موئن جو دڑو میں

جاوید قاضی  جمعـء 9 ستمبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آج کل اس فلم پر تنقیدوں کی بارشیں ہیں، ہونی بھی چاہئیں مگر فلم نے باکس آفس پر ریکارڈ قائم کیا۔ میں نے یہ فلم نہیں دیکھی مگر یہ فلم میں نے دیکھنی ضرور ہے۔ کوئی بری بات تو نہیں اگر کچھ تنقید ہوئی ۔ کسی نے کہا پہلے ہاف میں بات سمجھ ہی نہیں آئی کہ ظلم کا رخ کدھر کی طرف ہے۔

کسی نے کہا یہ فلم بچوں کے ساتھ دیکھنے جیسی نہیں ۔ کوئی اس کے کپڑوں کے انداز پر تنقید کر رہا تھا تو کوئی کسی اور بات پر اور بہت سے ایسے بھی تھے جو اس کی تعریفیں بھی کرتے سنے گئے۔ مگر جو خاص تنقید تھی وہ اس بات پر تھی کہ اس فلم میں تاریخی حقائق مسخ کیے گئے ہیں اور اس پر پھر ہمارے سندھ کے ایک وزیر نے یہ کہہ کر بیان جاری کیا کہ فلم کے ہدایت کار سندھ کے عوام سے معافی مانگیں۔ آپ یوں کہیے نبرد آزمائی پر اتر آئے۔ سندھ ثقافت کو سندھ کا مذہب بنا دیا اور خود فتویٰ باز بن گئے۔ یہ وہی کام ہے جو کل تک لال کرشن ایڈوانی کیا کرتے تھے یا پھر ہندوستان و پاکستان دشمن بیانیہ میں اس طرح کے فتور شامل ہیں۔ مگر وزیر صاحب کو اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب سندھ کے عوام نے ان کی بات اس کان سے سنی اور اس کان سے نکال دی۔

جب زرداری صاحب صدر پاکستان بنے تو سندھی ٹوپی اکثر پہنا کرتے تھے، بہت سے بیرونی ممالک کے دوروں میں بھی یہی روایت رکھی اور بالآخر ایک ٹاک شو میں ایک اینکر نے اس سندھی ٹوپی پر زیادہ اور زرداری صاحب پر بھی تنقید کی۔ سندھ کے لوگوں کو سندھی ٹوپی پر یہ روش برداشت نہ ہوئی اور اس طرح اس پس منظر میں سندھ میں ہر سال ثقافت کا دن منایا جاتا ہے (اب تو سارے صوبوں میں یہ روایت پڑ چکی ہے)۔

مگر موئن جو دڑو سندھ کی ثقافت کا حصہ نہیں ، تاریخی حوالا دے رہا ہوں، وہ تو آثار قدیمہ ہے۔ ایک تہذیب جو 1600 سال قبل مسیح یعنی لگ بھگ چار ہزار سال پرانی ہے۔ یہ لوگ تو سندھی نہیں تھے نہ یہ لوگ سنسکرت بولتے تھے نہ پران تھے نہ پنڈت تھے نہ بدھ تھے نہ جین مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کون سی زبان بولتے تھے، کون سے مذہب کے تھے، موئن جو دڑو کیوں برباد ہوا، نہ کوئی نغمہ ہے نہ کوئی کہانی ہے۔ بس آثار قدیمہ ہے جوکہ ایک سائنس اور اس سائنسی بنیادوں پر کتھائیں جوکہ حقیقت کے قریب اس لیے ہیں کہ وہ ایک حد تک بتا سکتی ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ باقی کام و تحقیق عملی طور پر جاری ہے۔

اب سے پہلے یہ روایت تھی کہ آریائی قوم  نے اس شہر پر حملہ کیا۔ کچھ نے کہا کوئی آفت گری ہوگی۔ اور اب مملکت کے آثار قدیمہ کے لوگوں نے  بہت ہی ٹھوس انداز میں پرانی تھیوری کو رد کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ یہاں قحط برپا ہوا تھا ، بارشوں کے کم ہونے کی وجہ سے موئن جو دڑو سے لوگو کی بڑی  ہجرت ہوئی، خانہ جنگی ہوئی وغیرہ وغیرہ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ موئن جو دڑو کے رہنے والے لوگ دراوڑ تھے ۔ یہ لوگ اب آپ کو کیرالا، بنگالی، تامل وغیرہ کی صورت میں ملیں گے یا وہ لوگ جو دلت ہیں۔ یہ موئن جو دڑو کے لوگوں کا تسلسل کہے جاتے ہیں ۔ تو کیا وزیر ثقافت یہ بتائیں ، کہ بہتر نہیں کہ فلم موئن جو دڑو کا ڈائریکٹر دراوڑ، بنگالی، کیرالا کے لوگوں سے معافی مانگیں اور سندھ بھی ان کے حوالے کردیں کہ وہ اصل میں سندھ کے وارث ہیں۔ میں بہت سے بنگالیوں سے ملا ان کو موئن جو دڑو سے بہت لگاؤ ہے اتنا کہ شاید ہی پاکستان یا سندھ میں کسی کو ہوگا۔

ہمارے بلاول بھٹو کو بھی سندھ کی تہذیب کو اجاگر کرنے کا شوق ہوا تھا ۔ یہ کام بہت اچھا تھا جس پر میں نے بھی انھی  کالموں میں لکھا ہوگا۔ مگر آپ نے اور اس وقت کی وزارت ثقافت نے بہت ہی بے احتیاطی کرتے ہوئے موئن جو دڑو پر ثقافتی پروگرام رکھ دیا جس کی وجہ سے انتہائی حساس آثار قدیمہ کی اس جگہ کو بہت نقصان پہنچا اور اس کے باوجود جو ناچ گانا وہاں کیا گیا وہ تو سندھ کی ثقافت کا حصہ نہ تھا نہ موئن جو دڑو کی روایت تھی۔ لیکن پھر بھی سر آنکھوں پر ۔ سندھ کے اندر بہت سے لوگوں نے بغض معاویہ میں بھی تنقید کی جو حقائق پر مبنی نہ تھی۔

کچھ لوگوں نے تو یہ کہا کہ ہمارے وزیر ثقافت ہماری ثقافت پر حرف آخر ہیں۔ وہ موئن جو دڑو فلم پر تنقید رکھتے ہوئے ڈائریکٹر کو سندھ قوم سے معافی پر رجوع کرسکتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ موئن جو دڑو سندھ کی ثقافت کا نہیں تہذیب کا حصہ ہے۔ اور وزیر ثقافت ساتھ ساتھ آثار قدیمہ کا شعبہ بھی رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ حرف آخر ہیں تو پھر ضیا الحق بھی صحیح تھے، افواج پاکستان نہ صرف زمینی سرحدوں بلکہ نظریاتی سرحدوں کی بھی نگران ہیں تو پھر ہر وزیر اپنے محکمے کا حرف آخر ہے جس طرح ہمارے قانونی نظام میں سپریم کورٹ آئین کی تشریح میں حرف آخر ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگر ہم نے وزیر ثقافت کو حرف آخر بنادیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیر ثقافت قاضی ہے اور ان کی بھی اپنی عدالت ہے اور وہ فیصلے و فتویٰ صادر کر سکتے ہیں۔

ارے بھائی یہ فلم ہے کوئی ڈاکیومنٹری نہیں۔ فلم فلم ہوتی ہے اور ڈاکیومنٹری ڈاکیومنٹری۔ ایک میں کہانی و افسانہ گھڑا جاتا ہے تو دوسری حقائق پر مبنی تحقیقی رپورٹ ہوتی ہے ۔ آسکر ایوارڈ میں دستاویزی فلموں کی کیٹیگری بھی الگ ہوتی ہے،اس لیے یہ کہنا بے جا ہوگا ’’وہ پری کہاں سے لاؤں تیری دلہن جسے بناؤں‘‘ اس لیے فلم کو فلم رہنے دیں اور اس پر اس حوالے سے تنقید ضرور کریں  نہ  یہ واویلا کہ اس  سے آپ کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جو اکثر بال ٹھاکرے وغیرہ کا وطیرہ ہوا کرتا تھا ۔

ان سستی شہرت کے کارندوں نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے کہ جیسے سندھی ثقافت بھی کوئی وہابی عمل ہو۔ جس میں تبدیلی اور دوسروں کا اثر در آنا گناہ ہو۔ یہ لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کالی کی روایت بھی ایک لحاظ سے سندھ کی ثقافت کا حصہ ہے اور منفی حصہ ہے ہم اس پر جدوجہد کر رہے ہیں ، ہماری ثقافت پر ذرایع پیداوار، طریقہ پیداوار کا فطری عمل ہے۔ اس لیے اس میں بہت سی جاگیردارانہ پیر پرستی اور خانقاہی کی روایات ہیں۔ صرف اجرک پہننا، ٹوپی پہننا ہماری ثقافت نہیں۔ ہماری ثقافت کا بنیادی حصہ برداشت ہے، ہم صوفی لوگ ہیں امن ہمارے وجود کا حصہ ہے۔آیندہ بھی ایسی سیکڑوں فلمیں موئن جو دڑو کی بنیں ہمیں ان سے غرض نہیں کہ وہ کتنا حقیقت کے قریب ہیں یا نہیں۔

میں تو موئن جو دڑو فلم بنانے والوں کا اپنے آپ کو مشکور سمجھوں گا کہ انھوں نے برصغیر میں موئن جو دڑو کی تحقیق کے لیے اس سے جڑنے کی کوشش کی۔ جس طرح جواہر لال نہرو نے آکے موئن جو دڑو دیکھ کر اپنی چھوٹی سی بیٹی اندرا کو موئن جو دڑو کے کھنڈرات کے بارے میں بتایا تھا۔

ہم نے شاید موئن جو دڑو پر کسی فلم میں ایک گانے کے حوالے سے کام کیا ہے جو صبیحہ خانم پر فلمایا گیا ہے۔ ’’یہ دیکھ میری بگڑی تصویر موئن جو داڑا میں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔