ہمیشہ مثبت سوچیں

عابد محمود عزام  بدھ 7 ستمبر 2016

انسانی فطرت مختلف قسم کے رویوں کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ منفی بات میں سے بھی مثبت پہلو نکالنے کا رویہ اپناتے ہیں، جب کہ کچھ کا رویہ مثبت بات میں سے بھی منفی پہلو کشیدکر لیتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ زندگی کے تمام حالات کو بھر پور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں، جب کہ دوسری قسم کے لوگ بڑی بڑی خوشیوں سے بھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ برستی بارش کے قطرے سیپ اور سانپ دونوں کے منہ پرگرتے ہیں، لیکن سیپ اس قطرے کو موتی اور سانپ زہر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ مثبت اور منفی سوچ کا ہے۔

یہ انسان کی اپنی مرضی و منشا پر منحصر ہے کہ وہ منفی روش کے دھارے میں بہہ کر اپنے اور دوسروں کے لیے پریشانی اور مایوسی کا سامان کرتا ہے یا پھر مثبت روی کا دامن تھا م کر خوشی و امید کے دیپ جلاتا ہے۔ ہر چیز کا آغاز سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر سوچ اچھی ہے تو اس کا نتیجہ بھی اچھا ہی برآمد ہو گا اور اگر سوچ اچھی نہیں ہے تو اس کا نتیجہ اچھا برآمد نہیں ہوتا۔ منفی سوچ کا حامل شخص معاشرے میں مایوسی کو جنم دیتا ہے اور خود مسائل میں الجھتا چلا جاتا ہے، جب کہ مثبت سوچ کا حامل انسان معاشرے کے لیے امیدکی کرن ہوتا ہے، جو مسائل کو سلجھاتا بھی ہے اور ان ہی مسائل میں رہ کر نئی راہیں بھی تلاش کر لیتا ہے، وہ معاشرے میں موجود برائی کو ختم کرنے اور مثبت تبدیلی لانے کے لیے اپنے حصے کی شمع جلانے پر یقین رکھتا۔ مثبت سوچ انسان کی شخصیت، صحت، تخلیقی صلاحیت اور جرات پر تعمیری اثرات مرتب کرتی ہے۔

اس کی ذہنی صحت کو بہتر بناتی اور اس کی کارکردگی کو عروج پر لے جاتی ہے۔ انسان کی سوچ جتنی زیادہ مثبت ہو گی، اس کی زندگی اتنی ہی زیادہ خوشگوار ہو گی۔ منفی سوچ کا اثر بالکل الٹ ہوتا ہے۔ منفی سوچ کی وجہ سے انسان گھٹن اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور یہ سوچ ایسی چبھن بن جاتی ہے کہ انسان خوشی کے موقعے پر بھی اپنی خوشی سے بھر پور لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔

انسان کو اپنی سوچ پر ہر وقت قابو رکھنا چاہیے، کیونکہ یہ سوچ ہی حقیقت کو جنم دیتی ہے۔ ہماری زندگی میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا جبتک کہ ہم خود اپنے سوچنے کا انداز نہیں بدلتے۔ اگر ہم میں منفی جذبات پائے جاتے ہیں تو ہم اسی تناسب سے کامیابی حاصل کریں گے اور اگر ہماری سوچ مثبت ہے اور ہم محبت، خوشی، صحت، خوشحالی اور دوسروں کے ساتھ تعاون کے متعلق سوچتے ہیں تو ہماری زندگی میں بھی ہر طرف خوشیاں اور کامیابیاں ہوں گی۔ ہم اپنے اندر اگر مثبت خیالات رکھتے ہیں تو ہمارے اعمال اور ان کے نتائج بھی مثبت ہوں گے۔

زندگی کو خوش گزارنے کے لیے مثبت سوچ رکھنا لازم ہے، اگر منفی سوچ رکھیں گے تو ہمیشہ پریشان ہی رہیں گے۔ ونسنٹ پیلے (VINCENT PEALE) نے اپنی مشہور زمانہ کتاب (The Power Of Positive Thinking) ’’مثبت سوچ کی طاقت‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن کسی شخص کا فون آیا جو روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ وہ مایوسیوں کے اندھیرے میں کھو چکا ہے۔ اب اْس کے پاس جینے کوئی جواز نہیں۔ اْسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کرے۔ ونسنٹ پیلے نے اْسے اپنے دفتر آنے کا کہا۔ اگلے دن وہ پیلے کے دفتر میں موجود تھا۔ ملاقات کی ابتدا میں وہ شخص مایوسی والی باتیں کرنے لگا۔ ونسنٹ پیلے نے اْسے کہا کہ مل کر تمہارے حالات کا مفصل جائزہ لیتے ہیں، تاکہ اندازہ ہو کہ تمہارے مسائل کیا ہیں اور اْن کا حل کیا ہے۔

یہ کہہ کر ونسنٹ پیلے نے ایک سادہ کاغذ لیا، جس پر درمیان میں ایک عمودی لکیر لگائی اور وہ کاغذ اْس شخص کے سامنے رکھ دیا اور کہا اب میں تم سے بہت سی باتیں پوچھوں گا۔ وہ باتیں اگر تمہاری زندگی میں مثبت ہیں تو اْنہیں کاغذ پر دائیں طرف لکھنا ہے اور جو منفی ہیں، انھیں بائیں طرف لکھنا ہے اور اگر آپ کی زندگی میں کچھ بھی مثبت نہیں ہے تو اْپ کو لکیر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ونسنٹ پیلے نے کہا کہ وہ جیسے پوچھے اور جو پوچھے فقط اْس کا جواب دیا جائے۔ اْس شخص نے جواب دیا، ٹھیک ہے آپ پوچھیں۔

ونسنٹ پیلے نے پہلا سوال کیا۔ ’’آپ کی بیوی آپ کو چھوڑ کرکب گئی؟ وہ شخص یکدم تلملا اْٹھا۔ میری بیوی مجھے چھوڑ کر کیوں جائے گی؟ وہ میرے ساتھ ہے اور مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ بہت خوب، بہت خوب یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ یہ سب باتیں آپ کاغذ کے دائیں طرف لکھیں۔ اْس شخص نے وہ ساری باتیں کاغذ کے دائیں جانب لکھ لیں تو ونسنٹ پیلے نے دوسرا سوال کیا۔ آپ کے بیٹوں کو جیل کب ہوئی؟ یہ سن کر اْس شخص کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ اْنہیں جیل کیوں ہو گی؟ میرے بیٹے انتہائی مہذب شہری ہیں۔ قانون کا احترام کرتے ہیں۔

’’یہ تو اور بھی بہت اچھا ہے۔‘‘ ونسنٹ پیلے نے مسکرا کر کہا۔ اب بچوں کے بارے میں کی گئی باتیں ترتیب سے دائیں کالم میں لکھ دیں۔ اْس کے بعد ونسنٹ پیلے نے ایسے بہت سے چبھتے ہوئے سوال کیے اور اْن کے مثبت جوابات دائیں کالم میں لکھواتا رہا۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا۔ اس طرح بہت سے صفحات بھر گئے، مگر صرف دایاں کالم بھرا تھا۔ بائیں کالم میں ابھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا۔ اتنے سوالوں کے بعد اْس شخص کو سمجھ آ چکی تھی کہ قصور حالات کا نہیں، اْس کی اپنی منفی سوچ کا ہے۔ اس سے پہلے کہ ونسنٹ پیلے کچھ کہتا وہ شخص خود ہی مسکرا نے لگا اور کہنے لگا: ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ سوچ کا انداز اگر مثبت ہو تو آپ کو ہر چیز بہتر نظر آتی ہے۔‘‘ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت کسی بھی چیزکے منفی پہلو کو زیادہ ڈسکس کرتی ہے۔

حکومت سے لے کر اپنے محلے کے کسی فرد تک کی صرف منفی باتوں کو اجاگر کیا جاتا اور ان پر تنقیدکی جاتی ہے۔ کسی کی ننانوے اچھی باتوں کو چھوڑ کر صرف ایک بری بات کو ہی اچھالا جاتا ہے، حالانکہ اگر کسی کی بری بات پر تنقید کرنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے تو اچھائی پر اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ منفی سوچ ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکن ہوں یا کسی مسلک و فرقے کے افراد کوئی اپنے مخالف کی کسی اچھی بات کی تعریف نہیں کرتا، ہاں اگر ان کی کوئی بری بات نظر آ جائے تو اس کا واویلا کرنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ یہی منفی سوچ ہے جو معاشرے میں مایوسی کو جنم دیتی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔مثبت طرز فکر وعمل کا انجام کامیابی اور منفی کا انجام ناکامی ہے۔

زندگی میں مثبت سوچ اعلیٰ اخلاقی کردار کو تخلیق کرتی، منزل تک رسائی آسان بناتی، مال میں برکت لاتی، اولاد کو صالح بناتی، کامیابیاں سمیٹتی اور مادی فلاح و بہبود کا باعث بنتی ہے۔ دوسری جانب منفی رویہ ہے جو انسان کو ذہنی مریض بناتا، مایوسی پیدا کرتا، حسد و جلن کے الاؤ جلاتا اور رشتوں میں تفریق کراتا ہے۔ مثبت سوچ ہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہوتی ہے۔ اگر ہمارے ذہن پر نقش روشن اور خوبصورت ہیں تو اس کا اثر بھی ہماری زندگی پر بہت مثبت اور بہتر ہو گا۔ اگر انسان خوبصورت زندگی بسرکرنا چاہتا ہے تو منفی سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا اور مثبت سوچ اپنانا بہت ضروری ہے اسی طرح انسان صحت مند اور خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔