کردہ عہدیداروں کی مرہون منت ہے۔

کرکٹ بورڈ کے معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو کرکٹ کے بارے میں جانتے ہی نہیں۔ وہ غیرملکی دورے کرتے ہیں، اندرون ملک بھی ان کی ’’ٹور شور‘‘ بنی ہوئی ہے۔ ٹیم جیت جائے تو کریڈٹ لینے فوراً سامنے آ جاتے ہیں، ہارنے لگے تو لڑکوں کی خراب پرفارمنس کا بہانہ بنا کر کچھ کھلاڑی ادھر ادھر کر کے پھر اپنے آپ میں مگن ہو جاتے ہیں۔ جب وزیر اعظم پسند نا پسند سے باہر نہیں نکل سکتے تو پھر سب کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو جہاں اور جس عہدے پر چاہے تعینات کریں۔ میاں صاحب کی پسند نجم سیٹھی اور نجم سیٹھی کی پسند۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیں ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جہاں اتنا کچھ تباہ و برباد ہو گیا وہاں کرکٹ بھی سہی۔

اظہر علی کو جب کپتان بنایا گیا تھا تو اس پر خاصی تنقید ہوئی تھی۔ ایک ایسا کھلاڑی جس کی ون ڈے ٹیم میں جگہ نہیں بنتی ہو اسے کپتان بنائیں گے تو نتائج اس سے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟  ہمارے کپتان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ کس وقت کس بولر کو لانا ہے۔ فیلڈنگ سیٹ کرنے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ ہم نے تب بھی کہا تھا کہ سرفراز احمد کو کپتان بنایا جائے۔ سرفراز فائٹر ہے اور کپتانی کے داؤ پیچ بھی بخوبی جانتا ہے۔ ٹی 20 اور ون ڈے کے لیے موجودہ کھلاڑیوں میں وہ کپتانی کے لیے بہترین چوائس ہے۔ اس میں غالباً ایک ہی خامی ہے کہ وہ انگریزی نہیں بولتا۔ اب کپتان انگریزی بولنے والا رکھ لیں یا اسے کپتان بنا لیں جسے قیادت کا ڈھنگ آتا ہو۔ اظہر علی کی کپتانی اتنی ’’شاندار‘‘ ہے کہ وہ 8بڑی ٹیموں کے خلاف 17 میں سے صرف 4میچ جیت سکے ہیں۔ البتہ انگریزی وہ اچھی بول لیتے ہیں۔

چلے ہوئے کارتوس استعمال کرنے کا فن بھی ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہر بار سینئر کھلاڑیوں کو گھروں سے واپس بلا کر ٹیم میں شامل کرتے ہیں اور ہارتے جاتے ہیں۔ جب ہارنا ہی ہے تو نوجوان کھلاڑیوں کو ٹیم میں کیوں نہ شامل کیا جائے۔ نئے کھلاڑی ہارنے کے بعد جیتنا سیکھ لیں گے۔ کپتان اچھا مل گیا تو جلدی سیکھ لیں گے۔ شعیب ملک، عمر گل اور محمد حفیظ وغیرہ کو بہت چانس دے چکے۔ حسن علی نیا لڑکا ہے لیکن اس نے دوسرے ہی میچ میں یہ بتا دیا کہ وہ مستقبل میں ایک اچھا بولر بن سکتا ہے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کی ذمے داری اس سیریز کے بعد بڑھ گئی ہے۔ انھیں نئے کپتان کے ساتھ ساتھ ٹیم کے لیے کم از کم دو جینوئن آل راؤنڈرز تلاش کرنا ہونگے۔ ہماری ٹیم میں بٹلر اور اسٹوکس جیسا کوئی ایک آل راؤنڈرز بھی نہیں ہے۔ ٹیلنٹڈ نوجوان کھلاڑیوں کے نام لکھنے کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے پہلے کون سی ہماری باتوں کو سیریس لیا ہے جو اب لے گا۔ پی سی بی کے پیٹرن ان چیف بھی ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ حکومت کی ترجیحات میں کھیل اور خصوصاً کرکٹ کہیں ہے بھی یا نہیں؟کون جانے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔