اندھی تقلید

ندیم جاوید عثمانی  ہفتہ 10 ستمبر 2016
میرا یہ اندھا اعتماد مجھے ایک گہری کھائی میں دھکیل چکا تھا، اور میں اپنے اس رہنما کو کوس بھی نہیں سکتا تھا کہ بہرحال اس کھائی میں کودا تو میں اپنی ہی مرضی سے تھا۔

میرا یہ اندھا اعتماد مجھے ایک گہری کھائی میں دھکیل چکا تھا، اور میں اپنے اس رہنما کو کوس بھی نہیں سکتا تھا کہ بہرحال اس کھائی میں کودا تو میں اپنی ہی مرضی سے تھا۔

مجھے اپنے ساتھیوں سے بچھڑے ہوئے تقریباً 3 گھنٹے ہونے والے تھے اور جنگل میں آہستہ آہستہ پھیلتے ہوئے اس اندھیرے کو دیکھ کر میں اُس وقت کو کوس رہا تھا جب میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار پر جانے کے پروگرام میں صرف تفریح لینے کی غرض سے ان کے ساتھ چلا آیا تھا، لہذا جنگل میں شکار سے زیادہ میری دلچسپی تصویریں لینے میں تھی، اور اسی سبب اُن سے جدا بھی ہوگیا۔

اب میری تمام تر قوت اس جنگل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنے میں لگی ہوئی تھی مگر کوئی راہ تھی کہ سجھائی ہی نہیں دے رہی تھی۔ نجانے کتنی بار میں ایک جگہ سے گھوم پھر کر واپس اُسی جگہ آکر کھڑا ہوجاتا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی جہاں وقت اپنی نہیں میری اوقات بتا رہا تھا۔ بہرحال مجھے وقت دیکھ کر اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر میں تھوڑی دیر اور اس جنگل سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا تو؟ اور اس ’’تو‘‘ کے آگے سوچنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔

ابھی میرا ذہن کسی نئی راہ کو کھوجنے کی الجھن میں لگا ہوا تھا کہ اچانک مجھے کہیں قریب سے پتوں کے چرچرانے کی آواز آئی اور میری زباں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا جیسے جیسے یہ آواز قریب آرہی تھی میری نگاہ چھپنے کے لئے اردگرد کے گھنے درختوں کا جائزہ لے رہی تھی لیکن قبل اس کے کہ میں کسی درخت پر چڑھتا دوسری جانب سے میلے کچیلے کپڑوں میں ایک کمزور سا شخص آتا دکھائی دیا، اور میں جسے گزشتہ 3 گھنٹے اس جنگل میں بھٹکتے ہوئے یہ لگنے لگا تھا کہ میرے علاوہ اس زمین پر کسی دوسرے شخص کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے، ان حالات میں اس شخص کو دیکھ کر خوشی سے میری یہ حالت ہوئی کہ میں دوڑ کر اس شخص سے لپٹ گیا حالانکہ اس طرح کے حلیے والا شخص مجھے عام حالات میں کہیں ملا ہوتا تومیری رعونت کا یہ عالم تھا کہ میں اُسے اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا، لیکن اس وقت تو اس کا میلا کچیلا لباس مجھے کسی بادشاہ کے زرق برق لباس سے کم نہیں دکھائی دے رہا تھا اور رہا اس کا وہ کمزور سا جسم تو وہ مجھے اس وقت اس جنگل کا سب سے مضبوط جسم دکھائی دے رہا تھا۔

جس تیزی سے وہ ایک سمت سے دوسری سمت میں قدم اٹھا رہا تھا مجھے یہ یقین ہوچلا تھا کہ وہ اس جنگل کے راستوں سے بخوبی واقف ہے، لیکن میرے اس جوش کی آگ اس وقت سرد پڑگئی جب میں نے اس سے جنگل سے باہر نکلنے کا راستے پوچھا اور اس نے حیرت زدہ سی نظروں سے میری جانب یوں دیکھا جیسے اس کے سامنے کسی اور جہان کی مخلوق کھڑی ہو، اور جب وہ ایک انجان زبان میں مخاطب ہوا تو بالکل اس کے جیسے تاثرات یقیناً میرے چہرے پر بھی رہے ہونگے کہ جیسے اُس کے سامنے بھی کسی دوسرے جہاں کی مخلوق سامنے کھڑی ہو۔ اس کی زبان سے نکلنے والا کوئی ایک بھی لفظ میرے پلے نہیں پڑھا اور اب یہ حالت تھی کہ جو میں پوچھ رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا اور جو وہ کہہ رہا تھا وہ میرے سر سے گزر رہا تھا، اور میری اس کیفیت سے بے زار ہوکر اس نے مجھ پر مزید وقت برباد کرنے کے بجائے میرا ہاتھ جھٹکا اور سامنے کی جانب عجلت میں قدم بڑھائے۔

میں اس کے رویے پر حیرت زدہ وہیں کھڑا رہ گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں وہ کافی قدم آگے نکل گیا اور اُس کو یوں دور جاتا دیکھ کر میں نے اُس کے رویے پر لعنت بھیجی اور سوچا کہ یہ اس وقت جنگل سے باہر نکل رہا ہے اور جنگل سے باہر نکلنے کا خیال آتے ہی میرے لئے باقی تمام سوچیں بے معنی تھیں، اور ابھی تھوڑی دیر قبل اس شخص نے جس طرح میرا ہاتھ جھٹک کر اپنی راہ لی تھی، اس سے میں نے یہ نیتجہ اخذ کیا کہ اس جنگل کا ماحول اور نا آشنا زبان کے باعث ہوسکتا ہے کہیں یہ شخص مجھے اپنے لئے کوئی خطرہ سمجھ رہا ہو، لہذا میں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ چپ چاپ کچھ فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے پیچھے چل کر اس جنگل کےعذاب سے جان چھڑاؤں۔

اس شخص کے پیچھے پیچھے خود کو یوں چلتے دیکھ کر میرے ہونٹوں پر اس پریشان صورتحال میں مجھے کچھ کچھ سمجھ آگیا تھا کہ مجبوریاں کس طرح ایک ایسے شخص کے پیچھے اندھوں کی طرح چلنے پر مجبور کر دیتی ہیں جس کا خود آپ کو علم نہیں ہوتا کہ اس رہنما کی خود اپنی منزل کہاں ہے؟

کافی دور چلنے کے بعد وہ شخص ایک جگہ جاکر رک گیا تو ایک درخت کی آڑ لے کر میں بھی رک گیا۔ ہم دونوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا اوپر سے اندھیرا بھی اب اچھا خاصہ پھیل چکا تھا تو میں اتنا ہی اندازہ کرسکا کہ وہ کسی کنارے جیسی جگہ پر رکا ہے اور اس تمام تر ماحول اور اس شخص کو اس طرح رک کر دیکھ کر مجھے فلموں میں دیکھے ہوئے وہ تمام مناظر یاد آگئے جس میں بالکل اسی طرح کوئی شخص کسی اونچائی یا پہاڑ سے اترنے کو کسی ڈھلوان کا سہارا لیتا ہے اور گھاس پر پھسلتا ہوا دوسری جانب اتر جاتا ہے۔

یہ خیال آتے ہی میری آنکھیں یہ سوچ کر خوشی سے چمک اٹھیں کہ اب میں اپنی منزل سے بس چند قدم کے فاصلے پر ہوں بس میرے اس رہنما کی دوسری جانب اترنے کی دیر ہے کہ میں بھی اس کے پیچھے نرم نرم سی گھاس پر تیرتا ہوا دوسری جانب اتر جاؤنگا۔ اب میری نظریں اس شخص کی پشت پر گڑی ہوئی تھیں جو ابھی وہیں کھڑا شاید کچھ سوچ رہا تھا، مگر کیا؟ اور کیوں؟ لیکن ابھی میں اس پر مزید کچھ سوچتا کہ اس سے قبل ہی اس شخص نے اپنے جسم کو ہلکا سا جھکاؤ دیا اور دوسری طرف غائب ہوگیا۔

میرے پورے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی اور میں نے بھی خوشی میں اپنے اس رہنما کے لئے زور دار نعرہ لگاتے ہوئے اس جانب دوڑ لگا کر اس جانب چھلانگ لگا دی جہاں ابھی چند لمحے قبل وہ اترا تھا اور اب میرا جسم بس کسی نرم گرم گھاس سے رگڑ کھانے کا منتظر تھا، مگر یہ کیا؟ میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی تو ہلکے ہلکے نمودار ہوتے ستارے مجھ سے کہیں دور ہوتے جارہے تھے اور میرا جھولتا ہوا جسم نیچے کی جانب جارہا تھا۔ اُف میرے خدا! میرا یہ اندھا اعتماد مجھے ایک گہری کھائی میں دھکیل چکا تھا، اور میں اپنے اس رہنما کو کوس بھی نہیں سکتا تھا کہ بہرحال اس کھائی میں کودا تو میں اپنی ہی مرضی سے تھا۔

دوسرے دن قریبی گاؤں میں کہرام مچا ہوا تھا کہ رمضان نے اپنی غربت سے تنگ آکر جنگل والی کھائی میں کود کر خود کشی کرلی جبکہ گاؤں والے رمضان کی لاش کے ساتھ ملنے والی ایک اجنبی کی لاش کو دیکھ کر یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس شخص کی خود کشی کی کیا وجہ رہی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔