’’محب وطن‘‘ ایم کیو ایم شیوسینا کی ڈگر پر چل پڑی

رحمت علی رازی  اتوار 4 ستمبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

البیرونی نے جس دوقومی نظریے کی نشاندہی کی تھی، اس سے اس کا واضح اشارہ یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے روپ میں دو ایسی قومیں آباد ہیں جن کا نہ صرف رہن سہن ایک دوسرے سے مختلف ہے بلکہ انکی سماجی روایات، فکری عمل اور معروضی تہذیب میں بھی بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے اور کسی بھی لحاظ سے نظریاتی و عملی طور پر ہندو مسلم مذاہب میں کوئی ممکنہ ہم آہنگی دیکھنے میں نہیں آتی چنانچہ زمین و آسمان کی اس تفاوت کو ہندوستان کی مشترکہ ثقافت بھی محو کرنے سے عاجز ہے۔

البیرونی کا یہ دوقومی نظریہ سلاطینِ دہلی کے دور میں عملی شکل اختیار کر گیا جب متھرا اور واراناسی کے پنڈتوں کو اسلام قبول کرنے کے پیغامات موصول ہونے لگے۔ مغلوں کے عہد میں دوقومی نظریہ کے سب سے بڑے پرچارک ہندو تھے جب کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں نے اس کی اہمیت پر کھل کر اظہار کیا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی غلام مرتضیٰ میکش نے دوقومی نظریے پر قلم اٹھایا اور قائداعظم محمدعلی جناح و دیگر مسلمان کانگریسیوں کو خطوط لکھے۔

گویا یہ غلام مرتضیٰ میکش ہی تھے جنھوں نے برصغیر میں دوقوموں کی متضاد سوچ کو ’’دوقومی نظریہ‘‘ کا ’’لفظی جامہ‘‘ پہنایا۔ ازاں بعد علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں باقاعدہ طور پر دوقومی نظریہ پیش کیا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ اتنی تاویل میں جانے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور ہندوستان میں انتہاپسندی کی جڑ کو معلوم کیا جا سکے کیونکہ تقسیمِ ہند کے ساتھ ہی دوقومی نظریے کا وجود بھی تقسیم ہو گیا اور اپنی اپنی قوم کا نظریہ بھی دونوں ممالک کو نظریاتی اثاثے کے طور پر ورثے میں ملا جس نے آج سرحد کے دونوں اطراف کے مذہبی انتہا پسندوں کو ریاستی دہشتگردی کا سرٹیفکیٹ دے رکھا ہے۔

نظریۂ ہندوستان اور نظریۂ پاکستان کے محافظ 1947ء ہی میں منظرعام پر آ گئے تھے۔ بھارت میں ہندوؤں کی محافظ تنظیم، ہندو مہاسبھا کے ایک جیالے ناتھورام گوڈسے نے 30 جنوری 1948ء کو موہن داس مہاتما گاندھی کو صرف اسلیے گولی مار دی تھی کہ انھوں نے مزید مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے سے منع کیا تھا۔ مہاراشٹرا بھارت کا واحد صوبہ ہے جہاں پاکستان اور مسلمان مخالف جذبات بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ مراٹھی لوگ ہندو راجا شیوا جی مہاراج کی قوم ہیں جو احمدشاہ ابدالی سے عورتوں اور بچوں سمیت لڑی تھی۔

مراٹھے یوں تو ناگپور، پونا اور ممبادیوی (بمبئی) کے علاقوں پر مشتمل ریاست کے باسی تھے مگر سترہویں صدی میں ان کی طاقت مغلوں سے دُگنی ہو گئی تھی اور وہ دہلی پر قبضے کے بعد اٹک تک آ پہنچے تھے تاہم پانی پت کے تیسرے گھمسان میں احمدشاہ ابدالی نے لاکھوں کی تعداد میں ان کا  کشت و خون کیا اور انہیں واپس مہاراشٹرا بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ گاندھی کا قاتل اور اس کا سہولت کار بھی مراٹھی نوجوان تھے۔

ہندو انتہاپسند تنظیم شیوسینا بھی مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے 90ء کی دہائی میں ممبئی میں بنائی گئی جسکے سربراہ بال ٹھاکرے نے مہاراشٹرا کے تمام شہروں میں اس کے  دفاتر قائم کیے اور شیواجی مہاراج کی فوج کے طور پر صوبے بھر میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے انڈین اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے شیوسینا کا دائرہ کار دہلی اور ہندوستان بھر تک پھیلا دیا گیا۔

جب 1992ء میں کراچی میں پاک فوج نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا تو اس کے  ردعمل میں شیوسینا نے صوبہ گجرات میں سیکڑوں مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا اور 1993ء میں ممبئی میں دھماکے ہوئے تو شیوسینا نے ممبئی شہر میں مسلمانوں کی قتل و غارت شروع کر دی اور انہیں دھمکی دی کہ وہ غیرملکی ہیں اور اگر وہ پاکستان نہ گئے تو انہیں زندہ جلا دیا جائے گا۔ اس دہشتگردی کے نتیجے میں ممبئی کے ہزاروں مسلمان تین دن تک شہر کے ریلوے اسٹیشنوں پر بے یارو مددگار بیٹھے رہے۔

جب ’’را‘‘ اور ایم آئی سکس کی معاونت سے لندن میں پناہ گزین ایم کیو ایم چیف الطاف حسین کو یہ خبر ملی کہ ان کے کچھ رشتہ دار تین دن سے ممبئی کے باندرا اسٹیشن پر بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں تو انھوں نے بھارتی حکومت کو کہہ کر ممبئی کے مسلمانوں کو واپس گھروں کو بھجوایا۔ ’’را‘‘ میں مراٹھی افسران کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جو ’’را‘‘ کے معاون ایجنٹس 1987ء سے 1992ء تک الطاف حسین کے ساتھ ایم کیو ایم میں کام کر رہے تھے وہ بھی زیادہ تر مراٹھی ہی تھے اور جو آج لندن سیکرٹریٹ کو چلا رہے ہیں اور ساؤتھ افریقہ میں ایم کیو ایم کے سیکرٹ ونگ کے طور پر آپریٹ کرتے ہیں وہ بھی زیادہ تر مراٹھی ہی ہیں۔

بلوچستان میں پکڑا جانے والاا کلبھوشن یادیو بھی مراٹھی ہے اور کراچی میں کام کر رہے ’’را‘‘ کے زیادہ تر لوگ بھی مہاراشٹرا سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیوسینا کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ اب اسے بھارتی ریاست اور ایجنسیوں سے باقاعدہ فنڈز ملتے ہیں۔ جب بال ٹھاکرے حیات تھے تو انھوں نے ممبئی کو یرغمال بنایا ہوا تھا‘ اس شہر کا نام بھی ان ہی کے اصرار پر بمبئی (بومبے) سے ممبئی رکھا گیا جو اُنکے خیال میں ان کی کسی دیوی ممبا دیوی سے موسوم ہے۔

ممبئی میں شیوسینا کی غنڈہ گردی اور خوف کا یہ عالم تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر وہاں کوئی ایکٹر بھی کام نہیں کر سکتا تھا‘ بال ٹھاکرے نے سب سے پہلے ’’آمچی ممبئی‘‘ (ہمارا ممبئی) کا سلوگن متعارف کرایا جسکے تحت انھوں نے ممبئی کی شاہراہوں، ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں، ایئرپورٹس اور دکانوں کے سائن بورڈ کو مراٹھی زبان میں تحریر کروایا اور صوبے کی دفتری زبان مراٹھی میں رائج کروائی‘ پھر ’’آمچی ممبئی‘‘ کے تحت یوپی، بہار، بنگال اور پنجاب کے لوگوں پر دباؤ بڑھانا شروع کیا کہ ممبئی ہمارا ہے، وہ یہاں کام نہیں کر سکتے لہٰذا بہتر ہے کہ سب غیر مراٹھی ممبئی چھوڑ کر اپنے اپنے ملک یا گاؤں (یعنی اپنے صوبے میں) چلے جائیں۔

اس کے علاوہ اور بھی نجانے کس کس طرز کی غنڈہ گردی بال ٹھاکرے نے ممبئی میں مچائے رکھی اور یہ کڑھی ان کی موت کے بعد ہی قدرے ٹھنڈی ہوئی کیونکہ ان کے صاحبزادے، اُدھو ٹھاکرے کا سارا فوکس ممبئی کے بجائے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف ہے۔ گزشتہ دنوں پولوگراؤنڈ میں میئر اور ڈپٹی میئر کراچی کی تقریبِ حلف برداری کے بعد جب نسرین جلیل کی ہدایت پر فاروق ستار نے ’’ہمارا کراچی‘‘ کا سلوگن پیش کیا تو ان کا  مطلب ’’آمچی ممبئی‘‘ سے کچھ مختلف نہ تھا، ’’ہمارا کراچی‘‘ کے ٹریک پر ان کے کام کرنے کے مقصد کو سمجھنے کے لیے کسی تجزیے یا راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کے اب تک کے ٹریک ریکارڈ سے ہر پاکستانی واقف ہے اور اب فاروق ستار نے اپنی پارٹی بلکہ مخصوص ’’سیٹ اپ‘‘ کو بچانے کے لیے الطاف بھائی کی صوابدید سے ان کے خلاف قومی اسمبلی تک میں قرارداد منظور کروا لی اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’ہم ڈیڑھ مسجد کی الگ اینٹ بنانے سے دوسو اینٹوں کو بچانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں‘‘۔ ہم اس پر ہرگز بحث نہیں کرینگے کہ پاکستان میں ایک نئی ایم کیو ایم بن گئی ہے اور اب اس کے  پلیٹ فارم سے کسی ملک دشمن سرگرمی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔

الطاف حسین کے پوسٹر اترنا، وال چاکنگ مٹ جانا، ان سے لاتعلقی کا بیان اور دیگر ڈرامہ بازیاں یہ قطعی ثابت نہ کر پائیں گی کہ لندن اور کراچی میں کچھ الگ الگ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم پہلے تو صرف ’’را‘‘ کے ہاتھ میں تھی مگر اب یہ اس کے سلیپنگ پارٹنر سی آئی اے کے کنٹرول میں جا چکی ہے جس نے ایم آئی سکس کی مدد سے الطاف حسین کو لندن میں پناہ دلوا رکھی ہے۔

ایم کیو ایم نے پابندی سے بچنے اور دفاتر واپس لینے کے لیے جو بھی اسکرپٹ لکھا ہے وہ ہمارے حکمرانوں کی فہم سے بہت بالا ہے کیونکہ ان کی فہم سے تو یہ بھی بالا تھا جب نیٹو کا مہلک اسلحہ نائن زیرو پہنچا‘ سی آئی اے نے افغانستان سے جنگوں میں استعمال ہونیوالے خطرناک اسلحہ کے دو کنٹینر کراچی بھیجے تھے جو اس وقت کے وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ بابر غوری نے امریکا سے ملکر غائب کیے اور واویلا یہ کیا گیا کہ نیٹو کے اسلحہ بردار کنٹینر کراچی پورٹ جاتے ہوئے چوری ہو گئے۔

ان کی آنکھیں تو اس وقت بھی نہ کھلیں جب 1992ء اور 1995ء میں کراچی میں ایم کیوایم کے ’’وائٹ ہاؤس ٹارچر سیلز‘‘ کا انکشاف ہوا تھا۔ ریاست کو تو تب بھی ہوش نہ آیا جب رینجرز نے نائن زیرو سے نیٹو کا اسلحہ برآمد کیا‘ اس کے ساتھ کالعدم مذہبی تنظیموں کے جھنڈے اور لٹریچر بھی رینجرز نے نائن زیرو سے برآمد کیے، یہ سارا میٹریل سیکیورٹی ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دہشتگردی کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا تھا تا کہ شک کالعدم تنظیموں پر جائے، تب کیا فاروق ستار اور ان کے دیگر حواری اس سے لاعلم تھے جو ٹاک شوز پر بیٹھ کر بڑی ڈھٹائی سے اپنے گناہوں کا دفاع کرتے ہیں۔

الطاف حسین کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ وہ ایک نئے ملک کے سربراہ کے طور پر اقوام متحدہ کی اسمبلی میں خطاب کرنا چاہتے ہیں‘ ان کا یہ خواب اب فاروق ستار، نسرین جلیل اور دیگر حواری پورا کرینگے جو امریکا میں اپنے ایجنڈے پر رات دن کام کر رہے ہیں۔ امریکا پاکستان کو گوادر تو کیا بنانے دیگا وہ تو کراچی پورٹ بھی اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے اور اس اسکرپٹ پر اس نے تیزی سے کام شروع کر رکھا ہے جس کا پہلا عملی اقدام اس نے بھارت سے زمینی اور ہوائی اڈے لینے کا معاہدہ کر کے کر دیا ہے اور ایک ماہ بعد بھارتی پنجاب، کشمیر، کراچی اور گوادر سے ملحقہ گجرات میں وہ انڈیا سے مشترکہ فوجی مشقیں بھی شروع کر رہا ہے اور ادھر فاروق ستار ’’ہمارا کراچی‘‘ کا منصوبہ لے کر سامنے آ گئے ہیں۔

جماعتی قانون کے مطابق فاروق ستار اور نسرین جلیل دونوں ڈپٹی کنونیئر ہیں‘ ان دونوں کے علاوہ لندن سیکریٹریٹ کے رازونیاز کسی کو معلوم نہیں‘ یہ رازدان جوڑی ماضی میں متعدد مرتبہ بھارت اور اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کی تمام سفارتخانوں کو خطوط اور ای میلز کے ذریعے باور کراتی رہی ہے کہ ’’پاکستانی ریاست ایم کیو ایم پر بے جا تشدد اور ریاستی جبر کا بدترین مظاہرہ کر رہی ہے‘ مہاجر پاکستان سے اس قدر تنگ ہیں کہ ان میں سے لاکھوں کی تعداد میں بیرونِ ملک شفٹ ہو چکے ہیں‘ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ مہاجروں کا اب پاکستان سے الگ ایک ملک ہونا چاہیے جس کے لیے ایم کیو ایم کے ووٹرز علیحدگی کے لیے استصوابِ رائے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

آپ جیسی جمہوریت پسند طاقتوں سے ایک مجبور طبقے کی پرزور اپیل ہے کہ مہاجروں کا ایک الگ وطن بنانے میں ہماری پرزورحمایت کی جائے‘‘۔ چند روز قبل جب لندن سے حکم آیا تو یہ دونوں ہی کراچی میں امریکن قونصل جنرل سے ملاقات کے لیے گئے تھے جہاں قونصل جنرل سے ان کی ڈیڑھ گھنٹہ بند  کمرے میں ملاقات ہوئی‘ امریکی قونصل جنرل اور امریکن قونصلیٹ کے نمائندے کراچی میئر کی تقریب میں بھی موجود تھے جب اسٹیبلشمنٹ کو اشارۃً پیغام دینے کے لیے فاروق ستار نے مائیک پر اپنے ایک کارکن کو کہا کہ وہ قونصل جنرل صاحب کے ساتھ ساتھ رہے۔

فی الحال امریکا کے دباؤ پر ہی ایم کیو ایم پر پابندی عائد نہیں کی جا رہی اور مستقبل میں بھی اسے کافی رعایتیں ملنے کی توقع ہے‘ کھلم کھلا عداوت کے باوجود امریکا کی پٹھوگیری کرنا پاکستان کی اولین مجبوریوں میں سے ایک ہے جس کی آنیوالے وقت میں اسے بھاری قیمت چکانا پڑیگی۔ امریکا پر برطانیہ کے دباؤ کیوجہ سے الطاف اینڈ پارٹی سمیت لندن سیکریٹریٹ عنقریب امریکا منتقل ہو سکتا ہے کیونکہ لندن اب مزید پاکستان کو تسلی دینے کی پوزیشن میں نہیں لگتا اور الطاف کے خلاف ابھی تک اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

بابر غوری، فیصل سبزواری، حیدر عباس رضوی اور کئی دیگر کارکنان امریکا میں ایم کیو ایم کی پاکستان مخالف مہم کو مہمیز دینے میں لگے ہوئے ہیں اور گمان غالب ہے کہ الطاف کی موت کے بعد انہیں اگلی ہدایت امریکا سے آیا کریں گی۔ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ پابندی سے بچاؤ کے خوف سے اب مسلح جدوجہد کی بجائے ایم کیو ایم ریشمی رومال کی طرح کی تحریک برپا کرنا چاہے گی تا کہ مہاجروں کو ان کے حقوق مل سکیں‘انھوں نے پاکستان میں مختلف کمیونٹیز کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان میں عوامی منڈیٹ منقسم ہے اور کوئی ایک ایسا لیڈر موجود نہیں جو پورے ملک کی نمائندگی کی صلاحیت رکھتا ہو۔

فاروق ستار کا دعویٰ ہے کہ اگر غیرجانبدار مردم شماری کرا دی جائے تو سندھ کا اگلا وزیر اعلیٰ مہاجر ہو گا۔ نئے عمرانی معاہدہ سے مراد نئے صوبوں کا قیام بھی ہے کیونکہ وہ مہاجر صوبہ چاہتے ہیں تاہم کم از کم تین بار سندھ اسمبلی اتفاقِ رائے سے سندھ کی تقسیم کے خلاف قرار داد منظور کر چکی ہے‘ اس کے قطع نظر بھی یہ نیا عمرانی معاہدہ متفقہ آئین سے چھیڑچھاڑ کے مترادف ہو گا جو ملک کے لیے نہایت خطرناک ہو  گا۔ نئے صوبے کا مطالبہ کرنے کی آڑ میں فاروق ستار سیدھا سیدھا ایک الگ ملک چاہتے ہیں جو ایم کیوایم کا اصل ایجنڈا ہے کیونکہ جب کراچی میں پنجابیوں کا قتل عام کیا گیا۔

1992ء کے آپریشن کے دوران جناح پور کے نقشے بھی برآمد ہوئے جسے آفاق احمد بھی حقیقت قرار دیتے ہیں‘ وہ خود اس بات کے گواہ ہیں کہ الطاف حسین نے کارکنوں کو باقاعدہ بریفنگ دی کہ مہاجر عوام اسمبلی میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے چنانچہ علیحدگی کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔ الطاف حسین اپنے استاد محترم سے پوچھتے تھے کہ اگر انھیں اقوام متحدہ میں تقریر کرنی پڑے تو وہ کیسے کر سکتے ہیں تو ان کے استاد نے انھیں کہا کہ بیٹا اقوام متحدہ میں تقریر ملک بنا کر اس کے سربراہ کے طور پر کر سکتے ہو‘ الطاف حسین اس زمانے سے اپنی اس سوچ کو پروان چڑھا رہے تھے اور وہ آج بھی اسی مشن پر گامزن ہیں۔

’’ہمارا کراچی‘‘ کا آئیڈیا الطاف حسین کا تھا جس کے تحت مہاجروں میں یہ سوچ پیدا کرنا تھا کہ پشتون اور پنجابی، مہاجروں اور ان کے معاشی مستقبل کے لیے خطرہ ہیں۔ ایم کیو ایم نے شہر کو مقبوضہ علاقہ بنا رکھا ہے اور ریاستی ادارے جب اس تسلط کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ جماعت اقتدار میں ہے‘ ایم کیو ایم اقتدار میں رہے بغیر چل ہی نہیں سکتی، مشرف دور کی اور موجودہ استعفوں کی سیاست اس بات کی گواہ ہے۔ کراچی کی بدامنی اور جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے تشدد اور قتل و غارت اس جماعت کی پہچان بن چکی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کراچی ’’ظلمتوں کی وادی‘‘ بن کر رہ گیا ہے، شاید اس لیے کہ ایم کیو ایم کو ایک مافیا کے انداز میں چلایا گیا۔

ماضی میں الطاف حسین نے بھارت میں ایک تقریر کے دوران پاکستان کے قیام اور برصغیر کی تقسیم کو کائنات کی بدترین اور سنگین غلطی قرار دیا تھا‘ اس وقت فاروق ستار بھی ان کے ہمراہ تھے جب کہ عمران خان بھی اسی محفلِ دعوت میں موجود تھے۔ الطاف حسین نے اپنی اسی نہج پر چلتے ہوئے گزشتہ دنوں ایک ٹیلیفونک تقریر کے دوران ’’پاکستان مردہ باد، میرا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے، پاکستان دنیا کے لیے ایک ناسور ہے، پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے، پاکستان دہشتگردی کا مرکز ہے، اس کا خاتمہ عبادت ہو گا‘‘ جیسے لغو اور واہیات الفاظ کہے۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بشمول آرمی چیف اور ڈی جی رینجرز سندھ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے اور ہرزہ سرائی کی انتہا کر دی۔ ایم کیو ایم کو آمرانہ دور میں جس قدر پذیرائی حاصل رہی ہے وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف جب بھی کریک ڈاؤن ہوئے وہ سیاسی ادوار میں ہوئے‘ جنرل ضیاء کے دور میں اس جماعت نے جنم لیا‘ جنرل (ر) اسلم بیگ کے عسکری قیادت کے دور میں اس کی پدرانہ سرپرستی بھی کوئی نہاں راز نہیں، تو ایک اور آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم اس کی اہم ترین حلیف رہی۔

ایم کیو ایم نے مبینہ طور پر مشرف کی خاطر 12 مئی 2007ء کو کراچی میں چیف جسٹس کے دورے کے موقع پر خونی فسادات کرائے تھے اور شہر کے امن کو تہہ و بالا کیا اور قتل گاہ بنایا۔ جنرل ضیاء، جنرل اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف کا پس منظر بھی تو مہاجرانہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے لسانیت کی بنیاد پر بننے والی ایم کیو ایم کی سرپرستی کا حکومتی فریضہ انجام دیا۔ 1992ء کے فوجی آپریشن میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم تنظیم کا جو انتہائی گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوا وہ ایک ایسی بھیانک داستان ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں تیار ہوئی اور سیاسی مصلحتوں کے پردوں میں اژدہا بنی۔

الطاف حسین، جن کی 84ء تک کوئی نمایاں حیثیت نہیں تھی، وہ کیسے پاکستان کی سیاست میں یکلخت اُبھرے اور چند ہی برسوں میں ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستان کے وزرائے اعظم اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ ان کے پاؤں میں بیٹھنے کو فخر محسوس کرتے۔ امریکا، برطانیہ اور بھارت کے سفراء ان کے حجرے میں کھنچے آتے‘ وہ کراچی اور حیدرآباد کے بے تاج بادشاہ بن گئے اور ان کے ایک اشارے پر لاکھوں مردوزن سڑکوں پر دیوانہ وار نکل آتے۔ آخر یہ سب کچھ کیا تھا؟ کوئی ڈراؤنا خواب تھا؟ کوئی بھیانک حقیقت تھی یا کوئی خوفناک سازش؟

ایم کیوایم کے اندر غالباً یہ تینوں ہی کیفیتیں موجودہیں۔ اس جماعت کے آگے پاکستان کے تمام اداروں کی بے بسی کا یہ عالم رہا ہے کہ قتل کے مقدمات اور 12 مئی کے واقعہ کے مبینہ ماسٹرمائنڈ شخص (جو خود اپنے جرائم کا اقرار بھی کر چکا ہے) کو جیل سے پروٹوکول کے ساتھ لا کرکراچی کی میئرشپ پر براجمان کر دیا گیا اور اب پاکستان کے سب سے بڑے شہرکے یہ میئر جیل میں بیٹھ کر کراچی کے عوام کی قسمت کے فیصلے کرینگے‘ سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل کا ملبہ سیاستدانوں پر ڈالا جائے یا کسی اور پر، کیونکہ یہ کلیئر ہونا ابھی باقی ہے کہ اس سارے کھیل کی رسیاں کس کے ہاتھ میں ہیں۔

کیا یہ موم کی ناک کا قانون نہیں ہے؟ کیا یہ پری پلانڈ نہیں ہے؟ پھر کہتے ہیں ملک میں قانون کی عملداری نہیں؟ قانون سب کے لیے کیوں برابر نہیں؟ اگر ایک ہی ایف آئی آر میں درج ناموں کے ساتھ مختلف برتاؤ ہو گا تو ملک میں ایسے ہی لاقانونیت پھیلے گی‘ جب فاروق ستار پریس کانفرنس کر رہے تھے اس وقت رینجرز والے ایک گرفتار افراد کو ایک عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ لے رہے تھے اور وہاں ایف آئی آر پر یہ موقف اپنایا گیا کہ فاروق ستار مفرور ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کس کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے؟ ظاہر ہے اس کہانی کے کرداروں کو تو سب پتہ ہے مگر بیوقوف صرف اور صرف عوام کو بنایا جا رہا ہے‘ یہ ہے نظریۂ ضرورت! کس کو پکڑنا ہے، کس کو چھوڑنا ہے، کس کو پرٹوکول دینا ہے، سب کیا جارہا ہے کیونکہ ’’جمہوریت‘‘ کو بچانا مقصد ہے نہ کہ عوام کو۔

پاکستان زندہ باد کے نعرے لگے، ملزمان بھی لگا رہے ہیں مگر انفرادی طور پر ہر ایک کی باڈی لینگوئج صاف بتا رہی ہے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ الفاظ اصل کہانی کا مفہوم بیان نہیں کر رہے۔ لفظوں اور جملوں میں سب کہہ بھی دیا، سب سن بھی لیا گیامگرقوم کے دلوں کو پتہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا، سب ویسا ہی ہے، کیونکہ نظریۂ ضرورت ابھی زندہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے نئے ریکارڈ بنا رہا ہے، ایم کیو ایم کی طرف سے پاکستان دشمن نعرے کیا معنی رکھتے ہیں؟ اس میں استعمال کون ہو رہا ہے؟

ایم کیوایم پاکستان کے لیے ایک ’’تحفہ‘‘ ہے اور یہ تحفہ ہمیں ملا بھی اسی مردِ مومن کی طرف سے تھا، جس نے ہمیں مذہبی انتہاپسندی سے نوازا جسکی فصل ہم آج تک کاٹ رہے ہیں‘ خواندہ افراد ایک کرمنل نفسیاتی مریض الطاف حسین کے پیچھے لگ کر اپنے ہی گھر کے دشمن بن گئے، جس نے انھیں ’’آگ و خون کا دریا پار کر کے آنے پر سنبھالا تھا اور آج صورتحال یہ ہے کہ مہاجرین کے نام پر قائد بننے اور ان کے حقوق کی پاسداری کا نعرہ لگانے والے الطاف بھائی آج مکتی باھنی بن کر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا کر کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کر رہے ہیں‘ آج جس طرح کراچی اور ایم کیوایم لازم و ملزوم ہیں‘ اگر یہ کہا جائے کہ اب ایم کیو ایم اور جرم بھی لازم و ملزوم ہیں، تو بے جا نہ ہو گا۔

ایم کیو ایم کے حالیہ بحران سے نہ صرف کراچی اور شہری سندھ کی سیاست کا انتشار بڑھ گیا ہے بلکہ شخصیات اور پارٹیوں کے گھناؤنے کردار بھی بے نقاب ہوئے ہیں۔ جہاں ضیاء آمریت کی پیداکردہ بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کئی دہائیوں سے اس سماج کو تاراج کر رہی ہے وہاں ایم کیوایم نے بھی اپنی لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا ہے۔ اب حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ ان کی کارروائیاں اور من مانیاں انہی کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی ہیں جنھوں نے ایک وقت میں انھیں تخلیق کیا تھا۔

ایم کیوایم نے جب اداروں کے تابع رہنے کی بجائے اپنی طاقت کو ابدی سمجھا اور اس کی رعونت حد سے باہر ہونے لگی تو اس کی سرگرمیاں کراچی اور دوسرے شہروں کے نظم و نسق کے لیے حد سے زیادہ تباہ کن ہونے لگیں لیکن موجودہ ریاستی کارروائی اس کے وجود کو ختم کرنے کی نہیں بلکہ اسکو تبدیل اور پھر سے تابع کرنے کی کاوش ہے‘ اصل مسئلہ تو ان غریب مہاجر عوام کا ہے جو کہیں بے بسی اور کہیں سماجی و ثقافتی بیگانگی سے خوفزدہ ہو کر ایم کیوایم کے پیچھے چلتے رہے۔

ووٹ دھونس اور دھاندلی سے بھی حاصل کیے گئے اور کہیں کسی متبادل کے فقدان کی مجبوری میں بھی مہاجر عوام نے ایم کیو ایم کو انتخابات میں حمایت دی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلسل اقتدار کی کئی دہائیوں میں ایم کیوایم کراچی کے عوام کا کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کر پائی اور ان کی وجہ سے حالات بدتر ہی ہوئے ہیں‘ وہ تو بھلا ہو انگریزی ’’نشے‘‘ کا جس نے وہ کام کر دکھایا جس سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا اصل چہرہ دُنیا کے سامنے آ گیا‘ اس نشے کیوجہ سے الطاف حسین کے وہ تمام گھناؤنے منصوبے خاک میں مل گئے جس کے خواب وہ شروع سے ہی دیکھ رہے تھے۔

امریکا کی ڈیوٹی پر متعین جو سازشی بونا صحافی پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے وہ بھی ان شاء اللہ منہ کی کھائے گا۔ ممکن تو نہیں لگتا لیکن بالفرض اگر ایم کیوایم ختم ہو بھی جائے تو اس نظام میں تعصبات، خونریزی، جرائم اور انتشار ختم نہیں ہو گا۔ اس نظام میں استحکام اور امن کی گنجائش ہی تاریخی طور پر ختم ہو گئی ہے‘ یہ تعصبات اسی صورت میں ختم ہونگے جب کراچی پھر سے اس محنت کش طبقے کا شہر بنے گا جس نے اسے تعمیر کیا ہے اور روشنی بخشی ہے۔ یہ محنت کش عوام ایک نئی انقلابی تحریک میں اُتر کر ہی کراچی کو دہشت کے خونی پنجوں سے آزاد کرا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔