جدید دور میں گدھا گاڑی کی اہمیت

شبیر احمد ارمان  پير 12 ستمبر 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ماضی میں گدھا گاڑی سامان کے ساتھ مسافروں کو منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتی تھی، اب زمانے کی تیز رفتاری کے سبب مسافر برداری ختم ہوگئی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد شہرکراچی کی آبادی کم تھی۔ اس لیے مال برداری کے لیے گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی اورگھوڑا گاڑی کا ہی استعمال کیا جاتا تھا، تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا اورشہر پھیلتا چلا گیا  اورکراچی کی آبادی تیزی سے بڑھتی گئی، جدید دورکے تقاضوں کے مطابق ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میںبھی اضافہ ہوتا گیا،گدھا گاڑی کے علاوہ مال برداری کے لیے ان گاڑیوں کے لیے مختلف اقسام کی سوزوکیاں، منی ٹرک اوردیگر گاڑیاں متعارف ہوئیں جس کے بعد تیزی سے مال برداری کے لیے ان گاڑیوں کا استعمال کیا جانے لگا، تاہم مختلف بڑے بازاروں اورعلاقائی سطح پر مال برداری کے لیے اس جدید دور میں بھی گدھا گاڑی کے استعمال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

گدھا گاڑی  کا کام نسل درنسل منتقل ہوتا ہے، اس کام سے قدیم طور پر بلوچ اورکچھی برادری کے افراد وابستہ ہیں تاہم اب دیگر قومیتوں کے لوگ بھی وابستہ ہوگئے ہیں، خصوصا کراچی میں موجود افغانی بھی بڑی تعداد میں گدھا گاڑی چلاتے ہیں، بلوچ اورکھچی برادری کے افراد زیادہ تر ضلع غربی اورضلع جنوبی کے علاقوں میں اس کام سے منسلک ہیں اور ان کی روزی روٹی کا ذریعہ اولڈ سٹی ایریا کا علاقہ ہے، جہاں جوڑیا بازار اور دیگر اہم مارکیٹوں میں مال برداری کے لیے گدھا گاڑی استعمال کی جاتی ہے ، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس کام سے منسلک قدیم خاندانوں کی نئی نسل اپنے آبائی کام کو خیر باد کہہ رہی ہے اور زیادہ تر نوجوان چنگ چی رکشے اور سی این جی  رکشوں کے ساتھ لوڈنگ گاڑیوں کے ڈرائیوراور سامان اٹھانے کے کام سے وابستہ ہورہے ہیں کیوں کہ گدھا گاڑی کے کام میں محنت زیادہ اور معاوضہ  انتہائی کم ملتا ہے ۔گدھا گاڑی اجناس ، ادویات ، اینٹیں ، ریتی، پتھر، سریا، لکڑیاں، فر نیچر اور دیگر مختلف قسم کے سامان کی منتقلی کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔

گدھا گاڑی والے وزن اورفاصلے کے حساب  سے معاوضہ طے کرتے ہیں، 12گھنٹے محنت کے بعد ایک گدھا گاڑی والے کو تمام اخراجات نکال کر 4 سے7سو روپے تک کا معا وضہ مل جاتا ہے ،کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ایک گدھا روزانہ دن میں 150 سے200روپے کا لوسن،گھاس اورچارہ کھا تا ہے،گدھا گاڑی والوں کا کہنا ہے کہ ہم کھائیں یا نہ کھائیں لیکن گدھے کو لازمی دو وقت خوراک دی جاتی ہے کیوں کہ گدھا صحت مند ہوگا تو ہماری روزی روٹی بھی چلتی رہے گی۔کراچی کا علاقہ لیاری ویسے توکھیلوں خاص طور پرفٹبال اور باکسنگ کے حوالے سے ملک بھرمیں مشہور ہے مگر گدھوں کی خریدوفروخت کا مرکز لیاری ہے،لیاری کے کچھ لوگ گدھوں کی خریدوفروخت کے کاروبار سے بھی وابستہ ہیں۔

میراں ناکہ ، کلاکوٹ،کمہار واڑہ اورمیوہ شاہ قبرستان پل کے اطراف  گدھوں کی خریدوفروخت کے ساتھ ان کی پرورش بھی کی جاتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں 10سے 12ہزار افرادگدھا گاڑی چلانے کے کام سے وابستہ ہیں۔ لیاری میں گدھوں کی خرید وفروخت کے بڑے بیوپاری 20سے25ہیں جو مختلف علاقوں سے ریوڑکی صورت میں گدھے خریدکرلاتے ہیںاور پھر انھیں فروخت کردیتے ہیں ، اعلیٰ نسل کے گدھے کی قیمت 50 ہزار سے لے کر 2لاکھ ہے جب کہ عام نسل کے گدھے 15سے30ہزار روپے تک مل جاتے ہیں،گدھوں کی خریدوفروخت کے لیے ہر اتوارکو لیاری  میں میوہ شاہ قبرستان پل کے پاس منڈی لگتی ہے،گدھوں کے ساتھ مال بردار ی کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی بھی لیاری  ندی کے اس پارعلاقے جہان آباد میںتیارکی جاتی ہے ۔

جہاں اس کے خصوصی کاریگر ہیں، جن کی تعداد 300 سے 500کے درمیان ہے ، یہ گاڑی 10، 14، 16، اور 19 نمبر کہلاتی ہیں ، ان نمبرز کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ گاڑی کتنا وزن اور سائز کی ہیں ، ایک گدھا کم از کم 300 سے 1000کلو تک کا وزن اٹھاتا ہے ، نئی گاڑیاں 20ہزار سے 40  اور پرانی گاڑی 12سے 15 ہزار روپے تک مل جاتی ہے،ایک گاڑی کی تیاری میں 14دن لگتے ہیں اور اس میں شیشم وکیکر کی لکڑی استعمال ہوتی ہے ۔

کئی خاندان قیمتی گدھوں کو خرید کر پالتے ہیں اور پھر یہ گدھے ریس میں استعمال کیے جاتے ہیں ، گدھے پالنا اورگدھوں کی ریس لگانا لیاری کے کچھ لوگوں کا پرانا مشغلہ ہے،گدھوں کی ریس اتوارکو مائی کلاچی روڈ میں ہوتی ہے، درمیان میں لیاری اور شہرکی حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے گدھوں کی خریدوفروخت ، ریس اور مال برداری کے کام سے منسلک افراد معاشی طور پر پریشان  ہوگئے تھے کیونکہ بد امنی کے باعث لوگوں نے لیاری آنا اور یہاں کے لوگوں کا شہر کی طرف جانا کم کردیا تھا  جس کی وجہ سے مال برداری اور خریدوفروخت کا کام دیگر علاقوں میں منتقل ہوگیا تھا ، جس میں سہراب گوٹھ کا علاقہ سرفہرست تھا جہاں یہ کاروبار چلتا رہا،اب شہر کراچی اورلیاری  میں امن قائم ہونے سے واپس یہ کاروبار لیاری میں منتقل ہوگیا ہے ۔

کراچی میں ملک کے تین شہروں کے گدھوں کی نسلیں مال برداری کے لیے استعمال ہوتی ہیں ، ملک میں بلوچستان کے ضلع مکران ، سندھ کے ضلع حیدرآباد اورپنجاب کے ضلع رحیم یار خان گدھوں کی پرورش کے مراکز سمجھے جاتے ہیں اور تینوں اضلاع سے گدھے مال برداری کے لیے کراچی لائے جاتے ہیں ، گدھوں کی سب سے اعلیٰ نسل مکران کی ہوتی ہے ، یہ گدھے طویل العمر ہوتے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ عمر 40سے50  برس  کے درمیان ہوتی ہے، دوسرے نمبر پر حیدرآباد میں پرورش پانے والے گدھے ہوتے ہیں جن کی عمر 35 سے 45سال کے درمیان ہوتی ہے ، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے گدھے 30سے 45سال تک زندہ رہتے ہیں ، مکران اور حیدر آبادی گدھوں کی نسل انتہائی جاندار ہوتی ہے اور یہ مال برداری کے لیے طویل عرصے تک کام کرنے کے قابل رہتے ہیں ۔

کچھ یادیں شیئرکرتا ہوں ! ہمارے محلے میں بھی گدھوں کا ایک باڑہ ہے جسے میں گدھوں کا شوروم کہتا  ہوں یہ وہی جگہ ہے جہاں فائرنگ سے کئی گدھے ہلاک ہوگئے تھے جن کا بدل  عبدالستار ایدھی نے دیا تھا ۔ میں بچپن سے گدھوں کے اس باڑہ کو دیکھتے آرہا ہوں ، جہاں آج ہمارا گھر  ہے پہلے یہ خالی پلاٹ تھا جو بچپن سے ہم بھائیوں کے نام تھا ، ہمارے اس خالی پلاٹ پرگدھوں سے بھرے ٹرک آیا کرتے تھے اور یہی گدھوں کو اتارا کرتے تھے ، ہم بڑے شوق سے اس منظرکو دیکھا کرتے تھے ، پھران گدھوں کواسکول کے برابر سڑک کے کنارے جہاں کھجور اور نیم کے درخت تھے کے نیچے  باندھ دیا جاتا تھا، رات بھر ان کے رونے دھونے کی آواز سے لوری سنا کرتے تھے اورجب  تیز ہوائیں چلتی تو ان کے گوبرکی بو چاروں طرف پھیل جاتی تھی،کئی دفعہ بلدیہ والوں نے اسے یہاں سے اٹھانے، ہٹانے کی کوششں کی لیکن ناکام رہے ، جب بلدیہ کا ٹاون نظام قائم ہوا  اورگبو ل پارک  کے اردگرد تجاوزات کو ہٹانے کا پروگرام شروع ہوا تو گدھوں کا باڑہ بھی اس  کی زد میں آگیا ساتھ ہی ساتھ وہ قدیم کھجوراور نیم کا درخت بھی جڑسے اکھاڑ دیے گئے جو ہمیں ہمارا بچپن یاد  دلایا کرتے تھے جن کی ہوائیں گدھوں کے لیے بھی رحمت تھی ۔

اب ان گدھوں کے لیے ایک پکی عمارت تعمیر کی گئی ہے ، جہاں وہ  بارش اورطوفانی ہواؤں سے بھی محفوظ ہیں  اورعلاقے کے لوگ بھی بے جا پریشانیوں سے بچ گئے ہیں ۔یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ ہمارے بچپن میں گدھوں،گھوڑوں اوراونٹوں کے لیے بلدیہ کی جانب سے مخصوص مقامات پر پینے کے پانی کے سبیل ہوا کرتے تھے اور ان گدھا گاڑیوں ، اونٹ گاڑیوں اورگھوڑا گاڑیوں کی نمبر پلیٹ ہواکرتی تھی اور ان کے لیے قواعدوضوبط ہوا کرتے تھے خلاف ورزی کی صورت میں ان کا چالان ہواکرتا تھا اور جب کوئی مالک ان جانوروں پر مقررہ سے زائد بوجھ ڈالتا یا انھیں مارتا تو بلدیہ کی جانب سے جرمانہ عائدکیا جاتا تھا اور پھر یہ کہ ان جانوروں کی پشت پر بوری نما تھیلا  بندھا  ہواکرتا تھا تاکہ سڑکیں صاف ستھری رہیں۔

اب زمانہ جدید تو ہوگیا ہے لیکن اب بھی اکا دکا گھوڑا گاڑی بھی نظرآتی ہیں لیکن اب یہ تمام قواعدوضوابط سے آزاد ہیں، جتنا جی چاہیے مالک ان پر چابک برسائیں،انھیں خوراک کم کھلائیں، حد سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دیں،کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انسداد بے حمی کا محکمہ نہیں رہا، زمانہ بدل گیا ہے اب انسان کے ہاتھوں انسان ظلم کے شکار ہیں توجانورکس کھیت کے مولی ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔