بابائے اردو کی برسی اور مسند کا قیام

نسیم انجم  اتوار 11 ستمبر 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گزشتہ سالوں کی طرح اس بار بھی بابائے اردو مولوی عبدالحق کی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی، اہم شخصیات میں عرفان صدیقی مشیر وزیراعظم برائے قومی و تاریخی و ادبی ورثہ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، پروفیسرڈاکٹر سلیمان ڈی محمد شیخ الجامعہ وفاقی جامعہ اردو شامل تھے۔ منتظمین میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کا نام نمایاں تھا۔

ممتاز شخصیات نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مزار پر گل پاشی اور دعائے مغفرت کی، تحریک نفاذِ اردو کی طرف سے بھی پھول نچھاور کیے گئے اور فاتحہ خوانی کی گئی۔ پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے بھی خصوصی دعائیں کی گئیں، تحریک نفاذِ اردو و قومی زبان کے روح رواں ڈاکٹر مبین اختر علالت اور ذاتی مصروفیات کے باعث تشریف نہ لاس کے لیکن تحریک کے صدر نسیم شاہ اور نائب صدر راقم السطور، شازیہ ناز عروج اور دوسرے ارکان اس خاص موقعے پر موجود تھے۔

اس ضمن میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، وزیراعلیٰ سندھ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد بھی بابائے اردو سے عقیدت رکھتے تھے ، میں بھی بابا کی محبت میں آیا ہوں اور میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ سندھ حکومت ہر سال انجمن کو 50 لاکھ گرانٹ دیا کرے گی۔ عرفان صدیقی نے بھی ڈاکٹر فاطمہ حسن کے کاموں کو سراہا اور اعلان کیا کہ 10 لاکھ گرانٹ کو 25 لاکھ سالانہ کردیا گیا ہے ۔ یقیناً انجمن ترقی اردو کے لیے یہ بات قابل مسرت ہے۔

اس سال بابائے اردو کے مزار پر جانیوالوں کے لیے انجمن کی طرف سے ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اس طرح آنے جانے کی دشواریوں سے نجات ان لوگوں کو ضرور مل گئی جنھیں سواری کی مشکلات در پیش ہوتی ہیں، اس طریقہ کار کو اپنے ممبران کے لیے آرٹس کونسل والوں کو بھی اپنانا چاہیے، لوگ دور دور سے ووٹ ڈالنے آتے ہیں، خلوص کے تحت انھیں سوائے اس کے کیا حاصل ہوتا کہ مختلف تقریبات کے دعوت نامے موصول ہوجاتے ہیں باقی فوائد حاصل کرنے والوں کی فہرست میں نہ وہ لوگ اپنا نام شامل کرانا چاہتے ہیں کہ وہ خوشامدی اور موقع پرست نہیں ہیں اور نہ ہی آرٹس کونسل کے منتظمین اس کی پرواہ کرتے ہیں۔

بہر حال یہ تو دنیا کی ریت ہے، بات ہورہی تھی بابائے اردو مولوی عبدالحق کی۔ اردو سے محبت اور اردو کی خدمت کی، اردوکی ترقی کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی، ہم نے محمد زبیر جمیل کا موضوع بعنوان ’’بابائے اردو کے خادم خاص‘صوفی عبدالرشید‘‘ پڑھا۔ بہت سی ذاتی باتیں ان کے لوگوں کے سامنے آئیں جو ان کی نجی زندگی کے اصولوں سے ناواقف تھے۔

بقول صوفی عبدالرشید کے مولوی عبدالحق نے سر سید احمد خان کی نگرانی میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اس طرح سرسید احمد خان کا رنگ ان پر چڑھتا رہا وہ زندگی کی رنگینیوں میں بھی بالکل نہیں کھوئے یہاں تک کہ وہ اپنے خاندان سے بھی بے نیاز رہے۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے شادی بھی اپنی مرضی سے نہیں کی بلکہ ان کے بڑے بھائی شیخ ضیا الحق نے یہ فریضہ انجام دلوایا، وہ اپنے بڑے بھائی سے انکار کرنے کی اپنے آپ میں جرأت نہیں پاتے تھے۔ شادی ہونے کی بھی یہی وجہ تھی کہ بابائے اردو کی چھوٹی ہمشیرہ کی ہاپوڑ کے ایک نوجوان جوکہ زمیندار تھے ان سے شادی طے پاگئی تھی۔

چنانچہ گھر والوں کے مشورے سے مولوی عبدالحق کی شادی بھی اسی گھر کی ایک لڑکی سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا، گویا ادلے بدلے کی شادی تھی۔ ان کی منکوحہ کا نام زکرالنساء (زکری بیگم) تھا۔ لیکن نکاح کے بعد عجیب صورتحال ہوئی کہ مولوی صاحب اسی رات اپنی شریک حیات کو چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے اور بیگم کو طلاق نامہ بھیج دیا اس تلخ واقعے کے بعد مولوی صاحب نے کبھی گھر نہیں بسایا ان کا کہناتھا کہ ان کی شادی اردو اور انجمن سے ہوچکی ہے۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولوی عبدالحق کو اردو سے محبت نہیں عشق تھا، عشق کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔

عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات

عشق مکان و مکیں عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقین، اور یقین فتحیاب

بے شک کوئی بھی کام کرنے کا سودا دماغ میں سما جائے توہر عزم عشق کا درجہ اختیارکرلیتا ہے۔

مولوی صاحب کی علمیت، اہمیت اردو سے محبت اس کی ترقی و ترویج کے حوالے سے اہل دانش اور مقتدر حضرات کے دلوں میں ان کی عزت و توقیر مسلم ہے قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کی ملاقات ہوئی اور پاکستان آنے کے بعد جب بیمار ہوئے تو صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے حکم پر مولوی عبدالحق کا علاج مری کے ایک اسپتال میں ہوا اور صحت یاب ہونے کے بعد انھیں بابائے اردو کی مرضی سے ہی کراچی بھیج دیا گیا، انھوں نے اردو زبان کے لیے شب و روز محنت کی۔ مولوی صاحب کے کہنے پر مشفق خواجہ اور ابن انشاء نے قومی زبان اور سہ ماہی ’’اردو‘‘کے لیے کام کیا۔

مولوی عبدالحق کی پچپن ویں برسی پر جس محفل کا انعقاد کیا گیا تھا اس تقریب میں عرفان صدیقی مشیر وزیراعظم برائے قومی تاریخی و ادبی ورثہ اور پروفیسر ڈاکٹر سلمان ڈی محمد، شیخ الجامعہ وفاقی جامعہ اردو خاص الخاص شخصیات کے اعتبار سے مدعو کیے گئے تھے۔

16 دسمبر کو ہی شام میں گورنر ہاؤس میں مسند بابائے اردو مولوی عبدالحق کی افتتاحی تقریب تھی ، تقریب سے ممنون حسین صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ بابائے ’’اردو‘‘ انجمن، انجمن ترقی اردو اور وفاقی اردو یونی ورسٹی کو میں ایک جان تین قالب سمجھتا ہوں، کیوںکہ یہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتے، بابائے اردو مسند کے قیام سے یہ رشتے مزید توانا ہوگئے ہیں۔ جس میں جامعہ اردو اور انجمن ترقی اردوکے ذمے داران کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔

صدر مملکت نے مزید کہاکہ آئین پاکستان کے تحت ہم کار سرکار اردو میں چلانے کے پابند ہیں، موجودہ حکومت نفاذ اردو کے لیے خلوص نیت کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہے وفاقی اردو یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سلیمان ڈی محمد نے کہاکہ ’’ملک میں اردو زبان یک جہتی کی علامت ہے، پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، قائد اعظم کی دور اندیشی اور بصیرت تھی، آج یہ بات ثابت ہوگئی ہے، سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد اردو دفتری مراسلات کے تربیتی کورس کا آغاز انجمن ترقی اردو کے تعاون سے شروع کردیاگیا ہے۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ بابائے اردو ہمارے لیے ایک بے حد مستحکم ادارہ انجن ترقی اردو کی شکل میں چھوڑ کر اس دنیا سے گئے۔ اس قیمتی ورثے کی حفاظت اور اسے اگلی نسل تک منتقل کرنا ہماری قومی ذمے داری ہے، مسند بابائے اردو کا قیام تاریخ میں درج ہونے والا اقدام ہے، فاطمہ حسن نے دانشوران علم کے حوالے سے کہاکہ قوم کو قوم بنانے میں اہل فکر و دانش ہی ذاتی مفادات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر فکری بنیاد مہیا کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔