آبادی کا بڑھتا ہوادبائو اور مردم شماری

مقتدا منصور  اتوار 11 ستمبر 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ اظہاریے میں کرۂ ارض کو درپیش مسائل کا ذکر کیا تھا، جن میں سب سے اہم مسئلہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہے۔ جو اس کرۂ ارض پر کئی سنگین بحرانوں کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ہر ملک مناسب منصوبہ بندی کرے۔ اس مقصد کے لیے مردم شماری اولین ترجیح ہوتی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ اس وقت کسی ملک کی آبادی کتنی ہے؟ اس میں اضافے کی شرح کیا ہے؟ کن طبقات میں آبادی میں اضافے کی شرح زیادہ ہے؟ اور اسے کس طرح کنٹرول کرنا ہے؟

مردم شماری خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہے، جسے تکنیکی بنیادوں پر قطعی غیر سیاسی انداز میں سر انجام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر پہلے مرحلے میں مکانات کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کر کے ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد افراد کا شمار شروع ہوتا ہے۔ یہ دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اول، De-Jure جس میں لوگوں کی اصل رہائش گاہ کے حوالے سے انھیں رجسٹر کیا جاتا ہے۔ دوئم، De-Facto یعنی جو جہاں رہائش پذیر ہے، اس حوالے سے اس کا اندراج کیا جاتا ہے۔ مردم شماری میں ریاست کو شہریوں کے مکمل کوائف (Data) مل جاتے ہیں۔ برصغیر میں مردم شماری کی روایت انگریزوں نے شروع کی۔ پہلی مکمل مردم شماری 1871-72ء کے دوران ہوئی۔ ہر دس برس بعد تواتر کے ساتھ مردم شماری کا سلسلہ 1941ء تک جاری رہا۔

قیام پاکستان کے بعد پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی۔ 1998ء تک (بشمول 1961، 1972، 1981ء) کل پانچ مردم شماریاں ہو چکی ہیں۔ مگر گزشتہ 8 برس سے مختلف اسباب (جن میں زیادہ تر سیاسی ہیں) کے تحت مسلسل ٹل رہی ہے۔ حالانکہ امسال حکومت نے اس مد میں 14.5 ملین روپے مختص کیے۔ خصوصی صورتحال کے پیش نظر یہ طے کیا گیا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے۔ چونکہ فوج ضرب عضب میں مصروف ہے، اس لیے اسے اگلے برس مارچ تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ مگر کیا آیندہ برس مردم شماری ہو سکے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا دشوار نہیں کہ آیندہ برس بھی مردم شماری ممکن نظر نہیں آ رہی، جو ایک المیہ سے کم نہیں ہو گا۔

آئین پاکستان کے چوتھے شیڈول کے حصہ اول کے مطابق مردم شماری وفاقی سبجیکٹ ہے۔ آئین کی شق 51(3) کے مطابق قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا از سرنو تعین ہر مردم شماری کے بعد ممکن ہوتا ہے۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی انتخابی حلقوں میں ردوبدل بھی مردم شماری سے مشروط ہے۔ جب کہ آئین کی شق 160(2) کے مطابق ہر مردم شماری کے بعد قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل اور صوبوں کے لیے فنڈز کا تعین کیا جانا چاہیے۔ حکومت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے 31 اگست 1973ء کو جاری کیے گئے خط OM No.8/9/72 TRV   میں واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ملازمتوں میں صوبوں کے کوٹے کا تعین اور اس میں ردوبدل ہر مردم شماری کے بعد کیا جا سکے گا۔

پاکستان میں چونکہ سیاست اور سیاسی مفادات ہر کام پر حاوی آ جاتے ہیں، اس لیے بعض ایسے کام کہ جو ریاستی نظام کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں، وہ بھی سیاسی مداخلت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہی معاملہ مردم شماری کے ساتھ ہوا، جو شروع ہی سے متنازع رہی ہے۔ صرف 1951ء کی مردم شماری پر کوئی واضح اعتراضات نہیں اٹھے تھے۔ کیونکہ ملک نیا نیا بنا تھا اور لوگوں کے ذہن میں ابھی علاقائی حقوق کا تصور اجاگر نہیں ہوا تھا۔ لیکن 1961ء کی مردم شماری کے بارے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا تھا۔

مشرقی پاکستان سے یہ اعتراض اٹھا تھا کہ اس کی آبادی دانستہ کم ظاہر کی گئی ہے، تا کہ اس کو ملنے والے وسائل اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹا کم کیا جا سکے۔ جب کہ 1972ء کی مردم شماری کے بارے میںکراچی سے تعلق رکھنے والے کچھ حلقوں نے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ جس کا اعتراف عدالت میں اس وقت کے صوبائی سیکریٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کے دباؤ پر کراچی کی آبادی میں ردوبدل کیا۔ مگر مجموعی طور پر یہ شفاف مردم شماری تھی۔ 1981ء میں جنرل ضیا کے دور میں ہونے والی مردم شماری پر چند معمولی اعتراضات کے سوا کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔

1990ء کا عشرہ پاکستان کی سیاست میں خاصا ہیجان انگیز تھا۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران چار حکومتیں قائم ہوئیں، جن میں سے کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکی۔ اس پورے عشرے کے دوران سیاسی انتشار اپنے عروج پر رہا۔ کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا تھا۔ جب کہ ملک کے دیگر حصوں کے بارے میں بھی یہ رائے پائی جاتی تھی کہ وہاں بھی حالات مردم شماری کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ چنانچہ 1991-92ء میں متوقع مردم شماری کرانے کا رسک کوئی بھی حکومت نہیں لے سکی۔ یوں مردم شماری مسلسل ٹلتی رہی۔ بالآخر 7 برس کی تاخیر کے بعد میاں نواز شریف کی دوسری حکومت نے 1998ء میں مردم شماری کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ لیکن یہ عمل بھی ادھورا ہی رہا۔ البتہ اس کی بنیاد پر آج تک بڑے قومی سیاسی اور مالیاتی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس مردم شماری کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی مردم شماری کی گئی۔

قانون کے مطابق 2008ء میں مردم شماری ہونا تھی۔ 2011ء میں خانہ شماری سے اس کا آغاز ہوا۔ مگر شدید سیلاب کے باعث لاکھوں خاندانوں کے بے گھر ہو جانے کی وجہ سے اس سلسلے کو وہیں روک دیا گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ ٹلتا چلا گیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2013ء میں اپنی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مردم شماری کرانے کے عزم کا اظہار کیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ مارچ 2016ء سے مردم شماری کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ 14.5 ملین روپے بھی مختص کیے گئے ہیں۔ مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، ان کے پیش نظر آیندہ برس بھی مردم شماری ہونے کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔

پاکستان میں مردم شماری کے متنازعہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ اول، ریاستی ادارے خاصی حد تک متنازع ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث اس حد تک متنازع بنا دیے گئے ہیں کہ ان پر سے عوام کا اعتبار ختم ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ان کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں ہمیشہ شکوک وشبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ دوئم، ملک میں مردم شماری کے لیے کوئی تربیت یافتہ مستقل عملہ نہیں ہے، جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں عام طور پر پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے اساتذہ کو اس مقصد کے لیے معمولی تربیت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اکثر خانہ پری کرتے ہیں۔ اس لیے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس روایتی انداز میں کرائی گئی مردم شماری کو کچھ حلقے سیاسی بنیادوں پر تسلیم کرنے سے انکار نہ کر دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مردم شماری کو بھی Outsource کر دیا جائے اور کسی بین الاقوامی ادارے سے کرائی جائے تا کہ اس پر اعتراضات نہ اٹھ سکیں۔

ترقی کی راہ پر گامزن کسی ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مردم شماری جیسے حساس اور نازک امور کو انتہائی شفاف انداز میں قواعدوضوابط کے مطابق کرانے کی کوشش کرے۔ تا کہ اگلے دس برس کے لیے وسائل کی تقسیم کا کلیہ طے ہونے کے علاوہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا میرٹ کی بنیاد پر تعین ہو سکے۔ اس کے علاوہ مردم شماری سے حاصل شدہ Data کو عوام کی آگہی کے لیے مشتہر کیے جانے سے ریاستی امور پر عوام کا اعتبار قائم ہوتا ہے۔ لیکن آج سب سے بڑا مسئلہ کرۂ ارض کی بقا کا ہے۔ اسے جن خطرات کا سامنا ہے، ان میں سب سے اہم آبادی میں اضافے کا تیز تر رجحان ہے۔ اس لیے مردم شماری اس لیے بھی ضروری ہو گئی ہے کہ اس کے ذریعے آبادی میں اضافے کے رجحان پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔