قائد کے حضور میں؛ عظیم رہنما سے ملنے والی شخصیات کے دل و دماغ پرنقش ہونے والے تاثرات کا احوال

بشیر واثق  اتوار 11 ستمبر 2016
قیام پاکستان کے بعد جب کراچی کو فیڈرل کیپیٹل ایریا قرار دیا گیا تو سید ہاشم رضا اس کے پہلے ایڈمنسٹریٹر بنے : فوٹو : فائل

قیام پاکستان کے بعد جب کراچی کو فیڈرل کیپیٹل ایریا قرار دیا گیا تو سید ہاشم رضا اس کے پہلے ایڈمنسٹریٹر بنے : فوٹو : فائل

منیر احمد منیر نامورسینئر صحافی ہیں، متعدد کتابیں تصنیف کر چکے ہیں، یہ اقتباسات ان کی کتاب’’ دی گریٹ لیڈر‘‘ کی جلد اول اور دوم سے لئے گئے ہیں، یہ دونوں جلدیں ان شخصیات سے انٹرویو کا مجموعہ ہیں جنھیں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا یا ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

سید ہاشم رضا:
قیام پاکستان کے بعد جب کراچی کو فیڈرل کیپیٹل ایریا قرار دیا گیا تو سید ہاشم رضا اس کے پہلے ایڈمنسٹریٹر بنے۔ اس کے بعد سندھ کے پہلے الیکشن کمشنر تعینات ہوئے، چیف سیکرٹری سندھ، چیف سیٹلمنٹ کمشنر پاکستان اور چیف سیکرٹری مشرقی پاکستان کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، 1961ء میں قائم مقام گورنر مشرقی پاکستان مقرر ہوئے، انھیں ستارہ قائداعظم اور ستارہ پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ جب قائداعظم 7 اگست کو کراچی پہنچے تو اس وقت وہ گورنمنٹ ہائوس میں تعینات تھے، قائد اعظم کی آمد اور عوام کی طرف سے ان کے والہانہ استقبال کا نقشہ انھوں نے کچھ اس طرح کھینچا۔

’’ اس روز لوگ صبح ہی ماڑی پور کے ہوائی اڈے پہنچ گئے۔ سائیکلوں پر، پیدل، عوام کا یہ سیل بے پناہ خالی فضا کی طرف نظریں جمائے کھڑا تھا، کہ اچانک وائسرائے کا ذاتی وائی کائونٹ طیارہ فضا میں نمودار ہوا۔ قائداعظمؒ کی شخصیت کی طرح یہ طیارہ بھی پروقار دکھائی دے رہا تھا۔ طیارہ نظر آتے ہی نعروں میں شدت آگئی۔ اسی شور میں طیارہ ساڑھے پانچ بجے شام ہوائی اڈے پر اترتا ہے۔

دور تک انسانی سر ہی سر تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے لوگوں نے قائداعظمؒ کا جہاز اپنے سروں پر اٹھا رکھا ہے۔ جس وقت طیارے کا دروازہ کھلا، وہ اپنی بہن کے ساتھ باہر آئے۔ قائداعظمؒ سفید اچکن اور جناح کیپ میں ملبوس تھے۔ ان کے طیارے سے باہر آتے ہی لوگوں نے اتنی شدت سے قائداعظمؒ زندہ باد کا نعرہ لگایا کہ محاورہً نہیں، واقعتاً زمین و آسمان دہل گئے۔ وہی حال تھا جیسے محفل سماع میں بڑے اچھے شعر سن کر لوگ وجد میں آجاتے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھ کر وجد میں آگئے تھے۔

جب قائداعظمؒ طیارے میں سے باہر آئے ہیں، ان کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ صبر سا تھا، شکر سا تھا۔ چند ہی منٹ میں، میں نے دیکھا کہ ان کے ماتھے پر شکن آئی۔ وہ اس وجہ سے آئی کہ پولیس نے لوگوں کو روکنے کیلئے جو Barricade (رکاوٹ) لگائی تھی، لوگ وہ رکاوٹ توڑ کر طیارے کے قریب پہنچ گئے۔ قائداعظمؒ کا نظم زمانے میں مشہور تھا۔ بدنظمی کا منظر دیکھا تو جہاز کی سیڑھیوں پر ہی کھڑے ہوگئے اور کہا ’’آپ حضرات indiscipline (بدنظمی) کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آپ ایک آزاد مملکت کے شہری ہونے والے ہیں۔

آپ کو زیب نہیں دیتا کہ اس قسم کی بدنظمی کا مظاہرہ کریں۔‘‘ پھر انہوں نے کہا ’’آپ لوگ اپنی اپنی جگہوں پر واپس جائیں۔ میں گھوم پھر کر آپ کے پاس خود آئوں گا۔‘‘ لوگ نہایت خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے اور زندہ باد کے نعرے بلند کرنے لگے۔ ایک طرف جہاز تھا، اس لیے وہ تینوں اطراف گئے۔ قائداعظمؒ نے تینوں طرف کھڑے لوگوں کے پاس جاکر ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد سرکاری افسران اور عمائدین شہر سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ان کی سواری گورنر ہائوس کی طرف روانہ ہوئی۔‘‘

14اگست 1947 ء کو کراچی میں عوام کا جوش وخروش کیسا تھا، اس بارے میں ان کہنا تھا ’’14 اگست 1947ء کی صبح کراچی میں بہت پہلے طلوع ہوگئی۔ لوگ صبح کاذب سے پہلے ہی اٹھ بیٹھے۔ ہر طرف سرخوشی کا سماں تھا، کیوں کہ یہ آزادی کی صبح تھی۔ ساتھ ہی لیلۃ القدر کی صبح تھی۔ جس وقت پاکستان کا قیام عمل میں آرہا تھا اس رات برصغیر کے دس کروڑ مسلمان اپنے خالق حقیقی کے حضور سربسجود تھے۔ کروڑوں مسلمان خدائے بزرگ و برتر کی بڑائی بیان کر رہے تھے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کرۂ ارض پر ابھر رہی تھی۔ اس روز رسمی طور پر وائسرائے ہند نے بادشاہ انگلستان کی نمائندگی کرتے ہوئے منتقلی اقتدار کی کارروائی مکمل کی۔ اس موقع پر وائسرائے ہند اور قائداعظمؒ نے تقریریں کیں۔ قائداعظمؒ کو اپنے مذہب اور ثقافت کا کتنا پاس کیا تھا کہ انہوں نے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف 14 اگست کو نہیں اٹھایا کہ اس روز جمعرات تھی، بلکہ حلف برداری کیلئے 15 اگست منتخب کی کہ وہ جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔‘‘

اس دن قائد اعظم پر حملے کی اطلاع بھی تھی، اس حوالے سے قائد اعظم کی بہادری کا ذکر کچھ اس طرح کیا ’’ 14 اگست کے پروگرام کے مطابق قائداعظمؒ، وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن اور محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ایک جلوس کی صورت میں اسمبلی جانا تھا۔ یہ جلوس وکٹوریہ روڈ اور بند روڈ وغیرہ سے ہوکر اسمبلی کی عمارت میں پہنچنے والا تھا۔ اس موقع پر مائونٹ بیٹن نے قائداعظمؒ سے کہا، سی آئی ڈی نے اطلاع دی ہے کہ آج جلوس میں آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ جلوس کے بجائے براہ راست اسمبلی بلڈنگ پہنچ جائیں۔ قائداعظمؒ نے کہا، میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میری قوم میرے ساتھ یہ سلوک کرسکتی ہے۔ ہندوئوں اور سکھوں کی اور بات ہے۔ بہرحال زندگی اور موت صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، اس لیے مجھے کوئی ڈر یا خوف نہیں، البتہ آپ چاہیں تو بے شک جلوس کے ساتھ نہ چلیں۔ پھر دونوں ایک ہی گاڑی میں بیٹھ کر جلوس میں شامل ہوئے۔‘‘

مولانا احتشام الحق تھانوی:
مولانا احتشام الحق تھانوی مولانا اشرف علی تھانوی کے بھانجے تھے۔ مدرسہ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد نئی دہلی سیکرٹریٹ کے اندر واقع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے لگے، وہاں پر مولانا ظفر علی خان،خواجہ ناظم الدین، مولانا تمیز الدین، چندریگر، سردار عبدالرب نشتر اور دیگر اہم رہنما آتے تھے یوں ان سے مراسم ہو گئے۔ 45ء کے انتخابات میں لیاقت علی خان کے لئے کام کیا۔ مسلمان رہنما چونکہ ان پر مکمل اعتماد کرتے تھے اس لئے قیام پاکستان کے بعد بھی ان سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان بننے کے بعد ایسے واقعات ہو رہے تھے جن میں ہندوئوں کو لوٹا جا رہا تھا، آپ نے قائد اعظم سے ملاقات کے بعد ان کا پیغام جیکب لائنز کراچی کے مسلمانوں تک پہنچایا تو مسلمانوں نے ہندوئوں سے لوٹا ہو امال گھروں سے باہر ڈھیر کر دیا، اپنی اس ملاقات کا احوال انھوں نے کچھ اس انداز میں سنایا۔

’’ قائداعظمؒ سے دوسری ملاقات کسی قدر تفصیل کے ساتھ کراچی میں اس وقت ہوئی جب وہ گورنر جنرل تھے۔ 6 جنوری 48ء کو کراچی میں ہندو مسلم گڑبڑ ہوئی اور وہ گڑبڑ دراصل اس بنیاد پر ہوئی تھی کہ غیر معمولی تعداد میں آنے والے مہاجرین کو نہ رہنے کیلئے مکانات ملتے تھے نہ کاروبار ملتے تھے، نہ کاروبار کیلئے دکان ملتی تھی، کیونکہ عام طور پر مکانوں اور دکانوں پر ہندو قابض تھے اور ان لوگوں کے ذہنوں میں یہ تھا کہ پاکستان دو تین مہینے کے بعد ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا یہ مختصر سا وقفہ وہ یہاں رہ کر گزارنا چاہتے تھے اور عام طور پر ہندوئوں نے اپنے اہل و عیال کو ہندوستان بھیج دیا تھا۔ اس گڑبڑ میں بعض دکانوں کا سامان وغیرہ بھی لوٹا گیا۔ قائداعظم نے حکومت سندھ کو حکم دیا کہ اس ہنگامے کو فرو کرنے کیلئے گولی چلانے سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور فوج اور پولیس کو خانہ تلاشی کیلئے مقرر کردیا گیا۔

اس ہنگامے کا مرکز اتفاق سے میری رہائش گاہ جیکب لائنز کے قریب پارسی کالونی تھا۔ خانہ تلاشی میں ایک سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ مرکزی حکومت ہند کے جو سرکاری ملازم پاکستان آئے اور انہوں نے جیکب لائنز کے مکانوں میں قیام کیا، انہوں نے عام طور پر بازاروں سے ہندوئوں کا وہ سامان نیلام میں خریدا جسے چھوڑ کر جانے والے ہندو فروخت کر رہے تھے۔ اس سامان پر ایسی نشانیاں موجود تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ سامان کسی ہندو کا ہے۔ ایسے سرکاری ملازمین کیلئے بڑی دشواری پیش آئی کہ خانہ تلاشی میں ان کے گھروں میں وہ سامان ملے گا جس پر ہندوانی نشانات موجود ہیں۔

حالانکہ وہ لوٹ کامال نہیں تھا۔ اس پریشانی میں سرکاری ملازمین کا ایک جم غفیر حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ کی قیام گاہ پر جمع ہوگیا۔ اس وقت شیخ الاسلام کی قیام گاہ بھی مرکزی حکومت کے ایک انجینئر کے پاس جیکب لائنز میں تھی۔ حضرت شیخ الاسلام نے قائداعظمؒ کو ٹیلی فون کیا اور مجھے تجویز کیا کہ میں خود جا کر قائداعظمؒ کے سامنے یہاں کی مشکلات اور صورتحال کا اظہار کروں۔ چنانچہ میں مقررہ وقت پر قائداعظم کی قیام گاہ پر پہنچا جو اس زمانے میں گورنر جنرل ہائوس کے نام سے مشہور تھی۔

مجھے اے ڈی سی کے ذریعے ایک بہت بڑے کمرے میں، جس کو چھوٹا ہال کہنا مناسب ہوگا، پہنچا دیا گیا۔ قائداعظمؒ نے کھڑے ہوکر مجھ سے مصافحہ کیا اور میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بیسوئوں فائلوں کے بکس الگ الگ پڑے ہوئے تھے، جن کو قائداعظم دیکھ چکے تھے یا دیکھنے والے تھے۔ اس سے مجھے ان کی غیر معمولی مصروفیت کا اندازہ ہوا۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا، تقسیم سے پہلے میرا قیام نئی دہلی میں تھا اور میں نے یہ خود دیکھا ہے کہ حکومت مرکزی حکومت کے ملازمین کے مفاد کا کتنا خیال رکھتی تھی یہاں تک دہلی کا ڈپٹی کمشنر مرکزی حکومت سے اجازت لیے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرتا تھا۔ یہاں جس غیر محتاط طریقے کے ساتھ اس ہنگامے میں مرکزی حکومت کے ملازمین کی خانہ تلاشی ہو رہی ہے وہ ان کے اس Status اور وقار کے خلاف ہے۔ قائداعظمؒ نے برجستہ جواب دیا: ’’مرکزی حکومت کے ملازمین کا وقار تو اس وقت خاک میں مل گیا جب ان لوگوں نے ان کا سامان اٹھا کر اپنے دفتروں کی بیرک میں رکھا اور انڈیا کے ہائی کمشنر کے سٹاف نے اس کے فوٹو لے کر ہندوستان بھیج دیئے۔

اب آگے فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’ اگر ایسا ہوا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں نے خود ہی اپنے وقار کو مجروح کیا ہے‘ میں نے دوسری بات جو عرض کی یہ تھی کہ ’’آپ کے حکم سے پولیس اور فوج جیکب لائنز کے رہنے والوں کی تلاشی لے رہی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوٹ مار کرنے والوں کو سزا نہ دی جائے، لیکن ایک بڑی تعداد ان سرکاری ملازمین کی بھی ہے جنہوں نے ہندوئوں کا سامان بازار سے خریدا ہے اور اس پر ہندوانی نشانات ہیں۔ تو اس تلاشی میں وہ بے قصور افراد بھی پکڑے جائیں گے اور یہ واقع میں بڑی زیادتی ہوگی۔‘‘ انہوں نے مجھ سے فوراً پوچھا: ’’آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ لوگ آپ کا کہنا مانتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’مجھے اپنے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر اس سلسلے میں کوئی بات لوگوں سے کہوں گا تو وہ ضرور مانیں گے۔‘‘

قائداعظمؒ نے فوراً کہا: ’’ اچھا، آپ جاکر لوگوں سے اپیل کریں کہ جس نے جو سامان لوٹا ہے وہ سب کا سب اپنے گھروں سے نکال کر باہر ڈال دیں یا کسی جگہ جمع کردیں۔ میں ابھی ابھی حکم دیتا ہوں کہ تلاشی کو روک دیا جائے۔‘‘ انہوں نے جو جملہ کہا: ’’آپ قوم کو بتلائیے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم مظلوم ہیں اور ہندو قوم نے ہمارے لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا ہے، ان کے گھروں کو لوٹا ہے، لیکن ہم ظلم کا جواب ظلم سے دینا نہیں چاہتے۔ یہ اسلامی ملک ہے۔ ہم اب ایسی کتاب کھولیں گے جس کے کسی ورق پر خیانت اور بددیانتی کا داغ دھبہ نہ ہو اور پوری امانت کے ساتھ ہم کام کریں گے۔‘‘

جب قائداعظم مجھ سے یہ بات کہہ رہے تھے تو میرے ذہن میں قرآن کریم کی وہ آیت آرہی تھی کہ فتح مکہ کے بعد جب پہلی مرتبہ اسلام اور مسلمانوں کو اقتدار ملا تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی، جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت داروں کے حوالے کردو اور جب فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو۔‘‘

میں نے قائداعظم سے وعدہ کیا۔ انہوں نے مجھے بڑی خوشی کے ساتھ رخصت کیا۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ جب میں جیکب لائنز واپس پہنچا تو معلوم ہوا کہ قائداعظمؒ کا حکم آچکا ہے کہ فوج اور پولیس واپس چلی جائے اور تلاشی بند کردی جائے۔ میں نے اعلان کرکے لوگوں کو جمع کیا۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ چونکہ تلاشی رک چکی تھی اس لیے لوگ خاص طور پر ممنون تھے۔ میں نے قائداعظم سے ملاقات کا حال بتایا اور میں نے یہ عرض کی کہ انہوں نے مجھ پر یہ ذمے داری عائد کی ہے کہ لوگ خود ہی لوٹا ہوا مال باہر پھینک دیں۔ اور آئندہ کوئی تلاشی نہیں ہوگی۔

چنانچہ صبح کو پورے جیکب لائنز میں ہر بیرک کے سامنے ہر گلی میں سامان پڑا تھا اور میدان میں سامان کا ایک بہت بڑا انبار لگ گیا تھا۔ میں نے صبح ہی کراچی کے ڈپٹی کمشنر سید ہاشم رضا کو فون کیا، انہوں نے پولیس کے ساتھ بہت سے ٹرک بھیجے اور وہ سامان یہاں سے اٹھا کر لے گئے۔ قائداعظم کے ساتھ یہ ملاقات میری یادگار ملاقات ہے کیونکہ قائداعظمؒ نے جو بات مجھ سے کہی ان کا مقصد یہ تھا کہ میری وساطت سے یہ قوم تک پہنچا دی جائے۔ میں ایمانداری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ قیام حکومت کا مقصد نہ عیش و عشرت ہے نہ سازو سامان کا جمع کرنا ہے۔ نہ پکڑ دھکڑ کے ذریعے سے قوت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ صرف دیانت اور امانت ہے جس کے ذریعے سے اللہ کے اورانسانوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔‘‘

لیفٹیننٹ جنرل(ر) گل حسن:
لیفٹیننٹ جنرل (ر) گل حسن قائد اعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے، انھوں نے 1942ء میں آرمی میں شمولیت اختیار کی، دوسری جنگ عظیم میں انگریز کمانڈر مارشل سلم کے اے ڈی سی رہے اور یہ کسی انڈین کے لئے پہلا موقع تھا،1961ء میں ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز رہے ، 65ء کی جنگ میں آپریشنز کنٹرول کرتے رہے، 1968ء میں چیف آف جنرل سٹاف بنا دیئے گئے۔1971ء میں کمانڈر انچیف بنے۔1972ء میں یونان کے پہلے ریذیڈنٹ سفیر مقرر ہوئے۔ جنگی تمغوں کے علاوہ ستارہ پاکستان، ستارہ قائداعظم،ایران کا نشان ہمایوں اور اردن کے سرکاری میڈل سے بھی نوازے گئے۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی ہونے کی وجہ سے انھیں قائد اعظم کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ قائد اعظم اقربا پروری کے خلاف تھے حتیٰ کہ اپنے بھائی احمد علی جناح کی صرف وزیٹنگ کارڈ پر قائد کا بھائی لکھنے پر سرزنش کی، اس واقعہ کا ذکر انھوں نے کچھ اس انداز میں کیا۔

’’مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ اس نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا۔ وہ میں نے جا کے قائداعظمؒ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ قائداعظمؒ نے پوچھا ’’Who?‘‘ (یہ کون ہیں؟) میں نے کہا ’’سر، آپ کے بھائی صاحب آئے ہیں اور یہ کارڈ انہی نے دیا ہے۔‘‘ انہوں نے پوچھا ’’He got the appointment? ( اس نے ملاقات کا وقت لیا تھا؟ ) ‘‘ میں نے عرض کیا ’’No sir‘‘ (نہیں جناب) فرمایا ’’Then say him get out‘‘ ( تو اسے کہو، چلا جائے )۔ میں وہ کارڈ لے کے واپس جا رہا تھا کہ ان کی آواز گونجی ’’گل!‘‘۔ ’’یس سر‘‘۔ ’’یہ کارڈ ادھر لاؤ۔‘‘ میں نے وہ کارڈ پھر ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس کارڈ پر انہوں نے جابجا لکیریں لگا دیں۔ میں نے دیکھا تو انہوں نے اس کارڈ پر Quaid-e-Azam’s Brother (قائداعظم کا بھائی) کے الفاظ کاٹ دیئے۔ گورنر جنرل آف پاکستان کے الفاظ کاٹ دیئے۔

یہ کاٹ دیا، وہ کاٹ دیا۔ سرخ پنسل سے وہ تمام القابات کاٹ دیئے۔ غرضیکہ ہر وہ لفظ کاٹ ڈالا جس سے ان کا بھائی ان کے ساتھ اپنی قربت ایکسپلائٹ کر سکتا تھا۔ صرف اس کا نام نہیں کاٹا۔ اور مجھے کہا ’’اسے کہو صرف اپنا نام کارڈ پر دے۔‘‘ میں نے جا کے ان کے بھائی کو صاف صاف بتا دیا کہ یہ سب لائنیں قائداعظم نے اپنے ہاتھ سے کھینچی ہیں اور یہ سب چیزیں قائداعظم نے کاٹ دی ہیں۔ صرف آپ کا نام رہنے دیا ہے۔ اور وہ فرماتے ہیں کہ وزٹنگ کارڈ پر صرف اپنا نام لکھو۔ میں نے اسے یہ بھی کہا کہ اگلی دفعہ جب آپ اس طرح کا کارڈ پیش کریں گے، ہو سکتا ہے قائداعظم آپ سے ملاقات کر لیں۔

After that i never saw him (اس کے بعد قائداعظمؒ کا بھائی ان سے ملنے کے لئے کبھی نہیں آیا)۔ دیکھئے، قائداعظمؒ کتنے بااصول تھے۔ سگے بھائی کو ملنے سے ایک تو اس لئے انکار کر دیا کہ وہ بغیر اپوائنٹمنٹ کے آ گیا تھا جبکہ قائداعظمؒ کا وقت قوم کے لئے وقف تھا۔ وہ اسے بلا جواز ضائع کرنے پر تیار نہ تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو بھی اس بات کی اجازت نہ دی کہ وہ ان کی حیثیت سے جائز یا ناجائز فائدے اٹھاتا پھرے۔‘‘

قائداعظمؒ کسی کو اس امر کی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ انہیں جھک کر ملے یا ان کے ہاتھ چومے، اس بارے میں انھوں نے بتایا’’ He was straight forward. He did not allow anybody to do such a thing against one’s self-respect. (وہ ایک کھرے اور سچے انسان تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے ہاتھ چومے یا اس طرح احترام سے پیش آئے جس سے کہ کسی شخص کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو) ہاتھ پاؤں چومنا، وہ ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ انسانی عظمت کے قائل تھے اور یہ بات عین اسلام ہے۔ I learned from that great man that is that if you are straightforward. If you are law abiding. If you are clean, you can look anybody in eyes. You don’t have to feel shy. You don’t have to feel shy. (میں نے اس عظیم انسان سے یہ سیکھا کہ اگر آپ کھرے اور سچے ہیں۔ اگر آپ قانون کے پابند ہیں۔ اگر آپ معاملات کے صاف ستھرے ہیں تو آپ ہر کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے بات کر سکتے ہیں اور آپ کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ آپ کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے)

جنرل گل حسن قائد کی شخصیت کا احاطہ اس واقعہ کی بنیاد پر کرتے ہیں:
’’شام کے وقت اکثر ہم ملیر جاتے۔ میں ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتا۔ قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح پیچھے ہوتے۔ اس وقت اس قسم کی عیاشی کا تصور ہی نہ تھا کہ دس موٹرسائیکل آگے جا رہے ہیں اور دس پیچھے۔ شہر سے ملیر کی طرف جائیں تو راستے میں ایک ریلوے پھاٹک آتا ہے۔ ایک دفعہ ہم شام کو ملیر جا رہے تھے تو وہ پھاٹک بند تھا۔ ہماری گاڑی رک گئی۔

میں نیچے اترا اور پھاٹک والے سے کہا، ٹرین اگر دور ہے تو پھاٹک کھول دو۔ قائداعظمؒ صاحب بیٹھے ہیں۔ اس نے یہ کہہ کر کہ ٹرین ابھی دور ہے، پھاٹک کھول دیا۔ میں آ کے سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور کا نام تھا، عزیز۔ میں اس سے بولا، عزیز چلو۔ وہ کہتا ہے، حکم ملا ہے گاڑی نہیں چلے گی۔ ساتھ ہی قائداعظمؒ نے فرمایا Gull, tell that chap, shut the door. (گل، اس آدمی سے کہو، پھاٹک بند کر دے)۔ میں نیچے اترا اور اسے کہا، پھاٹک بند کر دو۔ پھاٹک والا بولنے لگا، صاحب! گاڑی ابھی دور ہے۔ میں نے کہا بند کر دو، مصیب پڑ جائے گی۔

اس نے پھاٹک بند کر دیا۔ میں آیا اور بیٹھ گیا۔ ٹرین گزری۔ پھاٹک کھلا۔ تب ہماری گاڑی آگے بڑھی۔ کچھ دیر بعد قائداعظمؒ نے مجھ سے پوچھا Gull, Do you know why i asked you to get the gate shut (گل! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے پھاٹک بند کرنے کا حکم کیوں دیا) میں نے جواب دیا No sir (سر، مجھے نہیں معلوم) So he said: The reason for this is that if i do not comply with my own instructions and orders then i can not expect anybody else to comply with my orders and instructions. And i am the Head of the state. (قائداعظمؒ نے کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر میں اپنی ہی ہدایات اور احکامات پر عمل نہیں کرتا تو پھر میں دوسروں سے یہ توقع کیسے کر سکتا ہوں کہ وہ میری ہدایات اور احکامات پر عمل کریں گے۔ جبکہ میں ملک کا سربراہ ہوں) میں نے کہا، Sir, I am sorry (سر، مجھے اس کا افسوس ہے)

میں نے انہیں قریب سے دیکھا۔ یہی محسوس کیا، وہ بہت مضبوط اور ٹھوس انسان ہیں۔ بہت ہی دیانت دار، کھرے اور سچے، کردار کے بہت بلند، ارادے کے اٹل، لازوال کردار کے مالک۔ بلاشبہ قائداعظمؒ ایک عظیم انسان تھے۔‘‘

کے ایل گابا:
کے ایل گابا معروف قانون دان، سیاستدان اور ادیب تھے، 1899ء میں لاہور کے ایک ہندو صنعتکار لالہ ہرکشن لال گابا کے ہاں پیدا ہوئے۔ بار ایٹ لاء کرنے کے بعد لاہور میں پریکٹس شروع کی۔1923ء میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانفرنس لاہور کی مجلس استقبالیہ کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ اخبارات کے لئے مضامین لکھے اور اپنا ہفتہ وار ’’دی سنڈے ٹائمز‘‘ بھی جاری کیا۔ 1926ء میں لاہور کے صنعتی حلقے سے رائے بہادردھنپت رائے کے مقابلے میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑا۔ 1933ء میں اسلام قبول کیا۔ مشہور ہے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی تجویز پر کنہیا لال (کے ایل) گابا سے خالد لطیف( کے ایل) گابا ہو گئے۔ یوں ان کے نام کا انگریزی مخفف اور صوتی و لفظی تاثر قائم رہا۔

کے ایل گابا 1934ء میںمجلس احرار کی مجلس عاملہ کے رکن بنے،1935ء میں وسطی پنجاب کی مسلم نشست سے انڈین لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔1945ء میں آل انڈیا خاکسار پارلیمنٹری بورڈ کے چیرمین رہے۔کے ایل گابا کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے، ان میں سے کئی اس وقت بیسٹ سیلر قرار پائیں۔ Passive Voices کے عنوان سے 1973ء میں لکھی گئی کتاب میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو اکثریت کی زیادتیوں کا ذکر ہے جس کا سید قاسم محمود نے ’’ مجبور آوازیں‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا۔ ہندوستان کے دوسرے لیڈروں کے مقابلے میں قائداعظم کا کردار کیسا تھا، اس بارے میں ان کا کہنا تھا۔

’’دوسرے لیڈروں کے مقابلے میں وہ Reserve (کم گو۔ کم آمیز) رہتے تھے۔ جب میرا ان سے تعارف ہوا تو وہ بہت ریزرو تھے۔ سیکرٹریز کے ساتھ بھی ریزرو رہتے تھے۔ وہ بڑے غیور اور خوددار تھے۔ کسی کو نقصان نہ پہنچاتے۔ میں نے انہیں ہمیشہ Charming (دل آویز) پایا۔ گفتگو سوچ سمجھ کر کرتے اور الفاظ کے انتخاب میں انتہائی محتاط ہوتے۔ وہ غیر متنازعہ لیڈر تھے۔ کانگریس اور برٹش گورنمنٹ دونوں ان کا احترام کرتی تھیں۔ ان کی کوئی قیمت نہ تھی۔ انہیں خریدا نہ جاسکتا تھا۔ نہ پیسے سے نہ عہدے سے۔‘‘

اتنی مقبول شخصیت ہونے کی وجہ سے حکومت بھی قائداعظم کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے متحرک رہتی تھی جس کے لئے انھیں حکومت کی طرف مختلف آفرز بھی ہوئیں، اس بارے میں کے ایل گابا کا کہنا تھا ’’ یہ میرے ذاتی علم میں ہے کہ انہیں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی ممبر شپ، بمبے ہائیکورٹ کی جج شپ، سیکرٹریز آف دی سٹیٹ کونسل کی ممبر شپ کی پیشکشیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے ہر پیشکش ٹھکرادی ۔

وکیل کے طور پر ان کی پریکٹس شاندار تھی۔ نظام حیدر آباد کا ریاست برار کے سلسلے میں برٹش گورنمنٹ سے جھگڑا چل رہا تھا۔ نظام نے جناح صاحبؒ کو اپنا وکیل کیا۔ آپ دو سال انگلینڈ رہے۔ (31ء سے 33ء) پندرہ سو روپیہ یومیہ انہیں فیس ادا کی گئی۔ وہ نظام کو پرنس آف برابر کا ٹائٹل دلانے میں کامیاب ہوگئے۔ اعظم جاہ پرنس آف برار ہوئے۔ ابھی لندن میں مقیم تھے کہ میرا بھی وہاں جانا ہوا۔ ملاقات کیلئے ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے چائے کے کپ سے میری تواضع کی۔ ان سے تو آدھا کپ چائے پینا بھی باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے کہ ان کیلئے وائسرائے تک تعظیم بجالاتے تھے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔