گمشدہ تہذیب کا ماتم

رئیس فاطمہ  اتوار 11 ستمبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

انٹرنیٹ کے وجود میں آنے کے بعد لوگ کہتے تھے کہ اب انسانوں اور ملکوں کے درمیان فاصلے سمٹ جائیں گے اور دنیا ایک گلوبل ولیج بن جائے گی۔ ایسا ہوا تو ضرور لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پہ تو لوگ واقعی ایک دوسرے کے دوست و ہمراز بن گئے لیکن اپنے ہی گھر میں اور اپنے ہی گھر میں اور اپنے ہی عزیز رشتے دار اور حلقہ احباب کے لیے اجنبی بن گئے۔ لیکن اس رویے سے میری نظر میں جو بہت بڑا نقصان ہوا ہے، وہ تہذیب کا زوال ہے۔

کہاں گئی وہ تہذیب جس کے ہم پروردہ ہیں اور کافی حد تک ہماری نسل کے لوگوں نے اپنی اولاد کو بڑی توجہ اور محنت سے اس تہذیب اور شائستگی کا عادی بنایا ہے جو ہمیں ہمارے والدین اور بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ ہماری نسل کے لوگ بہت زخم خوردہ ہیں، کیونکہ جس تہذیب میں ہم پروان چڑھے، جو ہمارے خون میں شامل تھی، جو ہمارا ورثہ اور سرمایہ تھی۔ اس کا زوال بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ ہمارے والدین اور بزرگ ہم سے زیادہ خوش نصیب تھے کہ جس ماحول میں آنکھ کھولی، بھرے پرے خاندان میں پرورش پائی، بیٹا، بہوئیں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیوں کے بیچ رہ کر آخرت کا سفر طے کیا۔ جب کہ  ہم وہ بدنصیب نسل ہیں جنھیں مرنے کے بعد یا تو ایدھی، چھیپا قبرستان پہنچاتے ہیں، یا پھر محلے والے۔

محلے داری بھی اب وہ نہیں رہی جو پچیس تیس سال پہلے تھی، اب جونہی کسی بھی ذریعے سے لوگوں کے پاس پیسہ آتا ہے وہ اپنا پرانا علاقہ چھوڑ کر کسی نئی بستی میں جا بستے ہیں۔ البتہ خاندانی لوگ ان باتوں پہ توجہ نہیں دیتے۔ کیونکہ سب سے پہلے علاقہ وہ لوگ بدلتے ہیں جن کا ماضی کوئی اچھا پس منظر نہیں رکھتا، پیسے کے بل بوتے پر جب یہ تہذیب سے عاری لوگ علاقہ بدلتے ہیں تو بعض اوقات ایسی چھچھوری حرکتیں ان سے انجانے میں سرزد ہو جاتی ہیں جو ان کا پول کھول دیتی ہیں۔ اعلیٰ نسبی خریدی نہیں جا سکتی۔ شائستگی سے بھرپور نرم لہجے میں گفتگو میراث میں ملتی ہے۔

دنیا گلوبل ولیج تو بن گئی لیکن ساتھ ساتھ بہت کچھ بہا کر بھی لے گئی۔ کہاں گئی وہ تہذیب جب دسترخوان پر تمام گھر والے جمع ہوتے تھے، رات کے کھانے پر سب کی موجودگی لازمی تھی۔ دستر خوان بچھتا، سب سے پہلے ڈش میں سے میری دادی کھانا اپنی پلیٹ میں نکالتیں، پھر والد ڈش کی طرف ہاتھ بڑھاتے، پھر دونوں بڑے بھائی، پھر والدہ میری پلیٹ میں خود سالن نکال کر دیتیں، آخر میں اپنی پلیٹ بناتیں۔ گھر کے ملازموں کو بھی ساتھ ہی کھانا دیا جاتا، تا کہ وہ احساس محرومی کا شکار نہ ہوں، جب تک میری والدہ زندہ رہیں وہ خیال رکھتیں کہ دیگچیوں میں سے سالن، چاول، دال، سبزی جو بھی پکا ہو وہ پہلے ملازمین کے لیے نکال دیا جائے۔ وہ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ بچا کچھا انھیں دیا جا رہا ہے۔

اگرکوئی مہمان آ جاتا تو سب سے پہلے ہر ڈش ان کے آگے کی جاتی، لیکن وہ بھی دادی جان کی بزرگی کا خیال رکھتے ہوئے ہاتھ روکے رہتے اور ان سے اصرار کرتے۔ لیکن آج کا منظر بہت مختلف ہے مجھے دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ خواہ گھر کی دعوت ہو یا شادی بیاہ کی دعوتیں ہر جگہ ڈشوں پر پہلے بچے ہلہ بولتے ہیں، گھروں میں والدین بھی تنبیہہ نہیں کرتے کہ پہلے مہمانوں کو اور بڑوں کو نکالنے دو۔ والدہ محترمہ اور والد محترم خود چاہتے ہیں کہ پہلے ان کے بچے اپنی پلیٹیں بھر لیں۔ بعد میں مہمانوں کی باری آئے۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ خود والدین کی تربیت نہیں ہوئی۔ صرف علاقہ بدل لینے سے اور جدید طرز کے ملبوسات زیب تن کرنے سے روایت اور تہذیب نہیں آتی۔ اسی لیے خاندانی لوگ کہتے ہیں کہ انسان کا باطن یا تو زبان سے ظاہر ہوتا ہے یا دسترخوان پر۔ دسترخوان کی جگہ ڈائننگ ٹیبل اور کرسیاں آ گئیں لیکن تہذیب و روایات کہیں بازار میں نہیں بکتیں۔ اسی لیے جب کوئی کھانا کھا رہا ہوتا ہے یا گفتگو کر رہا ہوتا ہے تو اس کے خاندان کا پتا خود ہی چل جاتا ہے۔ لاکھ قیمتی کپڑے پہنے ہوں، اصلیت پھر بھی ظاہر ہو ہی جاتی ہے۔

آج سوشل میڈیا اور موبائل فون کی بدولت نئی نسل جس طرح بزرگوں کے ادب کو نظراندازکر رہی ہے، وہ ایک ہولناک منظر ہے۔ کہاں گئی وہ نسل جب بھائی باپ کے آگے لڑکیاں زیادہ بولتی نہیں تھیں، بڑی بوڑھیوں اور بزرگ خواتین کے بیچ میں بیٹھ کر بے باکانہ گفتگو کرنا اور بیچ میں لقمہ دینا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بڑوں نے اگر غلط بات پہ ڈانٹ دیا توکیا لڑکے کیا لڑکیاں، سب خاموش ہو جاتے تھے اور سر جھکا کر سامنے سے ہٹ جاتے تھے۔ لیکن آج پاکستانی چینلز سے جو بے ہودہ ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں جی بھر کے لڑکیاں اور لڑکے ماں باپ سے جس بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔

انھیں دیکھ کر رائٹر اور پروڈیوسر کے دماغی خلل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کہاں گئیں وہ مائیں جو بیٹیوں کو نامناسب لباس میں باہر نہیں نکلنے دیتی تھیں۔ لیکن آج ٹیلی ویژن ڈراموں اور مارننگ شوز نے دوپٹہ اورآستینوں سے بے نیاز لباس کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ کہاں گئی شلوار، قمیض، غرارہ، چوڑی دار پاجامہ، کرتے۔ چینلز پر صرف جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈزکے ساتھ گھومتی نظر آتی ہیں ۔ کیا یہی ہماری تہذیب تھی؟ نہیں ہماری تہذیب تو یہ تھی کہ اگر ایک بھائی کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا اور کسی وجہ سے وہی لڑکی بھاوج بن کے اسی گھر میں آ جاتی تھی تو دوسرا بھائی اسے صرف بھابی اور بڑے بھائی کی بیوی ہی کی عزت دیتا تھا۔ لیکن آج ٹی وی ڈرامہ اخلاقی کرپشن کو فروغ دے رہا ہے۔

شاید یہ معاشی مجبوری ہو۔ طلب اور رسد والی بات ہو، بغیر دوپٹوں اور بغیر آستینوں کے چست لباس، کشادہ گلے اور کسی حد تک غیر شائستہ انداز میں اداکاراؤں کا اٹھنا بیٹھنا، لیٹنا ، جھٹکے کھا کر چلنا، ان سب کی موجودگی سے یقیناً گلشن کا کاروبار چلتا ہے  لیکن پوری قوم جس اخلاقی زوال کی طرف جا رہی ہے اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی کیونکہ ہر حال میں پیسہ اہم ہے۔ خواہ کہیں سے بھی اور کسی بھی طرح کمایا جائے۔ کیسا مذاق اور تضاد ہے یہ کہ کوٹھے پہ بیٹھ کر روزی کمانے والی ہمیشہ مطعون رہی، لیکن اشتہاروں میں ماڈلزکو جس انداز میں کم سے کم کپڑوں میں اور معیوب انداز میں پیش کیا جاتا ہے اسے کوئی برا نہیں کہتا۔

اس کی طرف نہ مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی نظر جاتی ہے نہ مولوی حضرات کی، نہ کسی شائستہ ادارے سے وابستہ خواتین کی۔ تہذیبی طور پر جو نقصان سوشل میڈیا اور ٹی وی ڈراموں کے ذریعے ہو رہا ہے یہ وہ زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہماری نئی نسل اور آیندہ آنے والی نسل کی رگوں میں اتارا جا رہا ہے۔ کبھی غور کیا آپ نے کہ خاندانوں میں نفرتیں اور سازشیں کتنی بڑھ گئی ہیں؟ پہلے عید، بقر عید یا کسی شادی بیاہ کے موقعے پر ناراض رشتے داروں کو منا لیا جاتا تھا، اگرکوئی ناراض عزیزکو منانے اس کے گھر چل کر گیا گویا ناراضگی خودبخود ختم۔ یا پھر عید، بقر عید پر ایک دوسرے کے گھر مٹھائی لے کر جاتے ہی دشمنیاں ختم۔ گلے مل لیے، گلے شکوے ہوئے، دل صاف ہو گئے۔

ہم نے اپنے گھر میں ہمیشہ یہی دیکھا کہ میرے والد، والدہ اور دادی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ ناراض بہن بھائیوں، نند بھاوجوں اور بہنوں کو آپس میں ملا دیا جائے۔ لیکن آج محبت کا یہ فلسفہ فیل ہو چکا ہے۔ آج ہم کسی کی طرف محبت اور پیار کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو وہ جھٹک دیا جاتا ہے۔ نفرتوں کی آبیاری، حسد اور جلن آج ہر خاندان میں عام ہے۔ کاش محبتوں اور احترام کا وہ زمانہ واپس آ جائے جس میں ہماری نسل نے پرورش پائی تھی…کاش !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔