تین بیمار و معذور بچیاں، غربت، اپنوں کی سنگ دلی

محمد اختر  اتوار 9 دسمبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 بعض لوگوں کو زندگی میں ایسے کڑے امتحانوں سے واسطہ پڑتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر پل سسک سسک کر گزارتے ہیں۔

ایسے لوگ سفید پوشی کی وجہ سے اپنا غم کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ لاہور کے علاقے ملتانی کالونی، باغبانپورہ کا رہائشی ایک خاندان بھی بالکل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ خاندان محمد وسیم، اس کی بیوی ندا وسیم اوران کی تین کم سن بیٹیوں پر مشتمل ہے۔ ندا وسیم فیصل آباد کی رہائشی ہے جس کی شادی اس کے خاندان میں ہی محمد وسیم نامی نوجوان سے تقریباً دس سال قبل ہوئی۔ شادی کے دو سال بعد ان کے ہاں ایک صحت مند بچی پیدا ہوئی جس کا نام انھوں نے بسمہ رکھا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ایک دن اچانک بسمہ کا رنگ نیلا پڑگیا اور وہ بے دم سی ہوگئی۔ اسپتالوں کے چکر لگائے تو پتہ چلا کہ بسمہ کے دل میں سوراخ ہے اور اس کا آپریشن ناگزیر ہے۔

تاہم وسیم کے مالی حالات اتنے اچھے نہ تھے کہ وہ اپنی بیٹی کا آپریشن کرواسکتا۔ بڑی تگ و دو کے بعد زکوٰۃ فنڈ سے اس کا آپریشن پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے کروایا گیا تو بسمہ آپریشن کے بعد ہوش میں ہی نہیں آسکی اور بارہ روز کے بعد بے ہوشی کے عالم میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔ دو سال بعد ندا کی گود ایک بار پھر ہری ہوئی اور دعا نے جنم لیا لیکن بدقسمتی سے دعا کی پیدائش سے پہلے ہی ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ آنے والی بیٹی کے دل میں بھی سوراخ ہے جس پر ندا اور اس کے خاوند کا پریشانی اور غم سے برا حال ہوگیا لیکن صبر کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ یہ تو محض ابتداء تھی، انھیں ابھی اور بہت سی آزمائشوں سے واسطہ پڑنے والا تھا۔ تقریباً دو سال کے بعد جب ریجا (اصل نام خدیجہ) پیدا ہوئی تو اس کے دل میں سوراخ کے ساتھ اس کی دونوں آنکھیں ہی نہیں تھیں۔

ذرا غور کیجیے کہ ندا کے دل پر کیا گزری ہوگی جب اس نے زچگی کے بعد پہلی بار اپنی بیٹی کو پیار کرنے کے لیے گود میں لیا ہوگا اور پہلی نظر میں ہی اسے پتہ چلا ہوگا کہ اس کی بیٹی دنیا تو دور کی بات، اپنے ماں باپ کو بھی زندگی بھر دیکھ نہیں سکے گی۔ ڈاکٹروں سے چیک اپ کروایا تو ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریجا کی زندگی کے بس دن گنے جائیں اور جب تک اس کی سانسوں کی ڈوری ہے، بس اسے زندہ رکھنے کے لیے جو بھی وہ کھاسکے، اسے کھلاتے رہیں۔ پھر تقریباً دو سال کے بعد فاعقہ پیدا ہوئی تو وہ بھی دل میں سوراخ لیے پیدا ہوئی جبکہ اس کی ایک آنکھ نہیں تھی۔ ایک آنکھ موجود ہے لیکن اس سے بھی بہت کم نظر آتا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ تینوں بیٹیوں کے دلوں میں پیدائشی سوراخ ہیں جس کی وجہ سے ان کی چھاتی میں ہمیشہ انفیکشن رہتا ہے۔ ان کا معدہ صحیح کام نہیں کرتا۔ دونوں آنکھوں سے محروم بیٹی ریجا عرف خدیجہ کا تو یہ حال ہے کہ وہ دودھ کے علاوہ کچھ کھا پی نہیں سکتی اور معدے کی کمزوری کا یہ عالم کہ اسے رفع حاجت کے لیے بھی ادویات کی ضرورت پڑتی ہے اوروہ انتہائی کمزور پڑچکی ہے۔ٹانگیں سوکھ کر انتہائی پتلی ہوچکی ہیں۔ دل کی بیماری کی وجہ سے ان بچیوں کو جاڑے میں بھی پسینہ آتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق گرمیوں میں انھیں ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں رکھنا ضروری ہے لیکن ان کے غریب والدین میں اتنی سکت کہاں کہ وہ گھر میں اے سی لگواسکیں اور بعد میں بجلی کا بل بھی ادا کرسکیں۔ ندا کے گھر کا دو ماہ کا اکٹھا بل بارہ ہزار آیا تو ادھار لے کر بل ادا کرنا پڑا۔

03

دکھی والدین کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی بیٹی دعا کی زندگی بچانے کے لیے اس کا دس سال کی عمر سے پہلے پہلے آپریشن ضروری ہے۔ دعا کی عمر اس وقت ساڑھے آٹھ سال ہوچکی ہے اس لیے اگلے ایک سال کے اندر اندر اسے دل کے آپریشن سے گزرنا لازمی ہے لیکن والدین کے پاس تو اتنے وسائل بھی نہیں کہ وہ چیک اپ کے لیے اسپتالوں کا چکر ہی لگا سکیں۔ کبھی بچیوں کی طبیعت اچانک خراب ہو جائے تو انھیں ساڑھے تین سو روپے کا انجکشن لگانا ضروری ہوتا ہے۔ ادویات کے لیے ماہانہ تنخواہ سے پیسے بچتے ہی نہیں، اس لیے دوستوں اور رشتہ داروں سے ادھار لینا پڑتا ہے۔ وسیم اب تک اسی ہزار روپے سے زائد کا قرض لے چکا ہے۔

یہ اسی ہزار شاید آٹھ لاکھ سے زائد ہوتے اگر وسیم اپنی بیٹیوں کا علاج کرواتا لیکن اُس کے لیے علاج معالجے کے لیے اسپتالوں میں جانے کا کرایہ دینا بھی مشکل ہے تو علاج کہاں سے کروائے۔بتایا جاتا ہے کہ اس نے ڈاکٹروں سے ادویات لکھوا رکھی ہیں جو وہ ضرورت پڑنے پر خریدلاتا ہے تاکہ اگر بچیوں کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو وقت گزارنے اور تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے گزارا کیا جاسکے۔ اب حالت یہ ہے کہ ندا اور اس کے خاوند کو زندگی کی کسی بھی خوشی غمی اور بچیوں کے علاج معالجے کے لیے کوئی بھی قرض کا ایک روپیہ تک دینے کو تیار نہیں۔

ندا کا خاوند اور بچیوں کا والد محمد وسیم ایک دکان پر چھ ہزار روپے ماہانہ پر ملازم ہے۔ بچیوں کے دودھ کا ماہانہ خرچ تین ہزار روپے ہے۔ بجلی کے بلوں کے بعد نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ کئی کئی دن گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔

مصیبت پر مصیبت 
غریب وسیم اور ندا کی صرف بچیاں ہی بیمار نہیں بلکہ ایک اور مصیبت نے انھیں عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ اور وہ ہے گھر سے بے گھر ہونے کی مصیبت، کڑے حالات اور بیٹیوں کی بیماری کی وجہ سے بھائیوں اور والدہ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور انھیں گھر سے نکلنے کا کہہ دیا۔ چار سال قبل وہ بھائیوں کے مجبور کرنے پر کرائے کے مکان میں چلے گئے تھے لیکن جب کرایہ دینا ممکن نہ رہا تو واپس آبائی گھر آگئے۔اب بھائی دوبارہ گھر سے نکلنے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن وہ کرائے کا گھر لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ایڈوانس نہ ہونے کی وجہ سے کوئی گھر کرائے پر دینے کو تیار نہیں اور بھائیوں کا روزانہ گھر سے نکل جانے کا حکم تو اُسے چیر کر رکھ دیتا ہے۔

والد کی وفات کے بعد تین ماہ پہلے انھیں اس کے بھائیوں نے گھر خالی کرنے کو کہا تھا اور اب وہ سوچتا ہے کہ اگر کرائے پر گھر لیا تو کم از کم تین سے چار ہزار روپے ماہانہ کرایہ اور تین ہزار روپے کا بچیوں کا دودھ تو بچیوں کی ادویات اور کچن کہاں سے چلائے گا۔ یہی سوچ اسے پریشان کیے ہوئے ہے۔ وسیم چاہتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹیوں کو کما کر کھلائے۔ وہ تو بس چاہتا ہے کہ اس کی بیٹیوں کا علاج ہو جائے تاکہ وہ سکون کے ساتھ ان کے لیے رزق کماسکے۔ وسیم بیٹیوں کے چیک اپ وغیرہ کے سلسلے میں بیٹیوں کو جب بھی اسپتال لے کر جاتا ہے تو اس کی کام سے چھٹی ہوجاتی ہے اور زیادہ چھٹیاں کرنے پر کئی بار کام سے نکالا بھی جاچکا ہے۔

ندا کا کچھ عرصہ قبل سیڑھی سے گرنے کے باعث پائوں ٹوٹ گیا۔ہوا یوں کہ وہ لکڑی کی سیڑھی پر چڑھ رہی تھی کہ پریشانیوں میں کھوئی ہوئی اچانک نیچے آگری۔ اس کی ٹانگ میں راڈ ڈالنے پڑے تھے۔ اب وہ کافی بہتر ہے اور چل پھر سکتی ہے لیکن کہیں بھی جانا ہو تو دونوں چھوٹی بیٹیوں کو ساتھ لے جانا پڑتا ہے، جو اب اس کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ ندا کے لیے گھر بار کی ذمے داریاں اور بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اب خاصا مشکل ہوچکا ہے۔

ماں آخر ماں ہے۔ندا جب اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے تو نامعلوم اور خوفناک اندیشے اس کی آنکھوں پر چھا جاتے ہیں۔ ندا خود ایک حادثے کی وجہ سے گھر بار کی ذمے داریاں سنبھالنے سے قاصر ہے۔ آج ندا کے سر پر چھت تو ہے لیکن فاقوں کی وجہ سے بیٹیاں انتہائی کمزور ہوچکی ہیں۔ بڑی بیٹی دعا کی حالت اس لیے قدرے بہتر ہے کیونکہ اسے ندا نے اپنی والدہ کے گھر فیصل آباد بھیج دیا ہے تاکہ وہ وہاں پڑھ لکھ سکے۔

بچیوں کے غم زدہ والد وسیم نے رندھے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ اس کے باقی بہن بھائیوں کے بچے بالکل ٹھیک ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے بچوں کی یہ حالت قدرت کی طرف سے ہے۔وسیم نے بتایا کہ اس نے اپنے بھائیوں کے مجبور کیے جانے پر گھر چھوڑ دیا تھا اور کرائے کے مکان میں رہنے لگا تھا لیکن پھر ایک سال بعد کرایہ دینے سے بھی قاصر ہوگیا اور واپس آبائی گھر آگیا جو کہ تین مرلے پر مشتمل ہے۔اس کے چھوٹے بھائیوں کا اب بھی مطالبہ ہے کہ گھر سے چلا جائوں۔ بول چال بالکل بند ہے۔وسیم نے بتایا کہ وہ اوپر والے پورشن میں رہتا ہے اور باہر جاتے ہوئے دونوں میاں بیوی نیچے سے اس طرح گذرتے ہیں جیسے کسی اجنبی گلی سے گذر رہے ہوں۔

ہر وقت اسپتالوں کے چکر لگانے کے نتیجے میں اس کی ملازمت ختم ہوگئی جبکہ گھر میں بھی بہن بھائیوں سے تعلقات خراب ہوگئے۔وسیم کے بقول بھائیوں کا کہنا ہے کہ وہ بیوی کو چھوڑ دے لیکن وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوڑ سکتا۔شادی کو نو سال ہوچکے ہیں۔وسیم کا کہنا ہے کہ وہ بھائیوں میں سب سے بڑا ہے لیکن پریشانیوں نے جینا محال کردیا ہے۔آخر جائے تو کہاں جائے۔صرف اللہ اور درد مند لوگوں سے امید ہے کہ وہ اس مصیبت زدہ زندگی میں اس کی کچھ مدد کریں۔ بصورت دیگر زندگی ایک عذاب کے سوا کچھ نہیں۔

اس نے مزید بتایا کہ اس کی ندا سے شادی گھر والوں کی مرضی سے ہوئی تھی اور ندا اس کی دور کی کزن ہے۔اس کی بڑی بیٹی دعا سات سال کی ہے لیکن دل میں سوراخ کے باعث ذرا سا کھیلتی ہے تو اس کا سانس پھول جاتا ہے اور تھک جاتی ہے۔اسے فیصل آباد میں نانی کے گھر رکھا ہوا ہے کہ جہاں وہ اسکول میں پڑھ رہی ہے۔ اس سے چھوٹی خدیجہ چھ سال کی ہے جو پیدا ہوئی تو اس کی سانس نہ چلنے کے برابر تھی۔اس کا آپریشن چلڈرن اسپتال سے کرایا تھا جس سے کم ازکم وہ سانس لینے لگی ہے لیکن دونوں آنکھیں نہ ہونے کے باعث بستر پر لیٹی رہتی ہے۔ فائقہ چار سال کی ہے اوراس کی بھی ایک آنکھ ناکارہ ہے جبکہ دوسری آنکھ سے بھی ٹھیک دکھائی نہیں دیتا۔تینوں معذور بچیوں کو سنبھالنا، ان کا علاج اور گھر چلانا لگ بھگ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

وسیم کا کہنا ہے کہ تینوں بیٹیوں کے دلوں میں سوراخ ہے جس کی وجہ سے ان کی چھاتی میں ہمیشہ انفیکشن رہتا ہے اوران کا معدہ بھی صحیح کام نہیں کرتا۔دونوں آنکھوں سے محروم ریجا عرف خدیجہ کا تو یہ حال ہے کہ دودھ کے علاوہ کچھ کھا پی نہیں سکتی۔وسیم کی اہلیہ ندا نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انھیں کہا تھا کہ وہ مزید بچے نہ پیدا کریں جس پر انھوں نے آپریشن کرالیا ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو تین بیٹیاں اللہ نے عطا کردی ہیں ، ان کو کیسے سنبھالا جائے اور ان کے علاج ، تعلیم اورخوراک کے اخراجات کیسے پورے کیے جائیں؟

دکھیارے والدین نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں درخواستیں دیں، مگر فنڈ نہ ہونے کا کہہ کر آج تک ایک روپے کی امداد نہیں ملی۔ بیت المال اور زکوٰۃ فنڈ سے بھی کوئی پیسہ نہیں ملا۔ وفاقی و صوبائی حکومت سے بڑی امیدیں تھیں۔ لیکن آج تک کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ندا اور اس کے خاوند نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے درخواست کی ہے کہ انھیں آشیانہ اسکیم میں گھر دے دیا جائے اور بچیوں کا علاج کروا دیا جائے۔انھوں نے مخیر حضرات سے بھی مدد کی اپیل کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔