امریکا: پاکستان اور بھارت

مقتدا منصور  اتوار 4 ستمبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری بھارت میں تھے۔ جہاں انھوں نے کئی دفاعی، معاشی اور ٹیکنالوجی کے معاہدوں کو حتمی شکل دے کر باہمی تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ اسی سال جون میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے موقع پر جن امور پر امریکی انتظامیہ کے ساتھ اتفاق ہوا تھا، ان میں سے بیشتر پر دستخط بھی ہوئے ہیں، جن میں خفیہ معلومات کی شیئرنگ اور مواصلاتی شعبہ میں تعاون کے علاوہ سب سے اہم معاہدہ دفاعی شعبہ میں کیا گیا۔

جس کے مطابق دہشتگردی کے خاتمے کے لیے امریکا بھارتی ہوائی اڈے استعمال کر سکے گا۔ گو کہ تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ عالمی سطح پردہشتگردی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے سدباب کے لیے یہ معاہدہ کیا گیا ہے، لیکن جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ بھارت کے فوجی اڈے کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں موجود دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے قطر کے اڈے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ امریکا کو چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی اور تزویراتی اقدامات کے بارے میں تشویش ہے۔ چین کے بارے میں شنید ہے کہ وہ اپنے جنوبی سمندر میں جزیرے قائم کر کے ان پر اڈے قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی منصوبہ سازوں کے خیال میں اگر چین ان منصوبوں میں کامیاب ہو گیا، تو جاپان کے جنوب مغرب سے خلیج تک سمندری راستوں پر اس کی بالادستی قائم ہو جانے کے خدشات ہیں۔ جدید دنیا میں سپر پاور وہی ہوتی ہے، جس کا سمندروں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول ہو۔ ماضی قریب میں سوویت یونین اپنی عسکری قوت یعنی جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی کے لحاظ سے تو امریکا کی ہمسری کر رہا تھا، لیکن معروف معنی میں وہ سپر پاور نہیں تھا۔ کیونکہ سوویت یونین کا کسی بھی سمندری روٹ پر کنٹرول نہیں تھا، بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے تقریباً سبھی سمندری روٹس پر امریکا کی بالادستی چلی آ رہی ہے۔

امریکا کی خواہش ہے کہ وہ بھارت کو چین کے مدمقابل لائے۔ جس کے چند اسباب ہیں۔ اول، بھارت ہنری کسنجر کے تجزیہ کے مطابق علاقائی سپر پاور تو بن سکتا ہے، عالمی سپر پاور بننے کے لوازمات نہیں رکھتا، یعنی اس کی پہنچ صرف بحر ہند تک ہے، اس سے آگے جو سمندر ہیں، وہ جغرافیائی اور تزویراتی طور پر اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ بحر ہند پر امریکا کا پہلے ہی مضبوط کنٹرول ہے۔ اس لیے امریکا کو بھارت کے علاقائی سپر پاور بننے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دوئم، بھارت بعض صنعتوں میں چین کا مقابلہ کرتے ہوئے خلیج سمیت مشرقی افریقہ میں چینی مصنوعات کا راستہ روکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ سوئم، بھارت کا افغانستان میں ترقیاتی کردار دراصل اس خطے میں چین کے کردار کو محدود کرتے ہوئے اس کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کو کم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس طرح چین عالمی سطح پر امریکا کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں بن پائے گا۔

دوسری طرف امریکا خلیج میں روس کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کا خواہشمند ہے، تا کہ چین کو اس علاقے میں مداخلت کا راستہ نہ مل سکے۔ اس کی خواہش ہے کہ شام کے مسئلے پر روس کے ساتھ کوئی قابل عمل معاہدہ ہو جائے۔ اسی طرح وہ ایران کے ساتھ بھی 37برس کے تلخ تعلقات کو خاصی حد تک نارمل سطح پر لے آیا ہے۔ ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان حالیہ معاہدہ بھی امریکی خواہشات کی تکمیل کا باعث ہے۔ یہ معاہدہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا باعث بنے گا۔ لہٰذا امریکا کی حالیہ حکمت عملیوں کو اس کی نئی منصوبہ بندیوں کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اب جہاں تک پاکستان کے ساتھ امریکی  تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ روز اول ہی سے بے دلی پر قائم رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے موقع پر اس وقت کے امریکی صدر ہنری ٹرومین نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہشات کا برملا اظہار کیا تھا۔ 1948ء میں سردجنگ شروع ہو جانے کے بعد جب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے امریکی لابی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا، تو امریکا مجبوراً پاکستان کی جانب متوجہ ہوا۔ البتہ پاکستان کی روز اول ہی سے خواہش تھی کہ وہ سوویت یونین کے مقابلے میں امریکا کا حلیف بنے۔ یہی سبب تھا کہ ریاستی منصوبہ سازوں نے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکا کے دورے پر بھیجا۔ حالانکہ دورے کی دعوت دونوں سپر پاورز کی جانب سے آئی تھی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کے امریکا کی طرف جھکاؤ میں امریکا سے زیادہ خود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات شامل تھیں۔

اگر گزشتہ 70 برسوں کے دوران پاک امریکا تعلقات کا سرسری سا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس عرصہ میں گرمجوشی اور سردمہری کے کئی ادوار آئے۔ اگر ایک طرف امریکا کی موقع پرستیاں تعلقات میں سردمہری کا باعث بنیں، تو دوسری طرف ہمارا غیر ذمے دارانہ رویہ بھی ایک اہم سبب رہا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ پاک امریکا تعلقات میں دہرا معیار اپنائے رکھا، جو تعلقات کی پائیداری میں واضح رکاوٹ بنا۔ پاک امریکا تعلقات میں گرمجوشی کا پہلا دور 1950ء کے عشرے میں اس وقت شروع ہوا، جب آئزن ہاور امریکا کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ دور 1962ء تک جاری رہا۔ اس دور میں پاکستان سیٹو اور سینٹو سمیت کئی دفاعی معاہدوں میں شامل ہوا اور دفاع سمیت مختلف شعبہ جات میں خطیر امریکی امداد بھی حاصل کی۔

1962ء میں امریکا نے میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کر لی، تو پاکستان کی تزویراتی اہمیت کسی حد تک کم ہو گئی۔ مگر امریکا کو اصل شکایت یہ تھی کہ پاکستان نے چین کے خلاف بھارت کا ساتھ نہیں دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان نے تو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی، جسے خود پنڈت جواہر لعل نہرو نے مسترد کر دیا تھا۔ چند برس بعد 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہو جاتی ہے، جس میں پاکستان کے ساتھ مختلف دفاعی معاہدوں کے باوجود امریکا لاتعلق رہتا ہے۔ نتیجتاً دونوں متحارب ممالک کے درمیان سوویت یونین تاشقند کے مقام پر مصالحت کرا دیتا ہے۔ سردمہری کا یہ دور 1979ء تک چلتا ہے۔ گو اس دوران پاکستان اس وقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کے چین کے خفیہ دورے میں معاونت بھی کرتا ہے۔ امریکا کے پاکستان کے ساتھ بے نیازی کے مظاہر کی وجہ سے پاکستان 1971ء میں مشرقی پاکستان سے بھی محروم ہو گیا، مگر امریکا سے شکوہ نہیں کیا۔

گرمجوشی کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا، جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ اس دور میں امریکا نے پاکستان کو انتہائی بدترین طریقہ سے استعمال کیا۔ جس کی ذمے داری اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے، جس نے اس جنگ میں کود کر اپنا سیاسی و سماجی Fabric بری طرح تباہ کر لیا۔ گرمجوشی کا یہ دور جینوا معاہدے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا اور امریکا نے پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی دفاعی امداد پر پابندی عائد کر دی۔ سردمہری کا تیسرا دور 9/11 تک جاری رہا۔ اس دور میں امریکی صدر کلنٹن نے بھارت سے واپس جاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے پاکستان میں قیام کیا۔ مگر انھوں نے اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف سے ملاقات کرنے سے گریز کیا۔ البتہ ٹیلی ویژن پر پاکستانی عوام سے خطاب ضرور کیا۔ لیکن جیسے ہی 9/11 ہوا گرمجوشی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ جو پرویز مشروف اور جارج بش کے جاتے ہی ایک بار پھر سردمہری میں تبدیل ہو گیا۔

درج بالا واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا پاکستان کے ساتھ بحالت مجبوری تعلقات قائم رکھتا ہے۔ جو اس کے مفادات سے مشروط ہوتے ہیں۔ لیکن اس پورے عمل میں ہماری اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ ہم نے روز اول ہی سے ان تعلقات پر دہرا معیار اختیار کیے رکھا۔ وہ جن جنگجو جتھوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتا رہا، ہماری اسٹیبلشمنٹ انھیں کسی نہ کسی طریقے سے پناہ دیتی رہی۔ وہ شدت پسند مذہبی عناصر جو دنیا بھر میں انتہائی ناپسندیدہ تصور کیے جاتے ہیں، ہم نے کشمیر کاز ان کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ عناصر صبح شام ہر چینل پر امریکا اور مغرب کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں، مگر ان پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں لگائی جاتی۔ اس کے برعکس آزاد خیال سیاسی قوتوں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔

دوسرے ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں قوت خرید رکھنے والی مڈل کلاس کا حجم وقت گزرنے کے ساتھ بڑھنے کے بجائے کم ہوا ہے۔ جب کہ بھارت میں گزشتہ 25 برسوں کے دوران مڈل کلاس کے حجم میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے لازمی طور پر عالمی سرمایہ ہماری طرف آنے کے بجائے اسی طرف جائے گا۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ ہم اپنی ترجیحات تبدیل کریں۔ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف دیکھنے کے بجائے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کے اہداف متعین کریں۔ یہی وہ راستہ ہے، جو پائیدار ترقی کی ضمانت بنتا ہے۔ باقی سارے تصورات محض سراب ہیں۔

(نوٹ: پیر 29 اگست کے اظہاریہ ’’سیاست کا بے لوث سپاہی‘‘ میں محترم کٹی صاحب کے لیے ایک مقام پر سہواً مرحوم چھپ گیا ہے۔ وہ الحمدﷲ حیات ہیں۔ اس لیے کتابت کی اس غلطی کے لیے میں ذاتی طور پر کٹی صاحب اور ان کے احباب سے معذرت خواہ ہوں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔