ابلاغ اور صحافت

شبیر احمد ارمان  پير 5 ستمبر 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

جرنلزم کیا ہے؟ لفظ صحافت صحیفہ سے نکلا ہے جس کے معنی کتاب، رسالہ، جلد یا کاغذ کے صفحے کے ہیں۔ انگریزی میں صحافت کو جرنلزم کہتے ہیں، جو فرانسیسی لفظ Journal سے اخذ کیا گیا ہے، جس کے معنی روزنامچہ، روزنامہ، بہی کھاتہ یا ڈائری کے ہیں، جس میں اخبار اور میگزین وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آج کل اسے پریس بھی کہا جاتا ہے۔ جرنلزم کا مطلب کمیونیکیشن آف انفارمیشن ہے، جس میں روزانہ کے واقعات کو تحریر، آواز اور تصاویر کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ قدیم جرنلزم کا تعلق جرائد سے ہے، جس سے مراد باقاعدہ وقفوں سے شایع ہونے والا مواد ہے۔ جس میں عام لوگوں کی دلچپسی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جرنلزم سے مراد صحیح اور سچائی پر مبنی معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہوتا ہے۔

ابلاغ کیا ہے؟ سادہ لفظوں میں ابلاغ اسے کہتے ہیں کہ ایک انسان اپنی بات دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے، جسے باہمی رابطہ بھی کہتے ہیں۔ زبان باہمی رابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ابلاغ انسان کی انفرادی ضرورت بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ یہ انسانی معاشرے کی بقا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر مادی ضرویات ہیں۔ ابلاغ جس کا انگریزی ترجمہ کمیونیکیشن ہے، جو لاطینی لفظ کمیونیس Communis سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی اشتراک پیدا کرنے کے ہیں۔ ابلاغ کا آسان مطلب ایک اطلاع یا پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے۔

ابلاغ کی اہمیت: ابلاغ انسانی زندگی کے وجود کی دلیل ہے۔ اور یہ عمل دن رات جاری رہتا ہے۔ حیوانی اور انسانی زندگی میں ابلاغ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ ابلاغ زبان کے ذریعے ہو، چہرے کے تاثرات سے ہو، علامتوں کے ذریعے ہو، یا پھر اشاروں کے ذریعے سے، یہ زندہ رہنے کی دلیل ہے۔

ابلاغ عام کے ذرایع: اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، فلم، کتب، پمفلٹ، پوسٹر، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، یہ سب ابلاغ عام کے ذرایع ہیں۔

صحافت کی اہمیت اور ذمے داری: موجودہ دور جسے معلومات کا دور کہا جاتا ہے، اس میں صحافت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اب صحافت کو ملک کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ صحافت رائے عامہ کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے ذریعے ہر روز لوگوں کو معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ انھیں پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھا جاتا ہے۔ صحافت سے لوگوں کو رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ قومی یکجہتی اور ترقی میں بھی صحافت کا کردار مسلمہ ہے۔ اسے لوگوں کی تعلیم و تربیت میں بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ موجودہ دور میں اخبارات میں صرف خبریں ہی نہیں ہوتیں بلکہ کالمز، فیچرز، تجزیے اور تبصرے بھی ہوتے ہیں۔ اب تو اخبارات کو تعلیمی ادارے جیسی حیثیت حاصل ہے۔ ہر قاری اپنی پسند اور دلچپسی کی چیزیں پڑھ سکتا ہے۔ صحافت کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔

صحافت ایک قوت ہے، یہ فائدہ بھی دے سکتی ہے اور نقصان بھی۔ اگر یہ صحیح طریقے سے چلائی جائے تو رائے عامہ کی رہنمائی اور ہدایت کا فرض انجام دے سکتی ہے۔ صحافت کے تین واضح مقاصد ہیں۔ ٭ قومی ترقی اور فلاح، ٭ قوم کی رہنمائی، ٭ رائے عامہ ہموار کرنا۔ موجودہ دور میں صحافت کے چار بڑے مقاصد ہیں ٭ لوگوں تک معلومات پہنچانا، ٭ تفریح فراہم کرنا، ٭ تعلیم دینا، ٭ رہنمائی کرنا۔ موجودہ دور میں صحافت پر بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لوگوں کی صحیح رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ ان تک سچی اور صحیح معلومات پہنچائی جائیں۔ اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی حدود کے اندر لوگوں کو بامقصد تفریح فراہم کی جائے۔ ملک و ملت کی سلامتی اور ترقی کے لیے اس کا بڑا مثبت کردار ہونا ضروری ہے۔

خبر کیا ہے؟ سب صحافی اس بات پر متفق ہیں کہ معمول سے ہٹ کر کوئی واقعہ ہو تو وہ خبر ہے۔ مثال کے طور پر تمام لوگ معمول سے کام کررہے ہیں تو یہ خبر نہیں ہے، اگر اساتذہ اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کردیں یا کسان ہل، ٹریکٹر چلانا چھوڑ دے، فصل نہ اگائے، تو یہ غیر معمولی واقعات ہیں اور خبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ بہت سے صحافیوں اور اساتذہ صحافت نے خبر کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ ٭ انگریزی میں خبر کو News کہتے ہیں اور یہ لفظ New سے بنا ہے جس کے معنی جدید یا تازہ کے ہیں۔

٭ نئی اطلاع، تازہ واقعا ت کی رپورٹ۔ ٭ خبر ایسے واقعات کا بیان ہے جس کو لکھنے اور شایع کرنے میں ایک اعلیٰ پائے کا صحافی اطمینان محسوس کرے۔ ٭ خبر دراصل غیر متوقع کا مترادف ہے۔ ٭ ہر وہ چیز خبر ہے جو غیر معمولی اور انوکھی ہو۔ ٭ خبر وہ رپورٹ ہوتی ہے جو اس سے پہلے عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی، یہ رپورٹ بنی نوع انسان کی ایسی سرگرمیوں سے متعلق ہوتی ہے جو قارئین یا سامعین کے لیے دلچپسی، تفریح طبع یا معلومات کا موجب ہوتی ہے۔ ٭ خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں۔ ٭ اگر کتا آدمی کو کاٹ کھائے تو یہ خبر نہیں، اور اگر آدمی کتے کو کاٹ کھائے تو یہ خبر ہے۔

ان تمام تعریفوں اور روزنامہ اخبارات میں چھپنے والی خبروں کو مدنظر رکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان تمام کا مقصد کسی نئی چیز کے بارے میں معروضی انداز میں اطلاع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اخبارات کے درمیان نظریاتی اختلافات کے باوجود ہمیں ایک جیسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں اور پھر ان کی سرخیاں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں، چونکہ صحافی کسی بھی واقعے کو جس طرح ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس کی رپورٹ اسی طرح چھاپ دیتے ہیں۔ اس میں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک صحافی کسی واقعے کو ڈرامائی رنگ دیتا ہے، کوئی نہیں دیتا۔ لیکن اصل واقعات اسی طرح رہتے ہیں۔ اس ساری بحث کی روشنی میں ہم خبر کی تعریف یوں کرسکتے ہیں کہ خبر کسی واقعے کا معروضی انداز میں بیان ہے، جس کے بارے میں لوگ نہ جانتے ہوں، اس میں ان کے لیے دلچسپی، تعلیم اور رہنمائی بھی ہو۔

خبر کی ہیئت: ہر چیز کی تحریر کا انداز اور طریقہ کار کی وجہ سے ہم پہچان کرسکتے ہیں کہ یہ تحریر خبر، فیچر، مضمون، کالم، ناول، نظم یا غزل ہے۔ خبر لکھتے وقت اس کی مخصوص ہیئت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ تکنیکی اعتبار سے تو خبر کے دو حصے ہوتے ہیں ایک ابتدائیہ (انٹرو) اور دوسرا متن (باڈی)۔ کسی بھی جرنلسٹ کو خبر لکھنے سے پہلے ڈیٹ لائن دینی چاہیے یعنی اس لائن میں یہ بتایا جائے کہ یہ خبر کس شہر، کس تاریخ اور کون سے ذریعے سے دی جا رہی ہے۔ ڈیٹ لائن لکھنے کے بعد خبر کا ابتدائیہ لکھا جاتا ہے اور پھر متن لکھا جاتا ہے۔

عام تحریر اور خبر کی تحریر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ عام تحریر میں بیانیہ انداز اختیار کیا جاتا ہے اور کسی واقعے کو اسی ترتیب سے دیا جاتا ہے جس ترتیب سے وہ رونما ہوئے ہوں۔ لیکن خبر میں واقعات کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے تحریر کیا جاتا ہے۔ خبر کو لکھنے کے لیے عام طور پر دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ٭ الٹی تکون۔ ٭ ترمیم یافتہ مثلث معکوس۔ پہلے طریقے میں کسی بھی واقعے کے اہم حصے سے کم اہم حصے کی طرف جایا جاتا ہے۔ اہم واقعات سے کم اہم کی طرف جاتے ہوئے واقعات کی تاریخی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ عام طور پر زیادہ تر خبریں اسی انداز میں لکھی جاتی ہیں کیوں کہ یہ قدرتی امر ہے کہ جب کوئی واقعہ سنایا جاتا ہے تو پہلے اس کی انتہا کا بتایا جاتا ہے۔ جب کہ دوسرے طریقے میں عروج پہلے دے دیا جاتا ہے اور پھر تاریخی اور بیانی انداز میں باقی خبر لکھی جاتی ہے۔

خبر کی زبان: خبر لکھتے وقت یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ تحریر کی زبان آسان اور مختصر ہو۔ خبر کی زبان میں کوئی اسلوب نہیں ہوتا اور نہ ہی خبر لکھنے کے لیے زبان پر زیادہ عبور کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام تحریر میں تکرار اور تشبیہات حسن پیدا کرتی ہیں لیکن خبر میں تکرار وغیرہ سے احتراز کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔