ضرورت مندوں کی مدد؛ سب سے عظیم خدمت

محمد عاطف شیخ  اتوار 11 ستمبر 2016
خیرات کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر ۔  فوٹو : فائل

خیرات کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر ۔ فوٹو : فائل

سخی، غنی، مسیحا، بشر دوست، انسان نواز، خادم انسانیت ۔۔۔ یہ تمام القاب ہر اُس فرد کی شناخت بن جاتے ہیں۔ جس نے اپنی جان و مال کو اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے وقف کیا۔ ماضی بعید، ماضی قریب اور حال میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی بلاتفریق خدمت کے لئے چنا۔

برصغیر پر یہ رب العالمین کا خاص کرم ہے کہ اُسے بے شمار انسان دوست ہستیاں ملیں۔ جن میں دو نام خدمتِ خلق کے آسمان کے درخشاں ستارے ہیں۔ مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی انسانی فلاح و بہبود کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ جن کی انسانیت کے لئے خدمات کا ایک جہاں معترف ہے۔ مڈر ٹریسا کی انسان دوستی کے اعتراف میں اقوامِ متحدہ نے ان کے یوم وفات کو دنیا بھر میں Charity (خیرات) کا عالمی دن قرار دیا ہے اور 5 ستمبر کو دنیا بھر میں یہ دن منا یا جاتا ہے۔( امید ہے کہ اقوام متحدہ عبدالستار ایدھی کی خدمات کا بھی جلد اعتراف کرے گا)۔

نسل انسانی کی بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد دنیا کے تمام معاشروں کا خاصہ ہے۔ ہر مذہب اپنے پیروکاروں کو ایک دوسرے کی مدد کی تلقین اور ترغیب دیتا ہے۔ بلکہ اس عمل کے پس منظر کی اصل متحرک قوت بھی مذہب ہی ہے۔ اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمہ داریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ صدقہ،خیرات، زکوٰۃ، فطرانہ اور وقف (ٹرسٹ ) یہ تمام عمل مال اور وسائل کو معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام عید الاضحٰی کی صورت میں صاحبِ ثروت افراد کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ قربانی کے گوشت میں اپنے حصے کے ساتھ ساتھ غرباء اور اپنے رشتے داروں/ پڑ وسیوں/ جاننے والوں کا بھی حصہ رکھیں اور اُن تک گوشت پہنچانے کا اہتمام کریں۔ تاکہ تمام طبقات خصوصاً غرباء اور سفید پوش بھی اللہ پاک کی نعمت سے مستفید ہوسکیں ۔

اور اُن کے احساس محرومی کو دور کیا جاسکے۔ کیا کسی اور مذہب میں انسانی نفسیات پراس سنجیدگی سے توجہ دی گئی کہ ایک پورا کا پورا تہوار خدمتِ خلق کے نفسیاتی پہلوکے لئے عید الاضحٰی کی شکل میں موجود ہو؟۔ اس کے علاوہ لادین معاشروں میں بھی خدمت خلق انسانی اقدار کی بلند تر صفات کا حصہ ہے۔ خدمت خلق کے عموماً دو معیارات کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ایک بنیادی طور پر مذہبی پس منظر سے جڑا ہوا ہے۔ جو غریبوں کے دکھ درد اور حاجات کو پورا کرنے پر توجہ دیتا ہے۔ دوسرے کی جڑیں فنون سیکھنے اورعام عوام کے لئے سہولیات اور مواقع کی فراہمی کے لئے معاونت کے یونانی اور رومن ماڈل سے جڑا ہوا ہے۔

دنیا میں خدمت خلق کے حوالے سے دو اصطلاحات کا استعمال ہو تا ہے۔Charity  (خیرات) اور Philanthropy( معاشرتی فلاح وبہبود) یہ دونوں ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں لیکن مقصد اوردائرہ عمل کے حوالے سے ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ خیرات کا مقصد ضرورت مندوں اور محروم افراد کو فوری طور پر امداد فراہم کرنا۔ یہ عام طور پر خوراک، رہائش یا پیسے کی صورت میں فراہم کی جاتی ہے۔ جبکہ معاشرتی فلاح و بہبود سماجی سرمایہ کاری کا وسیع تر اور طویل المدتی مطلب ہے۔ جس کے ذریعے انسانی اور سماجی وسائل کی تعمیر کی جاتی ہے جو خیرات سے آگے کی چیز ہے۔

یعنی کم مراعات یافتہ لوگوں کے لئے سماجی اور اقتصادی مواقعوں کو بڑھانا اور سماجی برائیوں کے خاتمے کے لئے مضبوط تنظیموں کی تعمیر کرنا۔ دوسرے الفاظ میں معاشرتی بہبود سے مراد لوگوں کو یہ سیکھانا ہے کہ مچھلی کیسے پکڑی جاتی ہے ناکہ کہ اُن کو مچھلی کھانے کو دے دی جائے۔ دنیا بھر میں چیرٹی (خیرات) بھی ایک منظم شعبہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں خیرات کی مالیت، خیرات دینے کے رجحانات اور اُس کے مصارف کے بارے میں باقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اداروں اور تنظیموں کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے جو خیرات کے حصول ( اکٹھا کرنا) اور اس کے خرچ میں مصروف ہیں۔ برطانیہ ہی کی مثال کو لے لیں۔

جہاں اس وقت ایک لاکھ 62 ہزار 4 سو 27 خیراتی ادارے ( Charities) رجسٹرڈ ہیں۔ جن کو حاصل ہونے والی چیرٹی کی سالانہ مالیت  53.4 ارب پاؤنڈ ہے۔ برطانیہ میں48 فیصد خیراتی ادارے صرف کسی ایک ہی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ خیراتی رقم تعلیم اور ٹریننگ کے شعبے پر صرف کی جاتی ہے۔ جو تمام عطیات کا 63 فیصد کے قریب ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کے 98 فیصد گھرانے خیراتی اداروں کی جانب سے مہیا کردہ سہولیات کا کسی حد تک استعمال کرتے ہیں۔ اور92 فیصد برطانوی عوام کا یہ کہنا ہے کہ خیرات عمومی طور پر معاشرے میں بہت ضروری اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔چیرٹیز ایڈ فاؤنڈیشن یوکے کی رپورٹ چیرٹی اسٹریٹ 2 کے یہ حقائق برطانیہ میں اس شعبے کے منظم ہونے کے واضح عکاسی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک مثال امریکہ کی بھی ہے۔ گیونگ یو ایس اے2016 (Giving USA ) نامی رپورٹ کے مطابق 2015 میں امریکیوں نے 373.25 ارب ڈالر انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لئے خیرات کئے۔ جس کا 71 فیصد یعنی 264.58 ارب ڈالر انفرادیوں نے عطیہ کیا۔سب سے زیادہ خیراتی رقم امریکہ میں مذہبی تنظیموں نے وصول کی جس کی مالیت 119.3 ارب ڈالر ہے۔ یعنی کل رقم کا 32 فیصد۔ اس کے بعد تعلیمی مقاصد کی حامل تنظیمیںہیں جنہوں نے 15 فیصدیعنی 57.48 ارب ڈالر حاصل کیئے۔ انسانی خدمات کا شعبہ12 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا جس کے حصے میں 45.21 ارب ڈالر آئے۔

پاکستان میں چیرٹی (خیرات) کے شعبے کا جائزہ لینے کی پہلی اور کسی حد تک آخری منظم کو شش 1998 میں آغا خان فاؤنڈیشن کے تحت کی گئی۔ جس کی تفصیل 2000 میں فلنتراپی ان پاکستان (Philanthropy in Pakistan) نامی رپورٹ میں پیش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے خدمت خلق کے مقاصد کے لئے 70.538 ارب روپے عطیہ کئے۔ان میں سے 38.161 ارب روپے انفرادی طور پر جبکہ 32.377  ارب روپے اداروں نے دیئے۔ خیرات کی مجموعی مالیت میں سے29.797 ارب روپے نقد رقم کی صورت میں دیئے گئے۔ جبکہ 11.319  ارب روپے کے تحائف اور 1.569 ارب گھنٹے رضاکارانہ خدمات کے بھی اس میں شامل ہیں جن کی مالیت 29.422 ارب روپے بنتی ہے۔اس مجموعی خیراتی رقم کا 94 فیصد مذہبی اداروں کو گیا جبکہ 65 فیصد نقد خیرات انفرادیوں کو دی گئی۔

ملک میں انفرادیوں کی جانب سے کی جانے والی خیرات کے قومی سطح کے یہ پہلے اور آخری اعداد وشمارہیں۔ جبکہ اداروں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی رقم کی تفصیلات پاکستان سینٹر فار فلنتراپی اکٹھا کرتا رہتا ہے۔سینٹر کی رپورٹ کارپوریٹ فلنتراپی ان پاکستان ، سروے آف پبلک لمیٹڈکمپنیز 2013 کے مطابق ملک کی پبلک لمیٹڈ کمپنیز نے سال 2013 کے دوران4.8 ارب روپے عطیہ کئے۔ جس کا 39 فیصد حصہ آئل اینڈ گیس انڈسٹری نے کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سرکاری سطح پر زکوٰۃ اکٹھا کرنے کا نظام بھی کام کر رہا ہے۔ جس کے تحت 2015 کے مالی سال کے دوران اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 5749 ملین روپے زکوٰۃ کی مد میں اکٹھے کئے گئے۔

چیرٹی(خیرات) کے شعبے میں ہونے والی تحقیق کا دائرہ کار صرف یہیں تک محدود نہیں۔ بلکہ اُن محرکات کی بھی تحقیق کی مدد سے نشاندہی کی گئی ہے کہ آخر کار لوگ سخاوت کیوں کرتے ہیں؟ اس حوالے سے پانچ بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اول: بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے۔ دوم :معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے تاکہ رہنے کے حوالے سے کمیونٹی ایک بہتر مقام بن سکے۔

سوئم: اس عقیدے کے تحت کہ جن کے پاس زیادہ ہے اُن کو اپنے سے کم حیثیت کی مدد کرنی چاہیئے۔ چہارم: کسی خاص اثر یا نتیجہ کے حصول کے لئے اور پنجم: رقم مانگنے کی درخواست پر۔ مدد کی یہ وجوہات چیرٹی (خیرات) کی تقسیم اور اس کے مصرف کے حوالے سے مثبت اور منفی پہلوؤں کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ خیرات دی تو مثبت سوچ کے تحت ہی جاتی ہے۔ لیکن اس کا استعمال بعض اوقات منفی صورتحال کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جاری حق حقدارتک نامی آگاہی مہم خیرات کی بانٹ (تقسیم) میں احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے پیش آسکنے والے منفی حالات سے پاکستانی عوام کو آگاہ کرنے کی ایک عمدہ کوشش کے طور پر جاری ہے۔ اس کے علاوہ چیرٹی جہاں انفرادی اور اداروں کی سطح پر ہوتی ہے وہیں حکومتوں کے مابین بھی چیرٹی کی جاتی ہے جسے امداد، عطیات، مدد، گرانٹ وغیرہ کے نام دیئے جاتے ہیں۔

جس کے کچھ نہ کچھ خاص مقاصد ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکومتیں اپنے سیاسی اثر ورسوخ کو بڑھانے کے لئے بھی چیرٹی اور معاشرتی فلاح و بہبودکا سہارا لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تشویشناک پہلو جو چیرٹی اور معاشرتی فلاح و بہبودکی کو ششوں سے جڑ گیا ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں حکومتوں کا درپردہ بعض ایسی تنظیموں اور اداروں کا استعمال ہے۔

جو چیرٹی اور فلاح و بہبود کی اوٹ میں دیگر مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال حکومتِ پاکستان کی طرف سے چند بین الاقوامی این جی اوز کو متنبہ کرنا تھا کہ اُن کی سرگرمیاں اُن کے چارٹر کے مطابق نہیں ہیں۔ اور وہ سرکاری اداروں سے پاکستان میں کام جاری رکھنے کا این او سی لیں۔ اس کے علاوہ شکیل آفریدی کیس بھی انسانی فلاح و بہبودکی آڑ میں دیگر مقاصد کے حصول کی ایک نمایاںمثال ہے۔ اس طرح کے واقعات انسانی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اور یوں ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔

دنیا بھر میں خیرات(Charity) اور معاشرتی فلاح و بہبود (Philanthropy) کی سرگرمیاںزیادہ تر ایسی تنظیموں کے توسط سے کی جاتی ہیں جنہیں عرف عام میں این جی اوز( غیر سرکاری تنظیمیں) کہا جاتا ہے۔ این جی او کی اصطلاح اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 71 کے تحت بنائی گئی ہے۔ جس کی تعریف ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کے طور پر کی گئی ہے جو حکومتی اثر سے آزاد ہو اور منافع کے لئے قائم نہ کی جائے۔ دی گلوبل جرنل کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک کروڑ این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ چیرٹیز ایڈ فاؤنڈیشن کے مطابق 2014 میں دنیا بھر میں 1.4 ارب افراد نے غیر سرکاری تنظیموں کو پیسے عطیہ کئے۔ یہ تعداد2011 میں 1.2 ارب تھی اور 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر 2.5 ارب ہو جانے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔

دنیا بھر میں این جی اوز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا اندازہ ولڈن یونیورسٹی کی اس تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے 80 فیصد لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ این جی اوز مثبت سماجی تبدیلی میں شامل ہونے میں معاونت کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جان ہاپسکن یونیورسٹی کی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ اگر این جی اوز ایک ملک ہوتا تو یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہوتی۔ این جی اوز کی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں موجود اہمیت ان حقائق سے واضح ہوتی ہے کہ امریکا میں ہردس میں سے ایک فرد غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرتا ہے اور این جی او سیکٹر امریکا میں افرادی قوت کے حوالے سے تیسرابڑا صنعتی شعبہ ہے۔ جبکہ ترقی پذیر دنیا میں این جی اوز کی وسعت کی ایک جھلک بھارت کے ان اعدادوشمار سے ملتی ہے کہ بھارت میں ہر 400 افراد کے لئے ایک غیر سرکاری تنظیم موجود ہے۔

برصغیر میں این جی اوز کا آغاز نو آبادیاتی دور سے ہوا جب برٹش گورنمنٹ نے پرائیویٹ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ آف 1860 کے تحت سماجی تنظیموںکا آغاز کریں۔ اس حوصلہ افزائی نے مختلف انفرادیوں اور کمیونیٹیوں کو مائل کیا کہ وہ صحت، تعلیم، رہائش، ثقافت اور فلاح و بہبودکے حوالے سے سماجی تنظیمیں قائم کریں۔ یوں برصغیر میں رجسٹرڈ این جی اوز کا آغاز ہوا۔ اور ان میں سے کئی ادارے آج بھی پاکستان میں سرگرم عمل ہیں۔ جن میں انجمن حمایت اسلام (1886)، دیال سنگھ ٹرسٹ (1895) اس عرصے کے دوران قائم کئے گئے۔

نو آبادیاتی دور میں ایک نمایاں مقامی انسان دوست شخصیت سر گنگا رام کی بھی تھی جن کی خدمات کو برطانوی راج نے تسلیم کرتے ہوئے انھیں سر کے خطاب سے نوازا۔ ان کے نام سے موسوم ٹرسٹ بھی موجودہ پاکستان میں کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت این جی اوز کتنی تعدا میں موجود ہیں؟ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ ملک میں پانچ سے زیادہ قوانین کے تحت این جی او رجسٹرڈ کروائی جاسکتی ہے۔ ڈائمنشن آف دی نان پرافٹ سیکٹر ان پاکستان نامی تحقیقی مقالہ کے مطابق جون 2000 تک ملک میں تین قوانین والینٹری سوشل ویلفیئر ایجنسیز آرڈیننس1961، سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860اورکمپنیزآرڈیننس 1984  کے تحت رجسٹرڈ نان پرافٹ آرگنائزیشنز کی تعداد 56219 تھی۔

پاکستانیوں کی اکثریت اگرچہ صدقہ و خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم ابھی باقی دنیا سے اس شعبے میں بھی کافی پیچھے ہیں۔ جس کی نشاندہی برطانیہ کی چیرٹیز ایڈ فاؤنڈیشن کی ورلڈ گیونگ انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔ تین پیمانوں پر مشتمل اس انڈکس میں اجنبی افراد کی مدد، نقد عطیات کی ادائیگی اور انسانی فلاح و بہبود کے کاموں  کے لئے رضاکارانہ وقت فراہم کرنا شامل ہیں۔ ان تینوں کے مجموعی سکور کی مدد سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ سخی قوم کا تعین کیا جاتا ہے۔2015 کی درجہ بندی میں پاکستان دنیا کے 145 ممالک میں94 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ انڈکس میں موجود جنوب ایشیا کے سات ممالک میں سے اس کا پانچواں نمبر ہے۔

تینوں پیمانوں کی انفرادی درجہ بندی میں پاکستان اجنبیوں کی مدد کے حوالے سے دنیا بھر میں121 ویں۔ نقد عطیات کے حوالے سے49 ویں اور رضاکارانہ وقت کی فراہمی کے حوالے سے 107 ویں نمبر پر ہے۔ اس رینکنگ کے مطابق دنیا کی سب سے فیاض قوم میانمار کی ہے۔ امریکہ دوسرے اور نیوزی لینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے دس ممالک میں صرف ایک مسلمان ملک ملائیشیا شامل ہے۔ جو 10 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ جنوب ایشیا کا بھی ایک ملک سری لنکا 8 ویں پوزیشن پر ہے۔ لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سخاوت صرف مغربی ممالک تک ہی محدود نہیں کیونکہ میانمار، سری لنکا اور ملائیشیا کی پہلے دس ممالک میں موجودگی اس امر کو تقویت دے رہی ہے کہ جیب نہیں دل بڑا ہونا چاہئے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔