عوام کے لیے بلا سود قرضے ممکن ہیں؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 7 دسمبر 2012
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں بلاشبہ مسلمان مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، مسلکی اعتبار سے ان کے نظریات میں فرق پایا جاتا ہے، بعض معاملات میں یہ فرق کافی نمایاں اور بعض معاملات میں یہ فرق قطعی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ اختلاف اور مماثلت کی یہ حقیقت ہم سب ہی جانتے ہیں۔ عوام کا نقصان اختلاف پر تو کسی حد تک سامنے آ سکتا ہے لیکن مماثلت پر اس کے فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ اس ملک کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ایسی ہی ایک مماثلت سود کے بارے میں ہے۔

ہمارے علما اس بات پر متفق ہیں کہ سود کی اسلام میں گنجائش نہیں۔ عوام کا بھی یہی عقیدہ ہے تاہم اس کے بارے میں سخت سزا کا سن کر بھی ہم سودی لین دین سے نجات نہیں حاصل کر سکے، حالانکہ اس سے نجات کے لیے ہم بہت کچھ کرنے کی صلاحیت اور اہلیت دونوں رکھتے ہیں۔ زندگی کا عام مشاہدہ ہے کہ کوئی شخص قسطوں پر موٹر سائیکل خرید رہا ہے، کوئی کار حاصل کر رہا ہے، کوئی رقم حاصل کر کے مکان تعمیر کر رہا ہے اور اب تو جہیز کا سامان بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔

سود سے بچنے کا ایک حل تو حکمرانوں کے پاس ہے، یعنی یہ کہ وہ قانون کے ذریعے اس لعنت کو ختم کریں اور تمام لین دین حتیٰ کہ عوام کو دیا جانے والا قرضہ بھی بغیر سود کے دیں۔ اس حل پر یقیناً بہت سے اعتراضات بھی سامنے آتے ہیں، کچھ حل بھی پیش کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے اہم اعتراض تو یہ کیا جاتا ہے کہ اس عمل سے ہم عالمی برادری میں اپنے معاملات نہیں چلا سکتے۔ اس حل پر ایک طویل عرصے سے بحث بھی جاری ہے اور حل کے لیے تجاویز بھی پیش کی جاتی رہی ہیں یہاں تک کہ بلا سودی اور اسلامی بینکاری کی بھی بات سامنے آ چکی ہے اور عوام کو اسلامی نقطہ نظر سے قرضوں کی فراہمی کے دعوے بھی پیش کیے گیے گو کہ اس پر بھی اعتراضات سامنے آئے۔

اس سودی نظام سے نجات کا ایک حل حکومت کے بغیر بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے اور ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو سکے۔ اگر صاحب حیثیت افراد اپنے طور پر بلا سودی قرضے عوام کو دینا شروع کر دیں تو یقیناً عوام کی حالت زار تیزی سے بہتر ہو سکتی ہے۔ اب یہاں ایک اہم سوال اعتبار اور بھروسے کا ہے کہ ایک صاحب حیثیت کسی پر اعتبار کیونکر کرے اور کیسے کرے؟ مثلاً ایک صاحب حیثیت کسی غریب آدمی کو کاروبار کے لیے ایک لاکھ روپے دے تو کیا وہ مقررہ مدت میں دیانتداری کے ساتھ پوری رقم واپس لوٹا دے گا؟

بس یہی ایک اعتبار اور بھروسے والا سوال ہے کہ جس کے باعث اس ملک کے صاحب حیثیت افراد جو یقیناً غریب عوام کی مدد کرنے کے لیے دل میں خواہش بھی رکھتے ہوں گے محض ’’اعتبار‘‘ کے سوال پر کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور بھلا تیار ہوں بھی کیسے؟ کہ جس ملک کے گلی کوچوں میں ایک ریڑھی والا تولنے میں پورا نہ تولے، اچھا مال دکھا کر خراب مال شاپر میں بھر دے، ایسے میں اعتبار کس طرح قائم ہو؟ اور کون کسی کو ایک بڑی رقم بلا سود کس طرح دے دے؟ یہ سوال بڑا مشکل ہے لیکن اتنا مشکل بھی نہیں کہ حل نہ ہو سکے۔

اس ملک میں کتنے دینی تعلیم دینے والے ادارے ہیں جہاں بے شمار افراد ملازم ہیں، جنھیں اپنے پارٹ ٹائم کاروبار کے لیے، اولاد کی شادی یا کسی اور کام کے لیے رقم کی ضرورت ہو گی، اسی طرح کتنے ہی دین دار قسم کے وہ صاحب حیثیت ہوں گے کہ جو کئی صنعتوں، فیکٹریوں، ملوں یا دکانوں کے مالک ہوں گے اور ان میں ہزاروں لاکھوں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ کام کر رہے ہوں گے جنھیں اپنے مختلف کاموں کے لیے رقم کی ضرورت ہو گی، نجانے کتنی این جی اوز اور مختلف اقسام کے فلاحی ادارے ہوں گے کہ جن کا دعویٰ انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔

ان کے ہاں بھی بے شمار افراد ایسے ہوں گے کہ جن کو بلا سود رقم مل جائے تو وہ اپنی زندگی کے معاملات بہتر طور پر نمٹا سکیں، اسی طرح ہمارے ہاں بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں جن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں سرگرم اور مخلص قسم کے کارکنان موجود ہیں، کیا ان جماعتوں کی لیڈر شپ کو اپنے کارکنان پر اعتماد اور بھروسہ نہیں؟ اگر ہے تو پھر کیوں نہ اس اعتماد اور بھروسے کے رشتے کو مزید مستحکم کرتے ہوئے ان میں سے ضرورت مندوں خصوصاً بے روزگاروں کو بلا سودی قرضے فراہم کیے جائیں۔ راقم نے ابھی جو تفصیل اوپر بیان کی ہے کیا ان تمام صاحب حیثیت لوگوں اور ان کے ماتحتوں میں کسی اعتماد کا فقدان ہو سکتا ہے؟

اگر نہیں تو پھر کیوں نہ اس سودی لعنت کو ختم کرنے کے لیے یہ سب مل کر کوششیں کریں اور اپنے غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو خصوصاً ان افراد کو جو روزگار اور سر چھپانے کے لیے چھت چاہتے ہیں اور محض چھوٹی سی رقم سے بھی اپنے یہ مسائل حل کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک شخص بینک کے توسط سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو قرضہ مہیا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو بھلا ہم سب مل کر اس سودی لعنت کو کیوں نہیں ختم کر سکتے، جس پر تمام علماء کا اجماع ہے؟ اور جس سے اس ملک کے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے میں بھی مدد مل سکے۔

اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو اس عمل سے وہ بہت سے لوگ سودی رقم سے بچ سکتے ہیں جو مجبوراً صبح و شام ان سودی اداروں سے گاڑیاں یا رقم وغیرہ لے رہے ہیں۔ اعتماد کے اس رشتے کو قائم کرنے میں اگر دین دار قسم کی معروف شخصیات پہل کریں تو ایک اچھی مثال اور روایت قائم ہو سکتی ہے۔

ذرا غور کیجیے ایک صاحب حیثیت شخص محض دو لاکھ روپے بھی بلا سودی قرض کے لیے مختص کرے تو اس سے کم از کم 4 افراد کو مال سپلائی کرنے کے لیے نئی موٹر سائیکلیں مل سکتی ہیں یا 8 خواتین کو گھر بیٹھے کام کے لیے سلائی مشینیں مل سکتی ہیں یا کوئی غریب کسی پلاٹ پر اپنی چھت ڈال سکتا ہے اور اگر اعتماد کی کمی اور مال جانے کے خوف سے یہ رقم نہ دی جائے تو اتنے ہی افراد یہ سہولت حاصل کرنے سے محروم رہ سکتے ہیں، کیا ہم ان افراد کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اور اﷲ کے احکامات کے مطابق غیر سودی نظام قائم کرنے کے لیے اتنی رقم کا رسک بھی نہیں لے سکتے؟ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ تمام ہی رقم واپس نہ ملے، عین ممکن ہے کہ یہ تمام ہی رقم واپس ہو جائے، تمام صاحب حیثیت افراد سے گزارش ہے کہ آئیے! اس مسئلے پر بھی ذرا غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔