مسائل میں گھری دنیا اورہم

مقتدا منصور  بدھ 7 ستمبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس کرہ ارض کو جتنا نقصان اس پر موجود نسل انسانی نے پہنچایا ہے۔ کسی اور ذی حیات کی جانب سے نہیں پہنچا، کیونکہ دیگر ذی حیات نفع یا نقصان پہنچانے کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ اسی طرح انسانوں نے انسانوں کو جتنا مارا ہے، شاید ہی کسی دوسرے ذی حیات نے اپنی نسل کی جان لی ہو۔ کہتے ہیں کہ ناگ اپنے سنپولیوں کو کھا جاتا ہے جو بچ جاتے ہیں، انھی سے سانپوں کی مختلف نسلیں چل رہی ہیں، جب کہ انسان نے اپنی ہی نسل کشی میں سانپوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ انسان نے اپنے شعور کو آگہی سے جہاں اس دھرتی کو رونقیں بخشیں، اس کے حسن میں چار چاند لگائے وہیں اس کی تباہی کا بندوبست بھی کیا بلکہ زیادہ شدومد کے ساتھ کیا۔ آج یہ کرہ ارض جن مسائل و مشکلات میں گھرا ہوا ہے، وہ کسی اور کے نہیں خود انسانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اب یہ انسانوں پر ہی منحصر ہے کہ وہ اس کرہ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بناتے ہیں یا اپنی حرکتوں سے اسے مزید تباہی سے دورکردیتے ہیں۔

کرہ ارض آج جن چند انتہائی سنگین قسم کے مسائل یا بحرانوں میں گھر چکا ہے، ان کا ادراک اس دھرتی پر آباد انسانوں کی اکثریت کو نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے جو حلقے ان مسائل کی شدت اور سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے، اس بارے میں مسلسل آگہی دے رہے ہیں ان کی تنبیہ کو خود ان کے اپنے ممالک کی مقتدر اشرافیہ اور سیاسی قیادتیں کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان مسائل کو ابھی تک ترجیحی بنیادوں پر ملکی اور عالمی سطح پر کسی ٹھوس ایجنڈے کی شکل نہیں دی جا سکی ہے حالانکہ اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی فورموں پر ان مسائل کی بازگشت زیادہ شدومد کے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔

وہ مسائل جو اس وقت کرہ ارض کے وجود اور اس کے مستقبل کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں، ان میں چند بہت زیادہ حساس اور سنگین ہیں۔اول، کرہ ارض پر آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ۔ دوئم، تیزی سے پھیلتی ماحولیاتی آلودگی۔ جس کے نتیجے میں کرہ ارض پر موسمیاتی تغیرات پیدا ہورہے ہیں اور مجموعی درجہ حرارت یا گرمائش (Global Warming) میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوئم، غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات۔ چہارم، دہشت گردی کی عفریت اور اس کے نسل انسانی کی بقا پر مرتب ہونے والے اثرات۔پنجم، جوہری مواد کے دہشت گروں کے ہتھے چڑھ  جانے کے شدید حقیقی خطرات ہیں جو پورے کرہ ارض کی مکمل تباہی کا سبب بن سکتے ہیں ۔

آئیے! یکے بعد دیگرے ان مسائل کا اجمالی جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے کرہ ارض پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر بات کرتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 1825میں دنیا کی کل آبادی ایک ارب تھی۔ نئی صدی کے آغاز(1900میں) پر دو ارب ہوگئی۔ گویا75 برس میں آبادی دوگنی ہوگئی، جب کہ اگلے 100برس بعد یعنی اکیسوی صدی کے آغاز پر دنیا کی آبادی 6 ارب تک جا پہنچی حالانکہ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں بھی ہوئیں، جن میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہوئے۔

آبادی میں تیز رفتار اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ16برسوں کے دوران مزید ایک ارب اضافے کے ساتھ کرہ ارض پر انسانوں کی تعداد7ارب تک پہنچ چکی ہے۔ ماہر مستقبلیات پال کینیڈی کا کہنا ہے کہ آبادی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب پر اگر قابو نہیں پایا گیا، تو 2050 تک کرہ ارض پر انسانوں کی کل تعداد 14.5ارب ہوجانے کے خدشات ہیں۔ آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ دنیا کے پسماندہ خطوں میں ہورہا ہے۔ جن میں میکسیکو، وسطی و مغربی افریقی ممالک اور جنوبی ایشیا شامل ہے۔

دوسرا انتہائی سنگین خطرہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے کئی اسباب ہیں، لیکن سبھی اسباب انسان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ پہلا سبب صنعتوں کی چمنیوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے، جس کے ساتھ بڑی تعداد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ کے علاوہ کاربن کے ذرات فضا میں پھیل کر کرہ ارض کے اطراف پھیلی اوزون(O3) کی تہہ کو متاثر کررہے ہیں۔ اوزون ایک طرح کا فلٹر ہے، جو سورج اور دیگر سیاروں سے آنے والی شعاعوں کو چھان کر ہم تک پہنچاتا ہے۔ اس تہہ کے کمزور پڑجانے کے سبب کرہ ارض کے ایک طرف درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے۔

دوسری طرف زہریلی شعاعیں زمین کی زرخیزی کو متاثر کررہی ہیں۔ دوسرا سبب جنگلات کا کاٹا جانا (Deforestation)ہے، جس کی وجہ سے موسمیاتی توازن بگڑ رہا ہے اور موسمیاتی تغیرات ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ یعنی کہیں خوفناک حد تک تیزبارشیں، کہیں سالوں پر محیط طویل خشک سالی ۔ تیسرا سبب جوہری فضلہ ہے، جو ختم نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی صورت اس کرہ ارض کے ماحول کو پراگندہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ پھر روزانہ ٹنوں کی تعداد میں پیدا ہونے والے کیمیکلز، صنعتی فضلہ اور گھریلو کچرا ہے، جو ندیوں اورنالوں میں بہایا جاتا ہے جس سے حیات کا پورا سرکل (آبی اور زرعی حیات دونوں) متاثر ہورہا ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ایک طرف آبادی کا بم شیل ہے، جو کرہ ارض پر نئے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری طرف فضائی آلودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والاموسمیاتی تغیر اورعالمگیر گرمائش (Global Warming)میں ہونے والا اضافہ ہے۔ گویا آبادی میں اضافہ خوراک میں اضافہ چاہتا ہے، جب کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے زمین کی زرخیزی کم ہورہی ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے لیکن ساتھ ہی شدید بارشیں کھڑی فصلیں تباہ کررہی ہیں۔ اس طرح غذائی اجناس دو طرح سے کم ہورہی ہیں اور دنیا خوراک کے نئے بحران کا شکار ہورہی ہے۔

جب آبادی میں اس تیزی سے اضافہ نہیں ہوا تھا اور موسمیاتی تغیرات کے باعث زرعی پیداوار متاثر نہیں ہوئی تھیں، اس زمانے میں بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھوک اور کم خوراکی کا شکار تھا۔ اب جب کہ غذائی قلت ایک حقیقی بحرانی شکل اختیار کرنے جارہی ہے، آنے والے برسوں میں اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ یہ سوچ کر ہی خوف آرہا ہے۔

چوتھا اور پانچواں مسئلہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی کی عفریت کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے عقیدے کی راسخیت کے نام پر انسانوں کی نسل کشی کا باعث رہی ہے، لیکن بیسویں صدی میں یہ مظہر ایک نئی منظم شکل میں سامنے لایا گیا۔ اس صدی کے دوران سرمایہ دار دنیا نے کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں مذہب کو جس جذباتی انداز میں استعمال کیا، اس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد خود سرمایہ دار دنیا کے لیے نئے مسائل پیدا کردیے،جو وقت گذرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ شدت پسند عناصر جنھیں عالمی سطح پر ناپسندیدہ قرار دے کر ان کے خلاف ظاہری طور پر کارروائیاں کی جارہی ہیں، لیکن مغرب کے بعض ترقی یافتہ ممالک ان عناصر کی پس پردہ سرپرستی بھی کررہے ہیں۔

شدت پسند تنظیموں کا نیٹ ورک بالخصوص مسلم دنیا میں بڑھتا ہوا اثر و نفوذ عالمی سطح پر ایک نئے تصادم کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے، اگر ان عناصر کے ہاتھ غیر محفوظ جوہری مواد لگ جاتا ہے، تو وہ یقینی طور پر اس دنیا کو اپنی جنون پرستی کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں اس کرہ ارض کا مکمل طور پر تباہ ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔یہ طے ہے کہ جو عناصر محض فکری نرگسیت کے سحر میں  چوکوں، چوراہوں، بازاروں اور عوامی مراکز میں بے گناہ لوگوں کی زندگیاں چھین رہے ہیں۔ ان سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال نہیں کریں گے۔

اس پوری صورتحال کے تناظر میں اگر یہ کہوں کہ میں نہ تو حکومتوں کا وکیل استغاثہ ہوں اور نہ ہی حکومت مخالف حلقوں کا وکیل صفائی۔ بلکہ سیاست وصحافت اور تاریخ کے ایک انتہائی ادنیٰ طالب علم کے طور پر جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں،اسے اپنی علمی اور فکری استعداد کے مطابق سینہ قرطاس پر منتقل کردیتا ہوں۔ تو شاید غلط نہ ہوگا۔ میں اپنی فکر اورسوچ کے اعتبار ہی سے نہیں، بلکہ عملی اورشعوری طور پر بھی اکیسویں صدی میں رہتا ہوں۔ لہٰذا میرے لیے حکمرانی سے زیادہ وہ مسائل پریشانی کا باعث ہیں، جو اس کرہ ارض کے مستقبل کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔

اس لیے قارئین سے میری مؤدبانہ گذارش ہے کہ وہ اچھی حکمرانی ، ادبی و ثقافتی ورثے کے تحفظ اور بہتر زندگی کی ضرور خواہش کریں۔ لیکن ساتھ ہی اس کرہ ارض کو درپیش ان حقیقی مسائل کو بھی سمجھنے اور ان کے حل کی کوششوں کا حصہ بنیں، جو عالمی سطح پر متوشش تنظیمیں اور افراد کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ جب کرہ ارض ہی تباہ ہوجائے گا توکہاں کی حکمرانی اورکہاں  کی ثقافت، کچھ بھی باقی نہ بچ پائے گا۔ اس لیے اس کرہ ارض کو بچانے کی کوششوں کا حصہ بن کر نسل انسانی کو بچانے میںہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔