قربانی کی قربانی!!

شیریں حیدر  اتوار 11 ستمبر 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اس دفعہ ارادہ تھا کہ کسی جانور کی قربانی کرنے اور اس کا گوشت مساکین اور احباب میں تقسیم کرنے کی بجائے، جانور کی قیمت کے برابر رقم کی قربانی دے دی جائے۔ کتنے ہی فورم پر بیٹھ کر میں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ اس پر اجتہاد ہونا چاہیے کیونکہ جانور ناپید ہو رہے ہیں۔

یوں بھی ہم جو جانور خریدتے ہیں اس میں سے قربانی کے اصول کے مطابق گوشت کا تیسرا حصہ ہی غریبوں تک پہنچتا ہے، اس حصے کی تقسیم کے لیے بھی بڑے شہروں میں اور بالخصوص دور پار کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں مستحقین کو ڈھونڈنا مسئلہ بن جاتا ہے اور نتیجتاً قربانی کا گوشت شام تک گھر پر ہی رکھا رہتا ہے، اسی تیسرے حصے میں سے کافی گوشت ہمارے ملازمین اپنے اپنے گھروں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔

یعنی فرض کریں کہ ہم نے ایک بکرا تیس ہزار میں خریدا، اس میں سے اٹھارہ کلو گوشت نکل آیا ، اس میں سے چھ کلو گوشت غریبوں کے حصے کا ہوا۔ اس گوشت کی قیمت ہمیں سولہ سو چھیاسٹھ روپے فی کلو پڑ گئی، اگر ہم ویسے آٹھ سو روپے کلو گوشت خرید کر غریبوں میں بانٹ دیں تو وہ ہمیں اڑتالیس سو کا مل جائے گا، بقایا رقم ہم ویسے ہی کسی کی مدد کے لیے دے دیں تو اس کی کئی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی، چاہے وہ گوشت خرید کر کھائیں ، چاہے کسی اور مقصد کے لیے رقم استعمال کریں۔ جانور روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں اسی لیے معمول میں بھی ہمیں جانے کن کن جانوروں کا گوشت چھوٹے اور بڑے گوشت کے نام پر کھلایا جا چکا ہے۔

اللہ جانتا ہے کہ ہم سب کیا کچھ کھا چکے ہیں۔ملک میں ہر سال عید الضحی کے دن لاکھوں جانور تین دن میں قربان کیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ بھی سال بھر میں ہم گوشت کھاتے ہیں۔ قربانی کے گوشت کی اہمیت شاید تب تک تھی جب لوگ گوشت صرف خاص خاص مواقع پر کھاتے تھے، اب ایسا دور ہے کہ بسا اوقات دالیں اور سبزیاں مرغی کے گوشت سے مہنگی ہوتی ہیں، کوئی دال کھانے کی استطاعت نہ بھی رکھتا ہو تو مرغی کبھی کبھار کھا ہی لیتا ہے۔ کافی لوگوں کو میں اپنے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کر چکی تھی مگر ذی الحج کا چاند نظر آنے سے پہلے ہی میں نے قربانی کی نیت کر لی۔

عید کے لیے میں نے اپنے، صاحب کے، بچوں کے، گھر کے ملازمین کے اور اپنے قریبی پیاروں کے لیے عید کے کپڑے، ان کے ساتھ ساتھ بچیوں کے لیے میچنگ چوڑیاں اور دیگر چیزیں، سب کے لیے نئے جوتے خریدنا ہیں۔

عید کے دن گھر پر جو مہمان داری ہونا ہے اس کے لیے خریداری کی فہرست مہینے کی پہلی تاریخ سے پہلے تیار تھی کہ کیا کیا پکایا جائے گا۔

… جہاں ہمیں احباب کو ملنے کے لیے جانا ہے ان گھروں کے لیے مٹھائی اور جوس کے پیکٹوں کے تحائف بھی خریدنا تھے۔

… جہاں جہاں جانا ممکن نہ ہو گا وہاں پر کیک بھجوانے کے لیے بھی بذریعہ پارسل سروس بندوبست کرنا تھا اور اس کی فہرست بھی تیار تھی۔

… عید سے اگلے دن سب قریبی خاندان والوں نے پکنک کا پلان بنا لیا ہے اور اس کے لیے سب گھروں سے ایک ایک ڈش تیار کر کے ہمراہ لے جائی جائے گی، اس کا پورا پلان بھی تیار ہے کہ کس کو کیا بنانا ہے، باقی انتظامات کی ذمے داری بھی سب کو ابھی سے سونپ دی گئی تھی۔

… عید کی صبح محلے کے کن کن گھروں میں ناشتے کی ٹرے بھجوانا ہے، ا س کی ایک فہرست!! غرض میں نے حسب عادت ہر متعلقہ کام کی فہرست مرتب کر لی تھی، ان دنوں ساری سوچوں کا محور اس سال کی بڑی عید ( عید الضحی) تھی، اپنی ڈائری ہر وقت پاس ہوتی اور جب بھی کچھ یاد آتا اس پر نوٹ کر لیتی تھی۔

یونہی ایک رات سونے سے پہلے میں اس ڈائری کو چیک کر رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ ان سب کاموں پرکس قدر رقم خرچ ہو جانا تھی، سارا بجٹ خراب ہو جاتا اور قربانی کا جانور خریدنے کو رقم بھی کم پڑ جاتی۔ تو کیا ان سب چیزوں کے اخراجات ضروری تھے یا کہ قربانی کرنا؟؟

میں نے خود سے سوال کیا اور اسی روز قربانی کی نیت کر لی-میں جو اتنے دن سے ہر جگہ بیٹھ کر یہ پرچار کر رہی تھی کہ جانور کی قربانی کی بجائے اس کے برابر کی رقم کسی ضرورت مند کو دے دی جائے، میں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالی تو ہمیں نیتوں کا اجر دیتا ہے، جیسے حج کے لیے جمع کی گئی رقم سے کسی کی ضرورت پوری کر دی جائے تو اس کا بھی اجر ہے، نماز سے زیادہ اہم کسی کی جان بچانا ہے۔

میری نیت یہی تھی کہ جانور کے گوشت میں سے تیسرا حصہ اللہ کی راہ میں غریبوں کو دینے کی بجائے اس سے کہیں زیادہ رقم کسی غریب کو مل جاتی اور اس کی کئی طرح کی ضرورتیں پوری ہو جاتیں، شاید ایسا ہوتا بھی مگر میں کسی اجتہاد یا فتوے کے بغیر کس طرح اتنا بڑا فیصلہ کر سکتی تھی؟ میں نے سوچا کہ قربانی کی قربانی دینے کا ہی خیال کیوں دل میں آیا؟ کیوں نہ سوچا کہ نیا فون لینے کی بجائے وہ رقم کسی کو دے دی جائے کہ کام تو پرانے فون سے بھی چل رہا تھا۔

اپنے عزیزوں کے گھروں میں عید پر مٹھائی اور کیک بھجوانے کی بجائے ان لوگوں کے گھروں میں راشن ڈلوانے کا انتظام کر دیا جائے جہاں دن کو کما کر لانے کے بعد رات کو ایک وقت چولہا جلتا ہے اور عید کے باعث وہ بھی ٹھنڈا رہے گا۔ سب کے عید پر نئے کپڑے ، جوتے اور دیگر لوازمات کی بجائے کسی غریب کے بچوں کو عید پر نئے کپڑے بنوا کر دے دیے جاتے، ہمارے پاس تو یوں بھی دسیوں نئے جوڑے لٹک رہے ہوتے ہیں جن کی باری بھی نہیں آتی!!

صرف میں ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگ مخصوص مواقع پر یوں سوچتے ہیں، جب میں نے اپنے خیال کو دوسروں کے سامنے پیش کیا تو کئی لوگوں نے اس کی تائید کی اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسے خیالات رکھتے ہیں مگر کہتے نہیں… ظاہر ہے کہ کسی بھی مذہبی مسئلے پر بات کرتے ہوئے ہمیں خوف محسوس ہوتا ہے کہ جانے دوسرے کس طرح کا ردعمل ظاہر کریں کیونکہ ہمارا مذہبی علم بہت محدود ہے اور ہم بہت دفعہ اللہ تعالی کے احکام میں مضمر حکمتوں کو سمجھ بھی نہیں پاتے۔

اتھلی سی سطح سے انھیں جانچتے اور ان پر نکتہ چینی کرنے لگتے ہیں، کبھی مغرب سے کوئی اچھوتا اور ہمارے مذہبی احکامات کی نفی کرنے والا خیال تیزی سے پھیلایا جاتا ہے تو ہم اس میں بھی آلہء کار بن جاتے ہیں ۔کسی کی مدد کرنے کے لیے میرے دل میں بالخصوص عید کے دن کا ہی خیال کیوں آیا؟ سارا سال ہمارے دلوں میں انسانی ہمدردی کیوں پیدا نہیں ہوتی، انسانی ضرورتیں تو ہمہ وقت ساتھ ہیں، غریب مہنگائی اور غربت کے پاٹوں میں ہر روز پستے ہیں، ان کی عزت نفس اور انا ہر روز مجروح ہوتی ہے، ان کے ہاں فاقوں کا ہر روز بسیرا ہوتا ہے۔

ہر روز اخبارات اور ٹیلی وژن پر دکھایا جاتا ہے کہ غربت کے ہاتھوں تنگ والدین اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، انھیں مار دیتے ہیں یا ان کے ساتھ مل کر خود کشی کر لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اور کوئی حل نہیں ہوتا، ایسی خبروں سے ایک عام آدمی کا دل لرز جاتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر آبادی مسلمان ہے وہاں دوسرے مسلمان یوں غربت کی وجہ سے اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی پروا بھی نہ کریں ، یااللہ کوئی بے حسی سی بے حسی ہے!

کہاں تو اتنے ذی شان خلیفہ دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مر جانے والے کتے کے لیے بھی خود کو جواب دہ سمجھتے ہیں، خلیفہء وقت اناج کی بوریاں اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر نصف شب کو اپنے بھوکے عوام کے گھروں پر پہنچاتے ہیں اور کسی سے مدد لینے سے اس لیے انکار کرتے ہیں کہ روز قیامت اپنے اعمال کا بوجھ بھی ہم سب نے خود ہی اٹھانا ہے۔ کہاں ہمارے حکمران جنھیں کسی کی جواب دہی کا خوف ہے نہ ان کے مردہ ضمیر کسی جھٹکے سے جاگتے ہیں۔

عوام کے لیے چھت، روٹی، علاج معالجہ اور تعلیم وہ لازمی سہولیات ہیں جنھیں مفت یا سستا فراہم کرنا آج کے حکمرانوں کی بھی ذمے داری ہے، وہ اس سے قطعی بری نہیں ہیں۔ ہم عام لوگوں کو بھی حکم ہے کہ جہاں تک ہمارے گھر میں پکنے والے کھانے کی خوشبو پہنچے وہاں تک کے ہمسایوں کو اپنے کھانے میں شامل کریں۔ ہم بچا ہوا کھانا فرج میں رکھ لیتے ہیں مگر کسی بھوکے کے پیٹ میں نہیں اترنے دیتے!! ہمیں تو اپنی جواب دہی کرنا ہے تو بسا اوقات سوچ کر خوف آتا ہے اور جنھیں اٹھارہ انیس کروڑ لوگوں کے لیے جواب دہ ہونا ہے وہ کس قدر بے فکرے ہیں۔

آپ سب کو عید کی حقیقی خوشیاں مبارک ہوں ، اپنے احباب کے ساتھ عید سعید کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوں مگر ان خوشیوںمیں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے اگر ہم نہ صرف خاص مواقع پر بلکہ سارا سال اپنے ارد گرد لوگوں کے چہروں پر خوشیوں کے رنگ بکھیریں، جزاک اللہ!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔