یہ بھی ممکن ہے، وہ بھی ممکن

ایاز خان  منگل 6 ستمبر 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

جمہوریت پسندی اور جمہوریت نوازی آج کل فیشن میں ہے۔ نجی محفلوں میں خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہوں موضوع گفتگو جمہوریت ہی ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک محفل میں کچھ میڈیا والے بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے پر الزام لگایا کہ وہ جمہوریت دشمن ہے۔ جمہوریت دشمنی کے ملزم نے فوراً اپنی صفائی پیش کی اور گویا ہوا۔ ’’مجھ سے زیادہ جمہوریت پسند کون ہو گا؟ مجھے تو پنڈی والے بھی بلائیں تو میں اسلام آباد سے ہو کر جاتا ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں پہلے پنڈی جاؤں اور وہاں سے فارغ ہونے کے بعد اسلام آباد‘‘۔ یہ گفتگو کافی دیر جاری رہی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بالکل اسی طرح جیسے موجودہ سیاسی صورتحال کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔

وزیر اعظم اور ان کی ٹیم ہر حال میں 2018ء تک اقتدار میں رہنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کے حامی ہیں جو پورا زور لگا رہے ہیں کہ اس سال حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور کوئی نیا سیٹ اپ بن جائے۔ میاں صاحب کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ اگر 2018ء کے الیکشن ان کی حکومت نے کرائے تو پھر یہ ممکن نہیں ہے کہ انھیں دوبارہ منتخب ہونے سے روکا جا سکے۔

عمران خان اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر نواز شریف 2018ء تک وزیر اعظم رہے تو پھر وہ خود کو بچانے کے لیے کسی بھی قیمت پر اپنی جیت یقینی بنائیں گے۔ نواز شریف بھی یہی کہتے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں (ن) لیگ پھر کامیاب ہو گی اور 2023ء تک حکومت کرے گی۔ ایک آدھ بار تو وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ 2023ء کے بعد بھی اقتدار میں وہی ہوں گے۔

اقتدار کی اس جنگ میں فی الحال وزیر اعظم نواز شریف کا پلڑا بھای نظر آ رہا ہے۔ وہ بڑے بڑے کرائسز سے با ٓسانی نکل چکے ہیں اور اب بھی ان کے اقتدار کو کسی طرف سے بظاہر کوئی خطرہ نہیں لگ رہا۔ طاہرالقادری کی ایک سے زاید بار اپیلوں کے باوجود آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ طاہرالقادری آرمی چیف کو ان کا وہ وعدہ یاد کراتے ہیں جس میں بقول ان کے یہ کہا گیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے داروں کو سز دلوائی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے وزیر اعظم کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست غیر سنجیدہ قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔

تحریک انصاف کے وکلاء نے البتہ رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ اس سے کم حجم کے سکینڈلز پر از خود کارروائی کر چکی ہے۔ بقول پی ٹی آئی تین وکلا کے تجربے کا نچوڑ یہ اپیل اب سماعت کے لیے منظور ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بہر حال سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ اپیل مسترد ہو گئی تو کہانی ختم اور اگر منظور ہو گئی تو پھر پی ٹی آئی کی تحریک میں خاصی جان پڑ جائے گی۔ پی ٹی آئی کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے بھی کچھ نہیں ملا۔

الٹا یہ ہوا کہ اسپیکر نے نواز شریف کے خلاف شیخ رشید کا ریفرنس مسترد کر دیا لیکن عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نا اہلی کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے۔

یہی نہیں محمود خان اچکزئی کے خلاف ریفرنس بھی مسترد کر دیا گیا۔ حکومتی وزراء عمران خان کو مشورے دیتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے خلاف قانونی جنگ پارلیمنٹ میںلڑیں۔ ان سے کوئی سوال پوچھنا ہے تو وہ بھی پارلیمنٹ کے فلور سے پوچھا جائے۔ لیکن اب عمران خان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ پارلیمنٹ یا کسی اور ادارے سے انھیں انصاف کی توقع نہیں ہے اس لیے وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے میں حق بجانب ہیں۔ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کی نااہلی سے متعلق ریفرنسز پر اگرچہ جواب مانگ رکھا ہے جس کی مہلت آج ختم ہو رہی ہے مگر عمران چونکہ الیکشن کمیشن کو بھی جانبدار قرار دیتے ہیں اس لیے انھیں وہاں سے بھی کچھ ملنے کی امید نہیں ہے۔

تحریک کی بات ہوئی ہے تو ہفتے کو لاہور میں پاکستان مارچ اور راولپنڈی میں طاہرالقادری کے قصاص مارچ اورعوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی استحکام پاکستان ریلی کا بھی تذکرہ ہو جائے۔ عمران خان پاکستان مارچ کا اعلان ہفتوں پہلے کر چکے تھے۔ طاہرالقادری نے ابتدائی طور پر قصاص مارچ کو لیڈ کرنے کی ذمے داری شیخ رشید کو دی تھی مگر جمعہ کو نصف شب سے ذرا بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مارچ کی قیادت کرنے خود پنڈی پہنچ رہے ہیں۔

وہ پنڈی گئے اور انھوں نے ہفتے کی رات اپنے کارکنوں سے بڑا جذباتی خطاب کیا۔ اس طویل اور جذباتی خطاب میں انھوں نے شریف برادران پر سنگین الزام لگائے جن کا جواب وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یہ کہہ کردیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو عدالتوںمیں گھسیٹیں گے۔ حکومت کہتی ہے دونوں ریلیاں ناکام تھیں۔

عوام نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسترد کر دیا۔ ہم حکومت کا یہ دعویٰ تسلیم کر لیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں کے شو فلاپ ہوگئے ہیں تو پھر حکومتی وزراء اور ترجمان کے اعصاب پر یہ دونوں حضرات کیوں سوار ہیں؟ انھیں دھمکیاں کیوں دی جا رہی ہیں۔ عمران آج کراچی میں جلسہ کر کے اپنی پاور شو کرنے جا رہے ہیں۔ اسپیکر کی طرف سے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی وجہ سے ممکن ہے عمران کو فایدہ ہو جائے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے عوام’’مظلوم‘‘ کا ساتھ دیتے ہیں۔ عمران خان کو اگر نا اہل قرار دے دیا جائے تو اس کا انھیں کوئی نقصان نہیں بلکہ فایدہ ہو گا۔

عمران خان اور طاہرالقادری کی تحریک آخری فیز میں داخل ہو رہی ہے۔ ستمبر کا آخری ہفتہ ستمگر ہو سکتا ہے۔ آخری ہفتہ شروع ہونے میں ابھی کافی وقت ہے۔ وطن عزیز میں صورتحال کب تبدیل ہو جائے، کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ آج کے ہیرو کپ زیرو ہو جائیں یا ابھی کے زیرو کب ہیرو بن جائیں اس کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ جمہوریت نواز اس وقت نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حالت تین میں نہ تیرہ میں والی ہے لیکن لگتا ہے اس کے بھی تیور بلدنے والے ہیں۔

آصف علی زرداری نواز شریف سے دوچار قدم دور چلے گئے تو پھر مشکل ہو جائے گی۔ میاں صاحب اور ان کی ٹیم کو اعصاب پر قابو رکھنا ہو گا۔ حکومتی وزراء کہتے ہیں جاتی امراء نواز شریف فیملی کی رہائش گاہ ہے۔ عمران کہتے ہیں یہ وزیر اعظم کا کیمپ آفس ہے۔ سرکاری خرچہ ہو رہا ہے تو عمران کی بات ٹھیک لگتی ہے۔ کپتان نے عید کے بعد 24ستمبر کو جاتی امراء پر احتجاج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تب تک پیپلز پارٹی اپنے اعلان کے مطابق میدان میں نکل آئی تو پھر 2018ء کا الیکشن کافی دور ہو  سکتا ہے۔ شیخ رشید نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان کو مل بیٹھ کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی دعوت دے دی ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا نہ کیا گیا تو بہت نقصان ہو جائے گا۔

سیاسی فضا میں الزامات کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی بھارتی ایجنٹ ہے تو کوئی چور۔ نیک نامی کسی کے حصے میں نہیں آ رہی۔ دیکھتے ہیں آخری فیصلہ سڑکوں پر ہوتا ہے یا کسی بند کمرے میں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم یونہی چلتے چلتے آیندہ الیکشن تک پہنچ جائیں۔ فی الحال تو صورتحال یوں ہے کہ۔۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے اور وہ بھی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔